ملکی تاریخ میں سب سے مہنگے قرضے1996میں جاری کیے گئے
سستے قرضے2007 میں جاری ہوئے،شرح سودکم کرکے معیشت بحال نہیں کی جاسکتی،ماہرین
لاہور:
اسٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود10فیصد کیے جانے کے فیصلے کے بعد بنیادی شرح سودگزشتہ پانچ سال کی کم ترین سطح پرآگئی ہے۔
ملکی تاریخ میں سب سے مہنگے قرضے1996جبکہ سب سے سستے قرضے2007 میں جاری کیے گئے۔تاہم ماہرین کاکہنا ہے کہ صرف شرح سودکم کرکے صنعتوں کومتحرک اورمعیشت کوبحال نہیں کیاجاسکتا۔ اسٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود10فیصدکیے جانے پر صنعتی و تجارتی حلقوں نے پالیسی میں نرمی کا خیرمقدم کیا ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ ڈسکائونٹ ریٹ آئندہ نظرثانی پر سنگل ڈیجٹ کی سطح پرہوگا۔ تاہم صنعتی و تجارتی سرگرمیوں کے فروغ اورمعیشت کی بحالی کے لیے توانائی کا بحران حل کرنے اورامن و امان کی صورتحال بہتر بنانے کامطالبہ دہرایا ہے۔
ماہرین کے مطابق جس طرح اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسیوں سے سپلائی چین کے ایشوزحل نہیں ہوسکتے اسی طرح محض شرح سودکی کمی سے نجی شعبے کو متحرک کرنے اور اقتصادی بحالی کو بھی ممکن نہیں بنایا جاسکتا۔ ماہرین کے مطابق اسٹیٹ بینک شرح سود میں کمی کے ذریعے بینکوں کے لیے حکومت کو قرضوں کی فراہمی کی کشش کم کررہی ہے۔
حکومت کے مقابلے میں بینک نجی شعبے کو رسک کی بنیاد پر زیادہ شرح سود پر قرضے دے سکتے ہیں جس سے حکومتی قرضوں کیلیے بینکاری نظام پر انحصار کم ہوگا نتیجے میں افراط زر میں کمی واقع ہوگی۔ واضح رہے کہ 1992 سے 2012تک اوسط ڈسکائونٹ ریٹ 12.8فیصد رہا سب سے زیادہ شرح سود اکتوبر 1996میں 20فیصد اور سب سے کم 7.5فیصد نومبر 2002میں رہی۔ ڈسکائونٹ ریٹ اس سے قبل اگست 2007میں 10فیصد کی سطح پر دیکھا گیا تھا۔
اسٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود10فیصد کیے جانے کے فیصلے کے بعد بنیادی شرح سودگزشتہ پانچ سال کی کم ترین سطح پرآگئی ہے۔
ملکی تاریخ میں سب سے مہنگے قرضے1996جبکہ سب سے سستے قرضے2007 میں جاری کیے گئے۔تاہم ماہرین کاکہنا ہے کہ صرف شرح سودکم کرکے صنعتوں کومتحرک اورمعیشت کوبحال نہیں کیاجاسکتا۔ اسٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود10فیصدکیے جانے پر صنعتی و تجارتی حلقوں نے پالیسی میں نرمی کا خیرمقدم کیا ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ ڈسکائونٹ ریٹ آئندہ نظرثانی پر سنگل ڈیجٹ کی سطح پرہوگا۔ تاہم صنعتی و تجارتی سرگرمیوں کے فروغ اورمعیشت کی بحالی کے لیے توانائی کا بحران حل کرنے اورامن و امان کی صورتحال بہتر بنانے کامطالبہ دہرایا ہے۔
ماہرین کے مطابق جس طرح اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسیوں سے سپلائی چین کے ایشوزحل نہیں ہوسکتے اسی طرح محض شرح سودکی کمی سے نجی شعبے کو متحرک کرنے اور اقتصادی بحالی کو بھی ممکن نہیں بنایا جاسکتا۔ ماہرین کے مطابق اسٹیٹ بینک شرح سود میں کمی کے ذریعے بینکوں کے لیے حکومت کو قرضوں کی فراہمی کی کشش کم کررہی ہے۔
حکومت کے مقابلے میں بینک نجی شعبے کو رسک کی بنیاد پر زیادہ شرح سود پر قرضے دے سکتے ہیں جس سے حکومتی قرضوں کیلیے بینکاری نظام پر انحصار کم ہوگا نتیجے میں افراط زر میں کمی واقع ہوگی۔ واضح رہے کہ 1992 سے 2012تک اوسط ڈسکائونٹ ریٹ 12.8فیصد رہا سب سے زیادہ شرح سود اکتوبر 1996میں 20فیصد اور سب سے کم 7.5فیصد نومبر 2002میں رہی۔ ڈسکائونٹ ریٹ اس سے قبل اگست 2007میں 10فیصد کی سطح پر دیکھا گیا تھا۔