حالات حوصلہ افزاء نہیں یہ ہوائی روزی ہے
لوگ گلوکاروں کیلے تولاکھوں روپے ادا کرنے کے لیے تیارہیں، لیکن میجک شو کے لیے چند ہزار روپے بھی خرچ نہیں کرتے،ایم یاسین
٭ ایم یاسین
ایم یاسین گذشتہ 20 برس سے میجک کے شعبے سے منسلک ہیں۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے ایم یاسین کہتے ہیں، ''بچپن ی سے اس شعبے میں دلچسپی پیدا ہو گئی تھی۔ ٹیوشن پڑھنے جاتا تھا تو وہاں ایک بچے سے ایک دو معمولی کرتب سیکھے۔ مجھے یہ کام اچھا لگا۔ چنانچہ زیادہ سنجیدگی سے میجک ٹرکس میں دلچسپی لینا شروع کر دی۔
اس زمانے میں پی ٹی وی پر دوسرے ملکوں کے میجک شوز دکھائے جاتے تھے، ان سے کچھ آگاہی ملی۔ دوسرے ملکوں میں مقیم رشتے داروں نے بھی میرے اس شوق کے ضمن میں تعاون فراہم کیا اور معلوماتی سی ڈیز وغیرہ لاکر دیں۔''انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں اس پروفیشن سے وہ آمدن نہیں ہوتی، جو ہونی چاہیے۔
لوگ گلوکاروں کے لیے تو لاکھوں روپے ادا کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں، لیکن میجک شو کے لیے چند ہزار روپے بھی خرچ نہیں کرتے۔ تاہم، جو نوجوان میجیشن اپنے شوز کے لیے اچھی مارکیٹنگ کرتے ہیں، وہ مہینے میں اچھا خاصا کما لیتے ہیں۔
ایم یاسین بتاتے ہیں کہ سادہ لوح لوگ ہمارے ٹرکس سے حیران ضرور ہوتے ہیں۔ وہ پوچھتے ہیں، جب آپ کاغذ کے نوٹ بنا سکتے ہیں تو آپ کو شو کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ گھر بیٹھ کر نوٹ بنائیں اور ارب پتی بن جائیں۔
لیکن میں انہیں صاف بتا دیتا ہوں کہ یہ جادو نہیں ہے، بل کہ میجک ٹرکس ہیں۔ اسی طرح ایک نوجوان نے ''مشورہ'' دیا کہ جس طرح آپ ہماری نظر بندی کرلیتے ہیں، اسی طرح بینک جا کر آپ کیشیئرز کی نظر بندی کریں اور سارے پیسے اٹھا کر آ جائیں، جس پر میں نے وضاحت کی کہ یہ نظر بندی وغیرہ کچھ نہیں ہے، بلکہ ہم تو مخصوص چیزوں کی مدد سے آپ کو کرتب دکھاتے ہیں۔ایم یاسین نے بتایا کہ دوسرے ملکوں کی نسبت ہمارے ہاں اس پیشے کی مناسبت سے حالات حوصلہ افزا نہیں ہیں۔
دوسرے ممالک میں اسے باقاعدہ فن سمجھا جاتا ہے اور اس پروفیشن سے وابستہ افراد کی عزت کی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں ایسا نہیں ہے۔ ایم یاسین نے میجک ٹرکس کے شوقین افراد کی تربیت کے لیے ایک چھوٹا سا ادارہ بھی قائم کر رکھا ہے، جہاں انہیں سی ڈیز وغیرہ فراہم کی جاتی ہیں۔
٭ عابد خاکوانی
عابد خاکوانی گزشتہ بارہ چودہ برس سے اس پیشے سے منسلک ہیں۔ انہوں نے ہنستے ہوئے بتایا، ''ویسے تو جس سے پوچھیں، وہ یہی کہتا ہے کہ بچپن سے میرا یہی شوق تھا، لیکن یہ سچ ہے کہ مجھے بھی بچپن سے جادو کے کرتب دکھانے کا شوق تھا۔
آغاز میں کراچی سے کام سیکھا۔''ان کا شوق دیکھ کر سرکاری ٹی وی سے وابستہ عباس رانا نے ان کی حوصلہ افزائی کی اور انہیں اپنی شاگردی میں لے لیا۔ وہ ملک کے مختلف شہروں کے علاوہ بیرون ملک میں بھی پرفارم کر چکے ہیں۔
اس پیشے کے متعلق بتایا کہ ہوائی روزی ہے۔ محض شوقین افراد کے لیے اس پیشے میں آنا بے کار ہے، کیوں کہ نہ تو انہیں اس شعبے میں کوئی مہارت حاصل ہوتی ہے اور نہ ہی وہ لوگوں کے سامنے کوئی معیاری کرتب یا ٹرکس پیش کر سکتے ہیں۔ ہاں، باقاعدہ تربیت یافتہ افراد، جن کا مزاج اس پیشے سے ہم آہنگ ہے، ان کے لیے یہ شعبہ ٹھیک ہے، اور وہ اس میں کام یاب ہوسکتے ہیں۔ پیشہ ور میجیشن ماہانہ تیس سے چالیس ہزار کما سکتے ہیں۔
اپنے تجربے کے حوالے سے کسی یادگار واقعے کا پوچھا تو کہنے لگے کہ ایک دفعہ شو کے سلسلے میں بھوربن (مری) جانا ہوا۔ وہاں پہنچا تو دیکھا کہ ایک جگہ راستے میں ادھیڑ عمر شخص بیٹھا ہے، جس کے اردگرد لوگوں کا ہجوم اکٹھا ہے۔ ساتھ پانی کا ایک نل بھی تھا، جس کا پانی کڑوا تھا۔ لوگ نل سے پانی نکال کر اس شخص کے پاس لے آتے، جو اسے اپنے ہاتھ سے مس کرتا اور پانی میٹھا ہو جاتا۔ کئی لوگ متاثر ہو کر اس شخص کے معتقد بن چکے تھے۔
میں بڑا حیران ہوا کہ یہ کیا ماجرا ہے۔ اپنے استاد کے پاس گیا اور ان کو یہ سب احوال سنایا۔ وہ مسکرائے اور مجھے ایک کیمیکل کا نام بتایا، جس سے پانی میٹھا ہو جاتا ہے۔ اس شخص نے وہ کیمیکل اپنی انگلی پر لگا رکھا تھا، جس کی وجہ سے پانی میٹھا ہو جاتا۔ جب مجھے پتا چلا تو اس کے پاس چلا گیا اور اس کے کان میں مذکورہ کیمیکل کا نام لیا۔ وہ فوراً اپنی جگہ سے کھڑا ہو گیا اور اپنے معتقدین سے یہ کہہ کر میرا تعارف کرایا، ''یہ میرے مرشد کے گھرانے سے آئے ہیں۔''
پھر یہ ادھیڑ عمر شخص مجھے ایک طرف لے گیا۔ اس نے بتایا کہ اس نے دس، پندرہ تنخواہ دار ملازم رکھے ہوئے ہیں، جو جگہ جگہ اس کا چرچا کرتے ہیں، جس سے متاثر ہو کر لوگ جوق در جوق اس کے پاس آتے ہیں اور 50 سے 200 روپے تک نذرانہ دے جاتے ہیں۔ اس کے عقیدت مندوں میں مردوں سے زیادہ خواتین شامل تھیں۔
اگلے دن جب میرا اس جگہ سے گزر ہوا تو وہ شخص، پانی کے نل سمیت غائب ہو گیا تھا اور پھر کبھی اس جگہ نظر نہ آیا۔''عابد خاکوانی نے بتایا کہ انہیں کبھی تنقید یا دباؤ کا سامنا نہیں کرنا پڑا، کیوںکہ وہ ہر جگہ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ ٹرکس ہیں، جادو نہیں، جسے وہ لوگوں کو انٹرٹین کرنے کے لیے پیش کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ جادو کا سامان کچھ تو پاکستان سے ہی مل جاتا ہے، لیکن اچھے ایٹمز باہر سے بھی منگواتے ہیں۔
اس شعبے میں آنے والے خواہش مند افراد کے لیے انہوں نے نصیحت کی،''وہ محض شوق کی وجہ سے اس پیشے میں نہ آئیں۔ انہیں سوچنا چاہیے کہ کیا وہ اس شعبے کے تقاضے پورے کر کے پیشہ ور میجیشن بن سکتے ہیں یا نہیں۔ سنیئرز کو بھی نئے لوگوں کو صحیح طرح سے گائیڈ کرنا چاہیے، کیوں کہ یہ لوگ عام طور پر مہینوں تک نوجوانوں کو ان کے کام کا ایک ڈھیلا بھی نہیں دیتے اور تربیت کے لیے سی ڈیز پکڑا دی جاتی ہیں۔ حالاں کہ سی ڈیز سے کوئی میجیشن تھوڑی بنتا ہے۔
پاکستان میں کچھ لوگوں نے اس ضمن میں اکیڈمیاں بنا تو رکھی ہیں، لیکن سچی بات یہ ہے کہ ان میں کوئی ایک بھی معیاری ادارہ نہیں ہے، جسے قابل ذکر کہا جا سکتا ہو۔''
ملتان سے تعلق رکھنے والے عابد خاکوانی اب اسلام آباد منتقل ہو گئے ہیں۔
ایم یاسین گذشتہ 20 برس سے میجک کے شعبے سے منسلک ہیں۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے ایم یاسین کہتے ہیں، ''بچپن ی سے اس شعبے میں دلچسپی پیدا ہو گئی تھی۔ ٹیوشن پڑھنے جاتا تھا تو وہاں ایک بچے سے ایک دو معمولی کرتب سیکھے۔ مجھے یہ کام اچھا لگا۔ چنانچہ زیادہ سنجیدگی سے میجک ٹرکس میں دلچسپی لینا شروع کر دی۔
اس زمانے میں پی ٹی وی پر دوسرے ملکوں کے میجک شوز دکھائے جاتے تھے، ان سے کچھ آگاہی ملی۔ دوسرے ملکوں میں مقیم رشتے داروں نے بھی میرے اس شوق کے ضمن میں تعاون فراہم کیا اور معلوماتی سی ڈیز وغیرہ لاکر دیں۔''انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں اس پروفیشن سے وہ آمدن نہیں ہوتی، جو ہونی چاہیے۔
لوگ گلوکاروں کے لیے تو لاکھوں روپے ادا کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں، لیکن میجک شو کے لیے چند ہزار روپے بھی خرچ نہیں کرتے۔ تاہم، جو نوجوان میجیشن اپنے شوز کے لیے اچھی مارکیٹنگ کرتے ہیں، وہ مہینے میں اچھا خاصا کما لیتے ہیں۔
ایم یاسین بتاتے ہیں کہ سادہ لوح لوگ ہمارے ٹرکس سے حیران ضرور ہوتے ہیں۔ وہ پوچھتے ہیں، جب آپ کاغذ کے نوٹ بنا سکتے ہیں تو آپ کو شو کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ گھر بیٹھ کر نوٹ بنائیں اور ارب پتی بن جائیں۔
لیکن میں انہیں صاف بتا دیتا ہوں کہ یہ جادو نہیں ہے، بل کہ میجک ٹرکس ہیں۔ اسی طرح ایک نوجوان نے ''مشورہ'' دیا کہ جس طرح آپ ہماری نظر بندی کرلیتے ہیں، اسی طرح بینک جا کر آپ کیشیئرز کی نظر بندی کریں اور سارے پیسے اٹھا کر آ جائیں، جس پر میں نے وضاحت کی کہ یہ نظر بندی وغیرہ کچھ نہیں ہے، بلکہ ہم تو مخصوص چیزوں کی مدد سے آپ کو کرتب دکھاتے ہیں۔ایم یاسین نے بتایا کہ دوسرے ملکوں کی نسبت ہمارے ہاں اس پیشے کی مناسبت سے حالات حوصلہ افزا نہیں ہیں۔
دوسرے ممالک میں اسے باقاعدہ فن سمجھا جاتا ہے اور اس پروفیشن سے وابستہ افراد کی عزت کی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں ایسا نہیں ہے۔ ایم یاسین نے میجک ٹرکس کے شوقین افراد کی تربیت کے لیے ایک چھوٹا سا ادارہ بھی قائم کر رکھا ہے، جہاں انہیں سی ڈیز وغیرہ فراہم کی جاتی ہیں۔
٭ عابد خاکوانی
عابد خاکوانی گزشتہ بارہ چودہ برس سے اس پیشے سے منسلک ہیں۔ انہوں نے ہنستے ہوئے بتایا، ''ویسے تو جس سے پوچھیں، وہ یہی کہتا ہے کہ بچپن سے میرا یہی شوق تھا، لیکن یہ سچ ہے کہ مجھے بھی بچپن سے جادو کے کرتب دکھانے کا شوق تھا۔
آغاز میں کراچی سے کام سیکھا۔''ان کا شوق دیکھ کر سرکاری ٹی وی سے وابستہ عباس رانا نے ان کی حوصلہ افزائی کی اور انہیں اپنی شاگردی میں لے لیا۔ وہ ملک کے مختلف شہروں کے علاوہ بیرون ملک میں بھی پرفارم کر چکے ہیں۔
اس پیشے کے متعلق بتایا کہ ہوائی روزی ہے۔ محض شوقین افراد کے لیے اس پیشے میں آنا بے کار ہے، کیوں کہ نہ تو انہیں اس شعبے میں کوئی مہارت حاصل ہوتی ہے اور نہ ہی وہ لوگوں کے سامنے کوئی معیاری کرتب یا ٹرکس پیش کر سکتے ہیں۔ ہاں، باقاعدہ تربیت یافتہ افراد، جن کا مزاج اس پیشے سے ہم آہنگ ہے، ان کے لیے یہ شعبہ ٹھیک ہے، اور وہ اس میں کام یاب ہوسکتے ہیں۔ پیشہ ور میجیشن ماہانہ تیس سے چالیس ہزار کما سکتے ہیں۔
اپنے تجربے کے حوالے سے کسی یادگار واقعے کا پوچھا تو کہنے لگے کہ ایک دفعہ شو کے سلسلے میں بھوربن (مری) جانا ہوا۔ وہاں پہنچا تو دیکھا کہ ایک جگہ راستے میں ادھیڑ عمر شخص بیٹھا ہے، جس کے اردگرد لوگوں کا ہجوم اکٹھا ہے۔ ساتھ پانی کا ایک نل بھی تھا، جس کا پانی کڑوا تھا۔ لوگ نل سے پانی نکال کر اس شخص کے پاس لے آتے، جو اسے اپنے ہاتھ سے مس کرتا اور پانی میٹھا ہو جاتا۔ کئی لوگ متاثر ہو کر اس شخص کے معتقد بن چکے تھے۔
میں بڑا حیران ہوا کہ یہ کیا ماجرا ہے۔ اپنے استاد کے پاس گیا اور ان کو یہ سب احوال سنایا۔ وہ مسکرائے اور مجھے ایک کیمیکل کا نام بتایا، جس سے پانی میٹھا ہو جاتا ہے۔ اس شخص نے وہ کیمیکل اپنی انگلی پر لگا رکھا تھا، جس کی وجہ سے پانی میٹھا ہو جاتا۔ جب مجھے پتا چلا تو اس کے پاس چلا گیا اور اس کے کان میں مذکورہ کیمیکل کا نام لیا۔ وہ فوراً اپنی جگہ سے کھڑا ہو گیا اور اپنے معتقدین سے یہ کہہ کر میرا تعارف کرایا، ''یہ میرے مرشد کے گھرانے سے آئے ہیں۔''
پھر یہ ادھیڑ عمر شخص مجھے ایک طرف لے گیا۔ اس نے بتایا کہ اس نے دس، پندرہ تنخواہ دار ملازم رکھے ہوئے ہیں، جو جگہ جگہ اس کا چرچا کرتے ہیں، جس سے متاثر ہو کر لوگ جوق در جوق اس کے پاس آتے ہیں اور 50 سے 200 روپے تک نذرانہ دے جاتے ہیں۔ اس کے عقیدت مندوں میں مردوں سے زیادہ خواتین شامل تھیں۔
اگلے دن جب میرا اس جگہ سے گزر ہوا تو وہ شخص، پانی کے نل سمیت غائب ہو گیا تھا اور پھر کبھی اس جگہ نظر نہ آیا۔''عابد خاکوانی نے بتایا کہ انہیں کبھی تنقید یا دباؤ کا سامنا نہیں کرنا پڑا، کیوںکہ وہ ہر جگہ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ ٹرکس ہیں، جادو نہیں، جسے وہ لوگوں کو انٹرٹین کرنے کے لیے پیش کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ جادو کا سامان کچھ تو پاکستان سے ہی مل جاتا ہے، لیکن اچھے ایٹمز باہر سے بھی منگواتے ہیں۔
اس شعبے میں آنے والے خواہش مند افراد کے لیے انہوں نے نصیحت کی،''وہ محض شوق کی وجہ سے اس پیشے میں نہ آئیں۔ انہیں سوچنا چاہیے کہ کیا وہ اس شعبے کے تقاضے پورے کر کے پیشہ ور میجیشن بن سکتے ہیں یا نہیں۔ سنیئرز کو بھی نئے لوگوں کو صحیح طرح سے گائیڈ کرنا چاہیے، کیوں کہ یہ لوگ عام طور پر مہینوں تک نوجوانوں کو ان کے کام کا ایک ڈھیلا بھی نہیں دیتے اور تربیت کے لیے سی ڈیز پکڑا دی جاتی ہیں۔ حالاں کہ سی ڈیز سے کوئی میجیشن تھوڑی بنتا ہے۔
پاکستان میں کچھ لوگوں نے اس ضمن میں اکیڈمیاں بنا تو رکھی ہیں، لیکن سچی بات یہ ہے کہ ان میں کوئی ایک بھی معیاری ادارہ نہیں ہے، جسے قابل ذکر کہا جا سکتا ہو۔''
ملتان سے تعلق رکھنے والے عابد خاکوانی اب اسلام آباد منتقل ہو گئے ہیں۔