عوام کو مصروف رکھنے کے منصوبے
پوری قوم ان دنوں بہت مصروف ہے۔ ہماری حکومت کسی کو بھی بے کار رہنے اور وقت ضایع کرنے نہیں دیتی
پوری قوم ان دنوں بہت مصروف ہے۔ ہماری حکومت کسی کو بھی بے کار رہنے اور وقت ضایع کرنے نہیں دیتی اور کوئی نہ کوئی مصروفیت تلاش کر لیتی ہے اور کچھ نہ ملے تو موبائل فون کی سم کو ہی قوم کے لیے مصروفیت کا ذریعہ بنا لیتی ہے۔ اس طرح گویا پوری قوم ہی ایک پریشان کن صورت حال سے اچانک دوچار ہو جاتی ہے۔
کون ہے جس کے پاس موبائل فون نہیں ہے۔ اگر شہروں میں صفائی کرنے والوں یا والیوں نے جھاڑو کے ساتھ موبائل باندھ رکھا ہے تو گاؤں میں بیلوں کے سینگوں کے ساتھ موبائل لٹک رہا ہے اور زمین پر ان بیلوں کی مدد سے ہل چل رہا ہے۔ اس طرح جب سے ہر موبائل کی سم کی تصدیق اور معائنے کا حکم جاری ہوا تو گویا پوری قوم ہی مصروف کر دی گئی اور اس کی کاہلی اتر گئی ہے۔ وہ چاک و چوبند ہو گئی اور یوں وہ اب اپنے دن رات کو محفوظ بنا رہی ہے۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ جب کوئی کام بگڑ جاتا ہے تو حکومت تب کیوں بیدار ہوتی ہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ ملک میں جمہوریت اور آزادی ہے اس لیے کوئی کام کرتے وقت کسی کو روکا نہیں جاتا مگر لوگ جب اچھے کام کو بھی غلط بنا دیتے ہیں تو پھر اس کی اصلاح مجبوری بن جاتی ہے۔ اس طرح حکومت پاکستانی عوام کو تنگ نہیں کرتی انھیں راہِ راست پر لگاتی ہے اور یہ کسی اچھی حکومت کا فرض ہے۔
یہ کیا بات ہوئی کہ حکومت عوام کی خدمت نہ کرے تو معتوب اور اگر کرے تب بھی معتوب اور گردن زدنی۔ اب ہر کوئی پریشانی کے عالم میں ہے اور کہہ رہا ہے کہ حکومت عوام کو تنگ کرنے پر لگی رہتی ہے اور اس کا ایک محکمہ ہر وقت عوام کے لیے کسی بڑی پریشان کن مصروفیت کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے۔
اس عوامی محکمے کی کسی ذہین افسر نے جب اپنے گرد و پیش میں ہر ہاتھ میں یا ہر کان کے ساتھ فون دیکھا تو اس کی آنکھوں میں چمک پیدا ہو گئی اور اس نے ایک منصوبہ تیار کر کے اعلیٰ حکمرانوں تک بھجوا دیا کہ موبائل کا جو اصلی اور بنیادی پرزہ ہے یعنی سم، اس کے جائز و ناجائز ہونے کا سوال پیدا کیا جائے کیونکہ یہ سم دہشت گردی میں معاون ثابت ہوتی ہے اور ان دنوں ہم چونکہ دہشت گردی کی زد میں ہیں اس لیے اس سم کے جائز و ناجائز ہونے کی تصدیق لازم ہے تا کہ اس کے مالک کا پتہ چل سکے۔
دہشت زدہ حکمرانوں نے اپنے دہشت گردانہ اعمال سے صرفِ نظر کر کے اس منصوبے کو غنیمت جانا اور اس پر عملدرآمد کا حکم دے دیا۔ منصوبہ بندی کرنے والے افسر کی ترقی کے علاوہ عوام کو ایک ایسی افراتفری میں مبتلا کر دیا کہ اب جب دو پاکستانی ملتے ہیں تو پہلے یہ پوچھتے ہیں کہ آپ نے سم کی تصدیق کرا لی ہے یا نہیں۔
اگر کرا لی ہے تو مبارک ہو۔ میں بھی اسی کوشش میں ہوں اور قطار میں لگنے والا ہوں۔ کامیابی کی امید ہے لیکن اصل کامیابی تو حکومت کی ہے جس نے عوام کو ایک ایسی الجھن میں ڈال دیا ہے کہ اس سے نکلیں گے تو کچھ اور سوچیں گے۔ سم کے ساتھ شناختی کارڈ بھی زیر بحث یا زیر معائنہ آتا ہے اور یوں جان مجنوں دو گونہ عذاب میں پھنس جاتی ہے۔
موبائل کا عذاب مجھے بھی لاحق ہے لیکن میری ٹانگوں میں اتنی سکت نہیں کہ کسی قطار میں پہروں کھڑا رہوں اس لیے میں نے اپنی روزی روزگار کی طرح یہ مسئلہ بھی قدرت کاملہ پر چھوڑ دیا ہے۔ بڑی زندگی موبائل کے بغیر گزر گئی۔ یہ باقی ماندہ بھی اگر اس آزار کے بغیر ہی گزر جائے تو کیا حرج ہے۔ حکومت نے اس کام میں چند دن کی توسیع کر دی ہے۔ امید کہ وہ شاید خود کسی ایسی الجھن میں پھنس جائے گی کہ موبائل کو بھول جائے گی اور جنھوں نے اب تک یہ کام نہیں کیا ہے انھیں معافی دے دے گی۔
اس ضمن میں حکومت کی ایک خدمت میں بھی کرنا چاہتا ہوں کہ وہ اسلحہ کی چیکنگ بھی شروع کر دے اسلحہ موبائل سے زیادہ خطرناک ہے اور اب تو لگتا ہے کہ لڑکوں کے پاس بھی یہ موجود رہتا ہے کہ وہ بات چیت میں اگر تلخ ہو جاتے ہیں تو کوئی گولی چلا دیتا ہے اور عدالت اس کی ضمانت لے کر اسے معاملہ رفع دفع کرنے کی مہلت دے دیتی ہے۔ دہشت گردی کی کسی واردات میں بھی گولی پہلے چلتی ہے اور دھماکا خیز مواد بعد میں پھینکا جاتا ہے۔
اسلحہ کی فراوانی ہماری آزادی کے چند برس بعد شروع ہو ئی ہے اور اب تو اس کی ریل پیل ہے۔ انگریزوں کے زمانے میں ناجائز اسلحہ کا تصور نہیں تھا کیونکہ یہ بدامنی اور قتل و خونریزی کی وجہ بن جاتا تھا جو سرکار برطانیہ کے قانون میں حرام تھی۔ تب اسلحہ اس کے پاس ہوتا تھا جو اس کے پکڑے جانے کی سزا کے لیے پہلے سے ہی تیار ہوتا تھا ورنہ قتل وغیرہ کے دوسرے کئی ذرائع بھی موجود تھے۔ بتاتے ہیں کہ پولیس کا ایک شعبہ ناجائز اسلحہ کی تلاش کے لیے بھی ہوتا تھا جو مسلسل تلاش کرتا رہتا تھا۔
ہمارے دیہات میں اسلحہ کا لائسنس نمبردار کو ہی ملتا تھا جو ایک بارہ بور دو نالی بندوق رکھا کرتا تھا مگر آج کل تو یوں لگتا ہے جیسے سب سے آسان کام اسلحہ خریدنا ہے اور سب سے بے خطر کام اس کا استعمال ہے۔ بہرکیف عوام کی بھلائی کے لیے حکومت اسلحہ کی تلاشی کا سلسلہ بھی شروع کر دے۔ ٹیلی فون کی سم کی طرح اس سلسلے میں مہم شروع کی جا سکتی ہے بلکہ کی جانی چاہیے۔ عوام کو مصروف کرنے اور رکھنے کا یہ بھی ایک عمدہ ذریعہ ثابت ہو گا۔ شاید سم جیسا ہی مفید ثابت ہو۔
عوام کو مصروف کرنے کے اور بھی کئی منصوبے میرے ذہن میں ہیں جو میں پنجاب کے آنیوالے گورنر کو، اگر وہ میری برادری کا ہوا تو اسے، پیش کرونگا ورنہ یہ سب میرے پاس ہی رہیں گے، فی الوقت حکومت کو ایک منصوبہ تو سم والا مل چکا ہے دوسرا میں نے پیش کر دیا ہے۔ اگر قوم ان دونوں سے سلامتی کے ساتھ بچ گئی تو حکومت کی مزید خدمت کے لیے حاضر ہیں۔
کون ہے جس کے پاس موبائل فون نہیں ہے۔ اگر شہروں میں صفائی کرنے والوں یا والیوں نے جھاڑو کے ساتھ موبائل باندھ رکھا ہے تو گاؤں میں بیلوں کے سینگوں کے ساتھ موبائل لٹک رہا ہے اور زمین پر ان بیلوں کی مدد سے ہل چل رہا ہے۔ اس طرح جب سے ہر موبائل کی سم کی تصدیق اور معائنے کا حکم جاری ہوا تو گویا پوری قوم ہی مصروف کر دی گئی اور اس کی کاہلی اتر گئی ہے۔ وہ چاک و چوبند ہو گئی اور یوں وہ اب اپنے دن رات کو محفوظ بنا رہی ہے۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ جب کوئی کام بگڑ جاتا ہے تو حکومت تب کیوں بیدار ہوتی ہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ ملک میں جمہوریت اور آزادی ہے اس لیے کوئی کام کرتے وقت کسی کو روکا نہیں جاتا مگر لوگ جب اچھے کام کو بھی غلط بنا دیتے ہیں تو پھر اس کی اصلاح مجبوری بن جاتی ہے۔ اس طرح حکومت پاکستانی عوام کو تنگ نہیں کرتی انھیں راہِ راست پر لگاتی ہے اور یہ کسی اچھی حکومت کا فرض ہے۔
یہ کیا بات ہوئی کہ حکومت عوام کی خدمت نہ کرے تو معتوب اور اگر کرے تب بھی معتوب اور گردن زدنی۔ اب ہر کوئی پریشانی کے عالم میں ہے اور کہہ رہا ہے کہ حکومت عوام کو تنگ کرنے پر لگی رہتی ہے اور اس کا ایک محکمہ ہر وقت عوام کے لیے کسی بڑی پریشان کن مصروفیت کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے۔
اس عوامی محکمے کی کسی ذہین افسر نے جب اپنے گرد و پیش میں ہر ہاتھ میں یا ہر کان کے ساتھ فون دیکھا تو اس کی آنکھوں میں چمک پیدا ہو گئی اور اس نے ایک منصوبہ تیار کر کے اعلیٰ حکمرانوں تک بھجوا دیا کہ موبائل کا جو اصلی اور بنیادی پرزہ ہے یعنی سم، اس کے جائز و ناجائز ہونے کا سوال پیدا کیا جائے کیونکہ یہ سم دہشت گردی میں معاون ثابت ہوتی ہے اور ان دنوں ہم چونکہ دہشت گردی کی زد میں ہیں اس لیے اس سم کے جائز و ناجائز ہونے کی تصدیق لازم ہے تا کہ اس کے مالک کا پتہ چل سکے۔
دہشت زدہ حکمرانوں نے اپنے دہشت گردانہ اعمال سے صرفِ نظر کر کے اس منصوبے کو غنیمت جانا اور اس پر عملدرآمد کا حکم دے دیا۔ منصوبہ بندی کرنے والے افسر کی ترقی کے علاوہ عوام کو ایک ایسی افراتفری میں مبتلا کر دیا کہ اب جب دو پاکستانی ملتے ہیں تو پہلے یہ پوچھتے ہیں کہ آپ نے سم کی تصدیق کرا لی ہے یا نہیں۔
اگر کرا لی ہے تو مبارک ہو۔ میں بھی اسی کوشش میں ہوں اور قطار میں لگنے والا ہوں۔ کامیابی کی امید ہے لیکن اصل کامیابی تو حکومت کی ہے جس نے عوام کو ایک ایسی الجھن میں ڈال دیا ہے کہ اس سے نکلیں گے تو کچھ اور سوچیں گے۔ سم کے ساتھ شناختی کارڈ بھی زیر بحث یا زیر معائنہ آتا ہے اور یوں جان مجنوں دو گونہ عذاب میں پھنس جاتی ہے۔
موبائل کا عذاب مجھے بھی لاحق ہے لیکن میری ٹانگوں میں اتنی سکت نہیں کہ کسی قطار میں پہروں کھڑا رہوں اس لیے میں نے اپنی روزی روزگار کی طرح یہ مسئلہ بھی قدرت کاملہ پر چھوڑ دیا ہے۔ بڑی زندگی موبائل کے بغیر گزر گئی۔ یہ باقی ماندہ بھی اگر اس آزار کے بغیر ہی گزر جائے تو کیا حرج ہے۔ حکومت نے اس کام میں چند دن کی توسیع کر دی ہے۔ امید کہ وہ شاید خود کسی ایسی الجھن میں پھنس جائے گی کہ موبائل کو بھول جائے گی اور جنھوں نے اب تک یہ کام نہیں کیا ہے انھیں معافی دے دے گی۔
اس ضمن میں حکومت کی ایک خدمت میں بھی کرنا چاہتا ہوں کہ وہ اسلحہ کی چیکنگ بھی شروع کر دے اسلحہ موبائل سے زیادہ خطرناک ہے اور اب تو لگتا ہے کہ لڑکوں کے پاس بھی یہ موجود رہتا ہے کہ وہ بات چیت میں اگر تلخ ہو جاتے ہیں تو کوئی گولی چلا دیتا ہے اور عدالت اس کی ضمانت لے کر اسے معاملہ رفع دفع کرنے کی مہلت دے دیتی ہے۔ دہشت گردی کی کسی واردات میں بھی گولی پہلے چلتی ہے اور دھماکا خیز مواد بعد میں پھینکا جاتا ہے۔
اسلحہ کی فراوانی ہماری آزادی کے چند برس بعد شروع ہو ئی ہے اور اب تو اس کی ریل پیل ہے۔ انگریزوں کے زمانے میں ناجائز اسلحہ کا تصور نہیں تھا کیونکہ یہ بدامنی اور قتل و خونریزی کی وجہ بن جاتا تھا جو سرکار برطانیہ کے قانون میں حرام تھی۔ تب اسلحہ اس کے پاس ہوتا تھا جو اس کے پکڑے جانے کی سزا کے لیے پہلے سے ہی تیار ہوتا تھا ورنہ قتل وغیرہ کے دوسرے کئی ذرائع بھی موجود تھے۔ بتاتے ہیں کہ پولیس کا ایک شعبہ ناجائز اسلحہ کی تلاش کے لیے بھی ہوتا تھا جو مسلسل تلاش کرتا رہتا تھا۔
ہمارے دیہات میں اسلحہ کا لائسنس نمبردار کو ہی ملتا تھا جو ایک بارہ بور دو نالی بندوق رکھا کرتا تھا مگر آج کل تو یوں لگتا ہے جیسے سب سے آسان کام اسلحہ خریدنا ہے اور سب سے بے خطر کام اس کا استعمال ہے۔ بہرکیف عوام کی بھلائی کے لیے حکومت اسلحہ کی تلاشی کا سلسلہ بھی شروع کر دے۔ ٹیلی فون کی سم کی طرح اس سلسلے میں مہم شروع کی جا سکتی ہے بلکہ کی جانی چاہیے۔ عوام کو مصروف کرنے اور رکھنے کا یہ بھی ایک عمدہ ذریعہ ثابت ہو گا۔ شاید سم جیسا ہی مفید ثابت ہو۔
عوام کو مصروف کرنے کے اور بھی کئی منصوبے میرے ذہن میں ہیں جو میں پنجاب کے آنیوالے گورنر کو، اگر وہ میری برادری کا ہوا تو اسے، پیش کرونگا ورنہ یہ سب میرے پاس ہی رہیں گے، فی الوقت حکومت کو ایک منصوبہ تو سم والا مل چکا ہے دوسرا میں نے پیش کر دیا ہے۔ اگر قوم ان دونوں سے سلامتی کے ساتھ بچ گئی تو حکومت کی مزید خدمت کے لیے حاضر ہیں۔