کشمیر یوں سے رشتہ کیا
ہماری بدقسمتی تو یہ ہےکہ یہ اِس طرح کے واقعات بار بار ہورہے ہیں مگر یہاں کوئی ہے ہی نہیں جو مودی کی طرح سیخ پا ہوجائے۔
KARACHI:
بھارتی وزیرِاعظم نریندرا مودی لاکھ انتہا پسند سہی لیکن وہ اک محبِ وطن اور جنونی ہندو ہیں اور اِس حقیقت سے شاید ہی کوئی ہو جو انکار کرسکے۔ مودی کا ماضی اِس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ اُنہوں نے اپنے نظریات کے مطابق بھارت ماتا کی خطے پر حکمرانی قائم کرنے کے لیے ہر جائزو ناجائز طریقہ اپنایا ہے کیونکہ اُن کا خیال ہے کہ بھارت کو پاکستان اور مسلمانوں سے خطرات لاحق ہیں اسی لیے وہ مسلمانوں کے قتلِ عام میں پیش پیش پایا جاتا ہے۔
اُن کی تربیت اور سوچ اپنے مذہب کے مخالفین کے ساتھ انتہائی بُرا سلوک کرنے کی ترغیب دیتی ہے اور وہ اِس کام میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کرتے۔ قطع نظر اِس کے کہ وہ ہمارے نزدیک اک ظالمانہ فعل ہے۔ الیکشن کمپین میں مودی نے اپنے نظریات اور انتہا پسندی کا پُرزور پرچار کیا اور پھر بھارت کا وزیرِاعظم منتخب ہوگئے۔ یہ جیت اِس بات کی واضح دلیل ہے کہ بھارتی قوم کیا چاہتی ہے اور کیا سوچتی ہے۔
لیکن نہایت معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ بھارتی قیادت نے قوم کے ساتھ منافقت نہیں کی جس کے عوض قوم نے بھی اُن کے ساتھ منافقت نہیں کی۔ مودی نے ہرممکن کوشش کرتے ہوئے خطے پر بھارت ماتا کی اجارہ داری قائم کرنے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔ چھوڑئیے اگر کچھ مزید کہا تو غدار ہے ۔۔۔ غدار ہے کے طعنے ملیں گے ۔
آتے ہیں اصل بات کی طرف۔ اک آسٹریلین یونیورسٹی نے مودی کو مہمانِ خصوصی کے طور پر مدعو کیا۔ مودی کو جو بھارت کا نقشہ دکھایا گیا اس میں کشمیر بھارت کا حصہ نہیں تھا۔ بس پھر کیا تھا مودی صاحب کا جنونی ہندو جاگ گیا۔ وہ فوراً اِس حرکت پر سیخ پا ہوگئے اور سخت نوٹس لیتے ہوئے سیکرٹری خارجہ کو صدائے احتجاج بلند کرنے کا کہا۔ یہی فعل اقوامِ متحدہ کے اِک آفیشل ادارے یونیسف نے پانی کے پروجیکٹ کے لیے بھارت کا جو نقشہ زیرِ بحث لایا اُس میں بھی کشمیر بھارت کا حصہ نہ تھا۔ اُس پر بھی بھارتی حکومت نے صدائے احتجاج بلند کیا۔ بھارت کا یوں بار بار اس پر سیخ پا ہونا اِس بات کی دلیل ہے کہ وہ کشمیر کے معاملے پر کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں اور آج بھی وہ کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ ہی سمجھتا ہے۔
اک طرف تو بھارت کشمیر سے متعلق اتنا سخت مؤقف اپنائے ہوئے ہے جبکہ دوسری طرف اُسی کشمیر کے حوالے سے پاکستان کے کردار پر غور کیا جائے تو نظریں شرم سے جُھک جاتی ہیں۔ کشمیری مجاہدین کے ماضی اور حال پر بحث سے کنارا کشی کرتے ہوئے قوم اور حکمرانوں کی ادائوں پر ہی فقط غور کرلیتے ہیں۔
پاکستان میں کشمیری وزیراعظم کی حکومت ضرور ہے اور کبھی کبھی اُن کا کشمیری ضمیر بھی جاگ جاتا ہے اور پھر اِس حوالے سے بیان بھی داغ دیا جاتا ہے۔ جبکہ دوسری طرف انکی حکومت حریت راہنمائوں سے ملاقات سے پہلو بچاتی پھرتی ہے کیونکہ شاید ہماری حکومت بھارت کی ناراضگی لینے سے ڈرتی ہے۔
پاکستان کے اک سرکاری ادارے پی ٹی اے کا اشتہار دھڑادھڑ اخبارات میں چھاپا گیا۔ اِس اشتہار پر ذراغور فرمائیں تو معلوم ہوگا کہ بائیومیٹرک کے لیے جو انگوٹھا دیا گیا اس میں پاکستان کے نقشہ میں کشمیر سرے سے ہے ہی نہیں۔ اب اِس کو دیکھتے ہوئے ہم ہماری حکومت کی کشمیر پالیسی کے حوالے سے سنجیدگی کا اندازہ بخوبی لگاسکتے ہیں۔
یہ کوئی پہلا واقعہ تھوڑی ہے بلکہ پاکستان کے کئی آفیشل اور نان آفیشل ادارے مسلسل پاکستان کا وہ نقشہ شائع کررہے ہیں جس میں کشمیر''مسنگ'' ہوتا ہے۔ اِس پر سروے آف پاکستان جو پاکستان کا نقشہ جات کے لیے آفیشل ادارہ بنتا ہے، سے بات کی گئی تو معلوم ہوا کہ جب سے ادارہ بنا ہے آج تک کوئی ایسا کیس ریکارڈ میں نہیں ہے جس پر کوئی نوٹس یا ایکشن لیا گیا ہو۔ جب انہیں کچھ اداروں اور تنظیموں کی اس حرکت کا بتایا گیا تو ہاتھ کھڑے کرتے ہوئے ذمہ داری دفترخارجہ پر ڈال دی گئی۔ تاہم جب کوئی پلیٹ فارم اس اہم معاملہ پر بنانے کی خواہش کا اظہار کیا تو انہوں نے بھرپور تعاون کی یقین دہانی کرائی۔
عمران خان کو دھرنا اور شادی کے بعد آخرکار خیبرپختونخوا یاد آ ہی گیا۔ انہوں نے سوچا کہ نیا پاکستان بنانے سے پہلے نیا کے۔پی۔کے بنا کر قوم کے سامنے ماڈل رکھ ہی دیا جائے تاکہ بڑے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے آسانی ہوجائے۔ دیر آید درست آید ۔۔۔ اور اِس عمل کی حوصلہ افزائی ضرور ہونی چاہیے اور بھرپور ہونی چاہیے۔ لیکن نیا پاکستان جس کے وہ خواب دیکھ رہے ہیں شاید اُس کے نقشہ میں کشمیر شامل نہیں ہے۔ تبھی تو انہوں نے جو دبئی میں انویسٹر کانفرنس بلائی اُس کے اسٹیج پر جو بینر لگایا گیا اُس میں پاکستان کا نقشہ تو موجود تھا لیکن کشمیر غائب تھا۔
جذباتی بچوں سے عمران کی پناہ چاہتا ہوں۔ کیونکہ نہیں جانتا کہ اِس جرمِ حق گوئی کی کیا سزا بھگتنی پڑے۔ واضح رہے کہ یہ بینر اُس کانفرنس سے کئی روز قبل بنالی گئی تھی اور ایک روز قبل آفیشل پیج کی زینت بھی بنادی گئی تھی۔ اور اِس بنیاد پر عمران خان اور تحریک انصاف کو فوری طور پر ایکشن لے لینا چاہیے تھا لیکن افسوس کہ نہیں لیا گیا۔ چلیں ہوسکتا ہے اُس وقت کوئی مجبوری ہو لیکن اب تو کانفرنس بھی ہوگئی اور شاید ٹارگٹ حاصل بھی ہوگیا ۔۔۔۔۔ تو اُمید یہی ہے کہ تحریک انصاف کی قیاست اِس بارے میں اپنی رائے کا ضرور اظہار کرے گی کہ آیا وہ کشمیر کو پاکستان کا حصہ نہیں سمجھتے یا وہ ایک غلطی تھی؟
ہماری بدقسمتی تو یہ ہے کہ یہ اِس طرح کے واقعات بار بار ہورہے ہیں مگر یہاں کوئی ہے ہی نہیں جو مودی کی طرح سیخ پا ہوجائے۔ اس طرح کی بار بار کی حرکت کئی طرز کے سوالات کو جنم دے رہی ہے۔ کیا پاکستان نے کشمیر پر سودے بازی کرلی ہے؟ کیا کشمیر اب بھی پاکستان کی شہ رگ ہے؟ کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ اک حقیقت ہے یا اِس پر بھی ہمارے حکمران منافقت کررہے ہیں؟ اور اگر منافقت کی جارہی ہے تو قوم نے ان کو اپنے سر کا تاج کیوں بنا رکھا ہے؟ کیا ہماری قوم بھی ۔۔۔؟؟؟ نہیں اللہ نہ کرے پاکستان کی قوم انشاء اللہ ایسے منافقوں سے جان چھڑا کر دم لے گی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
بھارتی وزیرِاعظم نریندرا مودی لاکھ انتہا پسند سہی لیکن وہ اک محبِ وطن اور جنونی ہندو ہیں اور اِس حقیقت سے شاید ہی کوئی ہو جو انکار کرسکے۔ مودی کا ماضی اِس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ اُنہوں نے اپنے نظریات کے مطابق بھارت ماتا کی خطے پر حکمرانی قائم کرنے کے لیے ہر جائزو ناجائز طریقہ اپنایا ہے کیونکہ اُن کا خیال ہے کہ بھارت کو پاکستان اور مسلمانوں سے خطرات لاحق ہیں اسی لیے وہ مسلمانوں کے قتلِ عام میں پیش پیش پایا جاتا ہے۔
اُن کی تربیت اور سوچ اپنے مذہب کے مخالفین کے ساتھ انتہائی بُرا سلوک کرنے کی ترغیب دیتی ہے اور وہ اِس کام میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کرتے۔ قطع نظر اِس کے کہ وہ ہمارے نزدیک اک ظالمانہ فعل ہے۔ الیکشن کمپین میں مودی نے اپنے نظریات اور انتہا پسندی کا پُرزور پرچار کیا اور پھر بھارت کا وزیرِاعظم منتخب ہوگئے۔ یہ جیت اِس بات کی واضح دلیل ہے کہ بھارتی قوم کیا چاہتی ہے اور کیا سوچتی ہے۔
لیکن نہایت معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ بھارتی قیادت نے قوم کے ساتھ منافقت نہیں کی جس کے عوض قوم نے بھی اُن کے ساتھ منافقت نہیں کی۔ مودی نے ہرممکن کوشش کرتے ہوئے خطے پر بھارت ماتا کی اجارہ داری قائم کرنے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔ چھوڑئیے اگر کچھ مزید کہا تو غدار ہے ۔۔۔ غدار ہے کے طعنے ملیں گے ۔
آتے ہیں اصل بات کی طرف۔ اک آسٹریلین یونیورسٹی نے مودی کو مہمانِ خصوصی کے طور پر مدعو کیا۔ مودی کو جو بھارت کا نقشہ دکھایا گیا اس میں کشمیر بھارت کا حصہ نہیں تھا۔ بس پھر کیا تھا مودی صاحب کا جنونی ہندو جاگ گیا۔ وہ فوراً اِس حرکت پر سیخ پا ہوگئے اور سخت نوٹس لیتے ہوئے سیکرٹری خارجہ کو صدائے احتجاج بلند کرنے کا کہا۔ یہی فعل اقوامِ متحدہ کے اِک آفیشل ادارے یونیسف نے پانی کے پروجیکٹ کے لیے بھارت کا جو نقشہ زیرِ بحث لایا اُس میں بھی کشمیر بھارت کا حصہ نہ تھا۔ اُس پر بھی بھارتی حکومت نے صدائے احتجاج بلند کیا۔ بھارت کا یوں بار بار اس پر سیخ پا ہونا اِس بات کی دلیل ہے کہ وہ کشمیر کے معاملے پر کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں اور آج بھی وہ کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ ہی سمجھتا ہے۔
اک طرف تو بھارت کشمیر سے متعلق اتنا سخت مؤقف اپنائے ہوئے ہے جبکہ دوسری طرف اُسی کشمیر کے حوالے سے پاکستان کے کردار پر غور کیا جائے تو نظریں شرم سے جُھک جاتی ہیں۔ کشمیری مجاہدین کے ماضی اور حال پر بحث سے کنارا کشی کرتے ہوئے قوم اور حکمرانوں کی ادائوں پر ہی فقط غور کرلیتے ہیں۔
پاکستان میں کشمیری وزیراعظم کی حکومت ضرور ہے اور کبھی کبھی اُن کا کشمیری ضمیر بھی جاگ جاتا ہے اور پھر اِس حوالے سے بیان بھی داغ دیا جاتا ہے۔ جبکہ دوسری طرف انکی حکومت حریت راہنمائوں سے ملاقات سے پہلو بچاتی پھرتی ہے کیونکہ شاید ہماری حکومت بھارت کی ناراضگی لینے سے ڈرتی ہے۔
پاکستان کے اک سرکاری ادارے پی ٹی اے کا اشتہار دھڑادھڑ اخبارات میں چھاپا گیا۔ اِس اشتہار پر ذراغور فرمائیں تو معلوم ہوگا کہ بائیومیٹرک کے لیے جو انگوٹھا دیا گیا اس میں پاکستان کے نقشہ میں کشمیر سرے سے ہے ہی نہیں۔ اب اِس کو دیکھتے ہوئے ہم ہماری حکومت کی کشمیر پالیسی کے حوالے سے سنجیدگی کا اندازہ بخوبی لگاسکتے ہیں۔
یہ کوئی پہلا واقعہ تھوڑی ہے بلکہ پاکستان کے کئی آفیشل اور نان آفیشل ادارے مسلسل پاکستان کا وہ نقشہ شائع کررہے ہیں جس میں کشمیر''مسنگ'' ہوتا ہے۔ اِس پر سروے آف پاکستان جو پاکستان کا نقشہ جات کے لیے آفیشل ادارہ بنتا ہے، سے بات کی گئی تو معلوم ہوا کہ جب سے ادارہ بنا ہے آج تک کوئی ایسا کیس ریکارڈ میں نہیں ہے جس پر کوئی نوٹس یا ایکشن لیا گیا ہو۔ جب انہیں کچھ اداروں اور تنظیموں کی اس حرکت کا بتایا گیا تو ہاتھ کھڑے کرتے ہوئے ذمہ داری دفترخارجہ پر ڈال دی گئی۔ تاہم جب کوئی پلیٹ فارم اس اہم معاملہ پر بنانے کی خواہش کا اظہار کیا تو انہوں نے بھرپور تعاون کی یقین دہانی کرائی۔
عمران خان کو دھرنا اور شادی کے بعد آخرکار خیبرپختونخوا یاد آ ہی گیا۔ انہوں نے سوچا کہ نیا پاکستان بنانے سے پہلے نیا کے۔پی۔کے بنا کر قوم کے سامنے ماڈل رکھ ہی دیا جائے تاکہ بڑے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے آسانی ہوجائے۔ دیر آید درست آید ۔۔۔ اور اِس عمل کی حوصلہ افزائی ضرور ہونی چاہیے اور بھرپور ہونی چاہیے۔ لیکن نیا پاکستان جس کے وہ خواب دیکھ رہے ہیں شاید اُس کے نقشہ میں کشمیر شامل نہیں ہے۔ تبھی تو انہوں نے جو دبئی میں انویسٹر کانفرنس بلائی اُس کے اسٹیج پر جو بینر لگایا گیا اُس میں پاکستان کا نقشہ تو موجود تھا لیکن کشمیر غائب تھا۔
جذباتی بچوں سے عمران کی پناہ چاہتا ہوں۔ کیونکہ نہیں جانتا کہ اِس جرمِ حق گوئی کی کیا سزا بھگتنی پڑے۔ واضح رہے کہ یہ بینر اُس کانفرنس سے کئی روز قبل بنالی گئی تھی اور ایک روز قبل آفیشل پیج کی زینت بھی بنادی گئی تھی۔ اور اِس بنیاد پر عمران خان اور تحریک انصاف کو فوری طور پر ایکشن لے لینا چاہیے تھا لیکن افسوس کہ نہیں لیا گیا۔ چلیں ہوسکتا ہے اُس وقت کوئی مجبوری ہو لیکن اب تو کانفرنس بھی ہوگئی اور شاید ٹارگٹ حاصل بھی ہوگیا ۔۔۔۔۔ تو اُمید یہی ہے کہ تحریک انصاف کی قیاست اِس بارے میں اپنی رائے کا ضرور اظہار کرے گی کہ آیا وہ کشمیر کو پاکستان کا حصہ نہیں سمجھتے یا وہ ایک غلطی تھی؟
ہماری بدقسمتی تو یہ ہے کہ یہ اِس طرح کے واقعات بار بار ہورہے ہیں مگر یہاں کوئی ہے ہی نہیں جو مودی کی طرح سیخ پا ہوجائے۔ اس طرح کی بار بار کی حرکت کئی طرز کے سوالات کو جنم دے رہی ہے۔ کیا پاکستان نے کشمیر پر سودے بازی کرلی ہے؟ کیا کشمیر اب بھی پاکستان کی شہ رگ ہے؟ کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ اک حقیقت ہے یا اِس پر بھی ہمارے حکمران منافقت کررہے ہیں؟ اور اگر منافقت کی جارہی ہے تو قوم نے ان کو اپنے سر کا تاج کیوں بنا رکھا ہے؟ کیا ہماری قوم بھی ۔۔۔؟؟؟ نہیں اللہ نہ کرے پاکستان کی قوم انشاء اللہ ایسے منافقوں سے جان چھڑا کر دم لے گی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔