گیند اور بلّے کا بگڑتا ہوا توازن
وقت آچکا ہے کہ بین الاقوامی کرکٹ کونسل گیند اور بیٹ کے درمیان توازن پیدا کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے۔
اگر ایسا مقابلہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ہوتا تو یقین جانیں درجنوں لوگ اپنی جان سے جاتے۔ اتنا اعصاب شکن، ہیجان انگیز، ولولہ خیز اور دماغ کی چولیں ہلا دینے والا مقابلہ عالمی کپ کی تاریخ میں بہت کم دیکھا گیا ہے۔ ہم بات کررہے ہیں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے مقابلے کی کہ جس نے ثابت کیا ہے کہ چھوٹے ہدف کے مقابلے کہیں زیادہ دلچسپ ہوتے ہیں۔
ایڈن پارک، میں عالمی کپ 2015ء کے دونوں میزبانوں کے مقابلے سے قبل جاری ٹورنامنٹ میں جو مقابلے کھیلے گئے ہیں، ان میں 300 سے زیادہ رنزکا بننا، بلکہ ایک بار تو 400 رنز کا ہندسہ بھی عبور کر جانا، ہضم کرنا مشکل ہے۔ جب آخری بار 1992ء میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے انہی میدانوں پرعالمی کپ کھیلا گیا تھا تو صرف ایک مقابلہ ایسا تھا، جس میں 300 سے زیادہ رنز بنے تھے۔ دراصل بین الاقوامی کرکٹ کونسل کی عاقبت نااندیشی اور بڑھتی ہوئی کاروباری ذہنیت نےکرکٹ کےتوازن کو بُری طرح بگاڑ دیا ہے اور اس کے حسن کو خاصا متاثر کیا ہے۔
اب سے 10 سال قبل تک جب ایک روزہ کرکٹ میں بلے باز اور گیند باز مقابل آتے تھے تو برابر کی ٹکر ہوتی تھی۔ لیکن اب حال یہ ہے کہ بیٹسمین مکمل طور پر حاوی ہوگئے ہیں۔ دونوں اینڈز سے الگ، الگ گیندوں کے استعمال نے ریورس سوئنگ کے امکانات کا خاتمہ کردیا ہے تو دائرے سے باہر 4 سے زیادہ فیلڈرز کی موجودگی پر ہمہ وقت پابندی نے بلے بازوں کو اندھادھند بیٹ گھمانے کی اجازت دی ہے۔ جو کسر رہ گئی تھی وہ جدید اور انتہائی طاقتور بیٹس نے پوری کردی ہے، جو ماضی کے مقابلے میں تین گنا موٹائی کے حامل ہیں۔ اب وکٹ گرنے کی کوئی اہمیت نہیں رہی، البتہ چھکے 'اسپانسرڈ' ہو چکے ہیں۔
اس پس منظر کے ساتھ دیکھیں تو توقع یہی تھی کہ عالمی کپ 2015ء بھی ''رنز کا میلہ'' ہوگا اور توقعات کے مطابق ابھی تک ایسا ہی ہورہا ہے۔ یہاں تک کہ آسٹریلیا-نیوزی لینڈ کے مقابلےنے 'رنگ میں بھنگ' ڈالی ہے اور آئینہ دکھایا ہے کہ جن مقابلوں میں کم رنز بنتے ہیں، وہ بھی اتنے ہی دلچسپ ہو سکتے ہیں۔
ویسے جب آسٹریلیا ٹرینٹ بولٹ کی تباہ کن باؤلنگ کے سامنے صرف 151 رنز پر ڈھیر ہوگيا تھا تو ایسا محسوس ہوا کہ بڑی ٹیموں کا 'ایک اور' یکطرفہ مقابلہ ہوگا اور اس کو تقویت ملی نیوزی لینڈ کے آغاز سے۔ جب 78 رنز تک نیوزی لینڈ کی صرف ایک ہی وکٹ گری تھی تو ایسا ہی لگ رہا تھا لیکن مچل اسٹارک کی سنسنی خیز باؤلنگ نے مقابلہ کو انتہائی دلچسپ ماحول میں داخل کردیا۔ انہوں نے مسلسل دو گیندوں پر روس ٹیلر اور گرانٹ ایلیٹ کو کلین بولڈ کیا اور جب کین ولیم سن اور کوری اینڈرسن نیوزی لینڈ کو جیت سے صرف 21 رنز کے فاصلے پر لے آئے تو آسٹریلیا نے مقابلے میں ایک مرتبہ پھر واپسی کی۔ کوری اینڈرسن، لیوک رونکی اور ڈینیل ویٹوری آؤٹ ہوئے تو اسٹارک نے ایک مرتبہ پھر دو خوبصورت گیندوں پر ایڈم ملنے اور ٹم ساؤتھی کا کام تمام کیا۔ نیوزی لینڈ جیت سے صرف 6 رنز کے فاصلے پر تھا، تب کین ولیم سن نے فاتحانہ چھکا لگا کر مقابلے کا خاتمہ کردیا۔
میدان میں موجود 40 ہزار سے زائد اور میدان سے باہر دنیا بھر میں اسکرین پر نظریں جمائے کروڑوں، اربوں شائقین نے ان سنسنی خیز لمحات کا بھرپور لطف اٹھایا۔ یہ صرف رواں عالمی کپ کا نہیں بلکہ ابھی سے ٹورنامنٹ کی تاریخ کے دلچسپ ترین مقابلوں میں شمار ہونے لگا ہے۔ کیوں؟ رائج الوقت معیارات کے مطابق تو جس مقابلے میں 30 سے 40 چھکے لگیں، وہی دلچسپ ہونا چاہیے؟ لیکن آج یہ حقیقت آشکار ہوئی ہے کہ مقابلوں کا دلچسپ ہونا ضروری ہے، ان میں چھکوں کی تعداد سے شائقین کو کچھ لینا دینا نہیں۔
ایک زمانہ تھا جب پورے مقابلوں میں گنے چنے دو یا تین چھکے لگتے تھے۔ تب ان کی قدر بھی ہوا کرتی تھی۔ اب جب روہیت شرما ایک ہی مقابلے میں 16 لگا دیں تو ان کی حیثیت 'گھر کی مرغی، دال برابر' جیسی ہی ہوجائے گی۔
وقت آچکا ہے کہ بین الاقوامی کرکٹ کونسل گیند اور بیٹ کے درمیان توازن پیدا کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے۔ ابھی عالمی کپ سے پہلے ہی بیٹس کی موٹائی کو قانونی حدود میں لانے کی طرف جو اشارہ دیا ہے، اُس پر سنجیدگی سے غور کرنے اور منطقی انجام تک پہنچانے کی ضرورت ہے ورنہ کرکٹ میں باؤلنگ، خاص طور پر تیز باؤلنگ کا مستقبل انتہائی تاریک ہوجائے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
ایڈن پارک، میں عالمی کپ 2015ء کے دونوں میزبانوں کے مقابلے سے قبل جاری ٹورنامنٹ میں جو مقابلے کھیلے گئے ہیں، ان میں 300 سے زیادہ رنزکا بننا، بلکہ ایک بار تو 400 رنز کا ہندسہ بھی عبور کر جانا، ہضم کرنا مشکل ہے۔ جب آخری بار 1992ء میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے انہی میدانوں پرعالمی کپ کھیلا گیا تھا تو صرف ایک مقابلہ ایسا تھا، جس میں 300 سے زیادہ رنز بنے تھے۔ دراصل بین الاقوامی کرکٹ کونسل کی عاقبت نااندیشی اور بڑھتی ہوئی کاروباری ذہنیت نےکرکٹ کےتوازن کو بُری طرح بگاڑ دیا ہے اور اس کے حسن کو خاصا متاثر کیا ہے۔
اب سے 10 سال قبل تک جب ایک روزہ کرکٹ میں بلے باز اور گیند باز مقابل آتے تھے تو برابر کی ٹکر ہوتی تھی۔ لیکن اب حال یہ ہے کہ بیٹسمین مکمل طور پر حاوی ہوگئے ہیں۔ دونوں اینڈز سے الگ، الگ گیندوں کے استعمال نے ریورس سوئنگ کے امکانات کا خاتمہ کردیا ہے تو دائرے سے باہر 4 سے زیادہ فیلڈرز کی موجودگی پر ہمہ وقت پابندی نے بلے بازوں کو اندھادھند بیٹ گھمانے کی اجازت دی ہے۔ جو کسر رہ گئی تھی وہ جدید اور انتہائی طاقتور بیٹس نے پوری کردی ہے، جو ماضی کے مقابلے میں تین گنا موٹائی کے حامل ہیں۔ اب وکٹ گرنے کی کوئی اہمیت نہیں رہی، البتہ چھکے 'اسپانسرڈ' ہو چکے ہیں۔
اس پس منظر کے ساتھ دیکھیں تو توقع یہی تھی کہ عالمی کپ 2015ء بھی ''رنز کا میلہ'' ہوگا اور توقعات کے مطابق ابھی تک ایسا ہی ہورہا ہے۔ یہاں تک کہ آسٹریلیا-نیوزی لینڈ کے مقابلےنے 'رنگ میں بھنگ' ڈالی ہے اور آئینہ دکھایا ہے کہ جن مقابلوں میں کم رنز بنتے ہیں، وہ بھی اتنے ہی دلچسپ ہو سکتے ہیں۔
ویسے جب آسٹریلیا ٹرینٹ بولٹ کی تباہ کن باؤلنگ کے سامنے صرف 151 رنز پر ڈھیر ہوگيا تھا تو ایسا محسوس ہوا کہ بڑی ٹیموں کا 'ایک اور' یکطرفہ مقابلہ ہوگا اور اس کو تقویت ملی نیوزی لینڈ کے آغاز سے۔ جب 78 رنز تک نیوزی لینڈ کی صرف ایک ہی وکٹ گری تھی تو ایسا ہی لگ رہا تھا لیکن مچل اسٹارک کی سنسنی خیز باؤلنگ نے مقابلہ کو انتہائی دلچسپ ماحول میں داخل کردیا۔ انہوں نے مسلسل دو گیندوں پر روس ٹیلر اور گرانٹ ایلیٹ کو کلین بولڈ کیا اور جب کین ولیم سن اور کوری اینڈرسن نیوزی لینڈ کو جیت سے صرف 21 رنز کے فاصلے پر لے آئے تو آسٹریلیا نے مقابلے میں ایک مرتبہ پھر واپسی کی۔ کوری اینڈرسن، لیوک رونکی اور ڈینیل ویٹوری آؤٹ ہوئے تو اسٹارک نے ایک مرتبہ پھر دو خوبصورت گیندوں پر ایڈم ملنے اور ٹم ساؤتھی کا کام تمام کیا۔ نیوزی لینڈ جیت سے صرف 6 رنز کے فاصلے پر تھا، تب کین ولیم سن نے فاتحانہ چھکا لگا کر مقابلے کا خاتمہ کردیا۔
میدان میں موجود 40 ہزار سے زائد اور میدان سے باہر دنیا بھر میں اسکرین پر نظریں جمائے کروڑوں، اربوں شائقین نے ان سنسنی خیز لمحات کا بھرپور لطف اٹھایا۔ یہ صرف رواں عالمی کپ کا نہیں بلکہ ابھی سے ٹورنامنٹ کی تاریخ کے دلچسپ ترین مقابلوں میں شمار ہونے لگا ہے۔ کیوں؟ رائج الوقت معیارات کے مطابق تو جس مقابلے میں 30 سے 40 چھکے لگیں، وہی دلچسپ ہونا چاہیے؟ لیکن آج یہ حقیقت آشکار ہوئی ہے کہ مقابلوں کا دلچسپ ہونا ضروری ہے، ان میں چھکوں کی تعداد سے شائقین کو کچھ لینا دینا نہیں۔
ایک زمانہ تھا جب پورے مقابلوں میں گنے چنے دو یا تین چھکے لگتے تھے۔ تب ان کی قدر بھی ہوا کرتی تھی۔ اب جب روہیت شرما ایک ہی مقابلے میں 16 لگا دیں تو ان کی حیثیت 'گھر کی مرغی، دال برابر' جیسی ہی ہوجائے گی۔
وقت آچکا ہے کہ بین الاقوامی کرکٹ کونسل گیند اور بیٹ کے درمیان توازن پیدا کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے۔ ابھی عالمی کپ سے پہلے ہی بیٹس کی موٹائی کو قانونی حدود میں لانے کی طرف جو اشارہ دیا ہے، اُس پر سنجیدگی سے غور کرنے اور منطقی انجام تک پہنچانے کی ضرورت ہے ورنہ کرکٹ میں باؤلنگ، خاص طور پر تیز باؤلنگ کا مستقبل انتہائی تاریک ہوجائے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔