آیندہ انتخابات کے نتیجے میں اتحادی حکومت قائم ہوگی
پیپلز پارٹی کے سنیئر راہ نما اور سابق وفاقی وزیر، پروفیسر این ڈی خان سے ایک مکالمہ۔
س۔ آیندہ انتخابات میں آپ پیپلزپارٹی کو کہاں دیکھ رہے ہیں؟
ج۔ میرے خیال میں اگلے انتخابات میں سیٹوں کی تعداد کے لحاظ سے پیپلزپارٹی اکثریتی جماعت کے طور پر سامنے آئے گی، البتہ پارلیمنٹ میں کسی جماعت کو واضح اکثریت حاصل نہیں ہوگی، جس کے نتیجے میں اتحادی حکومت قائم ہوگی۔ پیپلزپارٹی انتخابی الائنس کے ساتھ الیکشن لڑے گی، جس میں ممکنہ طور پر ایم کیو ایم اور اے این پی شامل ہوں گے۔ اپوزیشن بھی الائنس کی صورت سامنے آئے گی۔
س۔ آپ کے نزدیک سوئس حکام کو خط لکھنے کے فیصلہ کے بعد کیا حکومت اور عدلیہ کے تصادم کا خطرہ ٹل گیا ہے؟
ج۔ پیپلزپارٹی عدالتوں کا احترام کرتی ہے۔ پارٹی نے کل بھی عدالتی احکامات بھی عمل کیا، اور آیندہ بھی کرے گی۔ میرے خیال میں مستقبل میں کوئی بحران نہیں ہوگا، نہ ہی مجھے اداروں کے درمیان تصادم نظر آتا ہے۔
س۔ سندھ میں بلدیاتی نظام کے حوالے سے آپ کے اتحادیوں میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ کیا اِن حالات میں یہ نظام عوام کے لیے سودمند ثابت ہوگا؟
ج۔ دیکھیں، یہ نظام کسی ایک جماعت کے لیے نافذ نہیں کیا گیا۔ صوبائی اسمبلی میں بل بھاری اکثریت سے پاس کیا گیا ہے۔ یہی جمہوری طریقہ ہے۔ یہ تاثر غلط ہے کہ اس کے نتیجے میں تصادم جنم لے گیا، بل کہ مخالفت کرنے کے بجائے اگر مخالفین ترامیم کا بل پیش کرتے، تو اُس پر سیشن ہوتا، لیکن یہ طریقہ نہیں اختیار کیا گیا۔
س۔ سیاسی جماعتوں میں انتخابات کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
س۔ سیاسی جماعتوں میں انتخابات ہونے چاہییں، لیکن زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے، جب تک جمہوری کلچر اور جماعتی نظام مستحکم نہیں ہوجاتا، ہمیں انتظار کرنا پڑے گا۔ 86ء میں پیپلزپارٹی نے جماعت کی سطح پر انتخابات کروائے تھے، لیکن اس پر فوجی حکومت نے اثرانداز ہونے کی کوشش کی، جس کی وجہ سے حالات بگڑ گئے۔ مجھے امید ہے کہ حالیہ انتخابات کے بعد پارٹی کی سطح پر انتخابات کروائے جائیں گے۔
س۔ ایک عام تاثر ہے کہ آج پیپلزپارٹی کے سنیئر راہ نما غیرفعال ہوگئے ہیں، نئے کارکنان نے عہدے سنبھال لیے ہیں، اس بابت کیا کہنا ہے؟
ج۔ یہ تاثر غلط ہے۔ اس وقت پارٹی میں سینئر کارکن مثلاً مخدوم امین فہیم، خورشید اور قائم علی شاہ فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔ دیکھیں، سنیئرز کا احترام کرنا چاہیے، اُن کے تجربے سے استفادہ کرنا چاہیے، لیکن ساتھ ہی نئے لوگوں کو بھی موقع دینا چاہیے۔ اگر سنیئر کارکنان مستقل عہدوں پر بیٹھے رہیں گے، تو ارتقائی عمل رک جائے گا۔
س۔ 71 برس کی عمر میں بھی آپ خاصے فعال اور متحرک ہیں، صحت کا راز کیا ہے؟
ج۔ پہلے تو یہی کہوں گا کہ یہ اﷲ کا فضل ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر آپ زندگی میں نظم و ضبط رکھیں، اِس بات کا خیال رکھیں کہ کون سی غذا آپ کا جسم قبول کرتا ہے، کون سی رد، تو آپ کا جسم آپ کی ضروریات سے ہم آہنگ ہوجاتا ہے۔ میرے غذائی معاملات میں ایک طرح کا نظم پیدا ہوگیا ہے۔
س۔ تو کیا خوراک کے معاملے میں کوئی خاص احتیاط برتتے ہیں؟
ج۔ میں اُسی وقت غذا لیتا ہوں، جب بھوک محسوس ہوتی ہے، جب معدہ کوئی پیغام دیتا ہے۔ میں برسوں سے ''بیڈ ٹی'' کا عادی ہوں، جس کے ساتھ ایک آدھ بسکٹ لے لیتا ہوں، جس کے بعد ایک سیب ضرور کھاتا ہوں۔ اگر سیب نہ ہو، تو اُس کی کمی محسوس کرتا ہوں۔
س۔ تو ساتھی سیاست دانوں کو اپنی طرح چاق و چوبند رہنے کے لیے کیا مشورہ دیں گے؟
ج۔ بس، اپنی زندگی میں نظم پیدا کریں۔ اپنے جسم کے تقاضوں کو سمجھیں۔ مجھے یاد ہے، ایک بار میں نے طویل عمر پانے والے بیرسٹر صمد سے اُن کی "Eating Habits"کے بارے میں پوچھا، تو اُنھوں نے جواب دیا،''میں تھوڑا کھاتا ہوں، اور جب تھوڑی گنجایش رہ جاتی ہے، تو ڈائننگ ٹیبل کو دھکا مار دیتا ہوں!'' سرکار دو عالم ﷺ کا بھی فرمان ہے، جب ایک چپاتی کی گنجایش رہ جائے، تو کھانا چھوڑ دو۔
س۔ آج کل کون سی کتابیں، کون سے موضوعات زیرمطالعہ ہیں؟
ج۔ کراچی جیم خانہ کی لائبریری سے میں رابطے میں رہتا ہوں۔ وہاں سے آنے والی کتابیں مطالعے میں رہتی ہیں۔ آج کل ہندوستان سے شایع ہونے والی پاکستانی اور ہندوستانی رائٹرز کے مضامین پر مشتمل ایک کتاب زیرمطالعہ ہے۔ ابھی کلدیپ نائر کی آٹو بایو گرافی شایع ہوئی ہے، وہ پڑھنے کا ارادہ ہے۔ فلسفہ، ادب، تاریخ، مذہب اور عہد جدید کے مسائل میرے مطالعے کے موضوع ہیں۔
س۔ اردو فکشن میں کس نے متاثر کیا؟
ج۔ قرۃ العین حیدر، خصوصاً اُن کے ناول ''آگ کا دریا'' نے۔
س۔ ''آگ کا دریا'' میں جو فلسفہ پیش کیا گیا ہے، اُس سے متفق ہیں؟
ج۔ میں اُس سے سو فی صد اتفاق کرتا ہوں۔ دیکھیں، برصغیر میں قوموں اور نسلوں کے درمیان ''کمپرومائز'' ہوا ہے۔ برصغیر کسی ایک قوم کا ملک نہیں، یہاں دنیا کے تمام مذاہب ہیں، تمام زبانیں ہیں۔
س۔ افسانہ نگاروں میں کس نے متاثر کیا؟
ج۔ منٹو اردو افسانے کا ایک بڑا نام ہے۔ وہ اپنے زمانے، اپنے عہد سے سو سال آگے تھا۔
س۔ منٹو پر فحاشی کے بھی الزامات لگے؟
ج۔ الزامات تو ادیبوں پر لگتے رہتے ہیں۔ دیکھیں، منٹو نے ہجرت کے بعد پیدا ہونے والے حقیقی مسائل کی نشان دہی کی ہے۔ میرے نزدیک انسانی نفسیات پر اُس کی بہت گرفت تھی، اور اس معاملے میں وہ اردو فکشن نگاروں میں ممتاز ہے۔
س۔ مستقبل میں اپنے مطالعے، مشاہدے اور تجربے کو قلم بند کرنے کا ارادہ ہے؟
ج۔ ارادے تو بہت ہیں۔ جس زمانے میں پڑھا رہا تھا، اُس وقت سوچا کرتا تھا کہ مجھے کئی درجن کتابوں کا مصنف ہونا چاہیے۔ اس زمانے میں میرا ذہن فوکس تھا۔ سیاست کی نذر ہونے کے بعد میرا فوکل پوائنٹ تبدیل ہوگیا۔ اب خواہش ہے کہ ایک ایسی کتاب لکھوں، جو تمام لائبریریوں کی ضرورت بن سکے، ردی کی ٹوکری کی نذر نہ ہو۔
س۔ آپ پاکستان کی سیاسی تاریخ کے اہم ادوار کے گواہ ہیں، خود نوشت کیوں نہیں لکھتے؟
ج۔ کئی لوگوں کا اصرار ہے، کئی کو انتظار ہے۔ اب میں اس بارے میں سنجیدگی سے سوچ رہا ہوں۔ تاہم چاہتا ہوں کہ میری خودنوشت ایسی ہو کہ قارئین اُس سے کچھ حاصل کر سکیں۔
س۔ نوجوانی میں رجحان لیفٹ کی جانب رہا، فقط ترقی پسند شعرا کو پڑھتے ہیں یا دیگر کا کلام بھی مطالعے میں رہتا ہے؟
ج۔ یوں تو کئی شعرا نے متاثر کیا، میر اور ذوق ہیں۔ موجودہ دور میں اقبال، جوش، فیض اور فراز کا نام لے سکتے ہیں، لیکن امام الشعرا تو غالب ہی ہیں۔ غالب کا مجھ پر بہت غلبہ ہے۔ دنیا بھر کی شاعری پڑھتا ہوں اور پھر لوٹ کر غالب کی طرف آتا ہوں۔ وہ ایک بہت بڑے فلسفی تھے۔
س۔ غالب کا کون سے شعر پسند ہے؟
ج۔ کئی اشعار ہیں۔ غالب کا ایک ایک مصرع اپنی جگہ مکمل غزل، مکمل کلام ہے۔ مثلاً ؎
ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب
ہم نے دشت امکاں کو ایک نقشِ پا پایا
اور؎
قیدِحیات و بندِغم اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں
غالب کا فلسفہ میرے لیے راہ نما اصول ہے۔
س۔ فن اداکاری میں بھی دل چسپی رہی؟
ج۔ جی ہاں۔ مجھے یاد ہے، بچپن دوستوں کے ساتھ شیرشاہ سوری کا کھیل کیا تھا، جس میں میں نے شیرشاہ کا کردار نبھایا۔ علی گڑھ یونیورسٹی میں ڈرامیٹک سوسائٹی کا میں پریذیڈنٹ تھا، جس کے تحت ہم نے شیکسپیئر کا ڈراما ''ہیملیٹ'' کیا تھا، جس میں مَیں نے ہیملیٹ کا مرکزی کردار ادا کیا تھا۔
س۔ کن اداکاروں کی صلاحیتوں کو سراہتے ہیں؟
ج۔ دلیپ کمار برصغیر کا ایک بڑا نام ہیں۔ وہ وسیع مطالعے کے حامل ہیں۔ غالب پر ان کی دست رس ہے۔ مجھے یاد ہے، ممبئی کے علاقے باندرا میں ہونے والی ایک محفل میں اُن سے ملاقات ہوئی تھی، جس میں انھوں نے غالب کے کئی اشعار سنائے، جس سے ان کے شعری ذوق کا اندازہ ہوتا ہے۔ پھر ان کی اداکاری میں فلسفے کا رنگ بھی نظر آتا ہے۔ ویسے تو بلراج ساہنی، پریم ناتھ بھی فلسفے کے آدمی تھے۔ راجیش کھنا بھی اچھے اداکار تھے۔
س۔ نئے اداکاروں میں کون پسند ہے؟
ج۔ (مسکراتے ہوئے) میں تینوں ''خانز'' کا مداح ہوں۔ شاہ رخ خان، سلمان خان، عامر خان یہ تینوں پٹھان بہت قابل ہیں۔ خصوصاً عامر خان، جو نہ صرف ایک سنجیدہ اداکار، بلکہ انتہائی باصلاحیت ہدایت کار بھی ہے۔
س۔ اس وقت آپ کی حکومت ہے، کیا ''خانز'' کو پاکستان مدعو کرنے کا ارادہ ہے؟
ج۔ اگر موقع ملا تو ضرور، کیوں نہیں!
س۔ حالیہ دنوں میں کوئی فلم دیکھی؟
ج۔ یوں تو مجھے ''بن حُر'' اور ''زرقا'' بہت اچھی لگیں، لیکن آج کل مصروفیات کی وجہ سے کوئی فلم پوری نہیں دیکھ پاتا۔
س۔ اچھی آواز تو قدم روک لیتی ہو گی، کسے سننا پسند ہے؟
ج۔ بلاشبہہ لتا، محمد رفیع، نورجہاں اور مہدی حسن۔ ان کا اِس خطے میں کوئی مدمقابل نہیں۔ اُن کی آواز آج بھی گردش میں ہے۔ انھیں شوق سے سنتا ہوں۔
س۔ بچپن میں کس قسم کے کھیل کھیلے؟
ج۔ کھیلوں کے معاملے میں مَیں بالکل صفر تھا، کیوںکہ مغرب کے بعد گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں تھی۔ البتہ کرکٹ میچز دیکھتا ہوں۔
س۔ کوئی کرکٹر جس کی صلاحیتوں نے متاثر کیا ہو؟
ج۔ ہمارے زمانے میں تو لٹل ماسٹر، حنیف محمد کا چرچا تھا۔ آج بھی ہماری ٹیم میں کئی باصلاحیت کھلاڑی ہیں، لیکن مجھے شاہد آفریدی سے بہت امیدیں ہیں۔ اگرچہ آج کل وہ فارم میں نہیں ہے، لیکن اُس میں بہت صلاحیت ہے، اور میں اُس کی فارم میں واپسی کے لیے دعاگو ہوں۔ چُوں کہ میں اپنے یوسف زئی پٹھان ہونے پر فخر کرتا ہوں، شاید اِسی لیے پٹھانوں کے معاملے میں تھوڑا متعصب ہوں۔ (قہقہہ!)
س۔ تو کیا اِسی نقطۂ نگاہ سے شیرشاہ سوری کو سراہتے ہیں؟
ج۔ دیکھیں شیرشاہ سوری کے کارناموں کی فہرست طویل ہے، جن کا صحیح معنوں میں احاطہ نہیں کیا گیا۔ وہ ایک بڑا حکم راں، بڑا فاتح تھا۔ فقط پانچ برس میں اُس نے مواصلاتی، معاشی اور سماجی نظام میں کئی اصطلاحات کیں۔ بابر جیسے بادشاہ کی ریاست کو اکھاڑ پھینکا۔ میں اسی وجہ سے کہتا ہوں کہ پٹھان جبلی طور پر حکم راں ہے، چاہے وہ ہندوستان میں شاہ رخ اور سلمان کی صورت میں ہو، یا پاکستان میں آفریدی کی صورت میں۔
س۔ دوستوں کا حلقہ وسیع ہے؟
ج۔ نہیں، بہت مختصر ہے۔ آپ کے اِس سوال پر جون صاحب کا ایک شعر یاد آرہا ہے۔ جب لوگوں نے ان سے کہا،''آپ تو تنہا ہیں۔'' اُنھوں نے جواب یوں دیا؎
میں اب ہر شخص سے اکتا چکا ہوں
فقط چند دوست ہیں اور دوست بھی کیا
س۔ اس مختصر حلقے میں کیا سیاست داں بھی شامل ہیں؟
ج۔ تعلقات تو سب سے ہیں۔ یہ تو ہماری کمیونٹی ہے۔
س۔ مخالف پارٹیوں کے راہ نمائوں سے بھی اچھی سلام دعا ہے؟
ج۔ بہت اچھے اچھے دوست ہیں۔ چند روز پہلے ہی کسی نے پوچھا تھا،''اگر آپ پیپلزپارٹی میں نہیں ہوتے، تو کس جماعت میں ہوتے؟'' میں نے جواب دیا،''پیپلزپارٹی میں ہونا نہ ہونا تو الگ موضوع ہے، لیکن اگر اِس بارے میں غور کروں، تو جماعت اسلامی کے بارے میں سوچتا!'' پوچھا گیا،''کس وجہ سے؟'' میں نے جواب دیا،''صرف ایک شخص کی وجہ سے، پروفیسر غفور احمد!'' گوکہ ان کی پارٹی سے میرا نظریاتی اختلاف ہے، تاہم میں انفرادی حیثیت میں ان کا بہت احترام کرتا ہوں۔ وہ انتہائی نفیس، کھرے اور کشادہ دل انسان ہیں۔ آج بھی وہ شہید ذوالفقار علی بھٹو کے کارناموں کو کھلے دل سے تسلیم کرتے ہیں۔
س۔ کیا اُن سے ملاقات رہتی ہے؟
ج۔ زیادہ ملاقات تو نہیں ہوتی۔ البتہ ٹیلی فون پر رابطہ ہوتا ہے۔ آج کل وہ خاصے علیل ہیں، میری دعا ہے کہ اﷲ تعالی انھیں صحت یابی دے۔
س۔ کیا ماضی کے برعکس استاد شاگرد کا رشتہ کم زور ہوگیا ہے؟
ج۔ دراصل ہمارے ادار ے تباہ ہوگئے ہیں۔ تعلیمی ادارے تجارتی زاویۂ نگاہ سے سوچنے لگے ہیں۔ البتہ اگر آپ علی گڑھ یونیورسٹی، آکسفورڈ یونیورسٹی کے کیمپس میں جائیں، تو آج بھی وہاں اس رشتے کا تقدس نظر آئے گا۔ ہمیں بھی اپنے اداروں میں اس رشتے کے تقدس کو بحال کرنا ہوگا۔ دراصل ہماری اخلاقی روایات پسپائی کا شکار ہیں، جس کی وجہ سے قحط الرجال کی صورت حال پیدا ہوگئی ہے۔
س۔ آپ کو ایک خوش لباس شخص کے طور پر شناخت کیا جاتا ہے، اس ضمن میں شعوری طور پر اہتمام کرتے ہیں؟
ج۔ نہیں، شعوری طور پر تو نہیں۔ اس کا کریڈٹ میری بیگم، انیلا این ڈی خان کو جاتا ہے۔ وہ اکثر کہتی رہتی ہیں کہ یہ لباس مت پہنیں، یہ میلا ہے یا پرانا ہے۔ لباس کے معاملے میں اتنا نفیس نہیں، بس ایک چیز کا خیال رکھتا ہوں، لباس پاک صاف ہونا چاہیے، کیوں کہ پاکیزگی لباس کا حسن ہے۔ پھر لباس آپ کے منصب، آپ کی عمر کی مناسبت سے ہو۔
س۔ سیاست شعوری انتخاب تھا؟
ج۔ دیکھیں میں سیاست میں خود نہیں آیا، بلکہ لایا گیا ہوں۔ سیاست کا میدان میرا انتخاب نہیں تھا، میں تو تدریس کا آدمی تھا۔ خیر، بھٹو صاحب کہا کرتے تھے، یہ ایک چسکا ہے، جب یہ لگ جائے، پھر جان چھڑانا ممکن نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ سیاست ایک حاسد محبوبہ ہے۔
س۔ کیا زندگی میں کوئی ایسا لمحہ آیا، جب سوچا ہو، کاش سیاست میں نہ آیا ہوتا؟
ج۔ میں ایسے قدآور سیاست دانوں کے حصار میں آگیا تھا، جن کی موجودگی میں اِس خیال کا پیدا ہونا ممکن ہی نہیں تھا۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو، محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے ہوتے ہوئے ایسا سوچا ہی نہیں جاسکتا۔
س۔ آپ کے زمانے میں بزرگوں کا احترام کیا جاتا تھا، کیا اب صورت حال تبدیل ہوگئی ہے؟
ج۔ دیکھیں ''ویلیوز'' بدل گئی ہیں۔ اقدار کے پامال ہونے کی وجہ سے رویے میں تبدیلی آئی ہے، لیکن یہ ویلیوز مفقود نہیں ہوئی ہیں، البتہ ان میں گراوٹ ہے۔
س۔ آپ کے دائیں ہاتھ کی انگلی میں ایک انگوٹھی ہے، جس میں ایک پتھر جڑا ہوا ہے۔ کیا پتھروں کے اثرات پر یقین رکھتے ہیں؟
ج۔ میں پتھروں کے اثر کا نہ انکار کرتا ہوں، نہ اقرار کرتا ہوں، لیکن انگوٹھی کو اہمیت اِس لیے دیتا ہوں کہ سرکار دو عالمﷺ کے ہاتھ میں یمنی عقیق کی انگوٹھی تھی۔ میرے ہاتھ میں جو انگوٹھی ہے، خدا کے فضل سے یہ بھی یمنی عقیق ہے۔ تو ایک طرح یہ سنت نبویﷺ ہے۔ دیکھیں، پتھروں کی ایک زبان ہوتی ہے، ہم اُسے سمجھیں یا نہ سمجھیں۔ بہ قول دانش وروں کے پہاڑ بھی روتے ہیں، اُن کے آنسو ہوتے ہیں، جنھیں ہم دیکھ نہیں پاتے۔
س۔ کیا ستاروں کی بھی زبان ہوتی ہے؟
ج۔ ستارے تو گردش کرتے ہیں، متحرک ہیں۔ اور گردش بتاتی ہے کہ وہ مردہ نہیں ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کی کائنات میں کوئی چیز مردہ نہیں ۔ ہم نہیں جانتے کہ آسمانوں پر کیا ہے۔ تہہ در دتہہ جو سات آسمان ہیں، ان میں کیا راز پوشیدہ ہیں، ہم اس کا علم نہیں رکھتے۔
س۔ آپ نے کائنات کی وسعت پر بات کی، تو کیا زمین کے علاوہ دیگر سیاروں پر بھی زندگی کے قائل ہیں؟
ج۔ امکان تو ہے۔ مخلوق خدا کی موجودگی کے امکان کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ واحد بس اﷲ ہے، باقی کوئی واحد نہیں ہے۔
س۔ دیگر ترقی پسندوں کے برعکس آپ کی گفت گو میں جو مذہبی رنگ نظر آتا ہے، اِس کے پیچھے کیا فکر ہے؟
ج۔ علم کی، حقیقت اور سچ کی جستجو نے مجھے فلسفہ اور دیگر علوم پڑھنے پر مائل کیا۔ دیکھیں، تخیل سے افکار، ادراک پیدا ہوتا ہے۔ اﷲ کا شکر ہے کہ اُس نے مجھے تخیل کی قوت عطا کی۔ جب میں نے اپنے تخیل کے کیپسول پر سیاحت کی، اِس سیاحت میں کئی جہان نظر آئے، جن میں میرے نزدیک آخری منزل دین ہے۔ الیگزینڈر پوپ نے کہا تھا، ملحد انسان اس وقت ہوتا ہے، جب اس کا علم کم ہو۔ میرے نزدیک جو کتاب مکمل ترین ہے، جس میں ادراک بھی ہے، وجدان اور الہام بھی ہے، وہ قرآن پاک ہے۔ آج میرے اندر دینی فکر کا جو غلبہ نظر آتا ہے، وہ طویل سیاحی اور سفر کے بعد پیدا ہوا ہے۔
س۔ محبت کے تجربے کے بارے میں کیا کہیں گے؟
ج۔ محبت ایک فطری جذبہ ہے۔ یہ کہنا غلط ہوگا کہ یہ کسی خاص عمر تک محدود ہے، جب تک انسان کا سانس چل رہا ہے، وہ زندہ ہے، وہ اس تجربے میں گرفتار ہوسکتا ہے۔ اور محبت کسی بھی شے سے ہوسکتی ہے، مثلاً پھولوں سے پتھروں سے۔ جس زمانے میں مَیں واک کرنے سی ویو جایا کرتا تھا، میں نے کئی چھوٹے چھوٹے پتھر اکٹھے کیے۔ میرے گھر پر آپ کو سیکڑوں پتھر ملیں گے۔ اور جیسے میں نے کہا، پتھروں کی اپنی زبان ہوتی ہے۔
س۔ ساحل پر واک کرتے ہوئے کبھی سمندر کی آواز بھی سنی؟
ج۔ بچپن ہی سے سمندر مجھے اپنی جانب کھینچتا ہے۔ سمندر کے نزدیک رہنے کی وجہ بھی یہی ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں، سمندر جہاں سے شروع ہوتا ہے، وہاں سے فضائی آزادی کا آغاز ہوتا ہے۔ سمندر میں تلاطم بھی آتا ہے، اور وہاں خاموشی بھی ہوتی ہے۔
س۔ اب بھی سی ویو پر واک کرنے جاتے ہیں؟
ج۔ اب تو سیکیوریٹی مسائل کی وجہ سے یہ سلسلہ معطل ہوگیا ہے۔ کراچی جیم خانے میں واک کرتا ہوں۔ البتہ سمندر کو بہت ''مِس'' کرتا ہوں۔
اُن کا پورا نام نبی داد خان ہے، جس کے مخفف ''این ڈی خان'' سے پہچانے جاتے ہیں۔ اُنھوں نے 8 ستمبر 1942 کو ضلع ایٹا، یوپی میں آنکھ کھولی۔ اجداد کا تعلق کابل سے ہے، جنھیں مغل دور میں روہیلوں کے حملے روکنے کے لیے گنگا کنارے آباد قادر گنج کی زمیں داری سونپی گئی تھی۔ اُن کے والد، کلیم داد خان ایک درویش صفت آدمی تھے۔
بچپن میں تاریخ کا مطالعہ اُن کا محبوب مشغلہ تھا، ہر معاملے میں کلیدی کردار ادا کرنے کی خواہش متحرک رکھتی۔ 1960 میں علی گڑھ یونیورسٹی سے فلسفے میں ماسٹرز کرنے کے بعد وہ ممبئی چلے گئے، جہاں انگریزی اخبار ''بلٹز'' سے منسلک ہوگئے۔ پاکستان آنے کے بعد جامعہ ملیہ، کراچی میں تدریسی ذمے داریاں سنبھالیں۔ اِسی عرصے میں ایل ایل بی اور پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کیا۔ 67ء میں پاکستان پیپلزپارٹی سے وابستہ ہوگئے۔ سیاسی کارکن کی حیثیت سے فعال کردار ادا کیا۔ بھٹو دور میں وزیر اعلیٰ، سندھ کے مشیر رہے۔
سیاسی سفر میں قیدوبند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ 77ء میں پہلی بار گرفتار ہوئے۔ 79ء میں دوسری جیل یاترا کی۔ 84ء میں ایم آر ڈی کی تحریک میں کراچی کی جامع کلاتھ مارکیٹ سے گرفتاری پیش کی۔ فوجی حکومت نے سترہ بار اُن کی نظربندی کے احکامات جاری کیے۔ یوں مجموعی طور پر ساڑھے چھے برس اسیری کا کرب سہا۔
مارشل لا ہی کے دُور میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے اُنھیں کراچی ڈویژن کے صدر کا منصب سونپا۔ پھر پارٹی کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل ہوگئے۔ محترمہ کے پہلے دور میں وزیراعظم کے اسپیشل اسسٹنٹ ایڈوائزر رہے۔ دوسری ٹرم میں بہ طور پارلیمانی سیکریٹری برائے امور خارجہ خدمات انجام دیں۔ وفاقی وزیربرائے قانون و انصاف کا منصب سنبھالا۔ گذشتہ کئی برسوں سے پارٹی کی وفاقی کونسل کے میڈیا سیکریٹری اور اسٹڈی سرکل کے کوآرڈی نیٹر کی حیثیت سے ذمے داریاں نبھا رہے ہیں۔