صحت جسم میں پگھل جانے والی الیکٹرونکس ڈیوائس

تحقیق کے مطابق یہ Device اپنا کام سرانجام دینے کے بعد جسم کے اندر پگھلائی جا سکے گی۔

تحقیق کے مطابق یہ Device اپنا کام سرانجام دینے کے بعد جسم کے اندر پگھلائی جا سکے گی۔ فوٹو: فائل

امریکی سائنس دانوں نے ایک ایسی نہایت مہین الیکٹرونکس ڈیوائس تیار کر لی ہے جس کے ذریعے بہت سے طبی کاموں میں مدد لی جا سکے گی۔

تحقیق کے مطابق یہ Device اپنا کام سرانجام دینے کے بعد جسم کے اندر پگھلائی جا سکے گی۔ اس ٹیکنالوجی کو جسم کے اندر موجود کسی زخم کوحدت (Heat) پہنچانے کے لئے استعمال کیا جا چکا ہے تاکہ اسے بیکٹیریا کے انفیکشن سے بچایا جا سکے۔

اس ڈیوائس کو سیلیکون اور میگنیشیم آکسائیڈ کی دھاتوں سے بنایا گیا ہے اور اسے سلک (Silk) کی ایک حفاظتی تہہ میں رکھا جاتا ہے۔ الیکٹرونکس کی یہ قسم ٹرانزٹ (عارضی) الیکٹرونکس کہلاتی ہے اور ان ماہرین نے متعارف کرائی ہے جو اس سے پہلے الیکٹرونک ٹیٹوز (حساس آلہ جو جسم کی کسی خاص سرگرمی کو ریکارڈ کرتا ہے اور جلد کے ساتھ سکڑ یا پھیل سکتا ہے) بنا چکے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ انہوں نے یہ پگھلنے والی ڈیوائس روایتی الیکٹرونکس کے ''مخالف دھاتوں کے پول'' کے اصول پر بنائی ہے جو کہ تحلیل نہیں ہوتے اور قائم رہتے ہیں۔

الیکٹرونکس ڈیوائس کو آہستہ آہستہ پگھلانے کا عمل دو سائنسی پیش رفتوں کی وجہ سے ممکن ہو سکا ہے۔ ایک تو ڈیوائس کو پورے کا پورا پگھلانے کے عمل میں کامیابی اور دوسرا اس پگھلانے کے عمل کے دوران ایک پرت کے ذریعے اس عمل پر کنٹرول حاصل کرنا۔

سیلیکون پانی میں پگھل جاتی ہے لیکن روایتی الیکٹرونکس میں دھاتوں کا جو سائز استعمال کیا جاتا ہے' وہ اپنی شکل میں قائم رہتی ہیں۔ اس لئے ماہرین نے سیلیکون کی بہت زیادہ مہین پرتیں استعمال کی ہیں جسے مہین جھلی یا (Nenomembrane) کہتے ہیں اور یہ چند دنوں یا ہفتوں میں پانی میں تحلیل ہو جاتی ہے۔

اس کے تحلیل ہونے کی رفتار کو سلک (ریشم) کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے جسے ریشم کے کیڑوں سے حاصل کیا جاتا ہے جو کہ تحلیل ہو کر دوبارہ پہلی شکل اختیار کر لیتا ہے۔


پروفیسر فیورنزو او مینٹو کا کہنا ہے کہ نرانزٹ الیکٹرونکس' موجودہ ڈیوائسز کی نسبت بہت زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں' لیکن وہ ایک معین وقت تک اپنے ماحول میں اچھی طرح جذب ہو جاتے ہیں جو کہ کچھ منٹوں سے برسوں تک کے دورانیے پر مشتمل ہو سکتا ہے۔

مستقبل کے امکانات

اس پر لیبارٹری میں مختلف اقسام کے تجربے کئے جا چکے ہیں جس میں ایک 64 پکسل کیمرہ ' درجہ حرارت ریکارڈ کرنے والے حساس آلات اور شمسی سیل وغیرہ شامل ہیں۔

مکینیکل سائنس اور انجینئرنگ کے پروفیسر جان روجرز کا کہنا ہے : ''یہ ایک نیا تصور ہے اس لئے مستقبل میں اس کے بہت سے امکانات ہو سکتے ہیں' جن میں سے اکثر کی شاید ابھی ہم شناخت بھی نہ کر سکے ہوں۔ اس کا ایک ممکنہ استعمال تو جراحت کے بعد زخموں کے حوالے سے کیا جا سکتا ہے۔ اس کو جسم میں داخل کرنے کی ایک بڑی وجہ انفیکشن ہے۔ آپریشن کے وقت ٹانکا لگانے سے پہلے جسم میں ایک ایسی ڈیوائس داخل کی جا سکتی ہے تاکہ زخموں کو انفیکشن سے بچایا جا سکے لیکن اس کی ضرورت جراحت کے بعد تقریباً دو ہفتوں تک ہو گی جو کہ زیادہ پیچیدہ وقت ہوتا ہے۔''

ماہرین کی ٹیم نے اس تجربے کو پہلے چوہوں پر کیا ہے جس میں ان کے جسم میں ڈیوائس داخل کر کے زخموں کو حدت پہنچائی گئی ہے تاکہ ان کو درست کیا جا سکے۔ اس طرح کے خیالات بھی گردش کر رہے ہیں کہ اس ٹیکنالوجی کو جسم کے اندر ادویات داخل کرنے یا دماغ اور دل کی کارکردگی پر نظر رکھنے کے لئے حساس آلات لگانے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

اس ٹیکنالوجی کے ذریعے دوسری چیزوں مثلاً کمپیوٹر یا موبائل فونز کو بھی زیادہ ماحول دوست بنایا جا سکتا ہے۔
Load Next Story