’’فیئر ویل پارٹی‘‘
ایسا لگ رہا تھا کہ میں یہاں ننگا بھوکا آیا تھا اورسب چیزیں یہیں سے ملی ہیں۔
تقریب کا ماحول بڑا باوقار تھا، شریک ہونے والے سارے ہی لوگ اچھے بھلے سمجھدار تھے، ادارے میں طویل عرصے خدمات انجام دے کر رخصت ہونے والے صاحب بیک وقت خوش بھی تھے اور اداس بھی، خوشی اس بات پر کہ جتنا عرصہ یہاں رہے اچھے انداز میں کام کیا، لوگوں کے ساتھ تعلقات خوش گوار رہے، افسران بھی مطمئن تھے، جگہ جگہ سے برسوں کی پیاری یادیں وابستہ ہیں اور اُداس اس بات پر کہ ان سب کا ساتھ چھوٹ رہا ہے۔
آج ادارے میں ان کی ملازمت کا آخری دن تھا، دوست احباب نے ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے اُن کے اعزاز میں ایک ''فیئر ویل پارٹی'' کا اہتمام کیا تھا۔ رخصت ہونے والے صاحب اپنے ساتھیوں سے ہاتھ ملارہے تھے، گلے مل رہے تھے مگر ان کو خبر نہیں تھی کہ تھوڑی دیر میں ان کی عزت کا فالودہ بننے والا ہے۔
پروگرام کا آغاز ہوا، ادارے کے ایک سینئرعہدے دار نے میزبان کی حیثیت سے جانے والے صاحب کی خدمات کا ذکر کیا، یہاں وہاں کی باتیں کیں، اُس کے بعد مختلف لوگوں کی جانب سے دیئے جانے والے تحائف کا ذکر کرنا شروع کیا ۔۔۔۔ بس تھوڑی ہی دیر میں ہر طرف کھی کھی ہونے لگی، کچھ کے چہروں پر مسکراہٹ تھی تو کچھ باقاعدہ ہنسنے لگے۔ جن صاحب کے اعزاز میں محفل سجائی تھی وہ شرم سے سرخ ہو نے لگے مگر پروگرام کے میزبان اپنی ہی دھن میں تھے۔ ہمارے ساتھی کو فلاں ڈپارٹمنٹ کے ایک صاحب نے پا نچ سو روپے نقد دیے ہیں، ایک اور صاحب نے برانڈڈ کرتا دیا ہے، فلاں ساتھی پینٹ کی بیلٹ لائے ہیں اور یہ صاحب چائے کا کپ لائے ہیں اور یہ دیکھئے شلوار کا زاربند بھی گفٹ میں آیا ہے ۔۔۔۔۔ واہ واہ سبحان اللہ۔
اعلا نات جاری تھے، پروگرام میں لوگ کبھی ایک دوسرے کو، کبھی ادارے سے جانے والے ساتھی کو اور کبھی کمپیرئنگ کرنے والے صاحب کو دیکھتے مگر وہ تھے کہ رُکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ اللہ اللہ کرکے یہ مرحلہ ختم ہوا چائے پانی کا دور چلا، کسی نے رخصت ہونے والے صاحب سے کہا ''جانے کے بعد ہمیں بھول مت جائیے گا، آتےجا تے رہیے گا''، بس اتنا سننا تھا کہ وہ پھٹ پڑے۔
''تم لوگ بڑے ہی گھٹیا ہو، اتنے برسوں کی خدمت کا ایسا صلہ دیا، ایسا لگ رہا ہے کسی نیلام گھر میں میری بولی لگ رہی ہے، اُس نے یہ دیا، اُس نے یہ دیا، ایسا لگ رہا تھا کہ میں یہاں ننگا بھوکا آیا تھا اورسب چیزیں یہیں سے ملی ہیں۔ دل تو چاہ رہا تھا اُسی وقت پروگرام سے بھاگ جاوں''۔
اتنے میں ایک صاحب نےآگے بڑھ کر ان کو تسلی دی۔ بھائی مائیک پکڑنے کا یہ مطلب نہیں کہ آدمی کو بات کرنے کی تمیز بھی آجائے، یہ تو ادارے کے ذمہ داران کا کام تھا کہ جب فیئرویل پارٹی کا انتظام کررہے تھے تو اور چیزوں کے ساتھ کسی ڈھنگ کے اسٹیج سیکرٹری کا بھی بندوبست کرلیتے جس کو بات کرنے کا سلیقہ آتا ہو۔ ایسے موقع تو بڑے یادگار ہوتے ہیں لوگوں کی طرف سے پیش کئے جانے والے تحفے، تاثرات، احساسات، باتیں، یادیں عرصے تک یاد رہتی ہیں، ایسے وقت کوئی بھی پھوہڑپن کی حرکت ساری تقریب کو، اُس کی خوبصورتی کو مٹی میں ملا دیتی ہے۔ پھر کمپیرئنگ کرنے والے صاحب کو بھی سوچنا چاہئے تھا کہ یہ کام ان کو آتا بھی ہے کہ نہیں! ہر جگہ چوہدری بننے سے پھر یہی ہوتا ہے جو ابھی ہوا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آج ادارے میں ان کی ملازمت کا آخری دن تھا، دوست احباب نے ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے اُن کے اعزاز میں ایک ''فیئر ویل پارٹی'' کا اہتمام کیا تھا۔ رخصت ہونے والے صاحب اپنے ساتھیوں سے ہاتھ ملارہے تھے، گلے مل رہے تھے مگر ان کو خبر نہیں تھی کہ تھوڑی دیر میں ان کی عزت کا فالودہ بننے والا ہے۔
پروگرام کا آغاز ہوا، ادارے کے ایک سینئرعہدے دار نے میزبان کی حیثیت سے جانے والے صاحب کی خدمات کا ذکر کیا، یہاں وہاں کی باتیں کیں، اُس کے بعد مختلف لوگوں کی جانب سے دیئے جانے والے تحائف کا ذکر کرنا شروع کیا ۔۔۔۔ بس تھوڑی ہی دیر میں ہر طرف کھی کھی ہونے لگی، کچھ کے چہروں پر مسکراہٹ تھی تو کچھ باقاعدہ ہنسنے لگے۔ جن صاحب کے اعزاز میں محفل سجائی تھی وہ شرم سے سرخ ہو نے لگے مگر پروگرام کے میزبان اپنی ہی دھن میں تھے۔ ہمارے ساتھی کو فلاں ڈپارٹمنٹ کے ایک صاحب نے پا نچ سو روپے نقد دیے ہیں، ایک اور صاحب نے برانڈڈ کرتا دیا ہے، فلاں ساتھی پینٹ کی بیلٹ لائے ہیں اور یہ صاحب چائے کا کپ لائے ہیں اور یہ دیکھئے شلوار کا زاربند بھی گفٹ میں آیا ہے ۔۔۔۔۔ واہ واہ سبحان اللہ۔
اعلا نات جاری تھے، پروگرام میں لوگ کبھی ایک دوسرے کو، کبھی ادارے سے جانے والے ساتھی کو اور کبھی کمپیرئنگ کرنے والے صاحب کو دیکھتے مگر وہ تھے کہ رُکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ اللہ اللہ کرکے یہ مرحلہ ختم ہوا چائے پانی کا دور چلا، کسی نے رخصت ہونے والے صاحب سے کہا ''جانے کے بعد ہمیں بھول مت جائیے گا، آتےجا تے رہیے گا''، بس اتنا سننا تھا کہ وہ پھٹ پڑے۔
''تم لوگ بڑے ہی گھٹیا ہو، اتنے برسوں کی خدمت کا ایسا صلہ دیا، ایسا لگ رہا ہے کسی نیلام گھر میں میری بولی لگ رہی ہے، اُس نے یہ دیا، اُس نے یہ دیا، ایسا لگ رہا تھا کہ میں یہاں ننگا بھوکا آیا تھا اورسب چیزیں یہیں سے ملی ہیں۔ دل تو چاہ رہا تھا اُسی وقت پروگرام سے بھاگ جاوں''۔
اتنے میں ایک صاحب نےآگے بڑھ کر ان کو تسلی دی۔ بھائی مائیک پکڑنے کا یہ مطلب نہیں کہ آدمی کو بات کرنے کی تمیز بھی آجائے، یہ تو ادارے کے ذمہ داران کا کام تھا کہ جب فیئرویل پارٹی کا انتظام کررہے تھے تو اور چیزوں کے ساتھ کسی ڈھنگ کے اسٹیج سیکرٹری کا بھی بندوبست کرلیتے جس کو بات کرنے کا سلیقہ آتا ہو۔ ایسے موقع تو بڑے یادگار ہوتے ہیں لوگوں کی طرف سے پیش کئے جانے والے تحفے، تاثرات، احساسات، باتیں، یادیں عرصے تک یاد رہتی ہیں، ایسے وقت کوئی بھی پھوہڑپن کی حرکت ساری تقریب کو، اُس کی خوبصورتی کو مٹی میں ملا دیتی ہے۔ پھر کمپیرئنگ کرنے والے صاحب کو بھی سوچنا چاہئے تھا کہ یہ کام ان کو آتا بھی ہے کہ نہیں! ہر جگہ چوہدری بننے سے پھر یہی ہوتا ہے جو ابھی ہوا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔