جو نقش ِ کہن تم کو نظر آئے مٹا دو
اور فیض صاحب آپ بھی بہت کہتے تھے نہ کہ لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
صدام حسین کی حکومت کے خاتمے کے قریباً ایک ماہ بعد جب میں موصل کے قریب نینوا کے کھنڈرات دیکھنے پہنچا تو وہاں امریکی فوج کی ایک جیپ اور ایک گائیڈ موجود تھا۔ انھیں سب سے بڑی شکایت یہ تھی کہ رات کو نامعلوم افراد آتے ہیں اور یہاں کی اینٹیں اور نوادرات لے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔
لہٰذا کوئی رات ایسی نہیں گزرتی جب فائرنگ کا تبادلہ نہ ہوتا ہو۔ چنانچہ ان کھنڈرات کے درمیان موجود ایک چھوٹے سے میوزیم کے نوادرات موصل کے بڑے میوزیم میں منتقل کیے جا رہے ہیں۔ میں جب موصل میوزیم پہنچا تو اس کی پہرے داری پر تین ہزار سال پرانا ٹنوں وزنی پروں والا سنگی بیل مامور تھا۔ اس بیل کا جڑواں بھائی بہت سال پہلے انگریز لندن لے گئے جہاں وہ پیچھے رہ جانے والے بھائی کے انجام سے بے خبر آج بھی برٹش میوزیم میں ایستادہ ہے۔
موصل کا عجائب گھر واقعی عالمِ عجائبات میں سے تھا۔ لیکن اب سے چار دن پہلے اسلامک اسٹیٹ نے جو وڈیو ریلیز کی اس میں یہ میوزیم چند ہی گھنٹوں میں ایک کھوکھلے کھنڈر میں تبدیل ہوتا نظر آیا۔ پروں والا بیل جس نے تین ہزار سال اس تہذیب کی حفاظت کی۔ وہ بھی وزنی ہتھوڑوں کی تاب نہ لا سکا۔ اب یہ بیل آپ صرف عراقی کرنسی نوٹ پر ہی دیکھ سکتے ہیں۔ اس وڈیو میں ایک ہتھوڑا بردار کہہ رہا ہے تمام بت ختم ہو جائیں گے۔ ہر شرک کا سر ٹوٹ جائے گا۔ جو بھی قبل از اسلام کفر کی نشانیاں ہیں ان سے یہ زمین پاک ہونے جا رہی ہے۔
مجھے یہ وڈیو دیکھ کے سن دو ہزار ایک کا بامیان یاد آ گیا جب ملا عمر نے افغانستان کو شرک سے پاک کرنے کے لیے ڈیڑھ سو فٹ بلند گوتم بدھ کے دو بتوں کو توڑنے کا حکم دیا اور پھر انھیں ڈائنا مائیٹ لگا کے اڑا دیا گیا۔ کابل کے قومی عجائب گھر کی بربادی کا جو کام انیس سو ترانوے میں گلبدینی سپاہ کی گولہ باری سے شروع ہوا تھا اسے پایہِ تکمیل تک پہنچا کر اس میوزیم کو گندھارا تہذیب کی کفریت سے بھی بالاخر صاف کر دیا گیا۔
مگر انیس سو اٹھانوے میں پلِ خمری کی لائبریری کی پچپن ہزار کتابوں اور مخطوطات کو جانے کیوں آگ لگا دی گئی۔ ان کا تو قبل از اسلام افغانستان سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ پھر یاد آیا کہ زیادہ پڑھائی لکھائی بھی تو انسان کے لیے اچھی نہیں۔ خواہ مخواہ دماغ خراب ہو جاتا ہے۔ سوالات کے کیڑے سر میں کلبلانے لگتے ہیں۔
اور کیا کہنے انصار الدین کے جنہوں نے اب سے تین برس پہلے مالی کے تاریخی شہر ٹمبکٹو پر قبضے کے بعد سب سے پہلا کفر شکن کام یہ کیا کہ تین سو سے زائد اولیا اور علما کے مزاروں کو آگ لگا دی یا زمین کے برابر کر دیا اور پھر ٹمبکٹو کی مرکزی لائبریری اور احمد بابا انسٹی ٹیوٹ میں جمع شدہ تیرہویں سے سترہویں صدی تک کے تاریخ، جغرافیہ، فقہ، فلکیات، فلسفے و منطق کے تمام مخطوطات و کتابیں عمارات سمیت جلا ڈالے اور افریقہ کے اس مدینۃ العلم کے علمی ماتھے کا جھومر چھین لیا۔ مگر ان شرک شکنوں کو ٹمبکٹو سے چار ماہ بعد پسپا کس نے کیا؟ فرانس کے مشرک فوجی دستوں نے۔۔۔۔
مجھے ترس آ رہا ہے اقبال پر جس کا سو برس پہلے یہ سوچ سوچ کے گلا رندھ گیا۔
مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارہ
جانے آج اقبال افغانستان سے افریقہ تک پھیلی علمی و تاریخی میراث کو اپنے ہی شاہینوں کے ہاتھوں نچتا دیکھ کے کیا کہتا۔
ہائے وہ مسجدِ قرطبہ میں بیٹھ کر اقبال کا مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ پر ہچکیوں سے رونا۔ مگر مجھ جیسوں کا اس کی بر وقت موت پر رشک کرنا۔ اگر آج ہوتا تو زندہ درگور ہو گیا ہوتا یہ سن کر، پڑھ کر اور دیکھ کر کہ وہ مدینتہ النبی کہاں ڈھونڈے جس کی گلیوں کی خاک اس کی آنکھ کا سرمہ تھی۔ وہ قدیم مکہِ معظمہ کہاں تلاش کرے جسے شرک شکنی کے نام پر جدیدیت کا ابلیسی ڈائنا مائٹ کھا گیا۔
بہت پسند تھا نا اقبال کو صلاح الدین ایوبی۔ اب حلب میں جا کر وہ قلعہ خود ڈھونڈے جس کی فصیلوں سے صلاح الدین کی آنکھیں تاحدِ نگاہ پر قابض تھیں۔ اور پھر حصن الکرد کا وہ قلعہ جو اس نے صلیبیوں سے چھینا تھا۔ تازہ خوش خبری یہ ہے کہ اس نادر قلعے کو شرک شکنوں نے زمین کے سینے سے ہی چھین لیا۔ اور حلب کا دنیا کا سب سے طویل چھت دار مدینتہ السوق کہ جہاں امویوں سے لے کر عثمانیوں تک کون کون نہ گزرا۔ اس ڈھکے بازار کو بشار الاسد کی توپیں اور القاعدہ کا نعرہِ کفر شکن نگل گیا۔ اب رومن دور سے آباد حماہ اور حمص کے شہر صرف اتنے باقی ہیں کہ گدھ کچھ دن اور گزارہ کر لیں۔ اور دنیا کا مسلسل آباد قدیم ترین شہر دمشق کہ جس کے قدیم کوچے اور ان کوچوں میں گارے اور لکڑی کی خمیدہ عمارات کے لاشے فرسٹ ایڈ کو ترستے ہیں۔
انبیا کی سرزمین عراق اور اس عراق میں بابل و نینوا اور ار کی تہذیب، اور پھر حضرت شیث اور یونس علیہم السلام کے مزارات سے لے کر سامرہ میں امام حسن عسکری کے روضے تک۔ اب کرتے رہو تلاش انھیں چشمِ تر سے تم۔۔۔۔
ہو سکتا ہے آپ اس احوال پر کڑھیں اور آپ کا دل برا ہو۔ مگر خود آپ نے اپنی میراث کے ساتھ کیا کیا؟ پاکستان کے طول و عرض میں کتنے مخطوطات، قلمی نسخے، مزارات و خانقاہیں، قدیم مدارس، مساجد، قلعے، زیرِ زمین تہذیبی آثار اور انھیں جاننے، محفوظ کرنے اور اگلی نسلوں تک پہنچانے کا جذبہ، حوصلہ اور وسائل؟ یہ سب آپ کو اپنے ہی گریبان میں مل جائیں گے۔
کچھ اندازہ ہے اب تک کتنا گندھارا ٹیکسلا سے چوری ہو گیا ہو گا؟ کسی کو معلوم ہے کہ زرعی زمینوں کی لالچی فصلوں نے کیسے ہڑپا کے آثار کا ہانکا کر رکھا ہے؟ موہنجو دڑو کو سیم لے جائے کہ چور تمہیں اس سے کیا؟ محمد بن قاسم پہلا پاکستانی تھا نا؟ ذرہ اب کوئی مسجد تو ڈھونڈ کے دکھاؤ جسے اس کی سپاہ یا بعد میں آنے والی سپاہ نے بنوایا۔ چلو کچھ نہیں تو مغل، کلہوڑہ، تالپور اور عباسی دور کے قلعے اور محلات اور ٹھٹہ کا سنہرا دور اور قبرستان ہی بتا دو کس حال میں ہیں؟ ہاں مگر کتے، بلیاں تمہیں دعا دیتے ہیں کہ ان کے بسیرے کے لیے تم نے ان سب جگہوں کو فراغ دلی سے چھوڑ دیا۔
بس تم وہی کرتے رہو جو اب تک کرتے آئے ہو۔ اب بھی ہلاکو خان کو ہی کوستے رہو۔ جس نے بارہ سو اٹھاون میں بغداد میں داخلے کے بعد پہلے تو خلیفہ کو قالین میں لپیٹ کے ڈنڈوں سے ہلاک کروایا اور پھر مرکزی لائبریری کو آگ لگانے سے پہلے مخطوطات اور قلمی کتابوں سے خالی کر کے دجلہ و فرات میں ڈال دیا اور اس علمی خزانے کی روشنائی سے دریا کا پانی سیاہ کر دیا۔
امریکیوں کو گالی دیتے رہو جنہوں نے دو ہزار تین میں اپنی آنکھوں کے سامنے بغداد کا قومی عجائب گھر لٹوا دیا مگر وزارتِ تیل کے دفاتر کے اوپر سے پرندہ تک نہیں پھٹکنے دیا۔ صیہونیوں پر تین حرف بھیجتے رہو کہ جس کی اندھی بمباری سے غزہ کی قدیم ترین مسجد شہید ہو گئی۔ اور وہ بیت المقدس کو ڈھانے کا ارادہ بھی باندھے بیٹھے ہیں۔
اور ہندو جوشیلوں کے ہاتھوں بابری مسجد کی تباہی کے بدلے ہزاروں سال پرانے مندر توڑتے رہو اور نریندر مودی کے گجرات کے دل احمد آباد میں مشرکوں کے ہاتھوں پانچ سو برس پرانی مسجدِ سلطان احمد شاہ اور اردو شاعری کی آبرو ولی گجراتی کے تین سو سال پرانے مزار کی تباہی کے نوحے لکھتے رہو اور مشرکوں اور ان کی نشانیوں کے تعاقب میں رہو۔ مگر روئے سخن کبھی بھی مالی، شام، عراق، سعودی عرب، افغانستان اور اپنی جانب مت کرنا۔ اس کے بدلے اس اقبالی شعر کے نئے نئے مطالب سوچتے رہنا،
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
اور فیض صاحب آپ بھی بہت کہتے تھے نہ کہ لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے، وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے۔۔۔۔۔ اب دیکھئے اور دیکھتے چلے جائیے۔۔۔