خاک ہوجائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک
انتظامیہ ان کرپٹ سیاستدانوں کے جوتے سیدھے کرتی یا ان کنگلے بھوکے ننگوں کو بچانے آتی۔
صبح کم وبیش ساڑھے گیارہ بجے دھویں کے گھنے بادلوں نے توجہ اپنی جانب مبذول کرائی۔ پہلے تو ہم اہل محلہ سمجھے کہ کہیں کچرا جل رہا ہے، لیکن جب بڑھتی آگ کے شعلے دیکھ کر بھاگے تو پتا چلا کہ گلشن اقبال کے قریب آباد کچی آبادی کو آگ نے گھیر لیا ہے۔ آہ و بکاء کا اک عالم تھا جو مجھ سمیت کئی لوگوں نے جائے وقوعہ پر دیکھا۔
لوگ دیواریں توڑ توڑ کر باہر نکل رہے تھے، کسی کے بچے تو کسی کے والدین آگ میں پھنسے تھے۔ ایسے میں گیس کا سیلنڈر پھٹنے سے زوردار دھماکہ ہوا۔ میں نے دیکھا کہ مجھ سے کچھ ہی فاصلے پر ایک بوڑھا بے ہوش پڑا تھا۔ اُس سے پہلےکہ میں آگے بڑھ کر اسے سنبھالتا، مختلف اداروں کی ایمبولینسز وہاں پہنچ گئیں۔ لیکن فائر بریگیڈ کی کچھ خبر نہیں تھی، شکایت درج کرائے 25 منٹ کا عرصہ گزرچکا تھا۔ ایک ماں چیخ رہی تھی کہ میرا بچہ اندر رہ گیا ہے، تو ایک لڑکے کو پولیس نے آگے جانے سے روکا ہوا تھا، وہ لڑکا چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ اس کی معذور بوڑھی ماں اندر رہ گئی ہے۔
یہ تمام مناظر دیکھ کر پھر ایک بار فون ملایا تو پتا چلا کہ فائر بریگیڈ کی 4 گاڑیاں آدھے گھنٹے پہلے فائر اسٹیشن سے جائے وقوعہ کی جانب نکل چکی ہیں۔ فائر اسٹیشن متاثرہ جگہ سے آدھے کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، جس کی مسافت شاید ایک سے ڈیڑھ منٹ سے زیادہ نہیں۔اس سے پہلے کہ فائر بریگیڈ کے عملے کو ہم جھوٹا تصور کرکے مغلظات بکنا شروع کرتے ایک دوست نے خبر دی کہ 4 گاڑیاں اسٹیشن سے تو روانہ ہوچکی تھیں لیکن چونکہ اردو کالج سے ایکسپو جانے والا روڈ وزیر اعظم کی آمد کی وجہ سے سیل کردیا گیا ہے، لہذا گاڑیاں متبادل راستے سے آرہی ہیں۔ دوسری جانب پولیس بھی ٹریفک کو کنٹرول کرنے کے لئے موجود نہیں، ایسے میں فائر بریگیڈ کی گاڑیاں 30 منٹ سے پھنسی ہوئی ہیں۔
فوٹو؛ حالات اپ ڈیٹس
ظاہر ہے جناب وزیراعظم اور دیگر وی آئی پیز کی آمد تھی، ایسے میں آگ بجھانے والی گاڑیوں کو کیسے جگہ ملتی۔ آخر خدا خدا کرکے کم و بیش 45 منٹ بعد پہلی آگ بجھانے والی گاڑی پہنچی اور آخر کار آگ بجھانے کا سلسلہ شروع ہوا۔
چیخ و پکار کا عالم تھا۔ لوگ چیخ رہے تھے۔ اتنے میں ملحقہ فلیٹس کی گیلری تک آگ کے شعلے بلند ہونے لگے۔ اہل محلہ گھروں سے پائپ لگا کر پانی ڈال رہے تھے، ساتھ ہی فائر بریگیڈ کی ایک گاڑی بھی آگ بجھانے میں مصروف تھی، لیکن جب آگ کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ ایک فائر بریگیڈ کے بس کی بات نہ تھی اور پھر بالآخر کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے اور تھوڑی ہی دیر بعد دوسری اور تیسری گاڑی پہنچی اور آگ پر قابو پالیا گیا۔
یہ بات سچ ہے کہ فائربریگیڈ کی آمد سے زیادہ وزیراعظم اور وی آئی پیز کی موؤمنٹ اہم تھی، کیونکہ آگ وہ کسی سرمایہ دار کے گھر نہیں لگی، جو سامان جل کر راکھ ہوا وہ کسی وزیر یا مشیر کا آستانہ عالیہ نہیں بلکہ کچی جھگی بستی تھی۔ ان غریبوں کے جینے مرنے سے کسی کو شاید کوئی فرق نہیں پڑتا۔
لیکن اِس دوران صرف ایک ہی مثبت پہلو تھا اور وہ یہ کہ اہل محلہ نے متاثرین کے ساتھ بھرپور تعاون کیا۔ گھروں سے کھانے پینےکا سامان آیا، اور یہ بکھیڑا شام تک سمٹ ہی گیا، لیکن وزیراعظم کو تو شاید خبر تک نہ ہوئی کہ ایک بستی عین اس جگہ جہاں آپ تشریف لائے تھے آپ کی سیکیورٹی کی نظر ہوکر خاکستر ہوگئی۔ انتظامیہ کی بے حسی اور عوام کی بے بسی کو میں صرف ایک شعر میں بیان کرنا چاہوں گا؛
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
لوگ دیواریں توڑ توڑ کر باہر نکل رہے تھے، کسی کے بچے تو کسی کے والدین آگ میں پھنسے تھے۔ ایسے میں گیس کا سیلنڈر پھٹنے سے زوردار دھماکہ ہوا۔ میں نے دیکھا کہ مجھ سے کچھ ہی فاصلے پر ایک بوڑھا بے ہوش پڑا تھا۔ اُس سے پہلےکہ میں آگے بڑھ کر اسے سنبھالتا، مختلف اداروں کی ایمبولینسز وہاں پہنچ گئیں۔ لیکن فائر بریگیڈ کی کچھ خبر نہیں تھی، شکایت درج کرائے 25 منٹ کا عرصہ گزرچکا تھا۔ ایک ماں چیخ رہی تھی کہ میرا بچہ اندر رہ گیا ہے، تو ایک لڑکے کو پولیس نے آگے جانے سے روکا ہوا تھا، وہ لڑکا چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ اس کی معذور بوڑھی ماں اندر رہ گئی ہے۔
یہ تمام مناظر دیکھ کر پھر ایک بار فون ملایا تو پتا چلا کہ فائر بریگیڈ کی 4 گاڑیاں آدھے گھنٹے پہلے فائر اسٹیشن سے جائے وقوعہ کی جانب نکل چکی ہیں۔ فائر اسٹیشن متاثرہ جگہ سے آدھے کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، جس کی مسافت شاید ایک سے ڈیڑھ منٹ سے زیادہ نہیں۔اس سے پہلے کہ فائر بریگیڈ کے عملے کو ہم جھوٹا تصور کرکے مغلظات بکنا شروع کرتے ایک دوست نے خبر دی کہ 4 گاڑیاں اسٹیشن سے تو روانہ ہوچکی تھیں لیکن چونکہ اردو کالج سے ایکسپو جانے والا روڈ وزیر اعظم کی آمد کی وجہ سے سیل کردیا گیا ہے، لہذا گاڑیاں متبادل راستے سے آرہی ہیں۔ دوسری جانب پولیس بھی ٹریفک کو کنٹرول کرنے کے لئے موجود نہیں، ایسے میں فائر بریگیڈ کی گاڑیاں 30 منٹ سے پھنسی ہوئی ہیں۔
فوٹو؛ حالات اپ ڈیٹس
ظاہر ہے جناب وزیراعظم اور دیگر وی آئی پیز کی آمد تھی، ایسے میں آگ بجھانے والی گاڑیوں کو کیسے جگہ ملتی۔ آخر خدا خدا کرکے کم و بیش 45 منٹ بعد پہلی آگ بجھانے والی گاڑی پہنچی اور آخر کار آگ بجھانے کا سلسلہ شروع ہوا۔
چیخ و پکار کا عالم تھا۔ لوگ چیخ رہے تھے۔ اتنے میں ملحقہ فلیٹس کی گیلری تک آگ کے شعلے بلند ہونے لگے۔ اہل محلہ گھروں سے پائپ لگا کر پانی ڈال رہے تھے، ساتھ ہی فائر بریگیڈ کی ایک گاڑی بھی آگ بجھانے میں مصروف تھی، لیکن جب آگ کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ ایک فائر بریگیڈ کے بس کی بات نہ تھی اور پھر بالآخر کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے اور تھوڑی ہی دیر بعد دوسری اور تیسری گاڑی پہنچی اور آگ پر قابو پالیا گیا۔
یہ بات سچ ہے کہ فائربریگیڈ کی آمد سے زیادہ وزیراعظم اور وی آئی پیز کی موؤمنٹ اہم تھی، کیونکہ آگ وہ کسی سرمایہ دار کے گھر نہیں لگی، جو سامان جل کر راکھ ہوا وہ کسی وزیر یا مشیر کا آستانہ عالیہ نہیں بلکہ کچی جھگی بستی تھی۔ ان غریبوں کے جینے مرنے سے کسی کو شاید کوئی فرق نہیں پڑتا۔
لیکن اِس دوران صرف ایک ہی مثبت پہلو تھا اور وہ یہ کہ اہل محلہ نے متاثرین کے ساتھ بھرپور تعاون کیا۔ گھروں سے کھانے پینےکا سامان آیا، اور یہ بکھیڑا شام تک سمٹ ہی گیا، لیکن وزیراعظم کو تو شاید خبر تک نہ ہوئی کہ ایک بستی عین اس جگہ جہاں آپ تشریف لائے تھے آپ کی سیکیورٹی کی نظر ہوکر خاکستر ہوگئی۔ انتظامیہ کی بے حسی اور عوام کی بے بسی کو میں صرف ایک شعر میں بیان کرنا چاہوں گا؛
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہوجائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔