پاک چا ئنا اکنامک کوریڈور سیاست کی نذر

ڈریگن معیشت اگر دنیا کی پہلی نہیں تو دوسری بڑی معیشت بلاشک و شبہ بن چکی ہے۔

ڈریگن معیشت اگر دنیا کی پہلی نہیں تو دوسری بڑی معیشت بلاشک و شبہ بن چکی ہے۔ ایشیاء، افریقہ اور امریکا میں سرمایہ کاری کے حوالے سے بڑا جارحانہ انداز لیے ہوئے ہے۔ دنیا کے مختلف ملکوں میں انفرا اسٹرکچر اور انرجی سیکٹر میں سیکڑوں ارب کی سرمایہ کاری کر رہی ہے جنکی اپنی ایک اسٹرٹیجک اہمیت بھی ہے۔

بعض ماہرین اسے چین کا مستقبل میں اپنے کو کسی بھی ممکنہ گھیراؤ سے بچانے اور تجارتی راستے کھلے رکھنے کے لیے نیپال، بنگلہ دیش، سری لنکا، پاکستان اور برما وغیرہ میں بندرگاہوں کی تعمیر اور سمندری سہولتوں کو حاصل کرنے کی کڑی سے منسلک سمجھتے ہیں۔ مغربی ماہرین ان بندرگاہوں اور سہولتوں کو موتیوں کی لڑی "String of pearls" کہتے ہیں جب کہ چین اسے میری ٹائم روٹ کا نام دیتا ہے۔ بھارت اسے اپنے گھیرنے کی چائنیز پالیسی سمجھتا ہے۔

حقائق جو بھی ہوں چین دنیا میں ایک نئی سپر پاور کی حیثیت سے تیزی سے ابھر رہا ہے، گوادر بندرگاہ اور پاکستان کی اہمیت اس میں کہیں زیادہ ہے۔ گوادر کے راستے ایک تو چین کو بحیرہ عرب تک رسائی مل جائے گی دوسری طرف متبادل راستہ مل جائے گا۔ مشرق وسطیٰ کی تیل کا چین تک پہنچنے کا راستہ 125000کلومیٹر تک گھٹ جائے گا۔ چین اپنے مغربی حصے یعنی سنکیانک کو پچھلی دہائی سے ترقی یافتہ بنانے کے لیے سیکڑوں ارب ڈالر کی سرمایہ کاری، انفرااسٹرکچر، صنعتی اور انرجی کے وسائل کو بروئے کار لانے کے لیے کر رہا ہے۔

یہاں پر چین انتہا پسند ایغور لوگوں کی کمر بھی توڑنا چاہتا ہے کیونکہ اگر لوگ خوشحال ہو گئے تو انتہا پسندوں کی اپیل ان پر کم اثر کرے گی اسی ایغور مسئلے کے ڈانڈے ہمارے قبائلی علاقوں اور خیبرپختون خوا تک پھیلے ہوئے ہیں۔ فاٹا میں ایغور مشرقی ترکستان فریڈم مومنٹ کا مرکز بھی رہا ہے۔ چین یہ بھی سمجھتا ہے کہ پاکستان کے ان علاقوں میں اگر اقتصادی سرگرمیاں بڑے پیمانے پر شروع ہوں، اس سے لوگوں کی مالی حالت بہتر ہو تو بڑی حد تک انتہاپسندی کی بیخ کنی کی جا سکتی ہے۔

اس لیے چین کے 45.6 ملین ڈالر کی انوسٹمنٹ میں یہ بھی بہت بڑا فیکٹر ہے، چین 33.8 بلین ڈالر، توانائی اور 11.8 ڈالر بنیادی ڈھانچے پر 2017ء تک خرچ کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے۔ ان میں سرِفہرست پاک چائنا اقتصادی کوریڈور ہے جسے کاشغر سے خیبر پختون خوا، فاٹا، ژوب اور کوئٹہ سے گزرتے ہوئے پنجگور، تربت اور گوادر پہنچانا تھا لیکن اب حکومت اس روٹ کو تبدیل کر کے اسے ملتان اور لاہور کے موٹروے سے منسلک کر رہی ہے۔

وفاقی حکومت خود بھی اس کا اعتراف کرتی ہے لیکن بہانہ یہ بنایا جا رہا ہے کہ پہلے سے موجود روٹس سے اسے 2017ء تک ملا دیا جائے گا۔ بعد میں اس دوسرے روٹ پر بھی کام کیا جائے گا۔ گویا اکنامک روٹ نہ ہوا کسی گاؤں کا لنک روڈ ہوا جو بعد میں مکمل کیا جائے گا۔ اب اکنامک روٹ روڈ کے ساتھ ریلوے لائن بھی بچائی جائے گی، تیل اور گیس کی پائپ لائنز ہونگی، ریفائنریز ہوں گی اور آٹھ صنعتی زون مختلف شہروں پر بنائے جائیں گے۔


جیسا کہ پہلے عرض کر چکے ہیں کہ 45.6 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری چین کرے گا۔ تو اس کی کیا گارنٹی ہے کہ بعد میں اتنی کثیر سرمایہ کاری کوئی کرے گا۔ ہم اس کے قطعاً مخالف نہیں کہ کہیں اور کوئی روٹ نہ بنیں لیکن حضور! ترجیحات، وقت، سرمائے اور آپ کے ارادے کی بات ہوتی ہے اور بدقسمتی سے ہم ان چاروں فیکٹرز میں مفلس واقع ہوئے ہیں، پھر اعتماد کی بات بھی ہوتی ہے تینوں چھوٹے صوبوں کی اس حوالے سے بہت تلخ یادیں ہیں۔

چینی حکومت کی ناپسندیدگی کے باوجود وفاقی حکومت کا اس نئے روٹ پر اصرار سمجھ سے بالاتر ہے۔ اس نئے منصوبے کو نہ تو پارلیمنٹ میں لایا گیا ہے اور نہ ہی مشترکہ مفادات کی کونسل سے اس کی منظوری لینے کا ارادہ ہے، باوجود اس کے کہ آل پارٹیز کانفرنس جس میں ملک کی تمام قابلِ ذکر جماعتیں شریک تھیں نے مل کر اس کی مخالفت کی ہے اور اسے وفاق پر حملہ تصور کیا ہے۔ خیبر پختون خوا کی اسمبلی نے بھی ایک متفقہ قرار داد میں روٹ کی تبدیلی کی مخالفت کی ہے۔

جس میں حکمران پارٹی کا خبیرپختون خوا صوبے کا چیپٹر بھی شامل ہے۔ یہ جو حکومت مخالفین پر بے سروپا الزامات لگا رہی ہے کہ کسی کے کہنے پر یا سازش کے تحت اس نئے روٹ کی مخالفت کی جا رہی ہے جس سے منصوبے کے التواء اور پاک چین تعلقات کے خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔

اگر یہ منصوبہ التواء میں چلا جاتا ہے اور پاک چین تعلقات میں دراڑیں پڑتی ہیں تو یہ حکومت کی ضد، انا اور ملک گیر سوچ نہ رکھنے کی وجہ سے ہو گا، نا کہ اصل روٹ بحال کرنے پر زور دینے سے۔ کیونکہ اتنے بڑے پروجیکٹ اور اتنی بڑی سرمایہ کاری جب چین کی طرف سے ہو تو اس کے تحفظات کو بھی دور کرنا ہو گا۔ اگر نئے روٹ سے گوادر اور خنجراب کا فاصلہ قریباً 700 کلومیٹر بڑھ جاتا ہے یا دوسرے لفظوں میں گوادر سے خنجراب پہنچنے میں تک 2 دنوں کا اضافی وقت اور سرمایہ لگتا ہو، پاکستان میں وہ علاقے جو انتہاپسندی کے لیے زرخیز واقع ہوئے ہیں۔

ان میں شدت پسندی کی ٹھوس بنیادوں پر اقتصادی حوالوں سے مقابلہ نہ ہو، جس سے افغانستان میں سیکڑوں ارب ڈالر چین کی سرمایہ کاری بھی خطرے میں پڑ جائے اور اتنے لوگوں کی مخالفت ہو تو چین جو کہ کسی خاص علاقے یا پارٹی کا نہیں بلکہ پاکستان اور اس کے عوام کی دوستی کا دم بھرتا ہو، ایسی صورت میں کیا چین اس متنازع پروجیکٹ پر سرمایہ کاری کرے گا یا گڈانی کے کول انرجی کی طرح اسے بھی ترک کر دے گا۔

ان سوالات پر وفاقی حکومت کو ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کرنا پڑے گا، ورنہ یہ منصوبہ جو پورے خطے کی قسمت بدلنے والا Fate changer ہے کہیں ہاتھ سے نہ نکل جائے تو یہ ہماری روایتی نااہلی اور بڑا پروجیکٹ ڈھنگ سے مکمل نہ کرنے کا ایک اور ثبوت ہو گا۔ بعض بین الاقوامی ماہرین ان مذکورہ بالا مشکلات (خود پیدا کردہ) سے پہلے ہی اتنے بڑی سرمایہ کاری اتنے کم عرصے میں (2017)تک مکمل کرنے پر ہماری تکنیکی اور کاروباری صلاحیت پر شک کا اظہارکر رہے ہیں۔

ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں
Load Next Story