ضیا الدین آغا ایک شفیق استاد
انسان اپنی پہلی ملازمت اور پہلے افسر کے ساتھ پہلا دن ہمیشہ یاد رکھتا ہے،
زندگی میں کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ کاغذ اور قلم لے کر کئی گھنٹے تک بیٹھنا پڑا ہو اور سمجھ میں نہ آ رہا ہو کہ کیا لکھا جائے اور کس طرح آغاز کیا جائے۔ 25 سال بطور پی آر او کام کرنے کے دوران ایک بار بھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی خبر کو بنانے یا مضمون کا آغاز کرنے میں ایک منٹ بھی لگا ہو، لیکن ضیاالدین آغا کے بارے میں لکھنے کا ارادہ کیے ہوئے کئی گھنٹے گزر گئے لیکن سمجھ میں نہیں آ رہا کہ آغاز کہاں سے کروں۔
ان کی شخصیت محکمہ اطلاعات سندھ میں 1989ء اور اس کے بعد آنے والے افسران کے لیے ایک سایہ دار درخت کی سی تھی جو ہمہ وقت ہمیں سکھانے پر آمادہ رہتی تھی۔ انسان اپنی پہلی ملازمت اور پہلے افسر کے ساتھ پہلا دن ہمیشہ یاد رکھتا ہے، کیونکہ یہ ایک ایسا دن ہوتا ہے جب اس کی عملی زندگی کی شروعات ہو رہی ہوتی ہے۔
گریجویشن کے بعد مجھے جولائی 1989ء میں جب محکمہ اطلاعات سندھ میں بطور انفارمیشن آفیسر عملی زندگی میں قدم رکھنے کا موقع ملا تو پہلے ہی قدم پر محترم ضیا الدین آغا کی صورت میں ایک انتہائی محترم، قابل اور اپنے شعبہ کے ماہر افسر کی ماتحتی کا اعزاز حاصل ہوا، آفر لیٹر اور میڈیکل کے دوران کے 2، 3 دن جب ان کے بارے میں معلومات حاصل ہوئیں تو پتہ چلا کہ وہ ایک نہایت سخت قسم کے افسر ہیں۔
جو انکار سننا قطعاً پسند نہیں کرتے اور ہر معاملہ میں اپنا حکم چلاتے ہیں لیکن ان کے ساتھ کام کرنے کے 15،16 سال کے دوران کبھی ایسا نہیں ہوا کہ انھوں نے میری بات نہ سنی ہو اور اپنی ہی بات منوانے پر اصرار کیا ہو، ڈائریکٹر پریس انفارمیشن کے طور پر تمام پی آر اوز ان کے ماتحت تھے وہ ان کا بالکل اپنے بچوں کی طرح خیال رکھتے تھے کئی بار ایسا ہوا کہ ہم اپنے پیشہ وارانہ فرائض کی ادائیگی کے لیے وزرا کے اسٹاف کی جانب سے سہولیات نہ دیے جانے پر واپس آئے لیکن انھوں نے ہر فورم پر ہمیں سپورٹ کیا اور کبھی کسی کے خلاف کوئی تحریری کارروائی نہیں کی۔
سرکاری افسران اس بات سے بہ خوبی واقف ہیں کہ کسی بھی افسر کی پرسنل فائل یا اے سی آر میں وارننگ، اظہار وجوہ کے نوٹس کی کیا اہمیت ہوتی ہے، لیکن آغا صاحب اس کے قائل نہیں تھے کہ افسران کو تحریری طور پر سزا دی جائے، جو کچھ کہنا ہوتا تھا وہ افسر کو اپنے سامنے بٹھا کر کہہ دیتے تھے اور پھر چائے منگوا کر بات ختم کر دیتے تھے۔
ضیا الدین آغا خود اعتمادی کا پیکر تھے، کسی سے نہیں ڈرتے تھے، اپنی ذات میں ایک انجمن تھے وہ ایک بہترین منتظم، تعلقات عامہ کے ماہر، انسانی نفسیات پر عبور اور اپنے افسران کی صلاحیتوں کا ادراک رکھنے والے افسر تھے جو کہ کسی بھی مشکل صورتحال کا حل فوراً نکالنے میں ملکہ رکھتے تھے، مختصر نوٹس پر پریس کانفرنس کا انعقاد کرنا ہو، کوئی خبر بریک کرنی ہو، کسی خبر کو چھپنے سے روکنا ہو۔
کسی خبر کو نمایاں جگہ دلانی ہو، ضیا الدین آغا کا بس ایک فون کافی ہوتا تھا، کیونکہ میڈیا میں ان کے بے شمار ذاتی دوست موجود تھے وہ وزرا کو بتایا کرتے تھے کہ انھیں کس خبر پر کیا ایکشن لینا چاہیے، کس ایکشن پر پریس کانفرنس کرنی چاہیے یا کس جگہ کا اچانک دورہ کرنا چاہیے، کئی وزرا سے ان کی ذاتی دوستیاں تھیں لیکن انھوں نے اپنے ذاتی فائدے کے لیے کبھی کسی سے نہیں کہا کیونکہ نسلاً پٹھان تھے اور پٹھان کبھی کسی سے سوال نہیں کرتے۔
یہ بات بالکل درست ہے کہ آغا صاحب سے میری ہمیشہ اچھے طریقے سے بنی کیونکہ وہ محنتی اور سیکھنے پر آمادہ افسران کو بہت پسند کرتے تھے اور کام چور افسران اور ملازمین انھیں سخت ناپسند تھے۔ میرا ان سے رشتہ افسر اور ماتحت والا بالکل نہیں تھا بلکہ وہ میرے لیے ایک شفیق اور محترم استاد تھے جنھوں نے مجھے نہ صرف قلم پکڑنا سکھایا بلکہ تعلقات عامہ کی تربیت بھی کی۔ محکمہ اطلاعات میں ان کے زمانے کے آج جتنے افسر موجود ہیں وہ سب کسی نہ کسی طرح ان کے زیربار ہیں۔
وہ ہاتھ کے نہایت سخی تھے ضرورت مند اسٹاف کی ہر ممکن اور پردہ داری رکھتے ہوئے مدد کرتے تھے، میں اس بات کا خود گواہ ہوں کہ کئی صحافیوں کی انھوں نے بُرے وقتوں میں ہر ممکن مالی مدد کی، ان کی شخصیت ایسی بارعب تھی کہ ہر کوئی ان سے بے تکلف نہیں ہو سکتا تھا لیکن وہ دوستوں کے دوست تھے افسوس کی بات یہ ہے کہ جب ان پر آزمائش کا وقت آیا تو ان دوستوں نے ان کا ساتھ نہیں دیا اور انھوں نے ملازمت سے معطلی کا عرصہ نہایت مشکل سے گزارا، اس دوران جب بھی ان سے ملاقات ہوئی انھوں نے کبھی اپنے ان بے وفا دوستوں کا تذکرہ نہیں کیا بلکہ ہمیشہ ان کے لیے اچھے الفاظ ہی کہے۔
ضیا الدین آغا صاحب کو مرحوم لکھتے ہوئے قلم کانپ رہا ہے لیکن بہ حیثیت مسلمان ہم سب کا عقیدہ ہے کہ جو دنیا میں آیا ہے اسے اپنے رب کے حضور پیش ہونا ہے۔ مجھے بھرپور یقین ہے کہ ضیاالدین آغا کامل یقین کے ساتھ مالک کائنات کے سامنے پیش ہوئے ہونگے کیونکہ انھوں نے کبھی کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کی۔
اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے (آمین)