پاکستان سے امریکا تک ٹیکس چور قانون کے شکنجے میں

آج بھی دلیر انسانوں کی وجہ سے دنیا میں حق و انصاف کا بول بالا ہے۔


دنیا بھر کی حکومتیں جرائم پیشہ افراد کی ارضی جنت،سوئس بینکوں پہ دھاوا بولنے لگیں ۔ فوٹو : فائل

KARACHI: ''تم لالچی بننا چاہتے ہو ،تو علم حاصل کرنے کا لالچ کرو۔دولت جمع کرنے کی خواہش ہے،تو خوشیوں کا خزانہ اکھٹا کر لو۔کامیابی کی چاہ ہے،تو اپنی زندگی دیانت داری اور پاک بازی سے گذارو۔''(اردو افسانہ نگار،رفیق حسین)
٭٭
یہ 22 دسمبر 2008ء کی بات ہے، سوئس پولیس نے جنیوا میں ہروی قلسیانی نامی شخص کو گرفتار کیا۔ ہروی ایچ ایس بی سی پرائیویٹ بینک (HSBC Private Bank)سے بطورکمپیوٹر انجینئر منسلک تھا۔ بینکاری کا یہ سوئس ادارہ دنیا کے دوسرے بڑے بینک، ایچ ایس بی سی گروپ کی ملکیت ہے۔

سوئس پولیس کو شک تھا کہ ہروی قلسیانی ایچ ایس سی پرائیویٹ بینک کے کھاتے داروں کی فہرست رکھتا ہے۔ کسی فرد کے ہاتھوں میں ایسی فہرست کا ہونا سوئٹزرلینڈ میں سنگین جرم ہے۔ اسی لیے ہروی کو زیر حراست لے لیا گیا۔ ایک دن اس سے تفتیش ہوئی۔ پھر ہروی کو یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ سوئٹزر لینڈ سے باہر نہ جانا۔

لیکن ہروی نے شام کو کرائے کی کار لی، بیگم اور دو بیٹوں کو ساتھ لیا اور فرانس جا پہنچا ۔ حقیقتاً ہروی کے پاس ایچ ایس بی سی پرائیویٹ بینک میں کھولے گئے ''ایک لاکھ تیس ہزار'' اکائونٹس کی ساری تفصیل موجود تھی...کھاتے داروں کے نام، پتے اور ہر اکائونٹ میں موجود رقم کی مالیت!ان میں سے بیشتر کھاتے غیرملکیوں نے چھپ چھپا کر کھول رکھے تھے۔



جنوری 2009ء میں اکائونٹس کی یہ بیش بہا فہرست فرانسیسی حکومت تک پہنچ گئی۔تب فہرست سے انکشاف ہوا کہ 9187 فرانسیسی باشندوں نے حکومت کے علم میں لائے بغیر ایچ ایس بی سی پرائیویٹ بینک میں 13,490 خفیہ اکائونٹ کھول رکھے ہیں۔ ان میں تقریباً ساڑھے بارہ ارب ڈالر (ساڑھے بارہ کھرب روپے) کا خطیر سرمایہ موجود تھا۔

جلد ہی سوئس حکومت نے فرانس سے درخواست کی کہ ہروی قلسیانی کو اس کے حوالے کردیا جائے۔ مگر فرانسیسی حکومت نے انکار کردیا۔ یہی نہیں، فرانسیسی چھان بین سے انکشاف ہوا کہ ایچ پی ایس پرائیویٹ بینک نے سیاہ دھن چھپانے والے فرانس کے باشندوں کو مختلف حیلے بہانوں سے سہولیات اور مراعات دیں تاکہ وہ اپنا زیادہ سے زیادہ سرمایہ بینک میں جمع کرائیں۔ اس بنیاد پہ بینک کے خلاف عدالت میں کرمنل کیس دائر کردیا گیا۔

ہروی قلسیانی کی فہرست میں شامل ایک لاکھ تیس ہزار اکائونٹس کے مالکان دو سو سے زائد ممالک سے تعلق رکھتے تھے۔یہ کھاتے 1988ء تا 2007ء کے عرصے میں بینک میں کھولے گئے۔کچھ عرصے بعد فرانسیسی حکومت نے فہرست دیگر مغربی حکومتوں کو بھی فراہم کردی۔ لہٰذا آج فرانس کے علاوہ امریکا، بیلجیم، ارجنٹائن،یونان اور اسپین میں بھی ایچ ایس بی سی پرائیویٹ بینک کے خلاف کرمنل کیس چل رہے ہیں۔

سوئس لیکس کا ہنگامہ
پچھلے دنوں مشہور فرانسیسی اخبار، لو موند(Le Monde) نے فہرست میں سے ان ''ایک لاکھ چھ ہزار اکائونٹس'' کی تفصیلات حاصل کرلیں جن کے متعلق شک ہے کہ یہ ٹیکس چوروں اور جرائم پیشہ افراد کے ہیں۔ یہ اکائونٹس 203 ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد کی ملکیت ہیں۔ ان میں 100 ارب ڈالر (100 کھرب روپے) سے زائد رقم جمع ہے۔ اس رقم کی جسامت کا اندازہ یوں لگائیے کہ حکومت پاکستان کا پچھلا بجٹ تقریباً چار کھرب روپے پر مشتمل تھا۔

لو موند نے پھر اکائونٹس کی تفصیل دیگر پرنٹ و الیکٹرانک عالمی میڈیا کو بھی فراہم کردیں۔یہ اسکینڈل ''سوئس لیکس''( Swiss Leaks)کے نام سے مشہور ہوا۔جب دنیا بھر میں عوام و خواص تک ایک لاکھ سے زائد خفیہ اکائونٹس کی معلومات پہنچیں تو اچھا خاصا ہنگامہ مچ گیا۔ وجہ یہی کہ اکثر کھاتے مجرموں کی ملکیت تھے۔



یہ مجرم منشیات، اسلحے کی تجارت، اسمگلنگ اور دیگر کالے دھندوں میں ملوث رہے۔ مزید برآں انکم ٹیکس اور ٹیکسوں کی دیگر اقسام کی رقم بچانے کے لیے بھی ہزارہاغیرملکیوں نے خفیہ کھاتے کھولے۔افسوس کہ ایچ ایس بی سی پرائیویٹ بینک کی انتظامیہ کھلے بندوں چوروں کی ممدو و معاون بنی رہی۔

چوروں کی ارضی جنت
ٹیکس چوری دنیا بھر میں ایک بڑا جرم بن چکا۔ یہ چوری خصوصاً ترقی پذیر ممالک کی حکومتوں کو بہت نقصان پہنچاتی ہے۔ٹیکس نہ ملنے کے باعث ان کے پاس اتنی رقم ہی جمع نہیں ہو پاتی کہ وہ غریبوں کی فلاح و بہبود اور تعلیم و صحت کے لیے منصوبے شروع کرسکیں۔

افسوس ناک بات یہ کہ ہر ملک کے ٹیکس چور اپنی رقم بہ آسانی خصوصاً سوئس بینکوں میں جمع کراسکتے ہیں۔وجہ یہی کہ وہاں آج بھی ''قانوناً'' ان ٹیکس چوروں کو تحفظ حاصل ہے۔کوئی سوئس بینک کسی حکومت کو ان ٹیکس چوروں کے کھاتوں کی تفصیل براہ راست فراہم نہیں کرسکتا۔ اگرچہ پچھلے چند برس میں سپرپاور، امریکا اپنی طاقت سے فائدہ اٹھا کر ہزارہا ٹیکس چور اور مجرم امریکیوں کے اکائونٹس کی تفصیل سوئس بینکوں سے معلوم کرچکا۔ لیکن تیسری دنیا کی کمزور حکومتیں سوئس بینکوں کے سامنے بے بس نظر آتی ہیں۔

دراصل اکائونٹس کے مالکان کی شناخت خفیہ رکھ کر ہی سوئس بینک پھلتے پھولتے ہیں۔ اور اس خفیہ پن کو سوئس حکومت نے قوانین بناکر تحفظ دے رکھا ہے۔ چناں چہ رفتہ رفتہ سوئس بینک مجرموں کے لیے ارضی جنت بن گئے۔ وہ جو کالا دھن کماتے، سوئس بینکوں میں جمع کراکے اسے نہ صرف سفید بناتے بلکہ منافع بھی کمانے لگتے۔ گویا کالا دھن محفوظ کرنے کا آسان نسخہ مجرموں کے ہاتھ لگ گیا۔انھیں احساس ہوا کہ جرائم سے کمائی رقم کو جائز بنانا اب ممکن ہو چکا۔



اس سہل نسخے سے خاص طور پر تیسری دنیا کے ممالک میں کرپٹ سیاست دانوں، سرکاری افسروں اور جرنیلوں نے خوب فائدہ اٹھایا۔وہ اپنے دور اقتدار میں قومی خزانے کی لوٹ مار سے جو کچھ کماتے، سوئس بینکوں میں جمع کرادیتے۔ بعدازاں اگر انہیں سزائیں ملتیں، تب بھی رہا ہوکر کسی مغربی شہر میں مقیم ہوتے اور کرپشن کی کمائی سے عیش کرتے۔

نظام حملوں کی زد میں
مجرموں کے ساتھی اور جرائم کی نشوونما میں اہم کردار ادا کرنے والے سوئس بینکاری نظام پر پہلی ضرب 2008ء میں لگی جب امریکی حکومت اپنے ٹیکس چوروں کا تعاقب کرتی سوئٹزرلینڈ جاپہنچی۔ امریکی حکومت کے دبائو پر سوئس حکومت نے اپنے بینکوں کو ٹیکس چوروں کے نام و پتے بتانے کی اجازت دے دی۔ ان میں سرفہرست سوئٹزرلینڈ کا سب سے بڑا بینک، یو ایس بی (UBS) تھا۔

چھان بین سے انکشاف ہوا کہ امریکا میں یو ایس بی کے ملازمین امیر امریکیوں کو ٹیکس بچانے اور کالا دھن محفوظ کرنے کے گُر سکھاتے ہیں۔ مدعا یہی کہ وہ یو ایس بی میں اپنے اکائونٹس کھول کر اسے مالی فائدہ پہنچائیں۔افسوس، پیسے کا لالچ انسان سے ایسے گھٹیا کام بھی کرا ڈالتا ہے جو انجام نہیں پانے چاہیں۔2008ء میں امریکی عدالت نے یو ایس بی پر بھاری جرمانہ (780 ملین ڈالر)ٹھونک دیا ۔ نیز سوئس حکومت پہ دبائو ڈالا گیا کہ وہ غیر ملکی ٹیکس چور پکڑنے کے لیے امریکہ و دیگر ممالک سے تعاون کرے۔

2008ء ہی میں دوسرے بڑے سوئس بینک، کریڈٹ سوئس (Credit Suisse) کے خلاف بھی امریکا اور جرمنی میں تحقیقات کا آغاز ہوا۔ بینک پر الزام تھا کہ اس نے امیر امریکیوں اور جرمنوں کا کالا دھن اپنے پاس جمع کیا نیز ٹیکس بچانے میں انہیں مدد دی۔ بعداز تفتیش کریڈٹ سوئس کا جرم ثابت ہوا۔ لہٰذا 2010ء تا 2014ء کے دوران وقتاً فوقتاًبینک پر تقریباً ''تین ارب ڈالر'' کے بھاری بھرکم جرمانے عائد کیے گئے۔

2012ء میں امریکا یہ میں ایچ ایس بی سی گروپ کے خلاف بھی مقدمہ چلنے لگا۔ اس پر الزام تھا کہ وہ منشیات فروشوں اور دیگر جرائم پیشہ لوگوں کی ناجائز سیاہ دولت کو متفرق طریقوں سے جائز و سفید بناتا ہے۔ چھان بین کے بعد الزامات درست ثابت ہوئے۔ چناں چہ دسمبر 2012ء میں ایچ ایس بی سی گروپ پر امریکی عدالت نے 1.9 ارب ڈالر کا بھاری جرمانہ ٹھونک دیا۔

اعمال تو دیکھو!
سوئس بینکوں پر پے در پے جرمانوں سے سوئٹزرلینڈ میں شعبہ بینکاری کو خاصا ضعف پہنچا۔ بعدازاں امریکی و یورپی حکومتوں کے دبائو پر سوئس حکومت نے ایک عالمی معاہدے''Convention on Mutual Administrative Assistance in Tax Matters'' پر دستخط کردیئے۔ دنیا کے 69 ممالک اس معاہدے کے رکن ہیں۔ یہ رکن ممالک ٹیکس معاملات کے سلسلے میں ایک دوسرے سے بھر پور تعاون کرتے ہیں۔ یوں سوئس بینک کم از کم ٹیکس چوروں کے لیے ارضی جنت نہیں رہے۔

لیکن سوئٹزر لینڈ میں اب بھی کھاتے دار کا نام و پتا پوشیدہ رکھنے کی ہر ممکن سعی ہوتی ہے۔ اسی باعث دنیا بھر میں کسی بھی طریقے سے ناجائز رقم کمانے والے لوگ اب بھی سوئس بینکوں ہی میں اکائونٹس کھولتے ہیں۔ اگلے نمبر پر لکسمبرگ، برمودا، سنگاپور اور برٹش ورجن جزائر آتے ہیں۔یہ سب ممالک ترقی یافتہ،مہذب اور تعلیم یافتہ کہلاتے ہیں،مگر پیسا کمانے کی خاطر ان کے اعمال مجرموں،ٹھگوں اور ہوس کے مارے لوگوں جیسے ہیں۔سوئس بینکوں نے سیاہ دھن سفید بنانے کی خاطر نت نئے طریقے ایجاد کررکھے ہیں۔ مثال کے طور پر ایچ ایس بی سی گروپ ہر شخص کو ایک ساتھ دو اکائونٹس کھولنے کی سہولت دیتا ہے۔ لہٰذا میکسیکو کا ایک منشیات فروش اپنے ملک اور سوئٹزرلینڈ، دونوں جگہ دو اکائونٹ رکھتا ہے۔

اب بالفرض میکسیکو کے اکائونٹ میں اس کے کروڑوں روپے پڑے ہیں۔ یہ اس نے انسان دشمن منشیات فروخت کرکے کمائے۔ دوسری طرف سوئٹزرلینڈ کا اکائونٹ خالی ہے، مگر ڈبل اکائونٹ کے باعث ایچ ایس بی سی سوئس بینک اسے میکسیکن رقم کے عوض اتنی ہی رقم کا قرض جاری کردے گا... یوں منشیات فروش کا سیاہ دھن سفید ہوگیا۔ یہ کالے پیسے کو سفید بنانے کا محض ایک طریقہ کار ہے۔

قانون شکنی کا دور گذر چکا
خوش قسمتی سے اب پاکستان سمیت دنیا بھر میں یہ مہم چل پڑی ہے کہ بینک اپنے کھاتے داروں کی تفصیل ٹیکس جمع کرنے والے سرکاری اداروں کو فراہم کریں تاکہ اول ٹیکس چور پکڑے جاسکیں، دوم یہ معلوم ہو کہ امرا کی آمدن جائز ہے یا ناجائز!ظاہر ہے، بینک حکومتوں کو کھاتے داروں کی تفصیلات فراہم کرنے لگے تو ٹیکس چور اور جرائم پیشہ افراد بینکوں میں اکائونٹس نہیں کھلوائیں گے۔ یوں بینکوں کی آمدن کم ہوجائے گی۔ اسی لیے بینک درج بالا اقدام کی مزاحمت کررہے ہیں۔

پاکستان میں ایف بی آر (Federal Board of Revenue) انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس اور دیگر سرکاری ٹیکس جمع کرنے کا ذمے دار ہے۔ پچھلے سال ایف بی آر نے فیصلہ کیا کہ پاکستانی بینکوں سے ان کھاتے داروں کی تفصیلات معلوم کی جائیں جو انکم ٹیکس جمع نہیں کراتے۔ لیکن بینکوں نے اس حکم کو عدالتوں میں چیلنج کردیا۔آخر دسمبر 2014ء میں لاہور ہائیکورٹ نے ایف بی آر کو بینکوں سے کھاتے داروں کی تفصیلات لینے کی اجازت دے دی۔

بینک اکائونٹس سے جو معلومات حاصل ہوئیں، ایف بی آر ان کی بنیاد پر ''دو لاکھ چالیس ہزار پاکستانیوں'' کو انکم ٹیکس ادا کرنے کے نوٹس جاری کرچکا۔ یہ وہ پاکستانی ہیں جو پاکستان میں رہتے ہوئے کروڑوں اربوں روپے کماتے ہیں مگر ایک پیسے کا انکم ٹیکس ادا نہیں کرتے اور قانون اور قوم کے سینے پر مونگ دلتے ہیں۔ انہیں آگاہ ہوجانا چاہیے کہ اب قانون شکنی کا دور گزر چکا۔

یاد رہے، ایف بی آر کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ہر سال ٹیکسوں کی مد میں ''ایک کھرب اسّی ارب روپے'' بچائے جاتے ہیں۔ اگر یہ بھاری بھرکم رقم حکومت کو ملے، تو یقیناً غریبوں کی فلاح و بہبود اور ترقی کے کئی منصوبے شروع ہوسکتے ہیں۔

بھارت میں ہنگامہ
لیکس سے انکشاف ہوا کہ ایچ ایس بی سی پرائیویٹ بینک میں 1668 بھارتیوں کے بھی خفیہ اکاؤنٹس موجود ہیں۔ ان میں'' چار ارب دس کروڑ ڈالر'' پائے گئے۔ اس انکشاف پر بھارت میں خاصا ہنگامہ برپا ہوگیا۔ دراصل بھارت میں سول سوسائٹی اور عوام نے بھر پور مہم چلارکھی ہے کہ سوئس بینکوں میں موجود بھارتیوں کی رقومات کا پتا چلایا جائے۔ سوئس لیکس کے انکشاف نے اس مہم کو دو آتشہ بنا دیا۔

بھارت میں الیکٹرونک و پرنٹ میڈیا کی آزادی نے جرائم پیشہ افراد کو مشکل میں ڈال رکھا ہے۔ ایک بھارتی چاہے کتنا ہی بااثر اور امیر ہو، اگر وہ کوئی جرم کرے، تو میڈیا اسے بھر پور انداز میں نمایاں کرتا ہے۔

اسی لیے بھارت میں انکم ٹیکس بچانا اور کالا دھن جمع کرنا مشکل سے مشکل تر ہوچکا۔ گو مکمل طور پر قانون اور اصول کا بول بالا نہیں ہوا، لیکن بھارت میں ہر قسم کی کرپشن پہلے کے مقابلے میں کم ہوچکی۔ سوئس بینک کھاتے داروں کے نام و پتے خفیہ رکھنے کی وجہ سے ہی مال بناتے تھے۔

جب امریکا، برطانیہ اور دیگر ممالک کی حکومتوں نے اپنے ٹیکس چور پکڑنے کے واسطے ان پر چڑھائی کی، تو سوئس بینک ابھرتے ایشیائی و افریقی ممالک مثلاً برازیل، چین، جنوبی افریقہ، بھارت، نائجیریا میں اپنی شاخیں کھولنے لگے۔ لہٰذا اب ان ممالک کے ٹیکس چور اور جرائم پیشہ لوگ اپنا کالا دھن بہ سہولت سوئس بینکوں میں جمع کراسکیں گے اور ان سے فی الحال کسی قسم کی پوچھ گچھ بھی نہیں ہوگی۔

تاہم امریکا اور یورپی ممالک کے مانند چینی اور بھارتی حکومتیں بھی طاقتور ہوچکیں۔ لہٰذا وہ جلد یا بدیر اپنے ممالک میں سوئس بینکوں کی شاخوں پر ضرور دباؤ ڈالیں گی کہ کھاتے داروں کے نام و پتے انہیں بھی فراہم کیے جائیں۔ مقصد یہی جاننا ہوگا کہ ان میں کوئی ٹیکس چور اور جرائم پیشہ افراد تو پوشیدہ نہیں۔

فرانسیسی حکومت نے ایچ ایس بی سی پرائیویٹ بینک میں موجود بھارتی 1668کھاتے داروں کے نام و پتے بھارتی حکومت کو فراہم کردیئے تھے۔ بھارتی حکومت عوام کے سامنے نام نہ لائی تاہم یہ ضرور اعلان کیا گیا کہ کھاتے داروں سے جرمانوں اور ٹیکسوں کی رقم میں کئی کروڑ روپے وصول کیے جاچکے۔

بھارت میں اب یہ مہم چل رہی ہے کہ تمام صاحب حیثیت لوگ... سیاست داں، جرنیل، سرکاری افسر، جاگیردار، صنعت کار، کاروباری، پنڈت، گرو وغیرہ اندرون و بیرون ملک موجود اپنے تمام اثاثہ جات ڈکلیئر کریں۔ یوں بھارتی عوام کو معلوم ہوگا کہ کس نے کرپشن کے ذریعے مال بنایا اور کون محنت و حق حلال کی کمائی سے امیر بنا ہے۔

سوئس لیکس کے ''ہیرو''
ہروی قلسیانی نے ایچ ایس بی سی پرائیویٹ بینک سے جن اکائونٹس کی تفصیل چرائی، وہ 203ممالک سے تعلق رکھتے ہیں۔ فطری طور پر سب سے زیادہ کھاتے داروں کا تعلق سوئٹزرلینڈ سے ہے اور انہی کی زیادہ رقم بھی بینک میں محفوظ تھی۔اعدادو شمار کے مطابق بہ لحاظ رقم سولہ بڑے ممالک یہ ہیں (یعنی وہاں کے کھاتے داروں کی زیادہ رقم بینک میں موجود تھی):۔

(1) سوئٹزر لینڈ (31.2 ارب ڈالر)۔ (2) برطانیہ (21.7 ارب ڈالر)۔ (3) وینزویلا (14.8 ارب ڈالر)، (4) امریکا (13.4 ارب ڈالر)۔ (5) فرانس (12.5 ارب ڈالر)، (6) اسرائیل (10ارب ڈالر)۔ (7) اٹلی (7.5 ارب ڈالر)۔ (8) بہاماس (7 ارب ڈالر)۔ (9) برازیل (7 ارب ڈالر)۔ (10) بیلجیئم (6.3 ارب ڈالر)۔ (11) سعودی عرب (5.8 ارب ڈالر)۔ (12) لبنان (4.8 ارب ڈالر)۔ (13) ہالینڈ (4.6 ارب ڈالر)۔ (14) جرمنی (4.4 ارب ڈالر)۔ (15) کیمن جزائر (4.3 ارب ڈالر)۔ (16) بھارت (4.1 ارب ڈالر)۔

کلائنٹس کی تعداد کے اعتبار سے بھی سب ملکوں میں سوئٹزر لینڈ سرفہرست رہا۔ بینک میں 11,235 سوئس باشندوں کے اکائونٹ موجود تھے۔ اس کے بعد یہ ترتیب رہی: فرانس (9187)، برطانیہ (8844)، برازیل (8667)، اٹلی (7499) اور اسرائیل (6554)۔

پاکستانی جو ٹیکس نہیں دیتے
''سوئس لیکس'' کی خصوصیت یہ ہے کہ اس سکینڈل کے ذریعے پہلی بار یہ ٹھوس ثبوت سامنے آئے، دنیا بھر میں بیشتر مجرم اپنا کالا دھن سوئس بینکوں میں جمع کراتے ہیں ورنہ پہلے محض اندازے ہی لگائے جاتے ۔ مثال کے طور پر پاکستان میں مشہور ہوچکا ہے کہ سوئس بینکوں میں پاکستانیوں کے 200 ارب ڈالر جمع ہیں۔ حتیٰ کہ پچھلے سال وفاقی وزیر خزانہ، اسحاق ڈار نے بھی یہ عدد تسلیم کرلیا لیکن حقائق کچھ اور ہی بتاتے ہیں۔

ہروی کلیسانی کی دستاویزات کے مطابق 2001ء تا 2007ء ایچ ایس بی سی پرائیویٹ بینک میں 338 پاکستانیوں کے 648 بینک اکاؤنٹس موجود تھے۔ ان کھاتوں میں 859.7 ملین ڈالر جمع تھے یعنی تقریباً 86 کروڑ ڈالر۔ پاکستانی کرنسی میں یہ رقم 86 ارب روپے بنتی ہے۔

سوئٹزر لینڈ کا سینٹرل بینک (سوئس نیشنل بینک) وقتاً فوقتاً ایک اہم رپورٹ''سوئٹزرلینڈ میں بینک''( Banks in Switzerland )شائع کرتا ہے۔ اس فہرست میں بتایا جاتا ہے کہ کن ممالک کے شہریوں کی کتنی رقم بڑے سوئس بینکوں میں جمع ہے۔ ایسی آخری رپورٹ 2013ء میں شائع ہوئی تھی۔

2013ء کی رپورٹ کی رو سے اسّی بڑے سوئس بینکوں میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے شہریوں کے 374 ملین سوئس فرانک موجود تھے۔ ایک سوئس فرانک تقریباً 110 روپے کا ہے۔ گویا دو سال قبل امیر پاکستانی 80 سوئس بینکوں میں 41 ارب روپے سے زیادہ رقم رکھتے تھے۔

سوئٹزر لینڈ میں غیر ملکیوں کے اکاؤنٹس رکھنے والے تقریباً ایک سو بڑے بینک کام کررہے ہیں۔ اگر درج بالا فہرست میں مزید بیس تیس سوئس بینک شامل کرلیے جائیں، تو اندازہ ہے کہ پاکستانیوں کے 50 تا 75 ارب روپے ان بینکوں میں جمع ہوں گے۔ یہ رقم یقینا بڑی ہے مگر اتنی نہیں جتنی بتائی جاتی ہے۔ 200 ارب ڈالر تو دو سو کھرب روپے بنتے ہیں۔

دلچسپ بات یہ کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی ہر سال کہیں زیادہ رقم پاکستان بھجواتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگست 2013ء تا اگست 2014ء پاکستانیوں نے'' 15.83 ارب ڈالر ''اپنے وطن بھجوائے۔ یہ سوئس بینکوں میں محفوظ دولت سے کہیں زیادہ بڑی رقم ہے۔ لہٰذا لگتا ہے، پاکستانی سیاست دانوں نے ایک دوسرے پر تہمتیں لگانے کی خاطر سوئس اکاؤنٹس کا نام استعمال کرنا شروع کررکھا ہے۔



یہ بہرحال حقیقت ہے کہ کئی امیر پاکستانی بووجوہ انکم ٹیکس نہیں دیتے۔ مثلاً انہیں اپنی حکومت پر اعتبارنہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی رقم حکمرانوں یا سرکاری افسروں کی جیبوں میں جائے گی۔ بعض کے نزدیک انکم ٹیکس کی شرح بہت زیادہ ہے۔بقیہ مختلف حیلوں سے ٹیکس بچا کر جرم کرتے ہیں۔

آپ ذرا بڑے پاکستانی شہروں مثلاً کراچی، لاہور، راولپنڈی، فیصل آباد میں نکل جائیے۔ وہاں سڑکوں پر بیش قیمت گاڑیاں دوڑتی نظرآئیں گی جبکہ کئی آبادیوں میں عالیشان گھر دکھائی دیں گے۔ دولت کی یہ ریل پیل آشکارا کرتی ہے کہ کم از کم 10 تا 20 فیصد پاکستانیوں کو انکم ٹیکس دینا چاہیے... مگر عملی طور پہ'' آدھ فیصد ''سے بھی کم پاکستانی یہ ٹیکس دیتے ہیں۔

اب بیرون ممالک بینک کاؤنٹ خفیہ رکھنا مشکل ہوچکا، اسی لیے جرائم پیشہ پاکستانی مختلف طریقوں سے اپنا سیاہ دھن سفید کرنے لگے ہیں۔ مثلاً جائیدادیں خرید لیں، کمپنیوں میں سرمایہ کاری کرلی وغیرہ۔ دبئی اور سنگاپور میں سرمایہ کاری کرنا بھی ان کا مقبول مشعلہ بن چکا ہے۔

یاد رہے، بیرون ممالک پاکستانیوں کے قانونی طور پر جائز اکاؤنٹ بھی ہیں۔ یہ محب وطن پاکستانی تمام ٹیکس ادا کرتے اور قانون کے مطابق چلتے ہیں۔ انہی پاکستانیوں کے ذریعے قومی خزانے کو رقم ملتی ہے اور یوں ملک کا کارخانہ چلتا رہتا ہے۔ افسوس یہ کہ ان کی تعداد بہت کم ہے۔ بیشتر امیر پاکستانی کسی نہ کسی طور انکم ٹیکس اور دیگر ٹیکس بچانے کی سعی کرتے ہیں۔ چناں چہ ہر سال ٹیکس جمع کرنے والا سرکاری ادارہ، ایف بی آر اپنا ٹارگٹ حاصل نہیں کہ پاتا۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ پاکستانی حکومت نے بھی ٹیکس چوروں اور جرائم پیشہ لوگوں کے کالے دھن کا پیچھا کرنے میں کبھی سرگرمی نہیں دکھائی۔یہی دیکھیے کہ پاکستان اب تک عالمی معاہدے،Convention on Mutual Administrative Assistance in Tax Matters کا رکن نہیں بنا۔ اس معاہدے کا رکن بن کر وہ سوئٹزرلینڈ سمیت امریکی و یورپی بینکوں میں موجود پاکستانیوں کی خفیہ دولت کا پتا چلا سکتا ہے۔ بھارت 21 فروری 2012ء کو درج بالا عالمی معاہدے کا رکن بن چکا۔

دوسری طرف سوئٹزر لینڈ دیگر ترقی یافتہ ممالک پاکستان اور دیگر غریب ممالک کے ساتھ ناروا سلوک کررہے ہیں۔ مثال کے طور پہ امریکی حکومت نے طاقت کے بل پر سوئس بینکوں میں موجود امریکیوں کے خفیہ کھاتوں تک رسائی پالی، مگر پاکستانی حکومت کو اپنے شہریوں کے اکاؤنٹس کی سن گن بھی نہیں مل سکی۔

پچھلے سال ایف بی آر کے دو اعلیٰ افسر، محمد اشفاق احمد اور ساجدہ کوثر سوئس حکومت سے گفت و شنید کرنے سوئٹزر لینڈ گئے۔ وہ تمام سوئس بینکوں میں موجود پاکستانیوں کے اکاؤنٹس کی تفصیل چاہتے تھے۔ مدعا یہی تھا کہ ان پاکستانیوں سے انکم ٹیکس وصول کیا جائے۔ مگر سوئس حکومت نے یہ شرط رکھ دی کہ ثبوت پیش کرو کہ فلاں پاکستانی ٹیکس بچارہا ہے۔ اب ظاہر ہے، کھاتوں کا معائنہ کرنے سے ہی انکشاف ہوگا کہ کون پاکستانی اربوں روپے کی دولت رکھتا ہے۔ اکاؤنٹس کا معائنہ کیے بغیر ثبوت کہاں سے حاصل کیا جائے؟

یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان کی نسبت بھارت فائدے میں رہا۔ بھارتی حکومت کے دباؤ پر سوئس حکومت نے ایچ ایس بی سی پرائیویٹ بینک کے کلائنٹس میں شامل 782 بھارتیوں کے نام اسے دے دیئے۔ لیکن پاکستانی حکومت 338 پاکستانیوں میں سے ایک پاکستانی کا نام بھی حاصل نہیں کرسکی۔

ٹھوس ثبوت پاکر بھارتی حکومت نے ان امیر بھارتیوں کے خلاف مہم چلا رکھی ہے جنہوں نے سوئٹزرلینڈ، لکسمبرگ، ہانگ کانگ، کیمن جزائر، سنگاپور وغیرہ میں خفیہ اکاؤنٹس کھول رکھے ہیں۔ انہیں ترغیب دی جارہی ہے کہ وہ معمولی مالی سزا پر خفیہ اکاؤنٹس اور دیگر جائیدادیں افشا کردیں۔ صد افسوس کہ سوئس حکومت کے تعاون نہ کرنے کی وجہ سے پاکستانی حکومت اپنے ٹیکس چوروں کا بال بھی بیکا نہیں کرسکی۔



سوئٹزرلینڈ کا وسل بلوئر
سوئس لیکس کے ذریعے بینکاری کی خامیاں عیاں کرنے والا وسل بلوئر، ہروی قلسیانی، 9 جنوری 1972ء کو یورپی ریاست، مناکو میں پیدا ہوا۔ کمپیوٹر انجینئرنگ کی تعلیم پائی۔ 2001ء میں بہ حیثیت کمپیوٹر انجینئر ایچ ایس بی سی پرائیویٹ بینک سے منسلک ہوا۔

2006ء میں قلسیانی نے سکیورٹی بہتر بنانے کے لیے بینک کا پورا ڈیٹا منظم کیا۔ اسی دوران اسے احساس ہوا کہ بینک اپنا ڈیٹا اس انداز میں منضبط کرتا ہے کہ ٹیکس چور اور جرائم پیشہ افراد کی شناخت باآسانی پوشیدہ رہے۔ اس کے نزدیک یہ قانون و اخلاقیات کی خلاف ورزی تھی۔ چناں چہ اس نے ڈیٹا ترتیب دینے کا نیا طریق کار وضع کیا مگر بینک افسران نے اسے مستردکردیا۔

اب اس کو احساس ہوا کہ بینک خود ٹیکس چوروں اور جرائم پیشہ لوگوں کو سہولیات دیتا ہے تاکہ وہ اپنا کالا دھن کھاتوں میں جمع کراسکیں۔ قلسیانی نے اس قانون و انسان دشمن نظام کو افشا کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

دسمبر 2008ء میں اس نے ایک لاکھ تیس ہزار سے زائد مشکوک کھاتے داروں کے اکاؤنٹس کی تفصیلات مرکزی ڈیٹا سے اپنے لیپ ٹاپ میں منتقل کیں اور فرانس فرار ہوگیا۔ وہاں اس نے کھاتے داروں کی تفصیل ٹیکس چوری سے متعلق فرانسیسی سرکاری ادارے، نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف ٹیکس انویسٹی گیشن کے سپرد کر دیں۔

سوئٹزرلینڈ میں کسی بینک کے کھاتے داروں کی تفصیل حاصل کرنا جرم ہے، اس لیے قلسیانی کو ملزم قرار دے کر سوئس عدالت میں اس پر مقدمہ چلنے لگا۔ سوئس حکومت کا دعویٰ ہے کہ قلسیانی نے کھاتے داروں کی تفصیل اس لیے چرائی تاکہ وہ اسے غیر ملکی حکومتوں کے ہاتھ منہ مانگے داموں فروخت کرسکے۔ وسل بلوئر یہ الزام تسلیم نہیں کرتا۔

قلسیانی کا دعویٰ ہے کہ اس نے ایچ ایس بی سی پرائیویٹ بینک سے اکاؤنٹس کا ڈیٹا اسی لیے چرایا کہ سوئس بینکاری نظام کی کرپشن بے نقاب ہوسکے۔ اس کا کہنا ہے کہ سوئس بینکوں میں کالا دھن پوشیدہ رکھنا بہت آسان ہے بلکہ بینک افسر جرائم پیشہ حضرات کو ایسی ترکیبیں اور نسخے بتاتے ہیں جن کے ذریعے حرام کی کمائی کھاتوں میں محفوظ ہو جاسکے۔ سوئس بینک پھر اسی کمائی سے مال بناتے اور پھلتے پھولتے ہیں۔

سوئٹزر لینڈ اور دیگر یورپی ممالک اب کئی بینک انہی لوگوں کی رقم رکھنے لگے ہیں جو ٹیکس دیتے اور قانونی طریقے سے رقم کماتے ہیں۔ تاہم قلسیانی کا دعویٰ ہے کہ شدید مسابقت کی وجہ سے خصوصاً سوئس بینک بدستور غیر قانونی و غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث رہیں گے۔ وجہ یہی کہ ہر جائز و ناجائز طریقے سے اپنے کھاتوں کی تعداد بڑھائی جائے۔

یہ حقیقت ہے کہ قلسیانی بینکاری نظام کی خامیوں کو جرأت سے سامنے لایا۔ اس نے جرائم پیشہ لوگوں کے خفیہ اکاؤنٹس وا کیے اور بینکوں میں ان کے سرپرستوں سے بھی پردہ اٹھایا۔ یہی وجہ ہے، جرائم پیشہ گروہ اب قلسیانی کی جان کے درپے ہیں۔ وہ امریکی وسل بلوئر، ایڈورڈ سنوڈن کی طرح فرانس میں نامعلوم مقام پر مقیم ہے۔ میڈیا سے بھیس بدل کر ہی ملتا ہے۔آج بھی انہی دلیر انسانوں کی وجہ سے دنیا میں حق و انصاف کا بول بالا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔