حقیقی جمہوریت کا آخری وارث
مشرف صاحب کے حقیقی جمہوریت کے لئے کیے جانے والے تمام اقدامات لالچ اور حرص کی تمام آلائشوں سے پاک تھے۔
پرویز مشرف پاکستانی تاریخ کی ان نابغہ روزگار شخصیات میں سے ایک ہیں جن کی بہادری، دانشمندی اور فہم و فراست کے قصے صدیوں یاد رکھے جائیںگے۔ آنے والی نسلیں جب ملک و قوم کے لیے اُن کی قربانیوں اور خدمات کو یاد کریںگی تو فرطِ جذبات سے ان کی گھگی بندھ جائے گی اور وہ حیرت کے تالاب میں غوطے کھاتے ہوئے سوچیں گی کہ کبھی پاکستان کی دھرتی بھی ایسے سپوت جنم دیا کرتی تھی!
ملک و قوم کے لیے ان کی خدمات کی فہرست اتنی طویل ہے کہ اس کا احاطہ کرنا کسی بشر کے لیے ممکن نہیں، لیکن ذیل میں ہم ان کے سب سے بڑے کارنامے یعنی پاکستان میں حقیقی جمہوریت کے فروغ پر روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے۔ اُن کے اِس کارنامے کی وضاحت اس لیے بھی ضروری ہے کہ انہوں نے گزشتہ روز ایک بیان میں پھر کم فہم قوم کو یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان میں حقیقی جمہوریت کا پودا انہوں نے ہی لگایا تھا۔ ہمیں ڈر ہے کہ پاکستانیوں کی ایک کثیر تعداد ان کے اس بیان کوزیادہ سنجیدگی سے نہیں لے گی ۔ اس لیے سطورِ ذیل میں ہم ان کے اس ارشاد کی ذرا کھل کر وضاحت کریں گے۔
لیکن قبل اس کے کہ ہم اصل موضوع کی طرف آئیں حقیقی جمہوریت کی تعریف کو سمجھنا ضروری ہے۔ حقیقی جمہوریت ایک نہایت ہی پیچیدہ فلسفہ ہے جس کا ادراک ابھی تک پاکستان سمیت تیسری دنیا کے کچھ چیدہ چیدہ لوگوں کو ہی ہوسکا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ یورپ اور امریکا کے ترقی یافتہ ممالک کو اپنی تمام ترقیوں کے باوجود ابھی تک اس فلسفے کی سمجھ نہیں آئی۔ جمہوریت کا وہ سچا علم جو زمباوے کے موغابے، روانڈا کے کاگامے، یوگنڈا کے موسوینی اور پاکستان کے مشرف کو حاصل ہے، جبکہ یورپ اور امریکا کے فوجی بھائی اور سیاست دان اس سے یکسر نابلد ہیں۔
ہمارے ماضی پر نظر دوڑائی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں حقیقی جمہوریت کو متعارف کروانے کا سہرا ایوب خان کے سر ہے جنہوں نے قومی سلامتی کے تقاضوں کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کیا اور جب تک لوگوں سے ان کے مخالف نعرے نہیں سن لیے اس فریضے سے سبکدوش نہ ہوئے۔ یحییٰ خان کا حقیقی جمہوریت کا سفر نسبتاً مختصر رہا کیونکہ مشرقی بنگال کے لوگوں نے ان کی حقیقی جمہوریت کی بجائے مجیب الرحمن کی غیر حقیقی جموریت کو ترجیح دی۔ ضیا الحق گیارہ سال تک اسی جمہوریت کے پودے کی آبیاری کرتے رہے اور اسی پودے کو سینچتے سینچتے ایک دن فضا میں پھٹ گئے ۔
مشرف صاحب کا کیس اُن کے پیشروں سے ذرامختلف ہے۔ حقیقی جمہوریت کے سفر میں ایوب خان اور یحییٰ خان نے اقتدار چھوڑنے کے بعد کبھی دوبارہ پلٹ کر ان کوچوں سے گزرنے کا بھی نہ سوچا لیکن مشرف صاحب نہ صرف پلٹ کر میدانِ سیاست میں آئے، بلکہ انہوں نے ایک نئی پارٹی کی بنیاد بھی رکھی جسے ان کے مخالفین حسد کے مارے تانگہ پارٹی بھی کہتے ہیں۔اگر ایوب خان اور یحیٰ خان کے دور میں فیس بک کا وجود ہوتا اور ان کے پیچ پر لاکھوں فین ان کو دیوانہ وار بلاتے تو وہ بھی اقتدار سے علیحدگی کے بعد یوں گوشہ گمنامی میں نہ سڑتے۔ مشرف صاحب جدید دور کے لیڈر ہیں جو ہار کر بھی نہیں ہارتے۔ یہ اقتدار کے ایوانوں سے چلتے کر بھی دیے جائیں تو فیس بک کے ایوان ان کے انقلابی نعروں سے گونجتے رہتے ہیں۔
12 اکتوبر 1999ء کو جب مشرف آسمان سے زمین پر اُترے اور پاکستان میں حقیقی جمہوریت کا ایک اور سورج طلوع ہوا تو نواز شریف کی حکومت پہلے ہی اپنے بھاری مینڈیٹ کے بوجھ تلے دب کر اپنا ذہنی توازن بڑی حد تک کھوچکی تھی۔ کاغذ کا وہ پرزہ جسے آئین کہا جاتا ہے اور جو حقیقی جمہوریت کے راستے میں ہمیشہ روڑے اٹکاتا ہے مشرف صاحب نے اسے اس کی ذمہ داریوں سے عارضی طور پر سبکدوش کرکے ایل ۔ایف ۔او کو نیا پاکستان بنانے کی ذمہ داری سونپی۔ آئین ہمیشہ سے حقیقی جمہوریت کا دشمن رہا ہے اس لیے اس تاریخی موقع پر اس کا قلع قمع کیا جانا نہایت ضروری تھا۔ عدلیہ کے ججوں سے تین سال کے پرمٹ پر سائن بالجبر لینے کے بعد مشرف صاحب نے ایک ایسے جمہوری سفر کا آغاز کیا جس کی دھول ابھی تک اٹھ رہی ہے۔
یہ بات دشمن بھی تسلیم کرتے ہیں کہ حقیقی جمہوریت کے لگ بھگ نو سالہ سفر میں مشرف صاحب نے تمام مشکلات کا کمانڈو وار مقابلہ کیا۔ امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دہشت گردی کی جنگ میں اس کا حکم ماننے کا فیصلہ ہو یا سپریم کورٹ کے ججوں کو لائن حاضر کرنے کی کوشش مشرف صاحب نے جرات اور دانشمندی سے تمام معاملاتِ ملکی کو نبھایا۔قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں کے ذریعے جدید تہذیب سے دور پہاڑوں میں بسنے والے قبائلیوں کو بھی نئی ٹیکنالوجی کی لذتوں سے متعارف کرایا گیا۔ روایتی اسلحہ سازی میں پاکستان کی مہارت کے عملی نمونے دکھانے کے لیے بلوچستان میں نواب اکبر بگٹی جیسے بزرگ رہنمائوں کو نشانہ بنایا گیا تاکہ نہ صرف بلوچستان کے عوام حقیقی جمہوریت کی برکات سے پوری طرح مستفید ہوسکیں بلکہ دشمنوں پر بھی ہماری طاقت اور وحشت کی دھاک پوری طرح بیٹھ جائے۔
یہ امر قابلِ غور ہے کہ مشرف صاحب کے حقیقی جمہوریت کے لئے کیے جانے والے تمام اقدامات لالچ اور حرص کی تمام آلائشوں سے پاک تھے۔ انہوں نے سب سے پہلے پاکستان کا نہ صرف نعرہ دیا بلکہ اس پر عمل بھی کرکے دکھایا۔ خود کو چیف ایگزیکٹو بنانا ہو یا پانچ سال کے لیے صدر کی کرسی پر بیٹھنے کا فیصلہ، منہ زور ججوں کو کنٹرول کرنے کے لیے ایمرجنسی کے نفاذ کا اقدام ہو یا این آر او کے ذریعے تمام کرپٹ لوگوں کو کلین چٹ دینے کا فیصلہ مشرف صاحب کے تمام جمہوری اقدامات سے بے غرضی اور اخلاص ٹپکتا ہوا صاف نظر آتا ہے۔
آج کل کے نام نہاد جمہوری حکمرانوں کو مشرف صاحب کے حقیقی جمہوریت کے فلسفے کو سمجھنے کی ضرورت ہے، تاکہ وہ اپنی غیر حقیقی جمہوریت کو مستقبل کے کسی آنے والے مشرف سے محفوظ رکھ سکیں۔ اگرچہ جمہوریت کی جو کھچڑی موجودہ دور میں پکائی جارہی ہے اس کے اجزائے ترکیبی بھی کم و بیش وہی ہیں جو مشرف صاحب کی حقیقی جمہوریت کے تھے اورفرق صرف پیش کئے جانے کے انداز کا ہے۔ لیکن میڈیا کی حد سے بڑھی ہوئی آزادی، ججوں کی دیدہ دلیریوں اور ملکی حالات کو مد نظر رکھا جائے تو لگتا ہے کہ مشرف ایوب خان کے شروع کئے گئے حقیقی جمہوریت کے سلسلے کے آخری وارث ہیں!
کیا مشرف واقعتاً حقیقی جمہوریت کے آخری وارث ہیں؟ اس ملین ڈالرسوال کے جواب میں ہی پاکستان کی بقا ہے !
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
ملک و قوم کے لیے ان کی خدمات کی فہرست اتنی طویل ہے کہ اس کا احاطہ کرنا کسی بشر کے لیے ممکن نہیں، لیکن ذیل میں ہم ان کے سب سے بڑے کارنامے یعنی پاکستان میں حقیقی جمہوریت کے فروغ پر روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے۔ اُن کے اِس کارنامے کی وضاحت اس لیے بھی ضروری ہے کہ انہوں نے گزشتہ روز ایک بیان میں پھر کم فہم قوم کو یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان میں حقیقی جمہوریت کا پودا انہوں نے ہی لگایا تھا۔ ہمیں ڈر ہے کہ پاکستانیوں کی ایک کثیر تعداد ان کے اس بیان کوزیادہ سنجیدگی سے نہیں لے گی ۔ اس لیے سطورِ ذیل میں ہم ان کے اس ارشاد کی ذرا کھل کر وضاحت کریں گے۔
لیکن قبل اس کے کہ ہم اصل موضوع کی طرف آئیں حقیقی جمہوریت کی تعریف کو سمجھنا ضروری ہے۔ حقیقی جمہوریت ایک نہایت ہی پیچیدہ فلسفہ ہے جس کا ادراک ابھی تک پاکستان سمیت تیسری دنیا کے کچھ چیدہ چیدہ لوگوں کو ہی ہوسکا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ یورپ اور امریکا کے ترقی یافتہ ممالک کو اپنی تمام ترقیوں کے باوجود ابھی تک اس فلسفے کی سمجھ نہیں آئی۔ جمہوریت کا وہ سچا علم جو زمباوے کے موغابے، روانڈا کے کاگامے، یوگنڈا کے موسوینی اور پاکستان کے مشرف کو حاصل ہے، جبکہ یورپ اور امریکا کے فوجی بھائی اور سیاست دان اس سے یکسر نابلد ہیں۔
ہمارے ماضی پر نظر دوڑائی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں حقیقی جمہوریت کو متعارف کروانے کا سہرا ایوب خان کے سر ہے جنہوں نے قومی سلامتی کے تقاضوں کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کیا اور جب تک لوگوں سے ان کے مخالف نعرے نہیں سن لیے اس فریضے سے سبکدوش نہ ہوئے۔ یحییٰ خان کا حقیقی جمہوریت کا سفر نسبتاً مختصر رہا کیونکہ مشرقی بنگال کے لوگوں نے ان کی حقیقی جمہوریت کی بجائے مجیب الرحمن کی غیر حقیقی جموریت کو ترجیح دی۔ ضیا الحق گیارہ سال تک اسی جمہوریت کے پودے کی آبیاری کرتے رہے اور اسی پودے کو سینچتے سینچتے ایک دن فضا میں پھٹ گئے ۔
مشرف صاحب کا کیس اُن کے پیشروں سے ذرامختلف ہے۔ حقیقی جمہوریت کے سفر میں ایوب خان اور یحییٰ خان نے اقتدار چھوڑنے کے بعد کبھی دوبارہ پلٹ کر ان کوچوں سے گزرنے کا بھی نہ سوچا لیکن مشرف صاحب نہ صرف پلٹ کر میدانِ سیاست میں آئے، بلکہ انہوں نے ایک نئی پارٹی کی بنیاد بھی رکھی جسے ان کے مخالفین حسد کے مارے تانگہ پارٹی بھی کہتے ہیں۔اگر ایوب خان اور یحیٰ خان کے دور میں فیس بک کا وجود ہوتا اور ان کے پیچ پر لاکھوں فین ان کو دیوانہ وار بلاتے تو وہ بھی اقتدار سے علیحدگی کے بعد یوں گوشہ گمنامی میں نہ سڑتے۔ مشرف صاحب جدید دور کے لیڈر ہیں جو ہار کر بھی نہیں ہارتے۔ یہ اقتدار کے ایوانوں سے چلتے کر بھی دیے جائیں تو فیس بک کے ایوان ان کے انقلابی نعروں سے گونجتے رہتے ہیں۔
12 اکتوبر 1999ء کو جب مشرف آسمان سے زمین پر اُترے اور پاکستان میں حقیقی جمہوریت کا ایک اور سورج طلوع ہوا تو نواز شریف کی حکومت پہلے ہی اپنے بھاری مینڈیٹ کے بوجھ تلے دب کر اپنا ذہنی توازن بڑی حد تک کھوچکی تھی۔ کاغذ کا وہ پرزہ جسے آئین کہا جاتا ہے اور جو حقیقی جمہوریت کے راستے میں ہمیشہ روڑے اٹکاتا ہے مشرف صاحب نے اسے اس کی ذمہ داریوں سے عارضی طور پر سبکدوش کرکے ایل ۔ایف ۔او کو نیا پاکستان بنانے کی ذمہ داری سونپی۔ آئین ہمیشہ سے حقیقی جمہوریت کا دشمن رہا ہے اس لیے اس تاریخی موقع پر اس کا قلع قمع کیا جانا نہایت ضروری تھا۔ عدلیہ کے ججوں سے تین سال کے پرمٹ پر سائن بالجبر لینے کے بعد مشرف صاحب نے ایک ایسے جمہوری سفر کا آغاز کیا جس کی دھول ابھی تک اٹھ رہی ہے۔
یہ بات دشمن بھی تسلیم کرتے ہیں کہ حقیقی جمہوریت کے لگ بھگ نو سالہ سفر میں مشرف صاحب نے تمام مشکلات کا کمانڈو وار مقابلہ کیا۔ امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دہشت گردی کی جنگ میں اس کا حکم ماننے کا فیصلہ ہو یا سپریم کورٹ کے ججوں کو لائن حاضر کرنے کی کوشش مشرف صاحب نے جرات اور دانشمندی سے تمام معاملاتِ ملکی کو نبھایا۔قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں کے ذریعے جدید تہذیب سے دور پہاڑوں میں بسنے والے قبائلیوں کو بھی نئی ٹیکنالوجی کی لذتوں سے متعارف کرایا گیا۔ روایتی اسلحہ سازی میں پاکستان کی مہارت کے عملی نمونے دکھانے کے لیے بلوچستان میں نواب اکبر بگٹی جیسے بزرگ رہنمائوں کو نشانہ بنایا گیا تاکہ نہ صرف بلوچستان کے عوام حقیقی جمہوریت کی برکات سے پوری طرح مستفید ہوسکیں بلکہ دشمنوں پر بھی ہماری طاقت اور وحشت کی دھاک پوری طرح بیٹھ جائے۔
یہ امر قابلِ غور ہے کہ مشرف صاحب کے حقیقی جمہوریت کے لئے کیے جانے والے تمام اقدامات لالچ اور حرص کی تمام آلائشوں سے پاک تھے۔ انہوں نے سب سے پہلے پاکستان کا نہ صرف نعرہ دیا بلکہ اس پر عمل بھی کرکے دکھایا۔ خود کو چیف ایگزیکٹو بنانا ہو یا پانچ سال کے لیے صدر کی کرسی پر بیٹھنے کا فیصلہ، منہ زور ججوں کو کنٹرول کرنے کے لیے ایمرجنسی کے نفاذ کا اقدام ہو یا این آر او کے ذریعے تمام کرپٹ لوگوں کو کلین چٹ دینے کا فیصلہ مشرف صاحب کے تمام جمہوری اقدامات سے بے غرضی اور اخلاص ٹپکتا ہوا صاف نظر آتا ہے۔
آج کل کے نام نہاد جمہوری حکمرانوں کو مشرف صاحب کے حقیقی جمہوریت کے فلسفے کو سمجھنے کی ضرورت ہے، تاکہ وہ اپنی غیر حقیقی جمہوریت کو مستقبل کے کسی آنے والے مشرف سے محفوظ رکھ سکیں۔ اگرچہ جمہوریت کی جو کھچڑی موجودہ دور میں پکائی جارہی ہے اس کے اجزائے ترکیبی بھی کم و بیش وہی ہیں جو مشرف صاحب کی حقیقی جمہوریت کے تھے اورفرق صرف پیش کئے جانے کے انداز کا ہے۔ لیکن میڈیا کی حد سے بڑھی ہوئی آزادی، ججوں کی دیدہ دلیریوں اور ملکی حالات کو مد نظر رکھا جائے تو لگتا ہے کہ مشرف ایوب خان کے شروع کئے گئے حقیقی جمہوریت کے سلسلے کے آخری وارث ہیں!
کیا مشرف واقعتاً حقیقی جمہوریت کے آخری وارث ہیں؟ اس ملین ڈالرسوال کے جواب میں ہی پاکستان کی بقا ہے !
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔