ادبی میلے
اردو کا دامن تمام مقامی و بین الاقوامی زبانوں سے استفادہ کے باعث وسیع ہوا ہے
امجد اسلام امجد کا کالم ادبی میلے (اتوار 15فروری) پڑھتے ہوئے احساس ہوا کہ انھوں نے جن حقائق پر روشنی ڈالی ہے ان سے ہم سب واقف ہیں مگر صرف نظر کرنے کی عادت کے باعث ان کا اظہار کرنا کچھ ضروری نہیں سمجھتے۔
میں نے گزشتہ تعلیمی سال کے اختتام پر اسکول انتظامیہ کے طرز عمل اور اساتذہ کرام کے مسائل پر دوکالم نذر قارئین کیے تھے جس پر امجد صاحب کے کالم کے پہلے پیرا گراف میں بھی بہتر انداز میں روشنی ڈالی گئی ہے اس کے علاوہ میں ان کے اس (سوال) خیال سے بھی صد فی صد اتفاق کرتی ہوں کہ ''نیشنل بنائے بغیر آپ کسی انسان کو انٹرنیشنل کیسے بناسکتے ہیں؟''
جہاں تک کالم نگار کا یہ کہنا ہے کہ ''آٹھویں جماعت سے آگے تعلیم پانے والے بچوں میں سے پانچ فیصد اردو کے چند جملے بھی آسانی سے پڑھ یا لکھ نہ سکتے ہوں'' تو اس میں میری طرف سے یہ واضح اضافہ ہے کہ اے لیول اور انٹرمیڈیٹ ہی نہیں بلکہ بی اے کی سطح کے طلبا (انگریزی نہیں اردو میڈیم کے پڑھے ہوئے بھی) اپنا نام تک اردو میں درست لکھنے کے اہل نہیں ہوتے میرا ذاتی تجربہ ہے عمران۔ امران، شکیل ثقیل اور قاسم کاصم بن جاتا ہے جب کہ آمر عامر اور عام آدمی آم آدمی ہوتا ہے۔
ایسے میں ادبی میلے ہماری ثقافت کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔مگر دیکھنا ہوگا کہ اردو زبان کے فروغ اور معیار میں کیا کردار ادا کر رہے ہیں؟ کیونکہ زبان کا معیار تو اسکول کی چھٹی ساتویں جماعت تک ادبی ذوق، پڑھ کر سمجھنا اور ازخود کچھ لکھنا آجانے سے مشروط ہے جب کہ عالم یہ ہے کہ انٹرمیڈیٹ اور اے لیول تک طلبا اپنا نام اردو میں درست لکھنے کے اہل نہیں ہیں۔
چند جملے بغیر گرامر اور ہجے کی اغلاط کے لکھنے سے معذورادبی میلے اس سطح پر اردو کا معیار بلند کرنے کے لیے کچھ کرتے ہیں اور نہ ہی اساتذہ (ان درجوں کے) کے لیے کوئی تربیتی سرگرمی اختیار کرتے ہیں۔ دنیا بھر کے دانشوروں کو جمع کرکے صرف اس طبقے کو جو اردو کے بجائے یورپی ادب کا زیادہ دلدادہ ہے کہ ذوق کی تسکین کا موقع فراہم کرنا ہے جو فی زمانہ واقعی اچھا اور بڑا کام ہے کیونکہ موجودہ دور میں ادبی ترقی بین الاقوامی ادب کے مطالعے کے بغیر ممکن ہی نہیں۔
اردو کا دامن تمام مقامی و بین الاقوامی زبانوں سے استفادہ کے باعث وسیع ہوا ہے اور آج تمام تر منفی کوششوں کے باجود اردو زبان اس مقام پر فائز ہے کہ وہ دنیا کی ہر زبان سے آنکھ ملا سکتی ہے۔ دنیا بھر میں تیزی سے اپنی جگہ بناتی ہوئی زبان ہے۔ مگر سمجھ میں نہیں آتا کہ اردو نے کسی کا کیا بگاڑا ہے کہ وطن عزیز ہی نہیں پورے برصغیر میں جہاں یہ زبان پیدا ہوئی پلی بڑھی اظہار خیال اور رابطے کی منازل طے کیں ہر موضوع اور مضمون کو وسعت دی، اس پر کسی کی نظر کرم نہیں پڑتی۔
سرکاری سرپرستی سے تو یہ ہمیشہ محروم رہی لیکن عوامی حمایت ہی نہیں ضرورت نے اس کو وقت کے ساتھ ساتھ نہ صرف اہم بلکہ بین الاقوامی مقام تک پہنچایا۔ اس کے باوجود قومی زبان ہوتے ہوئے قومی سطح پر اس کے نفاذ کو روکنے کے لیے طرح طرح کی سازشیں کی جا رہی ہیں۔ اردو کا جنازہ بڑی دھوم سے اس وقت تو نہ اٹھ سکا جس وقت باقاعدہ تحریک کی صورت میں یہ کوشش کی گئی تھی البتہ اب ہم سب یہ جنازہ اپنے اپنے کاندھوں پر خوشی خوشی اٹھائے پھر رہے ہیں۔ والدین فخریہ کہتے ہیں کہ ان کے بچے بہت اچھی انگریزی بولتے اور لکھتے ہیں مگر اردو وہ بول ہی نہیں سکتے۔
مادری زبانوں کے عالمی دن پر شاید پہلی بار (میرے مطالعے کی حد تک) کسی وزیر نے یہ دل خوش کن بیان دیا کہ اردو کو اپنائے بغیر ہم اپنی ثقافت کو بچا سکتے ہیں نہ اپنی پہچان برقرار رکھ سکتے ہیں۔
مگر سرکاری سطح پر نفاذ اردو کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش بھی نظر نہیں آتی۔ ادبی میلے کئی ادارے مختلف شہروں میں تواتر سے منعقد کرتے رہتے ہیں مگر سوال وہی ہے کہ وہ اردو ادب کی خدمت اور بطور زبان اردو کے فروغ میں کیا کردار ادا کر رہے ہیں؟ ایک حالیہ ادبی میلہ جس کو کراچی لٹریچر فیسٹیول کہا گیا، چھ تا آٹھ فروری ایک مقامی ہوٹل میں منعقد کیا گیا ۔
مجھے اسی ہوٹل میں چار یا پانچ سال قبل کا ایک پروگرام یاد آگیا جو محترمہ شائستہ اکرام اللہ (مرحومہ) کی دلی کے محاوروں پر مشتمل کتاب کی تقریب رونمائی کے لیے منعقد کی گئی تھی، شائستہ اکرام اللہ کے نام پر ایسے ایسے لوگ اس تقریب میں پہنچے کہ یقین نہیں آیا کہ اس ''قحط ادب'' کے دور میں بھی اتنی دلچسپی۔ مگر یہ وہ لوگ تھے جو واقعی ادبی ذوق کے دور اور مصنفہ کی شخصیت اور ادبی خدمات کے گرویدہ تھے ویل چیئر پر تشریف فرما ضعیف و معذور خواتین و حضرات، واکر کے سہارے چلتے ہوئے ادب کے پیاسے اور عصا تھام کر آہستہ آہستہ سنبھل کر چلتے ہوئے کتنے ہی لوگ جوق در جوق آ رہے تھے میں اور میری ساتھی شاہینہ سلطانہ جو ایک تجزیہ کار اور وسیع مطالعے کی حامل اردو استاد ہیں اس صورتحال سے اس قدر خوش تھے کہ آج ایک اچھی ادبی تقریب سے لطف اندوز ہوں گے تقریب گاہ کھچا کھچ بھر چکی تھی۔
اسٹیج سے تقریب کا مختصر تعارف اور آغاز کا اعلان کیا، ہم نہ صرف ہمہ تن گوش ہوگئے بلکہ نوٹ بک اور قلم بھی سنبھال لیا تاکہ مصنفہ کے بارے میں اہم نکات و انکشافات رقم کرسکیں آصف فرخی نے مصنفہ کے حالات پر مختصراً روشنی ڈالی ۔ اس کے بعد محترمہ امینہ سید نے کتاب پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ مصنفہ نے دلی کی خواتین کے محاوروں کو یکجا کیا جو بہت دلچسپ ہیں۔ اس کے بعد ہمارا خیال تھا کہ اب ضرور مصنفہ کے حیات و فن پر مدلل اور نئے زاویوں سے مختلف ادبی شخصیات روشنی ڈالیں گے ، مگر ہوا یہ کہ یہ گفتگو کتاب میں شامل دو یا تین محاورات کے معنی بتانے کی حد تک محدود رہی۔
انتہائی مختصر انداز میں یہ مرحلہ طے ہوا ۔ جب کہ شاہینہ کا کہنا تھا کہ میں تو محترمہ سے ذاتی تعلق رکھتی ہوں ان کی نجی و ادبی زندگی کے کئی گوشوں سے واقف ہوں ان ہی کا تذکرہ کر کے محفل میں موجود بہت سے افراد کی معلومات میں اضافے کا سبب بن سکتی تھی ۔
میں نے گزشتہ تعلیمی سال کے اختتام پر اسکول انتظامیہ کے طرز عمل اور اساتذہ کرام کے مسائل پر دوکالم نذر قارئین کیے تھے جس پر امجد صاحب کے کالم کے پہلے پیرا گراف میں بھی بہتر انداز میں روشنی ڈالی گئی ہے اس کے علاوہ میں ان کے اس (سوال) خیال سے بھی صد فی صد اتفاق کرتی ہوں کہ ''نیشنل بنائے بغیر آپ کسی انسان کو انٹرنیشنل کیسے بناسکتے ہیں؟''
جہاں تک کالم نگار کا یہ کہنا ہے کہ ''آٹھویں جماعت سے آگے تعلیم پانے والے بچوں میں سے پانچ فیصد اردو کے چند جملے بھی آسانی سے پڑھ یا لکھ نہ سکتے ہوں'' تو اس میں میری طرف سے یہ واضح اضافہ ہے کہ اے لیول اور انٹرمیڈیٹ ہی نہیں بلکہ بی اے کی سطح کے طلبا (انگریزی نہیں اردو میڈیم کے پڑھے ہوئے بھی) اپنا نام تک اردو میں درست لکھنے کے اہل نہیں ہوتے میرا ذاتی تجربہ ہے عمران۔ امران، شکیل ثقیل اور قاسم کاصم بن جاتا ہے جب کہ آمر عامر اور عام آدمی آم آدمی ہوتا ہے۔
ایسے میں ادبی میلے ہماری ثقافت کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔مگر دیکھنا ہوگا کہ اردو زبان کے فروغ اور معیار میں کیا کردار ادا کر رہے ہیں؟ کیونکہ زبان کا معیار تو اسکول کی چھٹی ساتویں جماعت تک ادبی ذوق، پڑھ کر سمجھنا اور ازخود کچھ لکھنا آجانے سے مشروط ہے جب کہ عالم یہ ہے کہ انٹرمیڈیٹ اور اے لیول تک طلبا اپنا نام اردو میں درست لکھنے کے اہل نہیں ہیں۔
چند جملے بغیر گرامر اور ہجے کی اغلاط کے لکھنے سے معذورادبی میلے اس سطح پر اردو کا معیار بلند کرنے کے لیے کچھ کرتے ہیں اور نہ ہی اساتذہ (ان درجوں کے) کے لیے کوئی تربیتی سرگرمی اختیار کرتے ہیں۔ دنیا بھر کے دانشوروں کو جمع کرکے صرف اس طبقے کو جو اردو کے بجائے یورپی ادب کا زیادہ دلدادہ ہے کہ ذوق کی تسکین کا موقع فراہم کرنا ہے جو فی زمانہ واقعی اچھا اور بڑا کام ہے کیونکہ موجودہ دور میں ادبی ترقی بین الاقوامی ادب کے مطالعے کے بغیر ممکن ہی نہیں۔
اردو کا دامن تمام مقامی و بین الاقوامی زبانوں سے استفادہ کے باعث وسیع ہوا ہے اور آج تمام تر منفی کوششوں کے باجود اردو زبان اس مقام پر فائز ہے کہ وہ دنیا کی ہر زبان سے آنکھ ملا سکتی ہے۔ دنیا بھر میں تیزی سے اپنی جگہ بناتی ہوئی زبان ہے۔ مگر سمجھ میں نہیں آتا کہ اردو نے کسی کا کیا بگاڑا ہے کہ وطن عزیز ہی نہیں پورے برصغیر میں جہاں یہ زبان پیدا ہوئی پلی بڑھی اظہار خیال اور رابطے کی منازل طے کیں ہر موضوع اور مضمون کو وسعت دی، اس پر کسی کی نظر کرم نہیں پڑتی۔
سرکاری سرپرستی سے تو یہ ہمیشہ محروم رہی لیکن عوامی حمایت ہی نہیں ضرورت نے اس کو وقت کے ساتھ ساتھ نہ صرف اہم بلکہ بین الاقوامی مقام تک پہنچایا۔ اس کے باوجود قومی زبان ہوتے ہوئے قومی سطح پر اس کے نفاذ کو روکنے کے لیے طرح طرح کی سازشیں کی جا رہی ہیں۔ اردو کا جنازہ بڑی دھوم سے اس وقت تو نہ اٹھ سکا جس وقت باقاعدہ تحریک کی صورت میں یہ کوشش کی گئی تھی البتہ اب ہم سب یہ جنازہ اپنے اپنے کاندھوں پر خوشی خوشی اٹھائے پھر رہے ہیں۔ والدین فخریہ کہتے ہیں کہ ان کے بچے بہت اچھی انگریزی بولتے اور لکھتے ہیں مگر اردو وہ بول ہی نہیں سکتے۔
مادری زبانوں کے عالمی دن پر شاید پہلی بار (میرے مطالعے کی حد تک) کسی وزیر نے یہ دل خوش کن بیان دیا کہ اردو کو اپنائے بغیر ہم اپنی ثقافت کو بچا سکتے ہیں نہ اپنی پہچان برقرار رکھ سکتے ہیں۔
مگر سرکاری سطح پر نفاذ اردو کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش بھی نظر نہیں آتی۔ ادبی میلے کئی ادارے مختلف شہروں میں تواتر سے منعقد کرتے رہتے ہیں مگر سوال وہی ہے کہ وہ اردو ادب کی خدمت اور بطور زبان اردو کے فروغ میں کیا کردار ادا کر رہے ہیں؟ ایک حالیہ ادبی میلہ جس کو کراچی لٹریچر فیسٹیول کہا گیا، چھ تا آٹھ فروری ایک مقامی ہوٹل میں منعقد کیا گیا ۔
مجھے اسی ہوٹل میں چار یا پانچ سال قبل کا ایک پروگرام یاد آگیا جو محترمہ شائستہ اکرام اللہ (مرحومہ) کی دلی کے محاوروں پر مشتمل کتاب کی تقریب رونمائی کے لیے منعقد کی گئی تھی، شائستہ اکرام اللہ کے نام پر ایسے ایسے لوگ اس تقریب میں پہنچے کہ یقین نہیں آیا کہ اس ''قحط ادب'' کے دور میں بھی اتنی دلچسپی۔ مگر یہ وہ لوگ تھے جو واقعی ادبی ذوق کے دور اور مصنفہ کی شخصیت اور ادبی خدمات کے گرویدہ تھے ویل چیئر پر تشریف فرما ضعیف و معذور خواتین و حضرات، واکر کے سہارے چلتے ہوئے ادب کے پیاسے اور عصا تھام کر آہستہ آہستہ سنبھل کر چلتے ہوئے کتنے ہی لوگ جوق در جوق آ رہے تھے میں اور میری ساتھی شاہینہ سلطانہ جو ایک تجزیہ کار اور وسیع مطالعے کی حامل اردو استاد ہیں اس صورتحال سے اس قدر خوش تھے کہ آج ایک اچھی ادبی تقریب سے لطف اندوز ہوں گے تقریب گاہ کھچا کھچ بھر چکی تھی۔
اسٹیج سے تقریب کا مختصر تعارف اور آغاز کا اعلان کیا، ہم نہ صرف ہمہ تن گوش ہوگئے بلکہ نوٹ بک اور قلم بھی سنبھال لیا تاکہ مصنفہ کے بارے میں اہم نکات و انکشافات رقم کرسکیں آصف فرخی نے مصنفہ کے حالات پر مختصراً روشنی ڈالی ۔ اس کے بعد محترمہ امینہ سید نے کتاب پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ مصنفہ نے دلی کی خواتین کے محاوروں کو یکجا کیا جو بہت دلچسپ ہیں۔ اس کے بعد ہمارا خیال تھا کہ اب ضرور مصنفہ کے حیات و فن پر مدلل اور نئے زاویوں سے مختلف ادبی شخصیات روشنی ڈالیں گے ، مگر ہوا یہ کہ یہ گفتگو کتاب میں شامل دو یا تین محاورات کے معنی بتانے کی حد تک محدود رہی۔
انتہائی مختصر انداز میں یہ مرحلہ طے ہوا ۔ جب کہ شاہینہ کا کہنا تھا کہ میں تو محترمہ سے ذاتی تعلق رکھتی ہوں ان کی نجی و ادبی زندگی کے کئی گوشوں سے واقف ہوں ان ہی کا تذکرہ کر کے محفل میں موجود بہت سے افراد کی معلومات میں اضافے کا سبب بن سکتی تھی ۔