بنگلہ دیش ماڈل

بُری حکمرانی کی بنیاد درحقیقت مارشل لاء کے دور میں ہی رکھی جاتی ہے۔


اکرام سہگل February 26, 2015

KARACHI: بنگلہ دیش کی صورت حال بد سے بدتر ہوتے ہوئے آج اس نہج پر پہنچ گئی ہے جیسے یہ ایک دہائی سے کچھ عرصہ کم پہلے تھی۔ خالدہ ضیاء 2006 میں اقتدار میں آئی تھیں اور آج سڑکوں پر حسینہ واجد کے خلاف مظاہرے جاری ہیں۔

مشرف کی کوشش تھی کہ وہ پاکستان میں ہمیشہ کے لیے برسراقتدار رہیں جب کہ ڈھاکا کے حالات کے پیش نظر باور کیا جاتا ہے کہ وہاں اب آرمی قدم بڑھانے کی کوشش کرے گی۔ میں نے اپنے 9 نومبر 2006ء کے آرٹیکل میں، جس کا عنوان تھا ''بنگلہ دیش کدھر جا رہا ہے'' یہ بات کہنے کی کوشش کی تھی کہ بُری حکمرانی کی بنیاد درحقیقت مارشل لاء کے دور میں ہی رکھی جاتی ہے۔

پاکستان اور بنگلہ دیش دونوں کو فوجی مداخلت کی منفی مثالیں یاد ہیں۔ جہاں فوج آتی تو محدود مدت کے لیے ہے لیکن اس کے بعد واپس جانے کا نام نہیں لیتی۔ فوج کی اس مہم جوئی کا معاشرے کے تانے بانے پر بہت خراب اثر پڑتا ہے۔ بالفرض محال اگر فوجی حکومت اتنی ہی ناگزیر محسوس ہونے لگے تو اسے انتہائی مختصر وقت کے لیے اقتدار میں آنا چاہیے۔24 دسمبر 2006ء کو بنگلہ دیش آرمی چیف جنرل معین احمد اور ان کی اہلیہ نے فوج کی زیر نگرانی قائم ''ریڈیسن ہوٹل'' میں میرے لیے ایک بہت اعلیٰ درجے کے عشائیہ کی میزبانی کی۔ معین نے 1975ء میں 2 ایسٹ بنگال بٹالین میں کمیشن حاصل کیا تھا جب کہ اس بٹالین کو 7 فروری 1949ء کو میرے والد نے ڈھاکا میں قائم کیا تھا اور بعد میں اس کی کمان بھی کی۔

28 دسمبر 2006ء کو میں نے بنگلہ دیش کے چیف آف آرمی اسٹاف کا یہ جملہ ہو بہو نقل کیا ''بنگلہ دیش جمہوری بحران میں'' اس موقع پر میری کئی راتیں جاگتے ہوئے گزریں جب کہ میرے ساتھ بہت سے حاضر سروس اور ریٹائرڈ فوجی افسران بھی شامل تھے۔ جن میں سے زیادہ تر سیاست یا بزنس کمیونٹی میں شمولیت اختیار کر چکے تھے، اور جو اس بات پر زور دے رہے تھے کہ فوج کو اپنے حلف کی پاسداری کرنی چاہیے کیونکہ آئین میں حکومت کا اختیار سویلین اتھارٹی کو دیا گیا ہے۔

چنانچہ آرمی حکومت چلانے میں کوئی دخل اندازی نہیں کرے گی بلکہ سویلین اتھارٹی کی اس ضمن میں حمایت کرے گی۔ کسی ایسے شخص کے لیے جو اس بات پر پختہ یقین رکھتا ہے کہ آرمی کا سیاست اور گورننس میں کسی قسم کا کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے اس کے لیے یہ بات بہت خوشگوار ہو گی۔

معین نے اس موقع پر مجھے اپنی ہی نصیحت کی یاد دہانی کرائی کہ فوج کو صرف اس صورت میں پیشقدمی کرنی چاہیے جب ''انارکی'' کا خطرہ ہو اور اس صورت میں بھی انھیں خود زمام اقتدار اپنے ہاتھ میں تھامنے کے بجائے ٹیکنو کریٹس کو کاروبار حکومت چلانے کے لیے متعین کرنا چاہیے اور مشرف کی طرح روز مرہ کے حکومتی امور میں دخل اندازی نہیں کرنی چاہیے۔ اس حوالے سے معین کا بنگلہ دیش ماڈل مارشل لاء کی ایک نئی شکل بن گیا۔

میں نے معین کو اپنے 29 جون 1995ء کے آرٹیکل ''آخر مارشل لاء کیوں ناکام ہوتے ہیں'' کے اقتباسات بھیجے۔ ''مارشل لاء اس لیے ناکام ہو جاتے ہیں کہ جو قوتیں یہ ماورائے آئین اقدام کرتی ہیں وہ کچھ مدت کے بعد اپنے طے شدہ اور اعلان کردہ راستے سے بھٹک جاتی ہیں۔ مارشل لاء اس لیے ناکام ہوتے ہیں کیونکہ ان میں زبانی جمع خرچ زیادہ ہوتا ہے اور عملی کارروائی کی قلت محسوس ہونے لگتی ہے۔

مارشل لاء نافذ کرنے والوں کو ''خود احتسابی'' کا انتظام بھی کرنا چاہیے تا کہ اختیارات کے بے محابہ استعمال سے بچا جا سکے۔ مزید برآں جس طرح وہ دیگر ملزمان کے لیے سرسری سماعت کی عدالتیں قائم کرتے ہیں ان عدالتوں میں خود ان کی پیشی بھی ضروری بنانا چاہیے۔ مارشل لاء ناکام ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مسلح افواج نے ''ہوم ورک'' پورا نہیں کیا ہوتا اور انھیں ریاست کی کارکردگی کی چھوٹی موٹی پیچیدگیوں سے مکمل طور پر آگاہی نہیں ہوتی۔

علاوہ ازیں مارشل لاء حکومتیں اس وجہ سے بھی ناکام ہوتی ہیں کہ ان کے ارد گرد منڈلانے والے اہلکار اور مشیر باالعموم وہی کام کرتے ہیں جو شہد کی مکھیاں کرتی ہیں''۔ مشرف نے 1999ء میں عملی طور پر اقتدار سنبھالا لیکن اس کے لیے انھوں نے چار سال پہلے ہی تیاری شروع کر دی تھی۔

''بنگلہ دیش ماڈل کا ایک سال'' کے عنوان سے 2008ء میں میرا جو آرٹیکل ریکارڈ کیا گیا اس میں کہا گیا تھا کہ ابھی فوج کی مداخلت کا موقع نہیں آیا اور نہ ہی جن مقاصد کے حصول کے لیے فوج نے اقتدار سنبھالا ان کی تکمیل کا کوئی بندوبست نظر آتا ہے۔ اس موقع پر ایک عوامی سروے منعقد کرایا گیا جس میں 88 فیصد کی اکثریت نے آرمی کے کردار کو نگران حکومت کی حمایت کرنے والا قرار دیا۔ کرپشن کے خلاف مہم چلانے کے لیے آرمی نے ''اینٹی کرپشن کمیشن'' (اے سی سی) قائم کیا۔ یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوا کہ اگر دونوں بیگمات مسلسل جھگڑتی رہیں تو ان کا کیا علاج کیا جائے گا۔

معین اور ان کے ساتھیوں نے ایک بزرگ کی نصیحت پر عمل کیا جس میں کہا گیا تھا کہ Chauswitz,s کے اصول کو فراموش نہیں کرنا چاہیے جو اس نے جنگ اور امن کے حالات کے بارے میں مرتب کیا ہے۔ ہدف کا انتخاب اور اس کو قائم رکھنا لازم ہے۔ یعنی آپ نے بڑے مشکل حالات میں بہت اچھا کام کیا ہے اب اپنے کیے کرائے پر پانی مت پھیرو۔ معین کا اصل مسئلہ اس کے جنرل ساتھیوں کی طرف سے ہی پیدا ہوا جو کہ صرف مال کمانے کے چکر میں تھے۔

تلخ حقیقت یہ تھی کہ کرپشن کے خلاف مہم کی قیادت کرنے والے بیشتر جرنیل خود کرپشن میں ملوث تھے اور آج وہ بنگلہ دیش میں سب سے زیادہ مالدار ہیں۔ ہوس اور لالچ اپنی آسودگی کے ذرایع خود تلاش کر لیتی ہے جس کے بعد وہ اقتدار سے الگ ہونا کسی صورت پسند نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت سنبھالنے کے بعد فوج کے لیے واپسی کا راستہ اختیار کرنا بے حد مشکل ہو جاتا ہے۔

معین نے سیاستدانوں کے احتساب سے گریز کرنا شروع کر دیا جیسا کہ مشرف نے کیا تھا اور یوں بنگلہ دیش نے جو کامیابیاں حاصل کی تھیں وہ ساری دھری کی دھری رہ گئیں۔ البتہ معین کو یہ کریڈٹ دیا جا سکتا ہے کہ انھوں نے آزادانہ اور منصفانہ الیکشن کروائے جب کہ اس مقصد کے لیے گلیوں بازاروں میں آرمی کی ڈیوٹی لگائی گئی تھی لیکن چونکہ احتساب کو نظر انداز کر دیا گیا تھا اس لیے منتخب ہونے والے پھر وہی کرپٹ لوگ ہی تھے۔

پاکستان میں اس کا نتیجہ اور زیادہ خراب نکلا جہاں پر مشرف نے ''پاکستان فرسٹ'' کا نعرہ لگایا تھا لیکن ''قومی مفاہمتی آرڈر'' (این آر او) کا اعلان کر کے کرپشن کو تحفظ دے دیا۔

لوٹ کھسوٹ کرنے والوں کو واپسی کا قانونی راستہ فراہم کر دیا گیا تا کہ واپس آ کر وہ پھر اپنی لوٹ مار بدستور جاری رکھ سکیں۔ یہ شاید دنیا میں اپنی مثال آپ تھی۔ اور اس دوسرے موقع سے انھوں نے بڑی سختی سے استفادہ کیا۔ آخر حکومت کو کیا چیز روک رہی ہے کہ وہ ان پاکستانیوں کے ناموں کی فہرست شایع کرے جن کی سوئٹزر لینڈ کے ایچ ایس بی سی بینک میں 850 ملین امریکی ڈالر کی رقم جمع ہے؟

مارچ کے مہینے میں توقع کی جا رہی ہے کہ بنگلہ دیش ماڈل میں دوبارہ ایک تبدیلی رونما ہونے والی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں