کامیاب کون
آج وہ تمام لوگ بے نشان ہوچکے ہیں۔ کوئی بھی ان میں سے کسی کانام تک نہیں جانتا۔
میرعثمان علی خان،حیدرآباددکن کا بلاشرکت غیرے مالک اورمختاررہا ہے۔وہ پچاس سال کے لگ بھگ برصغیرکی امیرترین ریاست کابادشاہ رہا۔اس کی ریاست نہ صرف ہندوستان میں امیرتھی بلکہ رقبے کے لحاظ سے بھی سب سے بڑی شخصی حکومت تھی۔حیدرآباددکن کا کل رقبہ دولاکھ تیئس ہزار کلومیٹرکاتھا۔یہ آج کے یو۔کے کے برابرکاعلاقہ ہے۔
اسے اپنے دورمیں دنیاکاامیرترین شخص تسلیم کیاجاتا ہے۔ 1930ء اورچالیس میں اس کی مجموعی دولت دوبلین ڈالر تھی۔ جو آج کے اعتبارسے 34بلین ڈالرکے قریب بنتی ہے۔ 1948ء تک دنیا میں امیرترین شخص ہونے کااعزازاس سے کوئی نہیں چھین سکا۔ آپ اُس وقت کے حیدرآباددکن پرنظر ڈالیے۔ انیسویں صدی میں یہ ریاست ہیروں اورقیمتی پتھروں کی واحد سپلائر تھی۔
ہیروں کی تجارت اوررائیلٹی کی بدولت میرعثمان کی دولت میں ہرپل اضافہ ہوتارہتاتھا۔پورے برصغیرمیں نظام وہ واحدبادشاہ تھا،جسے برطانوی حکومت نے اپناسکہ یاکرنسی جاری کرنے کی قانونی اجازت دے رکھی تھی۔1918ء میں اس کے حکم پر سوروپے کاکرنسی نوٹ بھی جاری کیاگیا۔1911ء سے لے کر 1948ء تک پورے اعزازکے ساتھ اپنی ریاست پرحکومت کرتارہا۔تاج برطانیہ نے اس کے لیے کئی استثناء قائم کررکھے تھے۔
برصغیرکے تمام ریاستی بادشاہوں کے لیے درجہ کے لحاظ سے توپوں کی سلامی کاسرکاری رواج تھا۔نظام حیدرآبادان پانچ بادشاہوں میں آتاتھاجسے حکومت کی جانب سے اکیس توپوں کی سلامی کاحقدارقراردیاگیاتھا۔اس کے لیے ہزہائیسنس کا لقب استعمال نہیں ہوتاتھا۔بلکہExalted Highness کالفظ استعمال کیاجاتاتھا۔میرعثمان انگریزوں کی طاقت کو جانتا اورسمجھتاتھا۔اسے معلوم تھاکہ یہ دولت اورشان وشوکت اسی وقت تک قائم ہے،جب تک برطانوی حکومت اس پر بھرپور اعتبارکرتی ہے۔
نظام نے انگریزوں کامکمل اعتمادحاصل کرنے کے لیے ہرکام کیا۔" شہزادی الزبتھ" کی شادی پرجوہار، نظام کی جانب سے تحفہ دیاگیا،وہ اپنی مثال آپ تھا۔یہ ہارآج بھی"ملکہ"استعمال کرتی ہے۔اسکانام بھی تحفہ دینے والے پر ہی رکھاگیاہے۔یہ"Nizam of Hyderabad Neeklace"کے طور پرجانا جاتا ہے۔ پہلی جنگ عظیم میں نظام نے برطانوی حکومت کی بھرپور مدد کی۔برطانوی ائیرفورس کونظام نے جنگی جہازخریدکرعطیہ کردیے۔ان جہازوں کے پروں پرنظام کانام لکھا ہواتھا۔
ائیرفورس کے اس سکوڈرن کانام "حیدر آباد سکوڈرن" رکھا گیاتھا۔تاج برطانیہ کی حکومت آسٹریلیاپربھی تھی۔نظام نے 1940ء یعنی دوسری جنگ عظیم میں،ایک بحری جنگی جہاز، رائل آسٹریلین نیوی کوخریدکرتحفہ کے طورپردیا۔اس بحری جہاز کانام"ایچ ایم اے سی نظام"رکھاگیا۔میرعثمان کوبرطانوی حکومت نے اسے"برطانوی حکومت کاسب سے وفادار دوست"کہاتھا۔1947ء کے ایک سال بعد یعنی1948ء میں ہندوستان کی حکومت نے نظام کے دورکو فوجی آپریشن "پولو"کے ذریعہ قصہ پارینہ بنادیا۔
نظام اس کے بعدمختلف سرکاری حیثیت سے کئی نمائشی عہدوں پرفائزرہا۔ اس کی ریاست کوتین صوبوں میں تقسیم کردیاگیا۔ کرناٹکہ، مہاراشٹرااورآندھراپردیش اس ریاست کی جغرافیائی تقسیم کی بدولت وجودمیں آئے ہیں۔یہ تمام حقائق آپکے سامنے رکھنے کامیرامقصدقطعاًیہ نہیں کہ میں ثابت کروں کہ "نظام" دنیا کاامیرترین انسان تھا۔بلکہ ان گزارشات کامقصدبالکل اور ہے۔میں یہ تمام چیزیں محض تمہیدکے طورپرعرض کررہاہوں۔
اب میں آپکے سامنے زندگی اورانسان کابالکل ایک مختلف رخ پیش کرتاہوں۔الیگزینڈرفلیمنگ اسکاٹ لینڈمیں ایک انتہائی غریب کسان کے گھرپیداہوا۔یہ ایک کم نصیب والابچہ تھا۔سات برس کی عمرمیں یتیم ہوگیاتھا۔یہ وہی دورانیہ ہے جس میں تاج برطانیہ ہندوستان پرحکومت کررہا تھااور حیدر آباددکن کی حکومت نظام کے پاس تھی۔غریب پسِ منظراس بچہ کی پہچان تھا۔غربت کی وجہ سے اوائل عمری میںبحری جہازوں کی کمپنی میں کام کرنے پرمجبورتھا۔چارسال وہ بطور کلرک وہاں کام کرتارہا۔
اس کے پاس تعلیم حاصل کرنے کے لیے کوئی سرمایہ نہیں تھا۔دوردرازکے عزیزنے فوت ہوتے وقت کچھ پیسے الیگزنڈرکے نام کردیے تھے۔ان پیسوں اوراپنے بھائی کی تحریک کی بدولت وہ1906ء میں لندن سے ایم بی بی ایس کرنے میں کامیاب ہوگیا۔پہلی جنگ عظیم میں الیگزنڈر نے برطانوی فوج میں شمولیت کرلی۔ڈاکٹرکی حیثیت سے وہ زخمی فوجیوں کی دیکھ بھال کرتاتھا۔ان کے آپریشن کرتا تھااور انھیں صحت یاب کرنے کی بھرپورکوشش کرتاتھا۔اصل میں وہ تحقیق کی دنیاکاآدمی تھا۔
اس نے پہلی جنگ عظیم میں مشاہدہ کیاکہ جیسے ہی زخمیوں کو اسپتال میں لایاجاتاہے اوران کے گہرے زخم صاف کیے جاتے ہیں ان میں سے اکثرلوگ تھوڑی مدت کے بعد"انفیکشن" کی وجہ سے مرجاتے ہیں۔ وہ برس ہابرس تحقیق کرتارہا۔مگراسے کچھ سمجھ نہیں آیا۔اپنے ساتھ کے ڈاکٹروں سے اس کی وجہ معلوم کرنے کی کوشش کرتارہتاتھا مگرکوئی بھی اس کے پُرتجسس ذہن کو مطمئن نہیں کرسکا۔جنگ عظیم اول کے بعدوہ لندن میں سینٹ میری میڈیکل کالج میں واپس آگیاجہاں وہ پروفیسر متعین کردیا گیا۔
وہ بیکٹریاپرتحقیق کررہاتھا۔1928ء ستمبرمیں اپنی بیوی کے ہمراہ چھٹیوں پرچلاگیا۔جاتے ہوئے اپنی لیبارٹری کاساراسامان کونے میں رکھ کرگیاتھا۔اس کی لیب میں ہرجانب بے ترتیبی ہی بے ترتیبی تھی۔واپس آکراس نے روٹین میں اپناسامان چیک کیا۔اسے لگاکہ اس کی کئی پلیٹوں میں صفائی نہ ہونے سے پھپوندی لگ گئی ہے۔مائیکروسکوپ میں اس پھپوندی کاتجزیہ کرنے لگ گیا۔یہ دیکھ کرحیران رہ گیاکہ جہاں جہاں پھپوندی لگی ہے،وہاں وہاں بیماری کے جراثیم ختم ہوچکے تھے۔
اس نے اس تجربہ کادوسرے ڈاکٹروں سے ذکر کیا۔ ادارے کے تمام سائنسدانوں نے تجربہ کی بنیادکودرست قرار دیا۔یہ دنیامیں سب سے عظیم تحقیق تھی۔یہ بنیادی طورپر پینسیلین کی بنیادبنی جس نے طب کی دنیاکومکمل طورپرتبدیل کرڈالا۔ آپ اندازہ فرمائیے کہ فلیمنگ اتناعاجز آدمی تھاکہ اس نے کبھی دعویٰ تک نہیں کیاکہ اس نے دنیاکی عظیم ترین تحقیق مکمل کی ہے۔
وہ مرتے دم تک صرف یہ کہتارہاکہ اس نے کوئی بڑا کام نہیں کیا۔وہ اپنے کام کاکوئی معاوضہ لینے کے لیے تیارنہیں تھا۔وہ کامیابی کاتمام سہراان سائنسدانوں کے سرباندھتا رہا جنہوں نے پینسلین کوعام آدمی کے لیے پیداکرنے کی استطاعت حاصل کی۔مگرسائنس اورصحت کی دنیا کا ہر انسان جانتاتھاکہ یہ تمام کارنامہ صرف اورصرف اس کی ذاتی تحقیق کی بدولت ممکن ہوا۔
میں نے آپکے سامنے دومختلف دنیاؤں کے بالکل متضاد انسانوں کاایک خاکہ پیش کیاہے۔ایک دنیاکابلاشرکت غیرے اپنے وقت کاامیرترین بادشاہ اوراسی دورانیہ میں ایک متوسط درجے کی مالی حیثیت رکھنے والاسائنسدان ۔آپکوان دونوں شخصیات میں کوئی بھی عنصریکساںنظرنہیں آئیگا۔آپ بالکل درست ہیں۔ان دونوں کے اندرکوئی قدرمشترک نہیں ہے۔
انکوایک دوسرے کاپتہ تک نہیں تھا۔نظام حیدرآبادکے لیے شائدالیگزنڈرفلیمنگ نام کاایک سائنسدان کسی اہمیت کا حامل نہ ہو۔دونوں تقریباًایک ہی دورمیں سانس لے رہے تھے مگرمختلف مدارمیں تھے۔میں نے دراصل آپکے سوچنے کے لیے دومختلف بلکہ متضادرول ماڈل سامنے رکھے ہیں۔ایک پیسہ اوردولت کابھرپورمجسم اوردوسرا عام لوگوں کی فلاح کے متعلق سوچنے والا،فکرکرنے والا،تدبرکرنے والا۔
اب آپ ان دومتضاد رول ماڈلز کوپاکستان کے معروضی حالات میں پرکھنے کی کوشش کریں۔آپ اپنے قائدین اور رہنماؤں کے رویوں کاتقابلی جائزہ لیجیے۔آپکوہرشہرمیں انتہائی امیرآدمی نظرآئینگے۔میراتعلق فیصل آبادسے ہے۔وہاں آپکو ارب پتی نہیں بلکہ کھرب پتی تاجرہرطرف نظرآئینگے۔آپ ایک شہرکوجانے دیجیے۔کیونکہ ہرشہرمیں آپکوبہتات سے امیر بلکہ انتہائی امیرلوگ مل جائینگے۔پورے ملک میں آپ تین چار ہزاردولت مندلوگوں کی فہرست بنالینگے۔
مگراس کے بالکل برعکس آپ اگرآپ سے غریب اورسفیدپوش انسانوں کے متعلق پوچھاجائے توآپ کوئی فہرست نہیں بناسکتے۔یہ بے نام لوگ صرف ہمارے ملک میں کڑوڑوں کی تعداد میں ہیں اورایک واضح اکثریت میں ہیں۔انکاشمارکرناکم ازکم میرے لیے توناممکن ہے۔
اب آپ میرے بیان کردہ دونوں شخصی ماڈلز کواپنے تناظرمیں دیکھیے کہ کون سے لوگ عام آدمی کی بھلائی کے لیے کام کرتے ہیں۔کس کانام تاریخ میں بہترین الفاظ میں یادرکھاجاتاہے۔کون ساایساماڈل ہے جوجیسے ہی اپنی آنکھیں بندکرتاہے،تواس کی عظمت کامیناردھڑام سے زمین پرگرجاتاہے۔کون کامیاب ہے اورکون ناکام!حقیقت میں کس نے ہرعام شخص کے لیے بے مثال بلکہ ہمیشہ یادرہنے والا کام کیااورکون سااپنے وقت کے بعد بے نشان ہوگیا۔
نظام حیدرآبادکی اپنے وقت کی دولت دوبلین ڈالر تھی۔ الیگزنڈرفلیمنگ ایک سفیدپوش سائنسدان تھا۔آپ تھوڑی دیر کے لیے بھول جائیے کہ اُن دونوں کاتعلق کس خطے سے تھا، مذہب کیاتھا،یہ کس نسل سے تعلق رکھتے تھے۔آپ انکوانسان اوران کے کارناموں کے حوالے کی عینک سے دیکھیے۔آپ ان کے نام بھی بھول جائیے۔
آپ ناموں کو محض استعارہ کے طور پراستعمال کیجیے۔ہمارے سیاسی، سماجی اوراقتصادی شعبوں میں ہزاروں ایسے لوگ ہیں جو ہروقت،صرف اورصرف پیسہ کماناچاہتے ہیں۔ان کی کامیابی کانظریہ صرف اورصرف مزید دولت کماناہے۔اُن میں سے چندایک ہرقیمت پردنیاکے امیرترین لوگوں کی فہرست میں آناچاہتے ہیں۔
مگریہ تمام لوگ تاریخ کاتکلیف دہ سبق بھول جاتے ہیں۔وہ یہ بھی فراموش کردیتے ہیں کہ ان کی ذات سے عام آدمی کی فلاح ہورہی ہے یانقصان۔وہ عام آدمی کی بھلائی کے لیے کوئی قابل ذکرکام نہیں کرتے۔وہ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ نظام حیدرآبادکے تقریباً149بچوں نے اس کی آنکھ بندہوتے ہی دولت کے حصول کے لیے ایک دوسرے کوعدالتوں اور چوراہوں میں ذلیل وخوارکردیاتھا۔
آج وہ تمام لوگ بے نشان ہوچکے ہیں۔ کوئی بھی ان میں سے کسی کانام تک نہیں جانتا۔اس کے برعکس ایک سفیدپوش محقق کی بدولت پوری دنیامیں روزانہ لاکھوں جانیں بچ رہی ہیں۔سوچنے کی بات ہے کہ حقیقت میں کامیاب کون ہے؟
اسے اپنے دورمیں دنیاکاامیرترین شخص تسلیم کیاجاتا ہے۔ 1930ء اورچالیس میں اس کی مجموعی دولت دوبلین ڈالر تھی۔ جو آج کے اعتبارسے 34بلین ڈالرکے قریب بنتی ہے۔ 1948ء تک دنیا میں امیرترین شخص ہونے کااعزازاس سے کوئی نہیں چھین سکا۔ آپ اُس وقت کے حیدرآباددکن پرنظر ڈالیے۔ انیسویں صدی میں یہ ریاست ہیروں اورقیمتی پتھروں کی واحد سپلائر تھی۔
ہیروں کی تجارت اوررائیلٹی کی بدولت میرعثمان کی دولت میں ہرپل اضافہ ہوتارہتاتھا۔پورے برصغیرمیں نظام وہ واحدبادشاہ تھا،جسے برطانوی حکومت نے اپناسکہ یاکرنسی جاری کرنے کی قانونی اجازت دے رکھی تھی۔1918ء میں اس کے حکم پر سوروپے کاکرنسی نوٹ بھی جاری کیاگیا۔1911ء سے لے کر 1948ء تک پورے اعزازکے ساتھ اپنی ریاست پرحکومت کرتارہا۔تاج برطانیہ نے اس کے لیے کئی استثناء قائم کررکھے تھے۔
برصغیرکے تمام ریاستی بادشاہوں کے لیے درجہ کے لحاظ سے توپوں کی سلامی کاسرکاری رواج تھا۔نظام حیدرآبادان پانچ بادشاہوں میں آتاتھاجسے حکومت کی جانب سے اکیس توپوں کی سلامی کاحقدارقراردیاگیاتھا۔اس کے لیے ہزہائیسنس کا لقب استعمال نہیں ہوتاتھا۔بلکہExalted Highness کالفظ استعمال کیاجاتاتھا۔میرعثمان انگریزوں کی طاقت کو جانتا اورسمجھتاتھا۔اسے معلوم تھاکہ یہ دولت اورشان وشوکت اسی وقت تک قائم ہے،جب تک برطانوی حکومت اس پر بھرپور اعتبارکرتی ہے۔
نظام نے انگریزوں کامکمل اعتمادحاصل کرنے کے لیے ہرکام کیا۔" شہزادی الزبتھ" کی شادی پرجوہار، نظام کی جانب سے تحفہ دیاگیا،وہ اپنی مثال آپ تھا۔یہ ہارآج بھی"ملکہ"استعمال کرتی ہے۔اسکانام بھی تحفہ دینے والے پر ہی رکھاگیاہے۔یہ"Nizam of Hyderabad Neeklace"کے طور پرجانا جاتا ہے۔ پہلی جنگ عظیم میں نظام نے برطانوی حکومت کی بھرپور مدد کی۔برطانوی ائیرفورس کونظام نے جنگی جہازخریدکرعطیہ کردیے۔ان جہازوں کے پروں پرنظام کانام لکھا ہواتھا۔
ائیرفورس کے اس سکوڈرن کانام "حیدر آباد سکوڈرن" رکھا گیاتھا۔تاج برطانیہ کی حکومت آسٹریلیاپربھی تھی۔نظام نے 1940ء یعنی دوسری جنگ عظیم میں،ایک بحری جنگی جہاز، رائل آسٹریلین نیوی کوخریدکرتحفہ کے طورپردیا۔اس بحری جہاز کانام"ایچ ایم اے سی نظام"رکھاگیا۔میرعثمان کوبرطانوی حکومت نے اسے"برطانوی حکومت کاسب سے وفادار دوست"کہاتھا۔1947ء کے ایک سال بعد یعنی1948ء میں ہندوستان کی حکومت نے نظام کے دورکو فوجی آپریشن "پولو"کے ذریعہ قصہ پارینہ بنادیا۔
نظام اس کے بعدمختلف سرکاری حیثیت سے کئی نمائشی عہدوں پرفائزرہا۔ اس کی ریاست کوتین صوبوں میں تقسیم کردیاگیا۔ کرناٹکہ، مہاراشٹرااورآندھراپردیش اس ریاست کی جغرافیائی تقسیم کی بدولت وجودمیں آئے ہیں۔یہ تمام حقائق آپکے سامنے رکھنے کامیرامقصدقطعاًیہ نہیں کہ میں ثابت کروں کہ "نظام" دنیا کاامیرترین انسان تھا۔بلکہ ان گزارشات کامقصدبالکل اور ہے۔میں یہ تمام چیزیں محض تمہیدکے طورپرعرض کررہاہوں۔
اب میں آپکے سامنے زندگی اورانسان کابالکل ایک مختلف رخ پیش کرتاہوں۔الیگزینڈرفلیمنگ اسکاٹ لینڈمیں ایک انتہائی غریب کسان کے گھرپیداہوا۔یہ ایک کم نصیب والابچہ تھا۔سات برس کی عمرمیں یتیم ہوگیاتھا۔یہ وہی دورانیہ ہے جس میں تاج برطانیہ ہندوستان پرحکومت کررہا تھااور حیدر آباددکن کی حکومت نظام کے پاس تھی۔غریب پسِ منظراس بچہ کی پہچان تھا۔غربت کی وجہ سے اوائل عمری میںبحری جہازوں کی کمپنی میں کام کرنے پرمجبورتھا۔چارسال وہ بطور کلرک وہاں کام کرتارہا۔
اس کے پاس تعلیم حاصل کرنے کے لیے کوئی سرمایہ نہیں تھا۔دوردرازکے عزیزنے فوت ہوتے وقت کچھ پیسے الیگزنڈرکے نام کردیے تھے۔ان پیسوں اوراپنے بھائی کی تحریک کی بدولت وہ1906ء میں لندن سے ایم بی بی ایس کرنے میں کامیاب ہوگیا۔پہلی جنگ عظیم میں الیگزنڈر نے برطانوی فوج میں شمولیت کرلی۔ڈاکٹرکی حیثیت سے وہ زخمی فوجیوں کی دیکھ بھال کرتاتھا۔ان کے آپریشن کرتا تھااور انھیں صحت یاب کرنے کی بھرپورکوشش کرتاتھا۔اصل میں وہ تحقیق کی دنیاکاآدمی تھا۔
اس نے پہلی جنگ عظیم میں مشاہدہ کیاکہ جیسے ہی زخمیوں کو اسپتال میں لایاجاتاہے اوران کے گہرے زخم صاف کیے جاتے ہیں ان میں سے اکثرلوگ تھوڑی مدت کے بعد"انفیکشن" کی وجہ سے مرجاتے ہیں۔ وہ برس ہابرس تحقیق کرتارہا۔مگراسے کچھ سمجھ نہیں آیا۔اپنے ساتھ کے ڈاکٹروں سے اس کی وجہ معلوم کرنے کی کوشش کرتارہتاتھا مگرکوئی بھی اس کے پُرتجسس ذہن کو مطمئن نہیں کرسکا۔جنگ عظیم اول کے بعدوہ لندن میں سینٹ میری میڈیکل کالج میں واپس آگیاجہاں وہ پروفیسر متعین کردیا گیا۔
وہ بیکٹریاپرتحقیق کررہاتھا۔1928ء ستمبرمیں اپنی بیوی کے ہمراہ چھٹیوں پرچلاگیا۔جاتے ہوئے اپنی لیبارٹری کاساراسامان کونے میں رکھ کرگیاتھا۔اس کی لیب میں ہرجانب بے ترتیبی ہی بے ترتیبی تھی۔واپس آکراس نے روٹین میں اپناسامان چیک کیا۔اسے لگاکہ اس کی کئی پلیٹوں میں صفائی نہ ہونے سے پھپوندی لگ گئی ہے۔مائیکروسکوپ میں اس پھپوندی کاتجزیہ کرنے لگ گیا۔یہ دیکھ کرحیران رہ گیاکہ جہاں جہاں پھپوندی لگی ہے،وہاں وہاں بیماری کے جراثیم ختم ہوچکے تھے۔
اس نے اس تجربہ کادوسرے ڈاکٹروں سے ذکر کیا۔ ادارے کے تمام سائنسدانوں نے تجربہ کی بنیادکودرست قرار دیا۔یہ دنیامیں سب سے عظیم تحقیق تھی۔یہ بنیادی طورپر پینسیلین کی بنیادبنی جس نے طب کی دنیاکومکمل طورپرتبدیل کرڈالا۔ آپ اندازہ فرمائیے کہ فلیمنگ اتناعاجز آدمی تھاکہ اس نے کبھی دعویٰ تک نہیں کیاکہ اس نے دنیاکی عظیم ترین تحقیق مکمل کی ہے۔
وہ مرتے دم تک صرف یہ کہتارہاکہ اس نے کوئی بڑا کام نہیں کیا۔وہ اپنے کام کاکوئی معاوضہ لینے کے لیے تیارنہیں تھا۔وہ کامیابی کاتمام سہراان سائنسدانوں کے سرباندھتا رہا جنہوں نے پینسلین کوعام آدمی کے لیے پیداکرنے کی استطاعت حاصل کی۔مگرسائنس اورصحت کی دنیا کا ہر انسان جانتاتھاکہ یہ تمام کارنامہ صرف اورصرف اس کی ذاتی تحقیق کی بدولت ممکن ہوا۔
میں نے آپکے سامنے دومختلف دنیاؤں کے بالکل متضاد انسانوں کاایک خاکہ پیش کیاہے۔ایک دنیاکابلاشرکت غیرے اپنے وقت کاامیرترین بادشاہ اوراسی دورانیہ میں ایک متوسط درجے کی مالی حیثیت رکھنے والاسائنسدان ۔آپکوان دونوں شخصیات میں کوئی بھی عنصریکساںنظرنہیں آئیگا۔آپ بالکل درست ہیں۔ان دونوں کے اندرکوئی قدرمشترک نہیں ہے۔
انکوایک دوسرے کاپتہ تک نہیں تھا۔نظام حیدرآبادکے لیے شائدالیگزنڈرفلیمنگ نام کاایک سائنسدان کسی اہمیت کا حامل نہ ہو۔دونوں تقریباًایک ہی دورمیں سانس لے رہے تھے مگرمختلف مدارمیں تھے۔میں نے دراصل آپکے سوچنے کے لیے دومختلف بلکہ متضادرول ماڈل سامنے رکھے ہیں۔ایک پیسہ اوردولت کابھرپورمجسم اوردوسرا عام لوگوں کی فلاح کے متعلق سوچنے والا،فکرکرنے والا،تدبرکرنے والا۔
اب آپ ان دومتضاد رول ماڈلز کوپاکستان کے معروضی حالات میں پرکھنے کی کوشش کریں۔آپ اپنے قائدین اور رہنماؤں کے رویوں کاتقابلی جائزہ لیجیے۔آپکوہرشہرمیں انتہائی امیرآدمی نظرآئینگے۔میراتعلق فیصل آبادسے ہے۔وہاں آپکو ارب پتی نہیں بلکہ کھرب پتی تاجرہرطرف نظرآئینگے۔آپ ایک شہرکوجانے دیجیے۔کیونکہ ہرشہرمیں آپکوبہتات سے امیر بلکہ انتہائی امیرلوگ مل جائینگے۔پورے ملک میں آپ تین چار ہزاردولت مندلوگوں کی فہرست بنالینگے۔
مگراس کے بالکل برعکس آپ اگرآپ سے غریب اورسفیدپوش انسانوں کے متعلق پوچھاجائے توآپ کوئی فہرست نہیں بناسکتے۔یہ بے نام لوگ صرف ہمارے ملک میں کڑوڑوں کی تعداد میں ہیں اورایک واضح اکثریت میں ہیں۔انکاشمارکرناکم ازکم میرے لیے توناممکن ہے۔
اب آپ میرے بیان کردہ دونوں شخصی ماڈلز کواپنے تناظرمیں دیکھیے کہ کون سے لوگ عام آدمی کی بھلائی کے لیے کام کرتے ہیں۔کس کانام تاریخ میں بہترین الفاظ میں یادرکھاجاتاہے۔کون ساایساماڈل ہے جوجیسے ہی اپنی آنکھیں بندکرتاہے،تواس کی عظمت کامیناردھڑام سے زمین پرگرجاتاہے۔کون کامیاب ہے اورکون ناکام!حقیقت میں کس نے ہرعام شخص کے لیے بے مثال بلکہ ہمیشہ یادرہنے والا کام کیااورکون سااپنے وقت کے بعد بے نشان ہوگیا۔
نظام حیدرآبادکی اپنے وقت کی دولت دوبلین ڈالر تھی۔ الیگزنڈرفلیمنگ ایک سفیدپوش سائنسدان تھا۔آپ تھوڑی دیر کے لیے بھول جائیے کہ اُن دونوں کاتعلق کس خطے سے تھا، مذہب کیاتھا،یہ کس نسل سے تعلق رکھتے تھے۔آپ انکوانسان اوران کے کارناموں کے حوالے کی عینک سے دیکھیے۔آپ ان کے نام بھی بھول جائیے۔
آپ ناموں کو محض استعارہ کے طور پراستعمال کیجیے۔ہمارے سیاسی، سماجی اوراقتصادی شعبوں میں ہزاروں ایسے لوگ ہیں جو ہروقت،صرف اورصرف پیسہ کماناچاہتے ہیں۔ان کی کامیابی کانظریہ صرف اورصرف مزید دولت کماناہے۔اُن میں سے چندایک ہرقیمت پردنیاکے امیرترین لوگوں کی فہرست میں آناچاہتے ہیں۔
مگریہ تمام لوگ تاریخ کاتکلیف دہ سبق بھول جاتے ہیں۔وہ یہ بھی فراموش کردیتے ہیں کہ ان کی ذات سے عام آدمی کی فلاح ہورہی ہے یانقصان۔وہ عام آدمی کی بھلائی کے لیے کوئی قابل ذکرکام نہیں کرتے۔وہ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ نظام حیدرآبادکے تقریباً149بچوں نے اس کی آنکھ بندہوتے ہی دولت کے حصول کے لیے ایک دوسرے کوعدالتوں اور چوراہوں میں ذلیل وخوارکردیاتھا۔
آج وہ تمام لوگ بے نشان ہوچکے ہیں۔ کوئی بھی ان میں سے کسی کانام تک نہیں جانتا۔اس کے برعکس ایک سفیدپوش محقق کی بدولت پوری دنیامیں روزانہ لاکھوں جانیں بچ رہی ہیں۔سوچنے کی بات ہے کہ حقیقت میں کامیاب کون ہے؟