پٹرول کی قیمتیں برقرار رکھنے کا فیصلہ
وفاقی حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں برقرار رکھتے ہوئے اضافہ نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
وفاقی حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں برقرار رکھتے ہوئے اضافہ نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے گزشتہ روز پریس کانفرنس میں اعلان کرتے ہوئے کہا کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں آئندہ ماہ بھی برقرار رہیں گی۔
واضح رہے آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) نے پٹرول کی قیمت میں5 روپے59 پیسے، مٹی کے تیل کی قیمت میں7 روپے32 پیسے اضافے جب کہ ڈیزل کے نرخوں میں 5 روپے 49 پیسے کمی کی سفارش کی تھی۔ تاہم وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی خواہش پر حکومت نے مارچ میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اوگرا کی طرف سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں نئے ماہ اضافہ کرنے کی تجویز کا جناب وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی طرف سے مسترد کر دیا جانا انتہائی دانشمندانہ اقدام ہے کیونکہ ان قیمتوں میں بار بار کا رد و بدل وطن عزیز کے پورے اقتصادی ڈھانچے کو ہلا کر رکھ دیتا ہے۔ اگر قیمت میں معمولی سے اضافے کا بھی اعلان ہو تو تمام کی تمام اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں من مانا اضافہ کر دیا جاتا ہے خواہ ان اشیاء کا پٹرولیم کی قیمتوں سے کوئی دور دراز کا تعلق بھی نہ ہو جب کہ اس کے برعکس پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہونے والی کسی کمی کا کوئی اثر دیگر اشیاء پر شاذ و نادر ہی نظر آتا ہے۔
ٹرانسپورٹ کے کرائے بھی وہی رہتے ہیں اور آٹے دال کے دام بھی۔ کیا یہ رائے بالکل ہی بے وقعت ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا تعین سال میں صرف ایک بار یعنی سالانہ بجٹ کے موقع پر کیا جائے اور اسی موقع پر ٹرانسپورٹ کے کرائے بھی متعین کیے جائیں جو سارا سال برقرار رہیں اور جن پر پٹرولیم مصنوعات کی عالمی قیمتوں کے اتار چڑھاؤ کا کوئی فرق نہ پڑے، اس طرح بہت سی خواہ مخواہ کی پیچیدگیاں پیدا نہ ہوں گی۔
مختصر وقفے کے لیے قیمتوں میں کمی بیشی سے معیشت پر ناخوشگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جب پٹرول کی قیمت میں کمی کا اعلان ہوتا ہے تو دیکھنے میں آیا ہے کہ پٹرول پمپس پر پٹرول کی قلت کا مسئلہ درپیش آ جاتا ہے اور پٹرول کے حصول کے لیے شہریوں کی قطاریں لگ جاتی ہیں۔ اس سے شہریوں کو جہاں اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہیں کاروبار زندگی متاثر ہونے لگتا ہے۔ حکومت جہاں ترقی اور خوشحالی کے در کھولنے کے دعوے کر رہی ہے، اسے اس امر پر غور کرنا چاہیے اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں قلیل المیعاد کمی بیشی کا نظام ختم کر دیا جانا چاہیے۔
اگر عالمی مارکیٹ میں پٹرولیم کی قیمت کم ہوتی ہے تو حکومت اضافی آمدنی کو اپنے پاس محفوظ رکھے تاکہ قیمتوں میں اضافے کی صورت میں باآسانی سبسڈی دے کر قیمتیں اعتدال پر رکھ سکے۔
وفاقی وزیر خزانہ نے وزیر اعظم کی طرف سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی اوگرا کی تجویز مسترد کرنے کی خوشخبری دیتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی سے محصولات میں68 ارب روپے کمی ہوئی چنانچہ ڈیزل پر سیلز ٹیکس27 فیصد سے بڑھا کر 36 فیصد کیا جا رہا ہے جب کہ دیگر پٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس27 سے کم کر کے18 فیصد تک کیا جائیگا۔
وفاقی وزیر نے بتایا کہ 3 سال پہلے فنانشل ٹاسک فورس نے پاکستانی معیشت کو گرے قرار دیا تھا جب کہ اس سال ٹاسک فورس نے ملکی معیشت کو بہتر جانتے ہوئے اسے وائٹ لسٹ قرار دیا ہے۔
واضح رہے آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) نے پٹرول کی قیمت میں5 روپے59 پیسے، مٹی کے تیل کی قیمت میں7 روپے32 پیسے اضافے جب کہ ڈیزل کے نرخوں میں 5 روپے 49 پیسے کمی کی سفارش کی تھی۔ تاہم وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی خواہش پر حکومت نے مارچ میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اوگرا کی طرف سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں نئے ماہ اضافہ کرنے کی تجویز کا جناب وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی طرف سے مسترد کر دیا جانا انتہائی دانشمندانہ اقدام ہے کیونکہ ان قیمتوں میں بار بار کا رد و بدل وطن عزیز کے پورے اقتصادی ڈھانچے کو ہلا کر رکھ دیتا ہے۔ اگر قیمت میں معمولی سے اضافے کا بھی اعلان ہو تو تمام کی تمام اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں من مانا اضافہ کر دیا جاتا ہے خواہ ان اشیاء کا پٹرولیم کی قیمتوں سے کوئی دور دراز کا تعلق بھی نہ ہو جب کہ اس کے برعکس پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہونے والی کسی کمی کا کوئی اثر دیگر اشیاء پر شاذ و نادر ہی نظر آتا ہے۔
ٹرانسپورٹ کے کرائے بھی وہی رہتے ہیں اور آٹے دال کے دام بھی۔ کیا یہ رائے بالکل ہی بے وقعت ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا تعین سال میں صرف ایک بار یعنی سالانہ بجٹ کے موقع پر کیا جائے اور اسی موقع پر ٹرانسپورٹ کے کرائے بھی متعین کیے جائیں جو سارا سال برقرار رہیں اور جن پر پٹرولیم مصنوعات کی عالمی قیمتوں کے اتار چڑھاؤ کا کوئی فرق نہ پڑے، اس طرح بہت سی خواہ مخواہ کی پیچیدگیاں پیدا نہ ہوں گی۔
مختصر وقفے کے لیے قیمتوں میں کمی بیشی سے معیشت پر ناخوشگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جب پٹرول کی قیمت میں کمی کا اعلان ہوتا ہے تو دیکھنے میں آیا ہے کہ پٹرول پمپس پر پٹرول کی قلت کا مسئلہ درپیش آ جاتا ہے اور پٹرول کے حصول کے لیے شہریوں کی قطاریں لگ جاتی ہیں۔ اس سے شہریوں کو جہاں اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہیں کاروبار زندگی متاثر ہونے لگتا ہے۔ حکومت جہاں ترقی اور خوشحالی کے در کھولنے کے دعوے کر رہی ہے، اسے اس امر پر غور کرنا چاہیے اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں قلیل المیعاد کمی بیشی کا نظام ختم کر دیا جانا چاہیے۔
اگر عالمی مارکیٹ میں پٹرولیم کی قیمت کم ہوتی ہے تو حکومت اضافی آمدنی کو اپنے پاس محفوظ رکھے تاکہ قیمتوں میں اضافے کی صورت میں باآسانی سبسڈی دے کر قیمتیں اعتدال پر رکھ سکے۔
وفاقی وزیر خزانہ نے وزیر اعظم کی طرف سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی اوگرا کی تجویز مسترد کرنے کی خوشخبری دیتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی سے محصولات میں68 ارب روپے کمی ہوئی چنانچہ ڈیزل پر سیلز ٹیکس27 فیصد سے بڑھا کر 36 فیصد کیا جا رہا ہے جب کہ دیگر پٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس27 سے کم کر کے18 فیصد تک کیا جائیگا۔
وفاقی وزیر نے بتایا کہ 3 سال پہلے فنانشل ٹاسک فورس نے پاکستانی معیشت کو گرے قرار دیا تھا جب کہ اس سال ٹاسک فورس نے ملکی معیشت کو بہتر جانتے ہوئے اسے وائٹ لسٹ قرار دیا ہے۔