لڑکے بے چارے…
ان پرائیویٹ ہوسٹلوں میں لڑکیوں کے بھی مسائل ہیں جن میں سے عدم تحفظ کا احساس سب سے اہم مسئلہ ہے
'' آپی آپ لڑکیوں کے مسائل کے لیے تو بہت سے کالم لکھتی ہیں، کبھی آپ نے سوچا کہ اس ملک میں لڑکوں کو کیا کیا مسائل ہیں '' ای میل کی ابتدا سے ہی میں مسکرا دی، میرے لکھ دینے سے کون سا لڑکیوں کے مسائل حل ہوچکے ہیں اور اب آپ کے کہنے پر آپ لڑکوں کے ایک مسئلے کی بابت لکھ دوں گی تو آپ کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔
چلو بیٹا کہتے ہو تو لکھے دیتی ہوں مگر مجھے امید ہے کہ کسی کے کان پر جوں نہیں رینگنے والی، آپ نے لکھا ہے،'' میں پنجاب کے ایک پسماندہ علاقے سے تعلق رکھتا ہوں ، کچھ کرنے، آگے بڑھنے اور اعلی تعلیم حاصل کرنے کے شوق نے مجھے ہر جماعت میں شاندار کامیابیوں سے نوازا اور میں نے انڑ کے امتحان میں بورڈ میں پوزیشن حاصل کی۔
میرے ماں باپ کے چہرے میری کامیابی پر چمک اٹھے، ان کی آنکھیں میرے مستقبل کے سپنے بننے لگیں، میں نے جہاں جہاں یونیورسٹیوں میں گریجویشن کے لیے داخلے کے لیے ٹیسٹ دیے، کامیاب ہوا اور میرے پاس موقع تھا کہ میں اپنی مرضی سے انتخاب کر سکوں کہ کہاں داخلہ لوں ۔ میرے والد صاحب زمیندار ہیں، زمین بیچنا گویا ہمارے ہاں جرم ہوتا ہے مگر مجھے انھوں نے کہا کہ میںجہاں چاہوں داخلہ لوں، وہ مجھے کامیاب دیکھنا چاہتے ہیںچاہے اس کے لیے انھیں اپنی زمین بیچنا پڑے۔
ا ن کا خواب پورا کرنے کے لیے میں نے اسلام آباد اور لاہور کی بہترین یونیورسٹیوں میں اپنی پڑھائی کے امکانات کا جائزہ لیا اور وہاں جا کر ہر جگہ مجھے ایک ہی مسئلے کا سامنا کرنا پڑا، اسی ایک مسئلے پر میں ارباب اختیار کی توجہ دلانا چاہتا ہوں ۔ کسی یونیورسٹی کے ساتھ، قرب و جوار میں یا کہیں بھی لڑکوں کے لیے ہوسٹل کی سہولت موجود نہیں ، کچھ ادارے ہوسٹل کی سہولت رکھتے ہیں مگر وہ بھی صرف لڑکیوں کے لیے۔
کیا یہ تعلیمی ادارے صرف ان طلبہ کے لیے ہیں جو کہ ان ھی شہروں میں رہتے ہیں اور ہر صبح گھر سے آ کر واپس شام کو گھر لوٹ جائیں، اگر ایسا ہے تو ہمارے پسماندہ علاقوںمیں بھی اسی معیار کے تعلیمی ادارے بنائے جائیں، ورنہ ہم نوجوان مایوس ہو کر خود کو ہی نقصان پہنچاتے ہیں، ہمارے دلوں میں بھی تعلیم حاصل کرنے کی خواہش اسی طرح ہے جس طرح بڑے شہروں میں رہنے والے لڑکوں کی، ہر بڑے تعلیمی ادارے کے ساتھ لڑکیوں اور لڑکوں کے لیے ہوسٹل لازمی ہونا چاہیے ''
میں نے چند برس قبل تک خود بھی اپنے بچوں کے لیے ان مسائل کا سامنا کیا مگر اس مسئلے کی سنگینی اب کئی گنا بڑھ چکی ہے۔ پہلے پہل لڑکیوں کے لیے محدود شعبے اور تعلیم کے مواقع محدود اداروں تک تھے اور ان اداروں میں لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کے لیے علیحدہ علیحدہ ہوسٹل موجود تھے، ان کی حالت بھی ٹھیک تھی اور ان میں کھانا بھی مناسب قیمتوں پر مل جاتا تھا، طالب علم اپنی پوری توجہ اپنی تعلیمی سرگرمیوں پر مرکوز رکھتے تھے مگر جہاں وقت بدلا اور زندگی کا سارا نظام ہر دہائی کے بعد کئی گنا آگے چلا جاتا ہے کہ دس سال پرانے رواج متروک ہونے لگتے ہیں وہیں اس شعبے میں بھی ترقی ہوئی مگر منفی۔
سرکاری اداروں میں محدود تعداد کے طلباء و طالبات کے لیے ہوسٹل میں جگہ ہوتی تھی، پھر لڑکوں کے ہوسٹل دہشت گردی اور جرائم کے گڑھ بننے لگے، منشیات کسی عفریت کی طرح ہوسٹلوں میں گھومنے لگی، لڑکیوں کے ہوسٹل بھی پیچھے نہ رہے، یہاں بھی منشیات پہنچیں اور کئی اور برائیوں نے جنم لیا جن کا تذکرہ بھی مناسب نہیں۔ نجی و نیم سرکاری اداروں کے علاوہ، حکومتی سرپرستی کے تحت ادارے بھی مسائل کا شکار ہیں، سرکاری یونیورسٹیوں میں بھی کئی کئی دن تک محیط ہوجانے والی طلبہ تنظیموں کی لڑائیوں نے تعلیمی اداروں کو میدان جنگ بنا دیا ہے، طمع اور اختیار کی جنگ!!
اس کے بعد ہم نے پرائیویٹ یونیورسٹیوں کی اصطلاح سنی مگر ان یونیورسٹیوں نے تعلیم کو کاروبار کی طرح چلانا شروع کر دیا ہے، ان کے پاس ہوسٹل سرے سے ہیں ہی نہیں، یا ہیں تو فقط لڑکیوں کے لیے اور انتہائی کم تعداد کے لیے، اس مسئلے کے باب کے لیے بڑے شہروں میں پرائیویٹ ہوسٹلوں نے جنم لیا۔ آپ نے دیکھا بھی ہو گا یا اخبارات وغیرہ میں اشتہار دیکھے ہوں گے، ان کے دعوے کچھ ہوتے ہیں مگر استفسار پر علم ہوا کہ ان ہوسٹلوں کی حالت نا گفتہ بہ ہے، تمام دعوے غلط ثابت ہو جاتے ہیں مگر پھر بھی طلباء کو ان میں مجبوراً رہنا پڑتا ہے کیونکہ ان کے پاس کوئی اور آپشن نہیں ہوتا۔ کوٹھیوں اور بنگلوں میں بنے ہوئے ، مرغی خانے نما یہ ہوسٹل جن میں ایک ایک کمرے میں کئی کئی طلباء ٹھونسے گئے ہوتے ہیں۔
ان سے ماہانہ بھاری رقوم وصول کی جاتی ہیں مگر اس معیار کی رہائش دی جاتی ہے نہ دیگر مراعات۔ کچن کی سہولت دی جاتی ہے کہ لڑکیاں خود کھانا بنا لیں جو کہ پڑھائی کے معمولات میں ممکن نہیں ہوتا، اگر کھانا دیں تو اس کا معیار بھی ناقص ہوتا ہے۔ موسموں کی شدت میں بھی مالکان ہیٹر چلاتے ہیں نہ اے سی ، نہ ہی ان ہوسٹلوں میں بجلی کی عدم دستیابی کے وقت یو پی ایس / جنریٹر ہوتے ہیں جس کی وجہ سے بالخصوص امتحانات کے دنوںمیں بہت تنگ ہوتے ہیں اور ان کی تعلیمی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔
ان پرائیویٹ ہوسٹلوں میں لڑکیوں کے بھی مسائل ہیں جن میں سے عدم تحفظ کا احساس سب سے اہم مسئلہ ہے، والدین اپنی بیٹیوں کو یہاں چھوڑتے وقت جن تفکرات کا شکار ہوتے ہیں ان کا کوئی حل نہیں ہوتا۔ کیسے لڑکیاں ان ہوسٹلوں میں رہتی ہیں، کیا سب طالب علم ہوتی ہیں، کیا ان میں سے کوئی ڈرگ تو نہیں لیتی، کوئی ایسی تو نہیں جس کا پیشہ ہی چھوٹے شہروں کی معصوم اور سادہ لوح لڑکیوں کو ورغلا کر کسی نہ کسی ''پھندے'' میں پھنسانا ہوتا ہے؟ ان ہوسٹلوںمیں کون لوگ آ سکتے ہیں اور کون نہیں۔
یہاں سے لڑکیاں ٹیکسیوں، ویگنوں یا بسوں میں اپنے تعلیمی اداروں میں جاتی ہیں تو وہ کس حد تک محفوظ ہے اور وہ غلط ہاتھوں میں تو نہیں چڑھ جائیں گی۔ انھیںدور بھیجنا ماں باپ کی مجبوری بن جاتی ہے مگر وہ ہر لمحہ سولی پر ٹنگے گزار دیتے ہیں، پرائیویٹ ہوسٹلوں کی انتظامیہ پر حکومت کے کسی ادارے کی طرف سے کوئی چیکنگ کا نظام نہیں ہے۔ لڑکوں کے لیے بڑے تعلیمی اداروں میں سرے سے کوئی سہولت موجود ہی نہیں، پرائیویٹ ہوسٹلوں میں ان کے لیے اپنا کام چلانا مشکل ہے، کھانا پکانا، کپڑے دھونا اور استری کرنا، صفائی کرنا، یہ سب ایسے کام ہیں جن کی انھیں کبھی تربیت نہیں دی جاتی نہ ہی ہمارے معاشرے میں یہ کام لڑکوں کے کرنے کے سمجھے جاتے ہیں ۔
حالانکہ اپنے ہاتھ سے اپنا کام کرنا سنت رسول ﷺ ہے اور اپنا تو کیا دوسروں کا کام کرنے میں بھی کوئی عار نہیں، مگر ہوتا یہ ہے کہ لڑکے جنھیں اب تعلیم اور ملازمتوں کی خاطر لڑکپن میں ہی گھروں سے نکلنا پڑ جاتا ہے، وہ ان چھوٹے چھوٹے مسائل سے گھبرا کر دل ہی چھوڑ بیٹھتے ہیں۔ اپنے گھروں کی عادات جو بگڑی ہوئی ہوتی ہیں وہ انھیں کسی اور کے ساتھ مل کر سہولت سے رہنے نہیں دیتیں، وہ دوسروں کی اور دوسرے ان کی ہر بات میں مین میخ نکالتے ہیں اور ان سب کا اثر ان کی پڑھائی میں یکسوئی پر پڑتا ہے۔
کوئی بھی تعلیمی ادارہ جہاں اعلی تعلیم دی جاتی ہو، کالج یا یونیورسٹی، حتی کہ ان علاقوں میں ہائی اسکول بھی جہاں پر اریب قریب کے کئی دیہات میں ہائی اسکول نہ ہوں اور بچوں کو دور دراز کے علاقوں میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے جانا پڑتا ہو، ان اسکولوں کے ساتھ بھی ہوسٹل کا انتظام ہونا چاہیے۔ لڑکیوں کے لیے ہوسٹل ادارے کی چار دیواری کے اندر ہوں ، ان کی حفاظت کا مناسب انتظام ہو اور لڑکوں کے لیے ادارے کے قرب و جوار میں اتنے فاصلے پر جہاں سے وہ پیدل آ جا سکیں ، نہ کہ انھیں پبلک ٹرانسپورٹ پر ، بسوں کے باہر لٹک کر یا چھتوں پر غیر محفوظ طریقے سے بیٹھ کر سفر کرنا پڑے۔
نہ صرف طالب علموں بلکہ کم تنخواہ کے ملازمین نوجوانوں کے لیے بھی ایک کمرے کے اسٹوڈیو اپارٹمنٹ یا ہوسٹل ہر بڑے شہر میں ہونے چاہییں تاکہ جو بچے بڑی یونیورسٹیوں میں پڑھنا چاہتے ہیں وہ کسی قسم کے مسئلے کا شکار نہ ہوں اور اپنی پوری توجہ تعلیم کے حصول پر مرکوز کر سکیں۔ ہم ماؤںکو جب علم ہے کہ کل کلاں کو ہمارے بچوں نے گھروں سے پرندوں کے بچوں کی طرح پرواز کرنا ہے تو ہم ان کی تربیت میں یہ بات شامل کریں کہ انھیں اپنے سب کام اپنے ہاتھ سے کرنے کی عادت ہو، نہ صرف بیٹیوں بلکہ بیٹوں کو بھی بنیادی کھانے پکانے کی تربیت دیں۔
خوراک، چھت، تعلیم اور طبی سہولیات، ہر ملک کے عوام کی بنیادی ضروریات ہیں اور ان کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں، سربراہان اور ملک کے تمام دیگر اداروں کے سرکردہ لوگوں کو ان بنیادی سہولیات، جو کہ ہمارا حق ہیں، کو یقینی بنانا چاہیے، ہم سے ہر ہر قدم پر بھاری ٹیکسوں کی مد میں جو رقوم وصول کی جاتی ہیں، وہ کن جیبوں میں جاتی ہیں یا ان کے کھاتے کہاں ہیں؟ نئے ترقیاتی منصوبے شروع کرنے سے پہلے یہ چیک کریں کہ ان کی کس حد تک ضرورت ہے۔
ان نئے منصوبوں کو شروع کرنا اہم ہے یا کہ موجودہ ڈھانچے کو بہتر بنانا ترجیح ہے، عوام کی سہولیات کو ترجیح بنا لیا جائے ، اپنے وزیروں اور مشیروں میں ان لوگوں کو شامل کیا جائے جو یا تو خود نچلے طبقے سے تعلق رکھتے ہوں یا ان کا بلا واسطہ رابطہ اس طبقے سے ہو اور ان کے مسائل کا بھی انھیں علم ہو۔ سارے محکموں کا انتظام خود سنبھالنے کی بجائے قابل لوگوں کا انتخاب کریں، ان پر اعتماد کریں، انھیں ذمہ داریاں تفویض کریں ، اچھے کام کرنے والوں کو ہم عوام دل سے دعائیں دیں گے۔