مسئلہ کشمیر امریکا اور بھارت
کیا امریکا 67 سال سے ہندوستان اور پاکستان کے تنازعے میں واقعی کسی چوہدری کا کردار ادا کر رہا ہے؟
WASHINGTON:
کہا جاتا ہے کہ امریکی صدر بارک اوباما نے اپنے دورۂ بھارت کے دوران بھارتی حکمرانوں کو مشورہ دیا تھا کہ وہ پاکستان سے تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے مذاکرات کا سلسلہ شروع کریں۔ بھارت اپنی ناوابستگی کی سیاست ترک کرنے کے بعد امریکا کے اتنے قریب ہو گیا ہے اور ان دونوں کے مفادات اتنے مشترک ہو گئے ہیں کہ وہ اپنے اس مربی کے مشوروں کو نظرانداز نہیں کر سکتا۔
یہی وجہ ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نے پاکستان کے وزیر اعظم کو ٹیلیفون پر یہ خوشخبری سنائی کہ ان کی وزارت خارجہ کے سیکریٹری پاکستان آ رہے ہیں۔ماضی کی مذاکراتی تاریخ میں ''جامع مذاکرات'' کی ایک احمقانہ اصطلاح وضع کی گئی تھی جس کا لب لباب یہ تھا کہ اس جامع مذاکرات میں مسئلہ کشمیر پر بھی گفتگو ہو گی۔
یہ آرزو پاکستان کے لیے اس قدر معتبر بن گئی ہے کہ جہاں جامع مذاکرات کا ذکر آتا ہے وہاں حکومت پاکستان اسے اپنی بہت بڑی کامیابی کہتی ہے حالانکہ اب پاکستان کے عوام بہرحال اچھی طرح سمجھ چکے ہیں اور اسے ایک بے ڈھنگا فریب سمجھتے ہیں۔ اب تک کی مذاکراتی تاریخ پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ جب بھی ان جامع مذاکرات میں پاکستان کا وفد کشمیر کا مسئلہ اٹھاتا رہا ہے، بھارتی وفد اس مسئلے پر یہ کہہ کر ہاتھ اٹھاتا رہا ہے کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے اس پر بات نہیں ہو سکتی۔
مذاکرات کی تاریخ میں پاکستانی سورماؤں نے جو کامیابی حاصل کی ہے وہ بس اتنی ہے کہ بھارت موجودہ کنٹرول لائن کو مستقل ماننے کے لیے تیار ہو گیا ہے۔ یہ ایسی ہی بات ہے کہ بھارت لاہور کو پاکستان کا شہر ماننے کے لیے تیار ہو گیا ہے۔ اگر کوئی بھارت کی اس فراخدلانہ پیش کش کو اپنی کامیابی کہتا ہے تو اس سے بڑا کوئی احمق نہیں ہو سکتا۔امریکا کے صدر بزعم خود دنیا کے چوہدری ہیں اور انھوں نے ازخود دنیا کی چوہدراہٹ کا حق حاصل کر لیا ہے۔
ہم یہاں اس مسئلے کو نظرانداز کرتے ہوئے کہ بھارت کو دنیا کی چوہدراہٹ کا حق کس نے دیا ہے اس مسئلے پر بات کریں گے کہ چوہدری کا مطلب ایک ایسا شخص ہوتا ہے جو فریقین کے درمیان انصاف کرے دنیا کا کوئی بھی باشعور شخص چوہدراہٹ کے اس بنیادی کردار سے انکار نہیں کر سکتا۔
کیا امریکا 67 سال سے ہندوستان اور پاکستان کے تنازعے میں واقعی کسی چوہدری کا کردار ادا کر رہا ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ دنیا کے اس نام نہاد چوہدری نے دنیا کے کسی بھی متنازعہ مسئلے میں سچے اور بامعنی چوہدری کا کردار ادا نہیں کیا۔ اور اگر کچھ کیا ہے تو یہ کیا ہے کہ دونوں ملکوں کو اس مسئلے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس قسم کے مشورے تو کسی یونین کونسل کا سربراہ یا ناظم بھی دے سکتا ہے کیا امریکا کا صدر پاکستانی بلدیاتی نظام کے یوسی ناظم سے بھی گیا گزرا ہے؟
اگر امریکا مشرق وسطیٰ کے ممالک کے خلاف اسرائیل کی ہر وحشیانہ جارحیت کی حمایت کرتا ہے تو مسئلہ کشمیر پر کشمیری عوام کے عالمی اور منصفانہ موقف کی حمایت کیوں نہیں کرتا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ دنیا کے اس خودساختہ چوہدری کی ساری چوہدراہٹ اپنے مفادات کے گرد گھومتی ہے اسے اس امر سے کوئی دلچسپی نہیں کہ کشمیر کے عوام کا موقف کس قدر منصفانہ ہے فلسطین کے عوام کا مطالبہ کس قدرمنصفانہ ہے۔
ہم امریکا کے کردار بلکہ غیر منصفانہ غیر اخلاقی کردار کا ذکر اس لیے کر رہے ہیں کہ اس خطے میں خود اس کے مفادات کا تقاضا یہ ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کے کسی منصفانہ حل کے لیے بھارت کو مجبور کرے اور اس خطے میں امن و امان کی فضا بحال ہو۔
لیکن المیہ یہ ہے کہ دنیا کے ہر علاقائی تنازعے کا ایک بڑا فائدہ امریکا اور اس کے اتحادی ملکوں کو یہ ہوتا ہے کہ ان کی ہتھیاروں کی صنعت کو اربوں بلکہ کھربوں ڈالر کے ہتھیار کے آرڈر ملتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی معیشت مضبوط ہوتی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی سب سے بڑی خودغرضی یہی ہے کہ وہ صرف اپنا فائدہ دیکھتا ہے دوسروں کے نقصان پر اس کی نظر نہیں جاتی۔
نہرو کے بعد اب تک بے شمار حکومتیں آتی اور جاتی رہیں لیکن کسی حکومت کا موقف مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ذرہ برابر نہیں بدلا۔ کشمیر کے مسئلے پر بھارتی حکمران طبقے کا موقف اس پورے خطے کے اجتماعی مفادات اور عوام کی خوشحالی سے متصادم ہے۔ کشمیر کے مسئلے کا تعلق صرف کشمیر کے عوام سے ہی نہیں بلکہ جنوبی ایشیا کے دو ارب سے زیادہ عوام کے اجتماعی مفادات سے ہے۔
اگر کشمیر کا مسئلہ ہندوستان پاکستان اور کشمیری عوام کی مرضی اور مفادات کے مطابق حل ہوتا ہے تو اس کے دو بڑے فائدے یہ ہیں کہ دفاع پر خرچ کی جانے والی اربوں کھربوں کی رقم عوام کی معاشی بہتری کے لیے خرچ کی جا سکتی ہے اور اس خطے میں بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی کو روکا جا سکتا ہے۔
بھارت کے عیار حکمران پاکستان پر دہشت گردی اور دہشت گردوں کی حمایت کا الزام لگاتے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس پورے خطے میں مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کا ذمے دار بھارت ہے جو مذہبی انتہا پسندی کے ایک بڑے سبب کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے سے ہمیشہ گریزاں رہا۔ بھارت کے حالیہ انتخابات میں بی جے پی کامیاب ہوئی اور اس نے ایک بدنام زمانہ مذہبی انتہا پسند نریندر مودی کو ملک کا وزیر اعظم بنا دیا۔
کیا ایک ایسا شخص جسے مسلمانوں کا دشمن سمجھا جاتا ہے وہ کشمیر کے مسئلے کو کشمیری عوام کی مرضی کے مطابق حل کرے گا؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس متنازعہ مسئلے کی نوعیت بھی بدل گئی ہے۔ لیکن یہ حقیقت نہیں بدلی کہ اس مسئلے کی وجہ سے جنوبی ایشیا کے دو ارب انسانوں کا مستقبل غیر محفوظ ہو گیا ہے۔
ہمیں نہیں معلوم کہ بھارتی سیکریٹری خارجہ کیا ایجنڈا لے کر آ رہے ہیں لیکن ہمیں یہ ضرور معلوم ہے کہ جامع مذاکرات کا سلسلہ بحال ہوتا ہے تو اس میں اگر مسئلہ کشمیر کو سرفہرست نہ رکھا گیا تو یہ مسئلہ یوں ہی لٹکا رہے گا اور جنوبی ایشیا کے عوام بھوک، بیماری، جہل اور بے روزگاری کے دلدلوں سے باہر نہیں آ سکیں گے۔
کہا جاتا ہے کہ امریکی صدر بارک اوباما نے اپنے دورۂ بھارت کے دوران بھارتی حکمرانوں کو مشورہ دیا تھا کہ وہ پاکستان سے تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے مذاکرات کا سلسلہ شروع کریں۔ بھارت اپنی ناوابستگی کی سیاست ترک کرنے کے بعد امریکا کے اتنے قریب ہو گیا ہے اور ان دونوں کے مفادات اتنے مشترک ہو گئے ہیں کہ وہ اپنے اس مربی کے مشوروں کو نظرانداز نہیں کر سکتا۔
یہی وجہ ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نے پاکستان کے وزیر اعظم کو ٹیلیفون پر یہ خوشخبری سنائی کہ ان کی وزارت خارجہ کے سیکریٹری پاکستان آ رہے ہیں۔ماضی کی مذاکراتی تاریخ میں ''جامع مذاکرات'' کی ایک احمقانہ اصطلاح وضع کی گئی تھی جس کا لب لباب یہ تھا کہ اس جامع مذاکرات میں مسئلہ کشمیر پر بھی گفتگو ہو گی۔
یہ آرزو پاکستان کے لیے اس قدر معتبر بن گئی ہے کہ جہاں جامع مذاکرات کا ذکر آتا ہے وہاں حکومت پاکستان اسے اپنی بہت بڑی کامیابی کہتی ہے حالانکہ اب پاکستان کے عوام بہرحال اچھی طرح سمجھ چکے ہیں اور اسے ایک بے ڈھنگا فریب سمجھتے ہیں۔ اب تک کی مذاکراتی تاریخ پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ جب بھی ان جامع مذاکرات میں پاکستان کا وفد کشمیر کا مسئلہ اٹھاتا رہا ہے، بھارتی وفد اس مسئلے پر یہ کہہ کر ہاتھ اٹھاتا رہا ہے کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے اس پر بات نہیں ہو سکتی۔
مذاکرات کی تاریخ میں پاکستانی سورماؤں نے جو کامیابی حاصل کی ہے وہ بس اتنی ہے کہ بھارت موجودہ کنٹرول لائن کو مستقل ماننے کے لیے تیار ہو گیا ہے۔ یہ ایسی ہی بات ہے کہ بھارت لاہور کو پاکستان کا شہر ماننے کے لیے تیار ہو گیا ہے۔ اگر کوئی بھارت کی اس فراخدلانہ پیش کش کو اپنی کامیابی کہتا ہے تو اس سے بڑا کوئی احمق نہیں ہو سکتا۔امریکا کے صدر بزعم خود دنیا کے چوہدری ہیں اور انھوں نے ازخود دنیا کی چوہدراہٹ کا حق حاصل کر لیا ہے۔
ہم یہاں اس مسئلے کو نظرانداز کرتے ہوئے کہ بھارت کو دنیا کی چوہدراہٹ کا حق کس نے دیا ہے اس مسئلے پر بات کریں گے کہ چوہدری کا مطلب ایک ایسا شخص ہوتا ہے جو فریقین کے درمیان انصاف کرے دنیا کا کوئی بھی باشعور شخص چوہدراہٹ کے اس بنیادی کردار سے انکار نہیں کر سکتا۔
کیا امریکا 67 سال سے ہندوستان اور پاکستان کے تنازعے میں واقعی کسی چوہدری کا کردار ادا کر رہا ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ دنیا کے اس نام نہاد چوہدری نے دنیا کے کسی بھی متنازعہ مسئلے میں سچے اور بامعنی چوہدری کا کردار ادا نہیں کیا۔ اور اگر کچھ کیا ہے تو یہ کیا ہے کہ دونوں ملکوں کو اس مسئلے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس قسم کے مشورے تو کسی یونین کونسل کا سربراہ یا ناظم بھی دے سکتا ہے کیا امریکا کا صدر پاکستانی بلدیاتی نظام کے یوسی ناظم سے بھی گیا گزرا ہے؟
اگر امریکا مشرق وسطیٰ کے ممالک کے خلاف اسرائیل کی ہر وحشیانہ جارحیت کی حمایت کرتا ہے تو مسئلہ کشمیر پر کشمیری عوام کے عالمی اور منصفانہ موقف کی حمایت کیوں نہیں کرتا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ دنیا کے اس خودساختہ چوہدری کی ساری چوہدراہٹ اپنے مفادات کے گرد گھومتی ہے اسے اس امر سے کوئی دلچسپی نہیں کہ کشمیر کے عوام کا موقف کس قدر منصفانہ ہے فلسطین کے عوام کا مطالبہ کس قدرمنصفانہ ہے۔
ہم امریکا کے کردار بلکہ غیر منصفانہ غیر اخلاقی کردار کا ذکر اس لیے کر رہے ہیں کہ اس خطے میں خود اس کے مفادات کا تقاضا یہ ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کے کسی منصفانہ حل کے لیے بھارت کو مجبور کرے اور اس خطے میں امن و امان کی فضا بحال ہو۔
لیکن المیہ یہ ہے کہ دنیا کے ہر علاقائی تنازعے کا ایک بڑا فائدہ امریکا اور اس کے اتحادی ملکوں کو یہ ہوتا ہے کہ ان کی ہتھیاروں کی صنعت کو اربوں بلکہ کھربوں ڈالر کے ہتھیار کے آرڈر ملتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی معیشت مضبوط ہوتی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی سب سے بڑی خودغرضی یہی ہے کہ وہ صرف اپنا فائدہ دیکھتا ہے دوسروں کے نقصان پر اس کی نظر نہیں جاتی۔
نہرو کے بعد اب تک بے شمار حکومتیں آتی اور جاتی رہیں لیکن کسی حکومت کا موقف مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ذرہ برابر نہیں بدلا۔ کشمیر کے مسئلے پر بھارتی حکمران طبقے کا موقف اس پورے خطے کے اجتماعی مفادات اور عوام کی خوشحالی سے متصادم ہے۔ کشمیر کے مسئلے کا تعلق صرف کشمیر کے عوام سے ہی نہیں بلکہ جنوبی ایشیا کے دو ارب سے زیادہ عوام کے اجتماعی مفادات سے ہے۔
اگر کشمیر کا مسئلہ ہندوستان پاکستان اور کشمیری عوام کی مرضی اور مفادات کے مطابق حل ہوتا ہے تو اس کے دو بڑے فائدے یہ ہیں کہ دفاع پر خرچ کی جانے والی اربوں کھربوں کی رقم عوام کی معاشی بہتری کے لیے خرچ کی جا سکتی ہے اور اس خطے میں بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی کو روکا جا سکتا ہے۔
بھارت کے عیار حکمران پاکستان پر دہشت گردی اور دہشت گردوں کی حمایت کا الزام لگاتے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس پورے خطے میں مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کا ذمے دار بھارت ہے جو مذہبی انتہا پسندی کے ایک بڑے سبب کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے سے ہمیشہ گریزاں رہا۔ بھارت کے حالیہ انتخابات میں بی جے پی کامیاب ہوئی اور اس نے ایک بدنام زمانہ مذہبی انتہا پسند نریندر مودی کو ملک کا وزیر اعظم بنا دیا۔
کیا ایک ایسا شخص جسے مسلمانوں کا دشمن سمجھا جاتا ہے وہ کشمیر کے مسئلے کو کشمیری عوام کی مرضی کے مطابق حل کرے گا؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس متنازعہ مسئلے کی نوعیت بھی بدل گئی ہے۔ لیکن یہ حقیقت نہیں بدلی کہ اس مسئلے کی وجہ سے جنوبی ایشیا کے دو ارب انسانوں کا مستقبل غیر محفوظ ہو گیا ہے۔
ہمیں نہیں معلوم کہ بھارتی سیکریٹری خارجہ کیا ایجنڈا لے کر آ رہے ہیں لیکن ہمیں یہ ضرور معلوم ہے کہ جامع مذاکرات کا سلسلہ بحال ہوتا ہے تو اس میں اگر مسئلہ کشمیر کو سرفہرست نہ رکھا گیا تو یہ مسئلہ یوں ہی لٹکا رہے گا اور جنوبی ایشیا کے عوام بھوک، بیماری، جہل اور بے روزگاری کے دلدلوں سے باہر نہیں آ سکیں گے۔