فیصلہ کن مرحلہ
متعصبانہ نصاب اوراساتذہ کے نفرت انگیز لیکچر نوعمر طالب علموں کے ذہنوں میں تعصب،تنگ نظری اور نفرت کا زہر بھر رہے ہیں
مذہبی شدت پسندی اوردہشت گردی کے واقعات کو طویل عرصے تک نظر انداز کرنے کے بعد حکومت اور اس کے ادارے بالآخر اس کے خلاف اقدامات کرنے پر آمادہ ہوئے ہیں۔9ماہ سے جاری کارروائی کے باوجود شدت پسندوں کی کمر نہیں توڑی جا سکی ہے۔ اس عفریت پر قابو پانے کے لیے کثیر الجہتی اقدامات کی ضرورت ہے۔
خاص طور پر ملک بھر میں شدت پسند عناصر کے ہمدردوں کے خلاف کریک ڈاؤن کے ساتھ ان تعلیمی اداروں کے خلاف مربوط کارروائی بھی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، جو متعصبانہ نصاب اوراساتذہ کے نفرت انگیز لیکچروں کے ذریعہ نوعمر طالب علموں کے ذہنوں میں تعصب،تنگ نظری اور نفرت کا زہر بھر رہے ہیں۔مگر حکومتی کارروائیاں صرف شمالی وزیرستان تک محدود ہیں۔جب کہ عالمی تنظیموں کی جانب سے موت کی سزا کی مخالفت اور دباؤکے باعث پھانسی کی سزا دینے کی رفتار بھی قدرے سست پڑگئی ہے۔ اس طرح دہشت گردی کے خلاف سست رفتاری سے کیے جانے والے اقدامات کی وجہ سے اس کی کامیابی کے امکانات خاصی حد تک مشکوک ہوتے جا رہے ہیں۔
بم دھماکے ،خود کش حملے اورٹارگٹ کلنگ شدت پسندانہ سوچ کے ظاہری مظاہر ہوتے ہیں۔اس سوچ کے پروان چڑھنے میں کئی عوامل کا عمل دخل ہوتا ہے۔ معاشی اور سماجی ناہمواری،جہل وکم علمی ،تنگ نظری پر مبنی نظام تعلیم اور سب سے بڑھ کر شناخت کا بحران اس مظہر (Phenomenon) کے پھیلنے کا سبب بنتے ہیں۔
مشرق اور مغرب میں اس مظہر کے پھیلنے کے اسباب قدرے مختلف ہیں۔ ترقی پذیر ممالک میں اول الذکر عوامل کا زیادہ عمل دخل ہے، جب کہ مغرب کی ترقی یافتہ دنیا میں شناخت کا بحران اس مظہرکے پھیلنے کا بڑاسبب بنا ہے۔ اس لیے شدت پسندی کے خلاف مربوط کارروائی کرتے وقت ان تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھنا نہایت ضروری ہے۔اب جہاں تک ذہن سازی میں نصاب تعلیم اور مبلغین(یا اساتذہ)کے کردار کا تعلق ہے تو یہ طے ہے کہ کسی ریاست کے وجود کو اصل خطرہ دشمن کے توپ وتفنگ سے زیادہ اس ذہن سے ہوتا ہے، جو ریاست کے خلاف زہر آلودکر دیا گیا ہو۔
لہٰذا حساس آتشیں اسلحے سے وہ مقاصد حاصل نہیں ہوتے، جو ذہن سازی کے ذریعے حاصل ہوتے ہیں۔ چنانچہ اگر اذہان آمادہ جدل کردیے جائیں تو اسلحے کا حصول اور استعمال معمولی سی بات بن جاتے ہیں۔ اس لیے مشتعل جنونیوں کی سرکوبی کے لیے اسلحے کی ترسیل اورآزادانہ استعمال کا قلع قمع کرنے کے ساتھ منفی ذہن سازی کے عمل کا راستہ روکا جانا بھی ضروری ہوتا ہے۔
ذہن سازی کے حوالے سے بارہویں صدی کا ایک واقعہ نقل کرنا ضروری ہے۔ اس صدی کی آخری دہائیوں کے دوران شاہ جلال الدین ابوالقاسم خراسان کے حکمران تھے۔ان دنوں شمال سے تاتاریوں کے حملوں میں شدت پیدا ہوگئی تھی۔ ایک روز انھوں نے کابینہ کا اجلاس طلب کیا اور طویل مشاورت کے بعد یہ طے کیا کہ ان حملوں اور شورش سے بچنے کے لیے ملک کی شمالی سرحد پر مضبوط قلعے تعمیرکیے جائیں۔ اس مقصد کے لیے ایک وزیرکو ذمے داریاں سونپی گئیں۔
وزیرِ باتدبیر نے قلعوں کے بجائے اس پورے علاقے میں مکتب ومدرسے قائم کردیے۔ چند ماہ بعد بادشاہ نے ان قلعوں کے معائنے کی خواہش ظاہر کی جو بادشاہ کے حکم پر تعمیرکیے جانے تھے۔ وزیر بادشاہ کو نیشاپور کے نزدیک ایک مکتب میں لے گیا۔ بادشاہ نے غصے میں لال پیلاہوکر پوچھا کہ یہ تو مکتب ہے، قلعہ کہاں ہے؟ وزیر نے جواباً جوکچھ کہا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔اس نے عرض کیا کہ حضور اینٹوں، پتھروں اور گارے سے بنے مضبوط سے مضبوط قلعے کو بھی مسخر کیا جاسکتا ہے، لیکن میں نے جو قلعے(مکتب ومدرسے) تعمیرکیے انھیں مسخر کرنا دشمن کے بس کی بات نہیں۔ وزیر کا کہا ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے،کیونکہ ذہن انسانی قلعہ سے زیادہ مضبوط ہوتا ہے۔
اس واقعے کا ثبوت معروف فلسفی لارڈ برٹرینڈ رسل کی تحریرسے ملتا ہے۔وہ اپنی کتابOn Education میں لکھتے ہیں کہ نصاب تعلیم اورمعلم کی سوچ طالب علم کا ذہن بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔وہ مثال دیتے ہیں کہ اگر استاد طالب علم کے ذہن میں ابتدائی درجات سے یہ بات بٹھا دے کہ برف کالی ہوتی ہے، تو پھر لاکھ دلائل دیے جائیں کہ برف بے رنگ(Transparent)ہوتی ہے۔ مگروہ اس حقیقت کوکبھی تسلیم نہیں کرتا اور برف کو کالا ہی سمجھتا رہتا ہے ۔چونکہ عقائد و نظریات عقل سے زیادہ جذبات کا معاملہ ہوتے ہیں، اس لیے دلیل و استدلال سے ماوراء تصورکیے جاتے ہیں۔
لہٰذا ان کو بنیاد بنا کر کچے ذہنوں کو بہکانا بہت زیادہ آسان ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ حکومت کی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ ملک میں قائم تعلیمی اداروں میں مختلف سطحوں پر پڑھائے جانے والے نصاب کی تیاری اور تدریس کے عمل کی باریک بینی کے ساتھ نگرانی کرنے کے ساتھ ان تبلیغی اجتماعات کا بھی نوٹس لے،جن میں نفرتیں پھیلائی جاتی ہیں۔
پاکستان میں نظام تعلیم کے حوالے سے کسی بھی حکومت نے سنجیدہ طرز عمل اختیار نہیں کیا ۔ بلکہ تعلیم کبھی بھی اولین ترجیحات میں شامل نہیں رہی ہے۔ یہی سبب ہے کہ ملک میں ایک سے زائد طرز تعلیم اور نصاب رائج ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ محکمہ تعلیم میں کرپشن اس کے سوا ہے، جس نے ناقص انتظامی ڈھانچہ کو مزید مفلوج کردیا ہے۔ دینی مدارس تو دور کی بات نجی شعبہ میں کام کرنے والے عصری تعلیم کے تعلیمی اداروں کی مانیٹرنگ کا بھی اس وقت کوئی واضح مکنزم موجود نہیں ہے۔ انگریز کے دور کے سالانہ انسپکشن کے طریقہ کار سے بھی جان چھڑا لی گئی ہے۔
معاملہ یہ ہے کہ فروغ علم میں سیاسی جماعتوں کو چونکہ کوئی دلچسپی نہیں ہے، اس لیے اس پر توجہ دینا ان کی ترجیحات کا حصہ شامل نہیں ہے۔ جب کہ بیوروکریسی اپنی نااہلی اور کرپشن کے باعث مروجہ طریقہ کار پر عملدرآمد نہیں کر رہی۔ لہٰذا تعلیم طبقاتی کے ساتھ فرقہ وارانہ بنیادوں پر بھی تقسیم ہو چکی ہے اور اس کی کوئی سمت نہ ہونے کے باعث زبوں حالی کا شکار ہے ۔
اب ذرا دوسری جانب آئیے۔ وفاقی محکمہ تعلیم کے شعبہ شماریات کے اعداد وشمار کے مطابق 1976ء میں تمام مسالک اور فقہوں سے تعلق رکھنے والے مدارس کی کل تعداد 1,683تھی۔
جب کہ ایک مخصوص مسلک سے تعلق رکھنے والے مدارس کی کل تعداد 635تھی ۔25برس میں یہ تعداد26ہزار9سو ہوگئی۔کسی حکومت اور ریاست کے کسی ادارے یا محکمے کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ یہ تحقیق و تفتیش کر سکے کہ مخصوص سوچ کے مدارس کی تعداد میں اس تیز رفتاری کے ساتھ کیوں اضافہ ہو رہا ہے اور ان کی آمدن کے ذرایع کیا ہیں؟اس میں شک نہیں کہ تعلیمی اداروں میں اضافہ آبادی میں اضافے اور لوگوں میں اپنے بچوں کے لیے تعلیم کی بڑھتی ہوئی خواہش سے مشروط ہوتا ہے۔ لیکن اضافے کی ایک مخصوص شرح ہوتی ہے، جو ان مدارس کے سلسلے میں نظر نہیں آتی۔
دوسری حکومت اور عام شہری عصری تعلیم کے اداروںکے بارے میںکم از کم اس حد تک آگہی رکھتے ہیں کہ ان میں کون سا طریقہ تدریس رائج ہے اور پڑھنے والے بچوں کا امتحان کس سسٹم کے تحت ہو رہا ہے۔ یعنی کیمرج سسٹم کے تحت امتحان ہو رہا ہے یا سرکاری بورڈ کے ذریعے ۔اسی طرح اعلیٰ تعلیم کے لیے نجی شعبے میں قائم جامعات کو تدریس، نصاب کے تعین اور ڈگری تفویض کرنے کا اجازت نامہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن(HEC) جاری کرتا ہے۔
جب کہHEC ہر سال ان تعلیمی اداروں کا تدریسی اور انتظامی دونوں سطحوں پر آڈٹ بھی کرتا ہے۔لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ حکومت نے دینی مدارس کے بارے میں معلومات جمع کرنے کی بھی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔
آج جتنے مدارس رجسٹرڈ ہیں ان سے کہیں زیادہ تعداد غیر رجسٹرڈ ہے۔یہی وجہ ہے کہ حکومت کو نہ تو یہ معلوم ہے کہ ان اداروں میں کیا نصاب پڑھایا جا رہا ہے؟ ان کے اساتذہ کی تعلیمی استعداد کیا ہے؟ اوران کی آمدن کے ذرایع کیا ہیں ؟ سب سے بڑھ کر ان اداروں میں طریقہ امتحان اور اسناد کی تقسیم کا طریقہ کار کیا ہے؟ جو ادارے یا بورڈ امتحان لیتے اور اسناد تفویض کرتے ہیں ان کی اپنی اہلیت و استعداد کیا ہے؟ نتیجتاً دینی مدارس شتر بے مہار کی طرح اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت شدت پسندی کے خاتمے کے نام پر محض خانہ پری سے گریز کرے۔ بلکہ اس عفریت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے ٹھوس بنیادوں پر جامع اقدامات ترتیب دے۔ اگر فوج ضرب عضب کے ذریعے قبائلی علاقوں میں اس عفریت کے خاتمے کے لیے نبرد آزما ہے، تو پولیس سمیت قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کی مدد سے ان عناصر کے گرد گھیرا تنگ کر کے قانون کی گرفت میں لائے، جو شہروں، قصبوں اور دیہات میں شدت پسند عناصر کو پناہ مہیا کرتے ہیں۔
کیونکہ ملک کے تقریباً ہر شہر میں شدت پسند عناصر کے محفوظ ٹھکانے پائے جاتے ہیں۔ لیکن ان سب سے بڑھ کر دینی مدارس سمیت تمام تعلیمی اداروں کی مانیٹرنگ کا ایک فعال اور مستعد نظام ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی تمام تعلیمی اداروں کے تعلیمی، انتظامی اور مالیاتی آڈٹ کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے، تاکہ وہ قواعد وضوابط کے اندر رہ کر کام کرنے کے پابند ہوسکیں۔
جو تعلیمی ادارے خواہ وہ دینی ہوں یا عصری، اگر عصبیتوں کا زہر نوجوان نسل کے ذہنوں میں بھر رہے ہیں، تو ان کے خلاف کسی رو رعایت اور مصلحت کے بغیر سخت ترین کارروائی کی جانی چاہیے، تاکہ آیندہ کسی کو ملک کے منطقی جواز سے کھیلنے کی جرأت نہ ہوسکے۔ لہٰذا اب فیصلہ کن مرحلہ آگیا ہے کہ حکومت سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس مسئلے کو ٹھوس بنیادوں پر حل کرے۔