چھوٹی ٹیمیں بڑا دل

جن مقابلوں کو کوئی خاطر میں نہیں لارہا تھا، وہاں بہترین کھیل دیکھنے کو ملا۔

جن مقابلوں کے بارے میں اُمید تھی کہ وہ سنسنی خیزی اور ہیجان انگیزی کی ساری حدیں توڑ دیں گے، وہ اتنے ہی یکطرفہ، بے مزا اور مایوس کن ثابت ہوئے۔ فوٹو: ایکسپریس

عالمی کپ 2015ء میں اب تک جتنے بھی مقابلے کھیلے گئے ہیں، اُن میں غیر متوقع نتائج تو بہت کم دیکھنے کو ملے ہیں لیکن جن مقابلوں کے بارے میں اُمید تھی کہ وہ سنسنی خیزی اور ہیجان انگیزی کی ساری حدیں توڑ دیں گے، وہ اتنے ہی یکطرفہ، بے مزا اور مایوس کن ثابت ہوئے۔

جس کا آغاز پہلے ہی دن ہوگیا تھا جب سری لنکا-نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا-انگلستان کھیلے، پھر دوسرے روز پاک-بھارت مقابلے نے برصغیر کے شائقین کو مایوس کیا، یہاں تک کہ 'فیورٹ' جنوبی افریقہ بھی بھارت کے خلاف اہم مقابلے میں بُری طرح شکست سے دوچار ہوا۔ لیکن جن مقابلوں کو کوئی خاطر میں نہیں لارہا تھا، وہاں بہترین کھیل دیکھنے کو ملا۔ پہلے زمبابوے نے جنوبی افریقہ کو سخت پریشان کیا، پھر آئرلینڈ نے ویسٹ انڈیز کو اپ سیٹ شکست دی، اسکاٹ لینڈ کے مقابلے میں نیوزی لینڈ کے دانتوں پر پسینہ آگیا، پھر زمبابوے اور متحدہ عرب امارات کا ایک سنسنی خیز مقابلہ ہوا اور افغانستان نے سری لنکا کے چھکے چھڑائے۔ لیکن آئرلینڈ اور متحدہ عرب امارات اور اس کے بعد اب افغانستان اور اسکاٹ لینڈ کے مقابلے نے ثابت کردیا ہے کہ یہ ٹیمیں ضرور چھوٹی ہیں لیکن دل بہت بڑا رکھتی ہیں۔ ہمت، جرات اور بہادری کی مثالیں ان کھلاڑیوں نے رقم کی ہیں، جن کے بارے میں شاید ہی کسی نے تصور کیا ہو۔

دراصل کرکٹ کو عالمی کھیل بنانے کے لیے دعوے تو بہت ہوتے رہتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ 10 ٹیسٹ کھیلنے والے ممالک کے علاوہ شاید ہی کسی ملک کو کبھی اہمیت دی گئی ہو۔ آئرلینڈ، افغانستان، کینیا، متحدہ عرب امارات، اسکاٹ لینڈ، نیدرلینڈز اور دیگر چھوٹے ممالک کے کھیل کو ہمیشہ دوسرے درجے کی کرکٹ سمجھا گیا اور انہیں آگے بڑھنے اور خود کو منوانے کے اتنے مواقع ہی نہیں دیے گئے۔ کیا آپ نے کبھی ورلڈ کرکٹ لیگ کے مقابلے براہ راست دیکھے ہیں؟ یا عالمی کپ یا ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے کوالیفائر دیکھنے کو ملے ہیں؟ یعنی کئی تاریخی لمحات تو شائقین کی نظروں میں آئے بغیر گزر جاتے ہیں۔ پھر کرکٹ کو عالمی سطح پر فروغ دینے کے دعوؤں کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے؟

اِس کے مقابلے میں فٹ بال دیکھیں، جہاں دوستانہ مقابلے تک شائقین کی نظروں سے اوجھل نہیں رہتے۔ یہی وجہ ہے کہ فٹ بال ہر گزرتے سال کے ساتھ دنیا کے مقبول ترین کھیل کی حیثیت سے اپنا مقام مضبوط کررہا ہے جبکہ کرکٹ اپنے مرکزی ممالک میں 2 ارب سے زیادہ آبادی رکھنے کے باوجود وہ مقام حاصل نہیں کرسکا، جو اسے کرلینا چاہیے تھا۔


پھر بین الاقوامی کرکٹ کونسل نے 2019ء کے عالمی کپ کو 10 ٹیموں تک محدود بھی کردیا ہے، جس میں عالمی درجہ بندی کی سرفہرست 8 ٹیمیں براہ راست کھیلیں گی جبکہ باقی دو کا انتخاب کوالیفائنگ راؤنڈ کے ذریعے ہوگا۔ لیکن رواں عالمی کپ میں زمبابوے، آئرلینڈ، اسکاٹ لینڈ، متحدہ عرب امارات اور افغانستان اس فیصلے کو غلط ثابت کررہی ہے بلکہ ان کی کارکردگی خود آئی سی سی کے لیے تازیانہ ہے۔

آپ خود ہی اندازہ لگائیں کہ اگر جاری عالمی کپ میں سے آئرلینڈ بمقابلہ متحدہ عرب امارات، افغانستان بمقابلہ اسکاٹ لینڈ، زمبابوے بمقابلہ متحدہ عرب امارات اور آئرلینڈ بمقابلہ ویسٹ انڈیز کے میچز نکال دیےجائیں تو اُس کے دامن میں کیا رہ جاتا ہے؟ بھارت، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ کی یکطرفہ فتوحات؟ پاکستان، ویسٹ انڈیز اور جنوبی افریقہ کی بدترین شکستیں؟ ''تھی آرزو جس کی، یہ وہ عالمی کپ تو نہیں''۔

بہرحال، آئرلینڈ اور افغانستان کی کارکردگی نے ایک روشن مستقبل کی نوید سنا دی ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ بین الاقوامی کرکٹ کونسل آگے بڑھ کر ان ممالک میں کرکٹ کی بھرپور کفالت کرے۔ جتنا پیسہ اور وقت گزشتہ 20 سالوں میں بنگلہ دیش کی کرکٹ پر لگایا گیا ہے، اس کا معمولی حصہ بھی اگر آئرلینڈ، کینیا، کینیڈا اور افغانستان میں لگایا جاتا تو شاید آج ان میں سے ایک، دو ممالک ٹیسٹ درجے تک پہنچ چکے ہوتے۔

آئی سی سی کے مقابلے میں ہمیں پاکستان کا کردار خاصا روشن دکھائی دیتا ہے۔ افغانستان میں کرکٹ کے فروغ کے لیے پاکستان نے جتنی کوششیں کی ہیں، شاید ہی کسی نے دوسرے ملک کی کرکٹ کے لیے کی ہوں۔ پشاور اور لاہور میں کرکٹ بورڈ کی تنصیبات کے استعمال کی اجازت، افغانستان کے کھلاڑیوں کو پاکستان کے ڈومیسٹک ٹورنامنٹس میں مدعو کرنا اور بین الاقوامی کرکٹ میں بھی ان کا خیرمقدم کرنا پاکستان کے افغان کرکٹ پر احسانات ہیں۔ اگر بھارت بنگلہ دیش اور نیپال کی کرکٹ کا سہارا بنے، انگلستان اسکاٹ لینڈ اور آئرلینڈ کی مدد کرے اور آسٹریلیا، ملائیشیا، ہانگ کانگ اور پاپوا نیوگنی کو سنبھالے تو کرکٹ کا دامن مزید وسیع ہوسکتا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔
Load Next Story