مزدوروں کے حقوق کی علامت
ہر طاقتور غریب پر ظلم کرتا دکھائی دیتا ہے جس کو ذرہ بھر بھی اختیار مل جائے تو وہ دوسروں کو اپنا غلام سمجھنے لگتا ہے
ہر ذی نفس کی خواہش ہوتی ہے کہ اُسے دنیا کی ہر چیز باآسانی دستیاب ہو اُس کا ہرکام چٹکی بجاتے ہوجائے وہ ساری دنیا کی سیاحت کرے یعنی انسانی خواہشات لا محدود ہیں جن کی تکمیل کے لیے وہ جہد مسلسل میں مصروف نظر آتا ہے۔
یہ سلسلہ ازل سے جاری ہے اور ابد تک رہے گا یعنی ایک نئی نسل دنیا میں آتی ہے اور دوسری پرانی نسل کی جگہ لے لیتی ہے یعنی ہمارے آبا و اجداد جو اس دنیائے فانی سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ یہ Circle نہ جانے کب سے رواںدواں ہے لیکن ایک دن اس دنیا کو بھی فنا ہو جانا ہے جس پر تقریباً تمام انسانوں کا ایمان ہے ۔پھر آخر کیا وجوہات ہیں کہ انسان ایک دوسرے پر سبقت لے جانا چاہتا ہے دوسرے کو نیچا دکھانا چاہتا ہے۔
ہر طاقتور غریب پر ظلم کرتا دکھائی دیتا ہے جس کو ذرہ بھر بھی اختیار مل جائے تو وہ دوسروں کو اپنا غلام سمجھنے لگتا ہے اور یہ سلسلہ تاحال ہر سطح پر نظر آتا ہے افسر شاہی ہو یا کسی بھی مل، فیکٹری غرض یہ کہ ایک معمولی دکاندار ہو یا سرمایہ دار طبقہ محنت کشوں پر ظلم وستم سے باز نہیں آتا یہ وہ المیہ ہے جو اختتام پزیر ہونے کا نام ہی نہیں لیتا لیکن ظلم وستم کو ختم کرنے کے لیے اور محنت کشوں کی داد رسی کے لیے اللہ رب العزت نے ہر دور میں کسی نہ کسی مسیحا کو ظالموں کے مقابلے کے لیے بھیجا ہے تاکہ وہ ان ظالموں کو کیفرکردار تک پہنچا کر دکھی انسانیت کی خدمت کرے اور انصاف کی بالادستی کے لیے کام کرسکے اور غریب محنت کش طبقے کو ان کے جائز حقوق دلائے جا سکیں۔
دنیا بھر میں خصوصاً پاکستان میں مزدور طبقے کے ساتھ ناروا سلوک رکھا جا رہا ہے گورنمنٹ کے ملازم ہوں یا پرائیوٹ ملازم۔ معیشت پر بوجھ کا بہانہ بنا کر مزدوروں کو نوکری سے نکال دیا جاتا ہے جس سے غریب ومتوسط طبقے کے گھروں کے چولہے کو بجھانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور کتنے ہی ملازموں کو جھوٹ وفریب اور الزام تراشی کر کے ان کے اہل خانہ کو بھوک پیاس اور ذہنی اذیت میں مبتلا کر دیا جاتا ہے۔
(حال ہی میں ایک غریب محنت کش منظور احمد جو کہ ڈاکٹر اے کیو خان انسٹٹیوٹ آف بائیو ٹیکنالوجی اینڈ جینیٹک انجینئرنگ میں بطور مینجر 11سالوں سے خدمات انجام دے رہا تھا لیکن اُسے جھوٹ و فریب کی چکی میں افسر شاہی نے پیس دیا جو سراسر ظلم ہی نہیں بلکہ ایک غریب خاندان کے چولہے کو بجھا دینے کے مترادف ہے) لیکن گورنمنٹ کے رولز اینڈ ریگولیشنز کے مطابق کسی بھی ملازم کو نکالنے کے لیے صرف الزام تراشی کافی نہیں ہوتی جو کہ جھوٹ و فریب کی بنیاد پر ہو ۔ منظور احمد نے ایک اعلیٰ افسر کے کہنے پر صرف نوکری بچانے کے لیے کہ اس معافی نامہ کے عمل سے میرے گھر کا چولہا جلتا رہے گا۔
کیونکہ اسے تسلی دی گئی تھی کہ تمہاری نوکری اس طرح بحال کردی جائے گی لیکن افسوس کہ وہ آج بھی کئی ماہ گزرنے کے باوجود دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہے کہ شاید اس کی نوکری بحال کر دی جائے) جب افسر شاہی داد رسی کرنے کی بجائے غریبوں کو ذاتی انتقام کی بھینٹ چڑھانے لگیں تو پھر انسان خودکشی پر مجبور ہوجاتا ہے ۔
میری لیبر ڈویژن اور تمام متعلقہ حکام سے گزارش ہے کہ منظور احمد اور اس طرح کے جتنے بھی ملازمین جو افسر شاہی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں انھیں فوری طور پر انصاف فراہم کیا جائے۔ اس کے علاوہ میں جامعہ کراچی کی انتظامیہ اور بالخصوص شیح الجامعہ سے یہ اپیل کرتا ہوں کہ منظور احمد کو فوری طور پر ان کی نوکری پر بحال کیا جائے۔
مہنگائی بھوک اور افلاس نے مزدور طبقے کو موت کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے ، ان سب صورتحال کی ذمے داری اگر کسی پر عائد ہوتی ہے تو وہ ملک کے فرسودہ نظام سے وابستہ عناصر ہیں ان سب کا قلع قمع کرکے مزدوروں کے حقوق کی حفاظت کے لیے، مہنگائی کے خاتمے کے لیے، انصاف کی فراہمی کے لیے ،مزدوروں کی عزت ِ نفس مجروح ہونے سے بچانے کے لیے، مزدوروں کے اہل خانہ کے بہتر مستقبل کے لیے اس ملک میں بے شمار لیبر ورکرز تنظیمیں ضرور قائم ہیں لیکن ان سب میں سے اگر کوئی مزدوروں کے حقوق کا دفاع کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے تو وہ ہے حق پرست لیبر ڈویژن ! جس کے منشور میں مزدوروں کو ان کا حق دلانا ہے ۔
لیبر ڈویژن کے کارکنان نے مزدور طبقہ کے حقوق کے لیے اپنے جانوں کا نذرانہ دے کر مزدور طبقے کی عزت نفس کے تحفظ کا بیڑہ اٹھایا ہوا ہے ۔لیبر ڈیویژن کے کارکنان نے دنیا کو یہ باور کرا دیا ہے کہ ہم قائد تحریک الطاف حسین کے سپاہی ہیں مزدور طبقے کو ان کا جائز حق دلانے کے لیے ہم کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے ۔الحمد للہ اس جدید ترقی کے دور میں MQM اپنی لیبر ڈویژن کے کارکنان کی کاوشوں سے نہ صرف مزدور طبقے کے مسائل کو حل کرنے میں مصروف عمل ہے بلکہ مزدور طبقے سے تعلق رکھنے والی مخلص جماعت اگر کوئی ہے تو وہ ہے MQM کا لیبر ڈویژن جو کسی تعریف کا محتاج نہیں۔
قائد تحریک الطاف حسین نے لیبر ڈویژن کی بنیاد 28 فروری 1987 کو رکھی یہ قائد تحریک کا احسان عظیم ہے کہ انھوں نے مزدور طبقے کے مسائل کے حل کے لیے عملی اقدامات کیے اور ہر فورم پر مزدور طبقے کے بنیادی مسائل کو حل کرنے کے لیے لیبر ڈویژن قائم کی اور محنت کشوں کو قوت بخشی کیونکہ قائد تحریک کا مشن ہی دکھی انسانیت کی خدمت کرنا ہے ۔
حالات چاہے جو بھی ہوں MQM سے تعلق رکھنے والے لیبر ڈویژن کے جانثار کارکنان قائد تحریک کے دیے ہوئے فلسفے کے مطابق اپنے مشن پر گامزن رہتے ہیں اور ان کی کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ مزدور طبقے کے مسائل حل ضرور ہوئے ہیں لیکن وہ ناکافی ہیں، مزدوروں کے مسائل جب تک مکمل نہیں ہوتے لیبر ڈویژن کے کارکنان بلا خوف و خطر مسائل کے حل تک اپنی کاوشوں کو جاری رکھے گی ۔
پاکستان میں مہنگائی کا اگر جائزہ لیا جائے تو جس سطح پر مہنگائی پہنچ چکی ہے وہ دیگر ممالک کے مقابلے میں بے حد زیادہ ہے اور بے روزگاری کے نتیجے میں لوگ دہشت گردی پر اتر آئے ہیں کیونکہ بے روزگاری دہشت گردی میں فروغ کا باعث بنتی ہے۔ لہٰذا ان مسائل کے حل کے لیے فوری توجہ کی ضرورت ہے کیونکہ اگر ان مسائل کا حل تلاش نہ کیا گیا تو پاکستان کے عوام بدحالی کی جانب مزید تیزی سے بڑھیں گے اور یہ صورتحال آنے والے وقتوں میں بھیانک نتائج کی حامل ہوگی ۔
لہٰذ ا حکومت وقت پر یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ عوام کے مسائل ، بے روزگاری جیسے مسئلے کو حل کر نے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرے اور انقلابی اقدامات کے ذریعے اپنی معیشت کو مضبوط بنانا ہوگا اور چھوٹی چھوٹی انڈسٹریز کا قیام عمل میں لاکر عوام کے مسائل حل کیے جاسکتے ہیں۔آج تک پاکستان میں کوئی ایسی حکومت نہیں آئی جو غریبوں کے مسائل حل کرنے کی طرف توجہ دے سکے افسوس کہ روٹی کپڑا اور مکان غریبوں کے لیے ایک معمہ اورکھوکھلا نعرہ بن کر رہ گیا ہے ۔
28 فروری کے دن کی مناسبت سے لیبر ڈویژن کے کارکنان قائدتحریک الطاف حسین کے فکر انگیز فلسفے پر عمل پیرا رہتے ہوئے اسی طرح غریب و متوسط طبقے کے مسائل کے حل کے لیے اپنی جہد مسلسل جاری رکھیں گے کیونکہ اسی میں تحریک کی کامیابی کا راز مضمر ہے، جذبہ ایثاری کے بغیر تحریک کی کامیابی بے معنی ہے۔
لہٰذا لیبر ڈویثرن نے جس طرح ماضی میں تحریک کو جلا بخشنے کے لیے کارنامے سر انجام دیے ہیں اور تحریک کی قوت میں بھر پور اضافہ کیا ہے اُسی جذبے کے تحت کارکنان کو میدان عمل میں اُترنا ہوگا کیونکہ مزدور طبقے کے لیے جو جہد مسلسل جاری ہے وہ کوئی عام بات نہیں ہے بلکہ صدیوں سے مزدوروں کا خون چوسنے والے فرسودہ نظام کے حامی جاگیرداروں، سرمایہ داروں کے پنجوں سے ان مزدوروں کونجات دلانا اجر عظیم بھی ہے اور مظلوم عوام کے غصب شدہ حقوق دلانا اُن کے خوابوں کی تعبیر بھی ہے اور پاکستان کی ترقی کے لیے مثبت قدم بھی ہے۔