نہ مصطفیٰ نہ رضا شاہ میں نمُود اس کی

خلافت سے آئینی بادشاہت کے سفر کے بعد جو خلافت عثمانیہ پر بیتی وہ ایک تاریخ ہے۔


Orya Maqbool Jan February 27, 2015
[email protected]

کسی قوم کی ترقی اور عروج کی داستان تحریر کرنا ہو تو اس کا کمزور ترین پہلو بھی یوں اجاگر کیا جاتا ہے کہ لوگ یہ سمجھنے لگ جائیں کہ اگر صرف یہی ایک خاصیت ہم پیدا کر لیں تو ترقی ہمارے قدم چوم لے گی۔ لیکن اگر زوال کی تاریخ مرتب کرنا ہو تو اس قوم کی شاندار خصوصیت کو بھی اس کا جرم بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔

زوال میں سخاوت بے و قوفی بن جاتی ہے اور عروج میں ایک اعلیٰ انسانی قدر ۔گذشتہ ڈیڑھ دو سوسال سے جدید مؤرخین اور تجزیہ کاروں نے یہ فیشن اختیار کر لیا ہے کہ دنیا کی کسی بھی قوم کے زوال میں اہم ترین محرّک ،مذہب کو ثابت کیا جائے۔ یوں تو براہ راست مذہب کو برائی کا سرچشمہ نہیں کہا جاتا، لیکن اس کے نمایندہ افراد کو تضحیک کا نشانہ بنا کر مقصد پورا کر لیا جاتا ہے۔

جیسے یہ کہا جائے کہ، اسلام میں تو کوئی برائی نہیں، اصل میں ملّا، مولوی، عالم اور آخر کار سارے مسلمان ہی نکمے، ناکارہ اور بے کار ہیں۔ سیکولر، جمہوری، قومی ریاستوں کے وجود میں آنے کے بعد علمی سطح پر یہ نظریہ راسخ کروادیا گیا ہے کہ دنیا میں دراصل قتل و غارت گری کا منبع اور مآخذ صرف اور صرف مذہب ہے۔

ہر مؤرخ ،تجزیہ کار اور دانشور یہی دلیل زور و شور سے دیتا ہے۔لیکن اگر کوئی سوال اٹھائے کہ جدید سیکولر جہوری اور قومی ریاستیں وجود میں آنے کے بعد ان قوموں نے دو عالمی جنگیں لڑیں اور کروڑوں لوگوں کو قتل کیا تو تاریخ کے اس سب سے بڑے قتل عام کے وقت مذہب ریاست کے کاروبار سے بہت دور تھا اور مذہبی رہنماؤں کا تو وجود ہی بے ضرر کیڑے مکوڑوں کی حیثیت تک محدود ہو چکا تھا،ایسے میں قتل کا ذمے دار کون تھا۔ تو جواب گول کر دیا جاتا ہے۔

جنگ عظیم اوّل جس کے بعد مسلم امّہ ٹکڑوں میں بانٹ دی گئی اور صرف خلافت عثمانیہ ہی نہیں بلکہ لفظ خلافت بھی مسلمانوں کی روز مرہ لغت سے خارج ہو گیا۔ اس کے غبار سے ایک شخصیت ابھری جسے مصطفیٰ کمال المعروف اتا ترک کہتے ہیں۔ ایک طویل عرصے تک مسلم امہ کے تن مردہ میں جان ڈالنے اور ترکی کو جدید دنیا کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کا اسے ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مسلمان اپنی مرکزیت یعنی خلافت کی بقا کے لیے پریشان تھے۔ برصغیر جو خود انگریز کا غلام تھا، وہاں سے پہلی منظم سیاسی تحریک ابھری تھی جسے تحریک خلافت کہا جاتا ہے۔

جس کے بارے میں گاندھی جیسے لیڈر نے بھی کہا تھا کہ اگر اسے اپنی زندگی میں کسی تحریک پر فخر کرنا پڑے تو میں تحریک خلافت پر کروں گا، کہ اس نے یہاں کے رہنے والوں کو سیاسی شعور عطا کیا تھا۔ ایسے دور میں خلافت کے ادارے کو مضموم قرار دینے، امتِ مسلمہ کے تصور کے مقابلے میں ترک قومیت کا تصور اجاگر کرنے اور یورپ کی تہذیبی اساس کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنانے کو ترقی کی معراج سمجھنے والے اتاترک کو ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا رہا اور آج بھی کبھی کسی کی طبیعت میں انگڑائی اٹھتی ہے تو وہ اتاترک کی عظمت کے گیت گانے کے سا تھ ساتھ خلافت عثمانیہ کے زوال کو مذہبی طبقے کی بالادستی اور مذہب کے ساتھ نتھی کردیتا ہے۔

دراصل اس خلافت عثمانیہ کے خلاف نفرت مسیحی یورپ کے رگ وپے میں ازل سے رچی ہوئی ہے۔ اس لئیے کہ اس کے بطن سے صلاح الدین ایوبی نے جنم لیا تھا۔ مسلمانوں کی مرکزیت کی علامت یعنی'' خلافت'' کو متنازعہ بنانے کے لیے ایران کے صفوی حکمران شاہ اسمعیل سے جنگ کرائی گئی۔ لیکن جنگِ چلدران میں شکست کے بعد مصر میں خلافت عثمانیہ مستحکم ہوئی تو 1453 سے1683تک پوری دنیا میں خلافتِ عثمانیہ کے ہم پلہ کوئی اور طاقت وجود ہی نہیں رکھتی تھی۔ ایک ایسی بحری طاقت جس کا مقابلہ کرنے کی کسی میں تاب نہ تھی۔

ایک ایسا اقتصادی نظام جو کارپوریٹ استحصال سے پاک تھا۔ جس کے بارے میں تمام ماہرِ معاشیات متفق ہیں کہ خلافت عثمانیہ کا بازار آزاد معیشت کا آخری بازار تھا جو سود اور'' مڈ ل مین'' کے تسلط سے آزاد تھا۔'' مجلہ عدلیہ'' وہ انصاف کا نظام جس میں چیف جسٹس جسے شیخ الاسلام کہتے تھے، اس کے سامنے سلطان تک جوابدہ تھا اور بادشاہ کی معزولی کے لیے بھی چیف جسٹس کے فیصلے کی ضرورت تھی۔ خلافت عثمانیہ کی فضائیہ کی بنیاد 1909میں رکھ دی گئی تھی یعنی جہاز ایجاد ہونے کے پانچ سال بعد۔ اور اس کی بحریہ تو بہت قدیم تھی۔

یہ تھی وہ خلافت عثمانیہ جس کی خلافت کے خلاف پہلے مشرقی یورپ کے علاقوں میں قوم پرستوں کو اکسایا گیا اور آسٹریا نے ان قوم پرستوں کی مدد کر کے بلقان کی ریاستوں کو علیحدہ کروالیا اور پھر اسی قوم پرستی کی لہر کو لارنس آف عربیہ کے ذریعے عربوں تک پھیلا دیا گیا اور جنگ عظیم اوّل میں شکست کے بعد خلافتِ عثمانیہ مصطفیٰ کمال اتا ترک کی قیادت میں ختم کر دی گئی۔ شکست تو جرمنی کو بھی ہوئی، جنگ عظیم دوم میں جاپان اور اٹلی کو بھی ہوئی، لیکن کوئی وہاں شکست کی وجہ مذہب کو نہیں بتاتا۔ وہاں تو ترقی بھی ہوئی تھی۔ تمام دنیاوی علوم بھی پڑھائے جاتے تھے۔

پرنٹنگ پریس تو گٹن برگ نے قائم ہی جرمنی میںکیا تھا۔ اسے کسی مولوی نے نہیں روکا تھا۔ وہاں تو لاؤڈ اسپیکر کا جھگڑا بھی نہیں تھا۔ کفر کے فتوے بھی نہیں لگتے تھے لیکن پھر بھی جرمنی، اٹلی اور جاپان کو ذلت آمیز شکستوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کی شکست کے اسباب لکھتے ہوئے تو کسی کو اس رنگ آمیزی کی ضرورت نہیں پڑتی۔اس لیے کہ وہ تما م کی تمام ریاستیں سیکولر قوم پر ستانہ ریاستیں تھیں۔ اور خلافت عثمانیہ رنگ ونسل سے بالا تر مسلم امہ کی مرکزیت کی علامت تھی۔اسی لیے اسے مردود قرار دیتے ہیں اور پھر اس کی ناکامی کو مذہبی طبقوں کے ساتھ منسلک کرنے سے اصل مقصد اسلام کو بدنام کرنا ہوتا ہے۔

کیا خلافت کا نظام ہی خلافتِ عثمانیہ کے زوال کا سبب تھا جسے اتا ترک نے تبدیل کیا۔ خلافتِ عثمانیہ کا زوال عین اس دن شروع ہو گیا تھا جب یورپ کی دیکھا دیکھی سلطان محمود ثانی نے1839سے لے کر 1876تک آئین اور آئینی اصلاحات کے راستے کا آغاز کیا۔ اس نے مغربی طرز پر ایک جدید فوج مرتب کی۔1856میں خط ہمایوں کے ذریعے آرمینیاء کے عیسائی دانشوروں کی مدد سے 150شقوں پر مرتب کردہ ایک قانون بنایا گیا جسے'' نظام نامہ ملتِ آرمینیان'' کہا جاتا ہے۔

عیسائیوں کو خصوصی حقوق دیے گئے۔1860ء میں اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کا اعلان کرتے ہوئے سودی بینکاری کا آغاز کیا گیا۔ مغربی جامعات میں پڑھنے والے چند افراد کے ایک گروہ نے ایک اساسی آئین مرتب کیا جس کے تحت خلافت عثمانیہ نہیں بلکہ حکومت کو آئینی بادشاہت کا درجہ دے دیا گیا جو ماڈرن سیکولر ریاست کی طرز پر تھی۔

اس آئین کے مطابق مسائل کا حل آئینی بادشاہت میں تھا، جیسے برطانیہ، بلجیم، ڈنمارک، سویڈن وغیرہ میں ہوتی ہیں ۔بادشاہ مرادپنجم ذہنی معذور تھا۔ اس کو عہدے سے ہٹایا گیا تو اس کے جانشین عبدالحمید ثانی کو اس شرط پر بادشاہت سنبھالنے کی دعوت دی گئی کہ وہ آئینی بادشاہت کو قبول کر ے گا، جس پر اس نے23نومبر1876پر عمل شروع کیا اور ایک مغربی طرزِ کی پارلیمان بھی بنا دی۔

خلافت سے آئینی بادشاہت کے سفر کے بعد جو خلافت عثمانیہ پر بیتی وہ ایک تاریخ ہے۔ روس اس پر چڑھ دوڑا، جنگ میں شکست پر قبرص کو پٹے پر برطانیہ کو دینا پڑا۔ اس کے بعد اتحادی افواج نے پوری کی پوری سلطنت عثمانیہ کو ایسے تقسیم کیا جیسے میز کو کیک پررکھ کر کاٹا جاتا ہے۔ ہرنسل رنگ اور علاقے کی بنیاد پر مملکتیں وجود میں آگئیں۔

ایسے میں ترک قومیت کے نعرے پر اتاترک نے بھی اپنے لیے یاپھر ترک قوم کے لیے ایک ماڈرن سیکولر قومی ریاست تشکیل دے دی۔لیکن یہ صرف اسی وقت ممکن ہو سکا جب تقریباَ پچاس سال پہلے خلافت عثمانیہ اپنے اصل رستے سے بھٹک کر آئینی بادشاہت، جمہوریت، سیکولرزم اور نسلی برتری کی بھول بھلیوں میں کھوگئی تھی۔ اتا ترک خلافت نہیں آئینی بادشاہت ختم کرسکا، اور اسے پورے مغرب نے ہیرو بنا کر پیش کیا اور کوشش کی کہ مسلم امہ اس سے اپنی امیدیں وابستہ کر لے ۔ اسی لیے تو اقبال نے کہا تھا۔

نہ مصطفی نہ رضا شاہ میں نمُود اس کی

کہ رُوحِ شرق بدن کی تلاش میں ہے ابھی

رُوحِ شرق جس بدن کی تلاش میں ہے، وہ اتا ترک کا نعم البدل نہیں بلکہ وہ امام مہدی ہے جو اس امت کو ایک بار پھر متحد کرے گا جس کے بارے میں اس امت کا ہر مسلک متفق ہے۔ جس کے بارے میں میرے آقا سیّد الابنیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ وہ خلافتِ علی منہاج النبوہ قائم کرے گا اور کوئی جھونپڑی ایسی نہ ہو گی جس میں اسلام داخل نہ ہوجائے ( مفہوم حدیث) اس امت کو کسی اتاترک کی نہیں اسی مہدی کا انتظار ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں