ریلوے اسٹیشن پر بوگی غائب کردی
عباس کہتے ہیں کہ ڈبا پیر قسم کے لوگ دراصل ہماری ہی طرح لوگوں کو فریبِ نظر کا شکار کرتے ہیں۔
KARACHI:
پورا نام غلام عباس ہے، احباب پیار سے ننھا کہتے ہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ صورت ان کی مرحوم اداکار (خاور رفیع) ننھا سے ملتی ہے۔ ایک زمانے میں لوگ انہیں غلطی سے مرحوم کا صاحب زادہ بھی سمجھتے رہے۔
آبائی شہر لیہ ہے، گورنمنٹ ماڈل اسکول سے میٹرک کیا، آگے نہ پڑھ سکے کہ حالات ہی ایسے تھے۔ اداکاری کا شوق بھی رکھتے تھے، جو انہیں کشاں کشاں ملتان لے آیا۔ اسٹیج پر کام کیا تو، لیکن دل مطمئن نہ ہوا، سو ہوتے ہوتے اسلام آباد پہنچ گئے۔ پاکستان ٹیلی ویژن پر ڈراما ''سجرے پھول'' سے آغاز کیا۔ بعد میں اور بھی ڈراموں میں کام کیا لیکن پی ٹی وی سے ملنے والا معاوضہ اگر اتنا ہوتا کہ گھر کا چولہا آسانی سے تپا رہتا تو آج ہم ایک باکمال ''نظر فریب'' سے محروم رہتے۔
کہتے ہیں ''پی ٹی وی نے بہت مایوس کیا اور میں دل گرفتگی کے عالم میں اِدھر اُدھر بھٹکتا پھرا۔ اسی دوران خیال آیا کہ اسٹیج پر پرفارم کرنے کے اور بھی انداز ہیں، بہت اطراف میں ذہن دوڑایا اور آخرِ کار ذہن میں Magician بننے کا خیال آیا، بس پھر ہو گئی تلاش شروع کسی لائق استاد کی۔'' اس جستجو کے دوران میں کسی نے صفدر علی بادی صاحب کا ذکر کیا۔
یہ پہنچ گئے ان کے پاس اور عرضِ مدعا کیا۔ ان صاحب کے مزاج ہی نہیں ملتے تھے، پہلے تو ڈراتے رہے کہ چلے کاٹنے پڑتے ہیں، قبرستانوں اور ویرانوں میں راتیں جاپ کرتے گزارنی پڑتی ہیں، جنوں سے پالا پڑتا ہے۔ یہ بھی دُھن کے پکے تھے بولے ''ہر چپ بادا، باد'' زانوئے تلمذ تہ کرلیا۔ پانچ برس استاد گرامی کی خدمت میں دست بستہ رہے۔ تین برس پورے ہونے پر پہلی بار ایک معمولی سا ٹوٹکا سکھایا تھا۔
یہاں سے نکلے تو دستگیر ہاشمی (مرحوم) کے پاس پہنچے، انہوں نے لگن دیکھی تو شفقت فرمائی۔ عباس، نعیم تالپور صاحب کا ذکر بھی احترام سے کرتے ہیں۔ کہتے ہیں انہوں نے مجھے اس فن اور اسٹیج کے آداب سکھائے۔
عباس ننھا اپنے Magic کی وجہ سے بہت سے ممالک کے سفر بھی کر چکے ہیں، جن میں انگلینڈ، دبئی، ملیشیا اور دیگر ممالک شامل ہیں۔ ٹرین کی بوگی غائب کرنا ان کا میگا شو تھا، جس کا مظاہرہ انہوں نے ذاتی طور پر دست یاب محدود وسائل پر ملتان کے ریلوے اسٹیشن پر سیکڑوں لوگوں کی موجودگی میں کیا۔
یہ دنیا کے بہت بڑے جادوگر ڈیوڈ کاپر فلیڈ کا جواب تھا، جس نے ہوائی جہاز غائب کردیا تھا۔ ایک واقعہ سنایا کہ ان کا ایک شو ہورہا تھا، اس میں غزل کے عظیم گائیک غلام علی خان صاحب بھی موجود تھے، جو اتفاق سے ایک رات پہلے امریکا کے کرس اینجل کا Magic شو دیکھ چکے تھے، جس میں کرس نے ہوا میں پرواز کی تھی۔ عباس ننھا نے خان صاحب کو متوجہ کیا اور کہا،''میری طرف دیکھیے!'' انہوں نے دیکھا تو عباس ہوا میں بلند ہونے لگا اور زمین سے ساڑھے تین فٹ کی بلندی پر معلق ہوگیا۔ خان صاحب دم بہ خود رہ گئے، جیب سے سو روپے کا نوٹ نکالا اس پر اپنے آٹو گراف دیے اور عطا کیا۔ کہتے ہیں یہ میرے لیے ایک یادگار واقعہ اور یادگار نوٹ ہے۔
عباس ننھا جس واقعے کو یاد کرکے جذباتی ہوجاتے ہیں وہ بہ ظاہر ایک معمولی واقعہ ہے، لیکن صاحبانِ احساس کو مزہ دیتا ہے۔ کہتے ہیں 2005 کے زلزلے سے متاثرہ بچوں کے لیے ایک تفریحی پروگرام منعقد کیا جا رہا تھا اور اس میں اپنے وقت کے بڑے بڑے ستارے ریما، میرا، عجب گل، بچوں کے ہر دل عزیز فن کار ''عینک والا جن'' اور دیگر بھی موجود تھے۔ ''یہاں پچھلی صفوں میں کہیں یہ 'فقیر' بھی موجود تھا۔ زلزلے کا سانحہ تازہ تازہ تھا اور بچے انتہائی دل زدگی کے عالم میں تھے، انہیں اس کیفیت سے نکالنا کارے دارد تھا، ان کے چہروں پر ان کی معصوم مسکان آ ہی نہیں رہی تھی۔
اسی دوران مجھے پکارا گیا۔ میں نروس ہوگیا، اتنے بڑے اور مقبول فن کاروں کے سامنے میرا چراغ کیا جلے گا، لیکن نام پکارا جا چکا تھا، فرار ممکن نہ تھا، اﷲ کو یاد کرکے میں اسٹیج پر چڑھا، پرفارم کرنا شروع کیا اور خدا کا شکر ہے کہ بچے مسکرائے ہی نہیں، قہقہے لگاتے رہے، وہ بالکل ہی بھول گئے کہ زلزلے میں ان کے ماں، باپ، بہن بھائی، عزیز ان سے بچھڑ گئے ہیں۔
میں اسٹیج سے اترنے کو تھا کہ پی ٹی وی کی ممتاز شخصیت فرمان اﷲ جان نے آگے بڑھ کر مجھے کندھوں پر اٹھا لیا، مجھے اتنی مبارک بادیں ملیں کہ میرے لیے سمیٹنا مشکل ہو گیا۔ یہ شو جب بھی تصور میں آتا ہے، میری آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔'' پھر ؟ '' پھر کسی نے نہ پوچھا کہ بھیا کون ہو، ایوارڈز شو ہوا تو کوئی مجھے پہچانتا تک نہ تھا، 6 ہزار پروگرام کرنے کے بعد بھی سوتیلا کا سوتیلا ہی ہوں۔''
عباس ننھا سابق آمر پرویز مشرف کے سامنے بھی پرفارم کر چکے ہیں۔ سابق وزیراعظم شوکت عزیز بھی ان کے مداحوں میں شامل ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ شوکت عزیز ان سے کہا کرتے تھے،''عباس! چھوڑو سب کام آؤ ڈالر بناتے ہیں۔'' عباس دونوں سے ایوارڈ اور شیلڈ لے چکے ہیں۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے بھی اپنے پوتے کی سال گرہ پر انہیں فن کا مظاہرہ کرنے کی دعوت دی۔
ایک دل چسپ واقعہ سناتے ہیں کہ ایک بار منڈی بہاؤ الدین میں اسٹیج پر نظر فریبی کی اور بہت سے کرارے نوٹ بنائے۔ اس شو میں کہیں کچھ احمق بھی تھے۔ ''شوختم ہوا تو انہوں نے مجھے پکڑ لیا اور دباؤ ڈالنے لگے کہ میں انہیں ''جادو کا بینک'' قائم کرکے دوں۔ میں نے لاکھ سمجھایا کہ میں اگر جادو کا بینک بنا سکتا تو شہرشہر شو کیوں کرتا پھرتا، لیکن وہ میری دُھنائی کرتے رہے اور وہی مرغے کی ایک ٹانگ جادو کا بینک۔ انتہائی مجبوری کے عالم میں مجھے ان پر اپنے شعبدے کے راز بھی افشا کرنا پڑے، غرض بڑی مشکل سے جان چھوٹی۔''
عباس کہتے ہیں کہ ڈبا پیر قسم کے لوگ دراصل ہماری ہی طرح لوگوں کو فریبِ نظر کا شکار کرتے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ہم لوگوں کو تحیر میں مبتلا کرکے انہیں خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ بدبخت لوگوں کا ایمان خراب کرتے ہیں، ہم خادا کے ان سادہ دل لوگوں پر ان ٹھگوں کی حقیقت آشکار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ عباس ننھا کا کہنا ہے کہ وہ اپنے کام سے معاشی اور قلبی طور پر مطمئن ہے، اور پی ٹی وی کی 'عنایت کردہ' مایوسی سے نکل آیا ہے۔
پورا نام غلام عباس ہے، احباب پیار سے ننھا کہتے ہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ صورت ان کی مرحوم اداکار (خاور رفیع) ننھا سے ملتی ہے۔ ایک زمانے میں لوگ انہیں غلطی سے مرحوم کا صاحب زادہ بھی سمجھتے رہے۔
آبائی شہر لیہ ہے، گورنمنٹ ماڈل اسکول سے میٹرک کیا، آگے نہ پڑھ سکے کہ حالات ہی ایسے تھے۔ اداکاری کا شوق بھی رکھتے تھے، جو انہیں کشاں کشاں ملتان لے آیا۔ اسٹیج پر کام کیا تو، لیکن دل مطمئن نہ ہوا، سو ہوتے ہوتے اسلام آباد پہنچ گئے۔ پاکستان ٹیلی ویژن پر ڈراما ''سجرے پھول'' سے آغاز کیا۔ بعد میں اور بھی ڈراموں میں کام کیا لیکن پی ٹی وی سے ملنے والا معاوضہ اگر اتنا ہوتا کہ گھر کا چولہا آسانی سے تپا رہتا تو آج ہم ایک باکمال ''نظر فریب'' سے محروم رہتے۔
کہتے ہیں ''پی ٹی وی نے بہت مایوس کیا اور میں دل گرفتگی کے عالم میں اِدھر اُدھر بھٹکتا پھرا۔ اسی دوران خیال آیا کہ اسٹیج پر پرفارم کرنے کے اور بھی انداز ہیں، بہت اطراف میں ذہن دوڑایا اور آخرِ کار ذہن میں Magician بننے کا خیال آیا، بس پھر ہو گئی تلاش شروع کسی لائق استاد کی۔'' اس جستجو کے دوران میں کسی نے صفدر علی بادی صاحب کا ذکر کیا۔
یہ پہنچ گئے ان کے پاس اور عرضِ مدعا کیا۔ ان صاحب کے مزاج ہی نہیں ملتے تھے، پہلے تو ڈراتے رہے کہ چلے کاٹنے پڑتے ہیں، قبرستانوں اور ویرانوں میں راتیں جاپ کرتے گزارنی پڑتی ہیں، جنوں سے پالا پڑتا ہے۔ یہ بھی دُھن کے پکے تھے بولے ''ہر چپ بادا، باد'' زانوئے تلمذ تہ کرلیا۔ پانچ برس استاد گرامی کی خدمت میں دست بستہ رہے۔ تین برس پورے ہونے پر پہلی بار ایک معمولی سا ٹوٹکا سکھایا تھا۔
یہاں سے نکلے تو دستگیر ہاشمی (مرحوم) کے پاس پہنچے، انہوں نے لگن دیکھی تو شفقت فرمائی۔ عباس، نعیم تالپور صاحب کا ذکر بھی احترام سے کرتے ہیں۔ کہتے ہیں انہوں نے مجھے اس فن اور اسٹیج کے آداب سکھائے۔
عباس ننھا اپنے Magic کی وجہ سے بہت سے ممالک کے سفر بھی کر چکے ہیں، جن میں انگلینڈ، دبئی، ملیشیا اور دیگر ممالک شامل ہیں۔ ٹرین کی بوگی غائب کرنا ان کا میگا شو تھا، جس کا مظاہرہ انہوں نے ذاتی طور پر دست یاب محدود وسائل پر ملتان کے ریلوے اسٹیشن پر سیکڑوں لوگوں کی موجودگی میں کیا۔
یہ دنیا کے بہت بڑے جادوگر ڈیوڈ کاپر فلیڈ کا جواب تھا، جس نے ہوائی جہاز غائب کردیا تھا۔ ایک واقعہ سنایا کہ ان کا ایک شو ہورہا تھا، اس میں غزل کے عظیم گائیک غلام علی خان صاحب بھی موجود تھے، جو اتفاق سے ایک رات پہلے امریکا کے کرس اینجل کا Magic شو دیکھ چکے تھے، جس میں کرس نے ہوا میں پرواز کی تھی۔ عباس ننھا نے خان صاحب کو متوجہ کیا اور کہا،''میری طرف دیکھیے!'' انہوں نے دیکھا تو عباس ہوا میں بلند ہونے لگا اور زمین سے ساڑھے تین فٹ کی بلندی پر معلق ہوگیا۔ خان صاحب دم بہ خود رہ گئے، جیب سے سو روپے کا نوٹ نکالا اس پر اپنے آٹو گراف دیے اور عطا کیا۔ کہتے ہیں یہ میرے لیے ایک یادگار واقعہ اور یادگار نوٹ ہے۔
عباس ننھا جس واقعے کو یاد کرکے جذباتی ہوجاتے ہیں وہ بہ ظاہر ایک معمولی واقعہ ہے، لیکن صاحبانِ احساس کو مزہ دیتا ہے۔ کہتے ہیں 2005 کے زلزلے سے متاثرہ بچوں کے لیے ایک تفریحی پروگرام منعقد کیا جا رہا تھا اور اس میں اپنے وقت کے بڑے بڑے ستارے ریما، میرا، عجب گل، بچوں کے ہر دل عزیز فن کار ''عینک والا جن'' اور دیگر بھی موجود تھے۔ ''یہاں پچھلی صفوں میں کہیں یہ 'فقیر' بھی موجود تھا۔ زلزلے کا سانحہ تازہ تازہ تھا اور بچے انتہائی دل زدگی کے عالم میں تھے، انہیں اس کیفیت سے نکالنا کارے دارد تھا، ان کے چہروں پر ان کی معصوم مسکان آ ہی نہیں رہی تھی۔
اسی دوران مجھے پکارا گیا۔ میں نروس ہوگیا، اتنے بڑے اور مقبول فن کاروں کے سامنے میرا چراغ کیا جلے گا، لیکن نام پکارا جا چکا تھا، فرار ممکن نہ تھا، اﷲ کو یاد کرکے میں اسٹیج پر چڑھا، پرفارم کرنا شروع کیا اور خدا کا شکر ہے کہ بچے مسکرائے ہی نہیں، قہقہے لگاتے رہے، وہ بالکل ہی بھول گئے کہ زلزلے میں ان کے ماں، باپ، بہن بھائی، عزیز ان سے بچھڑ گئے ہیں۔
میں اسٹیج سے اترنے کو تھا کہ پی ٹی وی کی ممتاز شخصیت فرمان اﷲ جان نے آگے بڑھ کر مجھے کندھوں پر اٹھا لیا، مجھے اتنی مبارک بادیں ملیں کہ میرے لیے سمیٹنا مشکل ہو گیا۔ یہ شو جب بھی تصور میں آتا ہے، میری آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔'' پھر ؟ '' پھر کسی نے نہ پوچھا کہ بھیا کون ہو، ایوارڈز شو ہوا تو کوئی مجھے پہچانتا تک نہ تھا، 6 ہزار پروگرام کرنے کے بعد بھی سوتیلا کا سوتیلا ہی ہوں۔''
عباس ننھا سابق آمر پرویز مشرف کے سامنے بھی پرفارم کر چکے ہیں۔ سابق وزیراعظم شوکت عزیز بھی ان کے مداحوں میں شامل ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ شوکت عزیز ان سے کہا کرتے تھے،''عباس! چھوڑو سب کام آؤ ڈالر بناتے ہیں۔'' عباس دونوں سے ایوارڈ اور شیلڈ لے چکے ہیں۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے بھی اپنے پوتے کی سال گرہ پر انہیں فن کا مظاہرہ کرنے کی دعوت دی۔
ایک دل چسپ واقعہ سناتے ہیں کہ ایک بار منڈی بہاؤ الدین میں اسٹیج پر نظر فریبی کی اور بہت سے کرارے نوٹ بنائے۔ اس شو میں کہیں کچھ احمق بھی تھے۔ ''شوختم ہوا تو انہوں نے مجھے پکڑ لیا اور دباؤ ڈالنے لگے کہ میں انہیں ''جادو کا بینک'' قائم کرکے دوں۔ میں نے لاکھ سمجھایا کہ میں اگر جادو کا بینک بنا سکتا تو شہرشہر شو کیوں کرتا پھرتا، لیکن وہ میری دُھنائی کرتے رہے اور وہی مرغے کی ایک ٹانگ جادو کا بینک۔ انتہائی مجبوری کے عالم میں مجھے ان پر اپنے شعبدے کے راز بھی افشا کرنا پڑے، غرض بڑی مشکل سے جان چھوٹی۔''
عباس کہتے ہیں کہ ڈبا پیر قسم کے لوگ دراصل ہماری ہی طرح لوگوں کو فریبِ نظر کا شکار کرتے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ہم لوگوں کو تحیر میں مبتلا کرکے انہیں خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ بدبخت لوگوں کا ایمان خراب کرتے ہیں، ہم خادا کے ان سادہ دل لوگوں پر ان ٹھگوں کی حقیقت آشکار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ عباس ننھا کا کہنا ہے کہ وہ اپنے کام سے معاشی اور قلبی طور پر مطمئن ہے، اور پی ٹی وی کی 'عنایت کردہ' مایوسی سے نکل آیا ہے۔