1946ء میں انقلاب کی فضا
انھی ہڑتالوں یا بغاوت کا یہ نتیجہ نکلا کہ برٹش سرکار نے اپنا بوریا بسترگول کرنا شروع کر دیا تھا۔
جنگ عظیم دوئم کے اختتام پر ہٹلر، مسولینی اور ان کے اتحادی شکست سے دو چار ہو چکے تھے، اگرچہ ان لوگوں سے جنگ میں اس وقت کی برطانوی سامراج و عصر حاضر کا امریکی سامراج بھی برسر پیکار تھے مگر ہٹلر و مسولینی کو شکست سے دو چار کرنے والی سرخ فوج تھی جو دیس دیس، ملکوں ملکوں کے محنت کشوں پر مشتمل تھی۔
اس سرخ فوج کے پیش نظر فقط انسانیت کا دفاع تھا اور یہ فوج سرحدوں کی قیود سے بھی آزاد تھی جبھی تو یہ فوج چیکوسلواکیہ، اسپین، فرانس سب سے بڑھ کر محنت کشوں کی جنت ارضی سوویت یونین میں جنگی جنونیوں سے نبرد آزما تھی۔ اس فوج کو اس وقت بھی اپنی جیت کا پورا پورا یقین تھا جب ہٹلر کی فوجیں آدھے سوویت یونین پر قابض ہو چکی تھیں۔
بہرکیف جنگ کے اختتام پر برطانوی سامراج نے جو خوشی کے شادیانے بجائے تھے وہ عارضی خوشی ثابت ہوئے کیوں کہ سرخ فوج نہ صرف سوویت یونین کا دفاع کرنے میں کامیاب رہی تھی بلکہ اب یہ سرخ فوج طبقاتی جنگ میں مصروف تھی یہ وہ جنگ تھی جو دنیا بھر کے مقہور و مجبور لوگ سوویت یونین کی سرپرستی میں لڑ رہے تھے۔ یہی جنگ یا سبب تھی اس جنگ کی جو امریکا و سوویت یونین کے مابین شروع ہو چکی تھی جسے اپریل 1947ء میں امریکا کے ایک سیاسی مشیر برنارڈ باروخ نے سرد جنگ کا نام دیا تھا۔
یہ جنگ جون 1947ء میں باقاعدہ شروع ہو چکی تھی ان تمام حالات میں بھارت کے 40 کروڑ سے زائد باسی کیوں نہ متاثر ہوتے؟ چنانچہ بھارت کے باسی جو کہ سو برس ایسٹ انڈیا کمپنی 90 برس سے برٹش سرکار کی غلامی میں زندگی گزارنے پر مجبور تھے ان کے اندر بھی بیداری کی لہر پیدا ہو چکی تھی۔ یہ لہر جنگ عظیم دوئم کے بعد شدید تر ہو رہی تھی اس بیداری و بے چینی کے یوں تو بے شمار اسباب تھے مگر دو اسباب زیادہ توجہ کے مستحق تھے ایک تو راجپوتانہ حیدرآباد دکن، مدراس، بمبئی وغیرہ میں خشک سالی کے باعث فصلیں خراب ہوئی تھیں۔
دوسرا بحران صنعتی شعبے میں آیا تھا کیوں کہ جنگ عظیم دوئم کے بعد سامان حرب کی ضرورتیں ختم ہو چکی تھیں۔ اس لیے صنعتی شعبوں میں مزدوروں کی چھانٹیاں شروع ہو چکی تھیں جس کے باعث مزدوروں کی ایک بڑی تعداد سڑکوں پر سراپا احتجاج تھی چنانچہ 1945ء میں ایک محتاط اندازے کے مطابق آٹھ لاکھ مزدوروں نے ہڑتالوں میں حصہ لیا جب کہ برٹش سرکار نے جنگ کے خاتمے کے بعد بھارتی فوجیوں کو مصروف رکھنے کے لیے انڈونیشیا و ویت نام بھیجنے کا فیصلہ کیا تا کہ وہاں کی آزادی پسند قوتوں کا خاتمہ کیا جا سکے۔
برٹش سرکار کے اس فیصلے کے خلاف عوامی غیظ و غضب کر مد نظر رکھتے ہوئے کانگریس و مسلم لیگ نے 25 اکتوبر 1945ء کو یوم احتجاج منایا۔ اسی کے ساتھ جب سبھاش چندر بوس کی قیادت میں انڈین نیشنل آرمی کے جوانوں کا کورٹ مارشل لال قلعہ دہلی میں شروع ہوا تو پورے بھارت میں پر تشدد احتجاج شروع ہو گیا۔ واضح رہے کہ انڈین نیشنل آرمی کے فوجی وہ عناصر تھے جو برٹش سرکار سے بغاوت کر کے سبھاش چندر بوس کی قیادت میں متحد ہو چکے تھے اس احتجاج سے یہ ہوا کہ فوجیوں میں جذبہ حب الوطنی بیدار ہو گیا اور اپنے حقوق کے حصول کا احساس بھی۔
چنانچہ جنوری 1946ء میں بھارتی فضائیہ کے جوانوں نے یہ مطالبات برٹش سرکار کے سامنے رکھتے ہوئے ہڑتال کر دی کہ ان کی تنخواہیں انگریز ہوا بازوں کے مساوی کی جائیں۔ سلوک بھی انگریز ہوا بازوں جیسا کیا جائے یہ ہڑتالی 1500 سو کے لگ بھگ تھے۔ اس کے باعث فوج کے دیگر شعبے بھی شدید متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکے اور بحریہ کے جوان بھی اس ہڑتال میں شریک ہو گئے۔ احتجاج و تشدد کا دورانیہ طویل تر ہوتا جا رہا تھا 19 فروری 1946ء کے روز تین ہزار بحریہ کے جوانوں نے بمبئی کی اہم ترین و مصروف شاہراہ فلور فاؤنٹین پر مظاہرہ کرتے ہوئے آمد و رفت مکمل طور پر بند کر دی، اس موقعے پر پرتشدد کارروائیاں بھی دیکھنے میں آئیں۔ جس کے باعث تین انگریز افسر و چند پولیس والے زخمی ہوئے۔
بحریہ کے ان ہڑتالی جوانوں کو دیگر ہزاروں لوگوں کی ہمدردیاں بھی حاصل تھیں آج بحریہ کے جہاز جن کی تعداد 24 تھی بندرگاہ پر کھڑے رہے، کوئی بھی ملازم ان میں کام کرنے نہیں آیا تھا۔ 20 فروری 1946ء آج یہ ہڑتالی بمبئی میں چرچ گیٹ کے قریب مظاہرہ کر رہے تھے آج ان ہڑتالیوں کی تعداد 20 ہزار سے تجاوز کر چکی تھی۔
بعد ازاں یونیورسٹی کے اوول کے میدان میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے ان کے قائدین نے ہڑتالیوں کو پر امن رہنے کا کہا، باوردی بحریہ کے جوانوں نے امریکی مرکز اطلاعات کے سامنے بھی احتجاج کیا اور امریکی پرچم نذر آتش کر دیا۔ عام لوگ بھی احتجاج میں شریک ہو چکے تھے جب کہ بھارت کے دوسرے شہروں تک احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا ان شہروں میں دہلی، کراچی، کلکتہ، سرنگا پٹم وغیرہ تھے۔
21 فروری 1946ء آج برٹش سرکار کے وفاداروں نے ان مظاہرین پر گولیاں چلا دیں جو بمبئی ٹاؤن ہال کے سامنے مظاہرہ کر رہے تھے۔ حالات کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے بمبئی کے اکثر حساس مقامات پر فوج کو تعینات کر دیا گیا تھا اور چند جوشیلے ہڑتالیوں نے سرکاری اسلحہ خانہ سے اسلحہ لوٹنے کی بھی کوشش کی۔ دوسری جانب مظاہرین نے ان بیرکوں پر حملہ کر کے اپنے احتجاج کرنے والے اپنے ساتھیوں کو چھڑانے کی کوشش بھی کی۔
شام تک پورا بمبئی شہر دو بدو لڑائی کا منظر پیش کر رہا تھا جب کہ بحریہ کے کمانڈنگ افسر گاڈ فری نے ریڈیو کے ذریعے ہڑتالیوں سے خطاب کیا اور ان کو ہتھیار ڈالنے و اپنی جدوجہد ختم کرنے کا کہا۔ مزید یہ کہ ہڑتالیوں کے تمام مطالبات تسلیم کرنے سے بھی انکار کر دیا جب کہ فضائیہ کے وہ جوان بھی ہڑتال میں شریک ہو گئے جو اب تک اس تمام احتجاج سے لا تعلق تھے۔ ان جوانوں پر لاٹھی چارج بھی ہوا مگر انھوں نے ہڑتال ختم کرنے سے انکار کر دیا جب کہ ہڑتالیوں نے ایڈمرل گاڈ فری کے فلیگ شپ سمیت تمام جہازوں پر قبضہ کر لیا تھا ۔
22 فروری 1946ء کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا بھی فوجیوں کی حمایت میں مکمل طور پر میدان عمل میں آ چکی تھی بمبئی شہر میں مکمل ہڑتال کی گئی تمام کاروباری مراکز، اسکول، کالج و کارخانوں کے ساتھ ساتھ عام ٹریفک بھی بند رہا شہر بھر میں احتجاجی مظاہرے ہو رہے تھے شام کو ایک جلسہ عام ہوا جس سے ایس اے ڈانگے نے ایک پر جوش خطاب کیا یہ ایس اے ڈانگے بعد ازاں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے جنرل سیکریٹری بنے۔ اس موقعے پر برٹش سرکار نے قوت کا پر تشدد راستہ اپنایا جب کہ محنت کشوں، طالب علموں و عام شہریوں نے تشدد کا جواب تشدد سے دینے کا فیصلہ کیا۔
باوجود کہ یہ لوگ غیر تربیت یافتہ تھے، اسلحے کے استعمال سے عدم واقفیت رکھتے تھے۔ اگلے دو دن یعنی 23 فروری و 24 فروری 1946ء پورا بمبئی شہر بغاوت کا منظر پیش کر رہا تھا۔ عام تاثر یہ تھا کہ یہ احتجاج ایک انقلابی تحریک بن چکی ہے اور انقلاب اب برپا ہونے کو ہے۔ خون ریز بغاوت میں فقط دو روز میں 270 افراد نے جان کا نذرانہ پیش کیا جب کہ زخمی افراد کی تعداد 1700 سو تھی۔ 24 فروری 1946ء کو کانگریس و مسلم لیگ نے ہڑتال سے لا تعلق ہونے کا اعلان کر دیا۔
انھی ہڑتالوں یا بغاوت کا یہ نتیجہ نکلا کہ برٹش سرکار نے اپنا بوریا بسترگول کرنا شروع کر دیا تھا۔ کیونکہ برطانوی سامراج کا بھارت سے جانا ٹھہر چکا تھا۔ مگر اس وقت جو انقلابی فضا قائم ہو چکی تھی کانگریس و مسلم لیگ کی مہربانیوں کے باعث اس سے فائدہ نہ اٹھایا جا سکا۔ البتہ ایک انقلابی جدوجہد کرنے والے میر داد کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہو گی جو ان ہڑتالوں کو منظم کرنے میں پیش پیش تھا اور 23 فروری 1946ء کو بمبئی کی ایک سڑک پر گولی کا نشانہ بن کر شہید ہو گیا۔
شہادت کے وقت میر داد کے ہاتھوں میں لال جھنڈا تھا اور زبان پر انقلاب زندہ باد کا نعرہ۔ میر داد کا تعلق کیمبل پور (موجود نام اٹک) کی تحصیل حضرو کے گاؤں سے تھا آج ہم فروری 1946ء کے ان شہدا کو جنھوں نے انقلاب کی خاطر بمبئی کی سڑکوں پر جانوں کے نذرانے پیش کیے ان کی 69 ویں برسی پر خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔
اس سرخ فوج کے پیش نظر فقط انسانیت کا دفاع تھا اور یہ فوج سرحدوں کی قیود سے بھی آزاد تھی جبھی تو یہ فوج چیکوسلواکیہ، اسپین، فرانس سب سے بڑھ کر محنت کشوں کی جنت ارضی سوویت یونین میں جنگی جنونیوں سے نبرد آزما تھی۔ اس فوج کو اس وقت بھی اپنی جیت کا پورا پورا یقین تھا جب ہٹلر کی فوجیں آدھے سوویت یونین پر قابض ہو چکی تھیں۔
بہرکیف جنگ کے اختتام پر برطانوی سامراج نے جو خوشی کے شادیانے بجائے تھے وہ عارضی خوشی ثابت ہوئے کیوں کہ سرخ فوج نہ صرف سوویت یونین کا دفاع کرنے میں کامیاب رہی تھی بلکہ اب یہ سرخ فوج طبقاتی جنگ میں مصروف تھی یہ وہ جنگ تھی جو دنیا بھر کے مقہور و مجبور لوگ سوویت یونین کی سرپرستی میں لڑ رہے تھے۔ یہی جنگ یا سبب تھی اس جنگ کی جو امریکا و سوویت یونین کے مابین شروع ہو چکی تھی جسے اپریل 1947ء میں امریکا کے ایک سیاسی مشیر برنارڈ باروخ نے سرد جنگ کا نام دیا تھا۔
یہ جنگ جون 1947ء میں باقاعدہ شروع ہو چکی تھی ان تمام حالات میں بھارت کے 40 کروڑ سے زائد باسی کیوں نہ متاثر ہوتے؟ چنانچہ بھارت کے باسی جو کہ سو برس ایسٹ انڈیا کمپنی 90 برس سے برٹش سرکار کی غلامی میں زندگی گزارنے پر مجبور تھے ان کے اندر بھی بیداری کی لہر پیدا ہو چکی تھی۔ یہ لہر جنگ عظیم دوئم کے بعد شدید تر ہو رہی تھی اس بیداری و بے چینی کے یوں تو بے شمار اسباب تھے مگر دو اسباب زیادہ توجہ کے مستحق تھے ایک تو راجپوتانہ حیدرآباد دکن، مدراس، بمبئی وغیرہ میں خشک سالی کے باعث فصلیں خراب ہوئی تھیں۔
دوسرا بحران صنعتی شعبے میں آیا تھا کیوں کہ جنگ عظیم دوئم کے بعد سامان حرب کی ضرورتیں ختم ہو چکی تھیں۔ اس لیے صنعتی شعبوں میں مزدوروں کی چھانٹیاں شروع ہو چکی تھیں جس کے باعث مزدوروں کی ایک بڑی تعداد سڑکوں پر سراپا احتجاج تھی چنانچہ 1945ء میں ایک محتاط اندازے کے مطابق آٹھ لاکھ مزدوروں نے ہڑتالوں میں حصہ لیا جب کہ برٹش سرکار نے جنگ کے خاتمے کے بعد بھارتی فوجیوں کو مصروف رکھنے کے لیے انڈونیشیا و ویت نام بھیجنے کا فیصلہ کیا تا کہ وہاں کی آزادی پسند قوتوں کا خاتمہ کیا جا سکے۔
برٹش سرکار کے اس فیصلے کے خلاف عوامی غیظ و غضب کر مد نظر رکھتے ہوئے کانگریس و مسلم لیگ نے 25 اکتوبر 1945ء کو یوم احتجاج منایا۔ اسی کے ساتھ جب سبھاش چندر بوس کی قیادت میں انڈین نیشنل آرمی کے جوانوں کا کورٹ مارشل لال قلعہ دہلی میں شروع ہوا تو پورے بھارت میں پر تشدد احتجاج شروع ہو گیا۔ واضح رہے کہ انڈین نیشنل آرمی کے فوجی وہ عناصر تھے جو برٹش سرکار سے بغاوت کر کے سبھاش چندر بوس کی قیادت میں متحد ہو چکے تھے اس احتجاج سے یہ ہوا کہ فوجیوں میں جذبہ حب الوطنی بیدار ہو گیا اور اپنے حقوق کے حصول کا احساس بھی۔
چنانچہ جنوری 1946ء میں بھارتی فضائیہ کے جوانوں نے یہ مطالبات برٹش سرکار کے سامنے رکھتے ہوئے ہڑتال کر دی کہ ان کی تنخواہیں انگریز ہوا بازوں کے مساوی کی جائیں۔ سلوک بھی انگریز ہوا بازوں جیسا کیا جائے یہ ہڑتالی 1500 سو کے لگ بھگ تھے۔ اس کے باعث فوج کے دیگر شعبے بھی شدید متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکے اور بحریہ کے جوان بھی اس ہڑتال میں شریک ہو گئے۔ احتجاج و تشدد کا دورانیہ طویل تر ہوتا جا رہا تھا 19 فروری 1946ء کے روز تین ہزار بحریہ کے جوانوں نے بمبئی کی اہم ترین و مصروف شاہراہ فلور فاؤنٹین پر مظاہرہ کرتے ہوئے آمد و رفت مکمل طور پر بند کر دی، اس موقعے پر پرتشدد کارروائیاں بھی دیکھنے میں آئیں۔ جس کے باعث تین انگریز افسر و چند پولیس والے زخمی ہوئے۔
بحریہ کے ان ہڑتالی جوانوں کو دیگر ہزاروں لوگوں کی ہمدردیاں بھی حاصل تھیں آج بحریہ کے جہاز جن کی تعداد 24 تھی بندرگاہ پر کھڑے رہے، کوئی بھی ملازم ان میں کام کرنے نہیں آیا تھا۔ 20 فروری 1946ء آج یہ ہڑتالی بمبئی میں چرچ گیٹ کے قریب مظاہرہ کر رہے تھے آج ان ہڑتالیوں کی تعداد 20 ہزار سے تجاوز کر چکی تھی۔
بعد ازاں یونیورسٹی کے اوول کے میدان میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے ان کے قائدین نے ہڑتالیوں کو پر امن رہنے کا کہا، باوردی بحریہ کے جوانوں نے امریکی مرکز اطلاعات کے سامنے بھی احتجاج کیا اور امریکی پرچم نذر آتش کر دیا۔ عام لوگ بھی احتجاج میں شریک ہو چکے تھے جب کہ بھارت کے دوسرے شہروں تک احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا ان شہروں میں دہلی، کراچی، کلکتہ، سرنگا پٹم وغیرہ تھے۔
21 فروری 1946ء آج برٹش سرکار کے وفاداروں نے ان مظاہرین پر گولیاں چلا دیں جو بمبئی ٹاؤن ہال کے سامنے مظاہرہ کر رہے تھے۔ حالات کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے بمبئی کے اکثر حساس مقامات پر فوج کو تعینات کر دیا گیا تھا اور چند جوشیلے ہڑتالیوں نے سرکاری اسلحہ خانہ سے اسلحہ لوٹنے کی بھی کوشش کی۔ دوسری جانب مظاہرین نے ان بیرکوں پر حملہ کر کے اپنے احتجاج کرنے والے اپنے ساتھیوں کو چھڑانے کی کوشش بھی کی۔
شام تک پورا بمبئی شہر دو بدو لڑائی کا منظر پیش کر رہا تھا جب کہ بحریہ کے کمانڈنگ افسر گاڈ فری نے ریڈیو کے ذریعے ہڑتالیوں سے خطاب کیا اور ان کو ہتھیار ڈالنے و اپنی جدوجہد ختم کرنے کا کہا۔ مزید یہ کہ ہڑتالیوں کے تمام مطالبات تسلیم کرنے سے بھی انکار کر دیا جب کہ فضائیہ کے وہ جوان بھی ہڑتال میں شریک ہو گئے جو اب تک اس تمام احتجاج سے لا تعلق تھے۔ ان جوانوں پر لاٹھی چارج بھی ہوا مگر انھوں نے ہڑتال ختم کرنے سے انکار کر دیا جب کہ ہڑتالیوں نے ایڈمرل گاڈ فری کے فلیگ شپ سمیت تمام جہازوں پر قبضہ کر لیا تھا ۔
22 فروری 1946ء کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا بھی فوجیوں کی حمایت میں مکمل طور پر میدان عمل میں آ چکی تھی بمبئی شہر میں مکمل ہڑتال کی گئی تمام کاروباری مراکز، اسکول، کالج و کارخانوں کے ساتھ ساتھ عام ٹریفک بھی بند رہا شہر بھر میں احتجاجی مظاہرے ہو رہے تھے شام کو ایک جلسہ عام ہوا جس سے ایس اے ڈانگے نے ایک پر جوش خطاب کیا یہ ایس اے ڈانگے بعد ازاں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے جنرل سیکریٹری بنے۔ اس موقعے پر برٹش سرکار نے قوت کا پر تشدد راستہ اپنایا جب کہ محنت کشوں، طالب علموں و عام شہریوں نے تشدد کا جواب تشدد سے دینے کا فیصلہ کیا۔
باوجود کہ یہ لوگ غیر تربیت یافتہ تھے، اسلحے کے استعمال سے عدم واقفیت رکھتے تھے۔ اگلے دو دن یعنی 23 فروری و 24 فروری 1946ء پورا بمبئی شہر بغاوت کا منظر پیش کر رہا تھا۔ عام تاثر یہ تھا کہ یہ احتجاج ایک انقلابی تحریک بن چکی ہے اور انقلاب اب برپا ہونے کو ہے۔ خون ریز بغاوت میں فقط دو روز میں 270 افراد نے جان کا نذرانہ پیش کیا جب کہ زخمی افراد کی تعداد 1700 سو تھی۔ 24 فروری 1946ء کو کانگریس و مسلم لیگ نے ہڑتال سے لا تعلق ہونے کا اعلان کر دیا۔
انھی ہڑتالوں یا بغاوت کا یہ نتیجہ نکلا کہ برٹش سرکار نے اپنا بوریا بسترگول کرنا شروع کر دیا تھا۔ کیونکہ برطانوی سامراج کا بھارت سے جانا ٹھہر چکا تھا۔ مگر اس وقت جو انقلابی فضا قائم ہو چکی تھی کانگریس و مسلم لیگ کی مہربانیوں کے باعث اس سے فائدہ نہ اٹھایا جا سکا۔ البتہ ایک انقلابی جدوجہد کرنے والے میر داد کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہو گی جو ان ہڑتالوں کو منظم کرنے میں پیش پیش تھا اور 23 فروری 1946ء کو بمبئی کی ایک سڑک پر گولی کا نشانہ بن کر شہید ہو گیا۔
شہادت کے وقت میر داد کے ہاتھوں میں لال جھنڈا تھا اور زبان پر انقلاب زندہ باد کا نعرہ۔ میر داد کا تعلق کیمبل پور (موجود نام اٹک) کی تحصیل حضرو کے گاؤں سے تھا آج ہم فروری 1946ء کے ان شہدا کو جنھوں نے انقلاب کی خاطر بمبئی کی سڑکوں پر جانوں کے نذرانے پیش کیے ان کی 69 ویں برسی پر خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔