بندہ ٹھوکریں کھا کھا کر ہی ٹھاکُر بنتا ہے
کھیل ہو یا جنگ جیت ہمیشہ اسکی کی ہوتی ہے جو تیاری کرتا ہے، اپنا ہوم ورک مکمل کرتا ہے۔
دو مبارکبادیں، پہلے تو قوم کو فتح مبارک ہو کہ بلآخر کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے اور پاکستان جیت گیا جبکہ دوسری مبارکباد اِس بات پر کہ اِس میچ میں پاکستان کی پوری ٹیم آوٹ نہیں ہوئی۔
اگرچہ گزشتہ دو میچوں کی شکست کی وجہ سے اِس جیت کا مزہ کچھ کِرکِرا سا ہورہا ہے لیکن یہی بہت ہے کہ کم ازکم ورلڈ کپ میں ہم وائٹ واش ہونے سے تو بچ گئے۔ آج کے دن شاہد آفریدی کی سالگرہ بھی تھی جس پر شاہد بھائی نے صفر پر آوٹ پوری قوم کو انڈے کا تحفہ دینے کا شاندر مظاہرہ کیا۔ یہ بات الگ ہے کہ ہمارے اوپنرز نے اِس میچ میں بھی پاکستان کی کمر توڑنے کی بھرپور کوشش کی تھی لیکن کپتان مصباح الحق اور وہاب رہاض نے بالترتیب سب سے زیادہ 73 اور 54 رنز بناکر ٹیم کو مضبوط بنیاد فراہم کی۔
ٹیم کی گزشتہ کارکردگی کی وجہ سے قوم کو اس میچ میں فتح کی کوئی بہت اُمید نہیں تھی لیکن بہرحال وہ کہنے ہیں نا کہ ''ہم ہیں پاکستانی ہم تو جیتیں گے'' کے مصداق مایوسیوں اور ناامیدوں کے اندھیروں میں چراغ جلانا ہم پاکستانیوں کا پرانا وطیرہ ہے۔ جب دنیا کو لگتا ہے کہ ہم گرنے والے ہیں تب ہم ایسے سنبھلتے ہیں کہ ہواوں کے رُخ موڑ دیا کرتے ہیں۔ کیا ہوا ہم پہلے دو میچ ہار گئے کیونکہ بندہ ٹھوکریں کھا کھا کر ہی ٹھاکُر بنتا ہے۔
لیکن سوال یہ بھی ہے کہ آج کا میچ جیتنے کے بعد پاکستانی قوم ماضی کے سارے رونے چھوڑ کر پھر سے کھلاڑیوں کی پوجا شروع کردے گی؟ سوال یہ بھی ہے کہ ہمارا میڈیا اور خاص طور پر مختلف چینلز پر بیٹھے کرکٹ کے نجومی پھر سے اس ٹیم کی تعریفوں میں زمین و آسمان کے وہ قلابے ملائیں گے کہ پوری قوم ایک ہیجان میں مبتلا ہوکر اگلے میچز دیکھے گی اور پھر خدانخواستہ میچ ہار گئے تو دوبارہ اپنی اصلیت پر آجائینگے؟
آخر ہم کب حقائق سے نظریں ملانا سیکھیں گے؟ آج کی جیت کے باوجود میں یہ کہنا چاہوں گا کہ اسوقت پاکستانی کرکٹ میں انقلابی تبدیلیاں ناگزیر ہوچکی ہیں۔ جن میں سب سے پہلے تو ہمیں بزرگ کھلاڑیوں سے جان چھڑانی ہوگی۔ درحقیقت کھیل تو نوجوانوں کا کام ہوتا ہے لیکن ہم نے کرکٹ کو نہ صرف بزرگوں کا کھیل بنادیا ہے بلکہ سیاست کی بھی نذر کردیا ہے۔
اب ضرورت اس بات کی ہے ہم ایک نئی ٹیم تلاش کریں جو محض خود کے لیے پیسہ کمانے کے بجائے اور ملک کے لیے کچھ کرگزرنے کی بھی صلاحیت رکھتے ہوں۔ جو اشتہارات میں کام کرنے سے زیادہ اپنے کھیل پر توجہ دیں۔ ہمارے شاہد آفریدی آپکو بیسیوں ٹی وی کمرشلز میں تو جگمگاتے نظر آئیں گے مگر انہوں نے ورلڈ کپ کے لیے کتنی تیاری کی اور پریکٹس میں کتنا وقت گزارا؟ ورلڈ کپ میں شامل ٹیموں میں موجود نئے کھلاڑیوں اور اُنکے کھیلنے کے اسٹائل پر کتنی تحقیق کی؟ اِس بارے میں کوئی خبر نہیں ملے گی۔ ہمارے ہاں چھوٹے معصوم بچوں سے لے کر بوڑھے تک کتنے ارمانوں سے سب کام چھوڑ کر میچ دیکھتے ہیں لیکن جب شرمناک نتائج نکلتے ہیں تو بہت سے نازک دل ٹوٹ جاتے ہیں۔ اسوقت پاکستان کو بھی ''ڈی ویلئر'' جیسے کھلاڑیوں اور جذبے کی ضرورت ہے۔ اُسکے پروفیشنلزم کا یہ حال ہے کہ مسلسل آٹھ ڈبل رنز لے کر اُس کی حالت غیر ہوتی محسوس بھی ہوئی تو اُس نے صرف پانی منگوایا اور پھر اپنے کام میں لگ گیا جبکہ ہمارے ہاں ایڑھی پر معمولی چوٹ بھی لگ جائے تو میچ چھوڑ دیتے ہیں۔
ویسٹ انڈیز کے خلاف ڈی ویلئر نے 66 گیندوں پر 162 رنز کی طوفانی اننگ کھیلی ہے جبکہ ہمارا کپتان 91 بالز پر 50 اسکور بناتا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک ٹیم کی تیاری پر قوم کا کڑوڑوں روپیہ سالانہ خرچ ہوتا ہے تو یہ سب اس لیے نہیں کیا جاتا کہ کھلاڑی پوری قوم کی ناک کٹوا کر واپس آجائیں۔ ٹھیک ہے آپ ہار بھی گئے ہیں تو کم ازکم لگے تو سہی کہ محنت کرکے ہارے ہیں ۔
اب ہونا تو یہ چائیے کہ آج کی فتح کے بعد ٹیم کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیئے لیکن میں اس لیے نہیں کررہا کیونکہ میں حقیقت پسند ہوں میں نہیں چاہتا کہ آج ٹیم کی تعریفوں میں زمین و آسمان ایک کردوں اور کل پھر اسے گالیاں دے رہا ہوں۔ میں نہیں چاہتا کہ ٹیم پاکستان ایک دو میچ جیت کر کواٹر فائنل میں پہنچ جائے اور پھر وہاں سے جب ٹیم ہار کر واپس آئے تو پاکستان کی کرکٹ کو تباہی کے دہانے پر پہنچانے والی کالی بھیڑوں کو ایک بار پھر اپنی نوکریاں بچانے کا موقع مل جائے۔
ایک آدھ میچ معجزے سے جیت جانا کوئی بڑی بات نہیں ہے کہ معجزے بھی روز نہیں ہوتے۔ لہذا کھیل ہو یا جنگ جیت ہمیشہ اسکی کی ہوتی ہے جو تیاری کرتا ہے، اپنا ہوم ورک مکمل کرتا ہے، دشمن کی صلاحیتوں اور طریقہ کار کو سمجھتا ہے اور پھر پوری لگن اور ہمت سے لڑائی لڑتا ہے۔ ہم ٹیم پاکستان سے یہی کہیں گے ہماری دعائیں آپ کے ساتھ ہیں اور آپ سے بھی اپیل ہے کہ خدا کے لیے قوم کو مایوس نہ کرنا، جیت کے آو گے تو تمھیں سر پر بٹھائیں گے اور ہار گے بھی آئے تو ایسے ہارنا کہ واپس آکر قوم سے نظریں ملا سکو۔ اللہ پاک تمھارا حامی و ناصر ہو۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگرچہ گزشتہ دو میچوں کی شکست کی وجہ سے اِس جیت کا مزہ کچھ کِرکِرا سا ہورہا ہے لیکن یہی بہت ہے کہ کم ازکم ورلڈ کپ میں ہم وائٹ واش ہونے سے تو بچ گئے۔ آج کے دن شاہد آفریدی کی سالگرہ بھی تھی جس پر شاہد بھائی نے صفر پر آوٹ پوری قوم کو انڈے کا تحفہ دینے کا شاندر مظاہرہ کیا۔ یہ بات الگ ہے کہ ہمارے اوپنرز نے اِس میچ میں بھی پاکستان کی کمر توڑنے کی بھرپور کوشش کی تھی لیکن کپتان مصباح الحق اور وہاب رہاض نے بالترتیب سب سے زیادہ 73 اور 54 رنز بناکر ٹیم کو مضبوط بنیاد فراہم کی۔
ٹیم کی گزشتہ کارکردگی کی وجہ سے قوم کو اس میچ میں فتح کی کوئی بہت اُمید نہیں تھی لیکن بہرحال وہ کہنے ہیں نا کہ ''ہم ہیں پاکستانی ہم تو جیتیں گے'' کے مصداق مایوسیوں اور ناامیدوں کے اندھیروں میں چراغ جلانا ہم پاکستانیوں کا پرانا وطیرہ ہے۔ جب دنیا کو لگتا ہے کہ ہم گرنے والے ہیں تب ہم ایسے سنبھلتے ہیں کہ ہواوں کے رُخ موڑ دیا کرتے ہیں۔ کیا ہوا ہم پہلے دو میچ ہار گئے کیونکہ بندہ ٹھوکریں کھا کھا کر ہی ٹھاکُر بنتا ہے۔
لیکن سوال یہ بھی ہے کہ آج کا میچ جیتنے کے بعد پاکستانی قوم ماضی کے سارے رونے چھوڑ کر پھر سے کھلاڑیوں کی پوجا شروع کردے گی؟ سوال یہ بھی ہے کہ ہمارا میڈیا اور خاص طور پر مختلف چینلز پر بیٹھے کرکٹ کے نجومی پھر سے اس ٹیم کی تعریفوں میں زمین و آسمان کے وہ قلابے ملائیں گے کہ پوری قوم ایک ہیجان میں مبتلا ہوکر اگلے میچز دیکھے گی اور پھر خدانخواستہ میچ ہار گئے تو دوبارہ اپنی اصلیت پر آجائینگے؟
آخر ہم کب حقائق سے نظریں ملانا سیکھیں گے؟ آج کی جیت کے باوجود میں یہ کہنا چاہوں گا کہ اسوقت پاکستانی کرکٹ میں انقلابی تبدیلیاں ناگزیر ہوچکی ہیں۔ جن میں سب سے پہلے تو ہمیں بزرگ کھلاڑیوں سے جان چھڑانی ہوگی۔ درحقیقت کھیل تو نوجوانوں کا کام ہوتا ہے لیکن ہم نے کرکٹ کو نہ صرف بزرگوں کا کھیل بنادیا ہے بلکہ سیاست کی بھی نذر کردیا ہے۔
اب ضرورت اس بات کی ہے ہم ایک نئی ٹیم تلاش کریں جو محض خود کے لیے پیسہ کمانے کے بجائے اور ملک کے لیے کچھ کرگزرنے کی بھی صلاحیت رکھتے ہوں۔ جو اشتہارات میں کام کرنے سے زیادہ اپنے کھیل پر توجہ دیں۔ ہمارے شاہد آفریدی آپکو بیسیوں ٹی وی کمرشلز میں تو جگمگاتے نظر آئیں گے مگر انہوں نے ورلڈ کپ کے لیے کتنی تیاری کی اور پریکٹس میں کتنا وقت گزارا؟ ورلڈ کپ میں شامل ٹیموں میں موجود نئے کھلاڑیوں اور اُنکے کھیلنے کے اسٹائل پر کتنی تحقیق کی؟ اِس بارے میں کوئی خبر نہیں ملے گی۔ ہمارے ہاں چھوٹے معصوم بچوں سے لے کر بوڑھے تک کتنے ارمانوں سے سب کام چھوڑ کر میچ دیکھتے ہیں لیکن جب شرمناک نتائج نکلتے ہیں تو بہت سے نازک دل ٹوٹ جاتے ہیں۔ اسوقت پاکستان کو بھی ''ڈی ویلئر'' جیسے کھلاڑیوں اور جذبے کی ضرورت ہے۔ اُسکے پروفیشنلزم کا یہ حال ہے کہ مسلسل آٹھ ڈبل رنز لے کر اُس کی حالت غیر ہوتی محسوس بھی ہوئی تو اُس نے صرف پانی منگوایا اور پھر اپنے کام میں لگ گیا جبکہ ہمارے ہاں ایڑھی پر معمولی چوٹ بھی لگ جائے تو میچ چھوڑ دیتے ہیں۔
ویسٹ انڈیز کے خلاف ڈی ویلئر نے 66 گیندوں پر 162 رنز کی طوفانی اننگ کھیلی ہے جبکہ ہمارا کپتان 91 بالز پر 50 اسکور بناتا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک ٹیم کی تیاری پر قوم کا کڑوڑوں روپیہ سالانہ خرچ ہوتا ہے تو یہ سب اس لیے نہیں کیا جاتا کہ کھلاڑی پوری قوم کی ناک کٹوا کر واپس آجائیں۔ ٹھیک ہے آپ ہار بھی گئے ہیں تو کم ازکم لگے تو سہی کہ محنت کرکے ہارے ہیں ۔
اب ہونا تو یہ چائیے کہ آج کی فتح کے بعد ٹیم کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیئے لیکن میں اس لیے نہیں کررہا کیونکہ میں حقیقت پسند ہوں میں نہیں چاہتا کہ آج ٹیم کی تعریفوں میں زمین و آسمان ایک کردوں اور کل پھر اسے گالیاں دے رہا ہوں۔ میں نہیں چاہتا کہ ٹیم پاکستان ایک دو میچ جیت کر کواٹر فائنل میں پہنچ جائے اور پھر وہاں سے جب ٹیم ہار کر واپس آئے تو پاکستان کی کرکٹ کو تباہی کے دہانے پر پہنچانے والی کالی بھیڑوں کو ایک بار پھر اپنی نوکریاں بچانے کا موقع مل جائے۔
ایک آدھ میچ معجزے سے جیت جانا کوئی بڑی بات نہیں ہے کہ معجزے بھی روز نہیں ہوتے۔ لہذا کھیل ہو یا جنگ جیت ہمیشہ اسکی کی ہوتی ہے جو تیاری کرتا ہے، اپنا ہوم ورک مکمل کرتا ہے، دشمن کی صلاحیتوں اور طریقہ کار کو سمجھتا ہے اور پھر پوری لگن اور ہمت سے لڑائی لڑتا ہے۔ ہم ٹیم پاکستان سے یہی کہیں گے ہماری دعائیں آپ کے ساتھ ہیں اور آپ سے بھی اپیل ہے کہ خدا کے لیے قوم کو مایوس نہ کرنا، جیت کے آو گے تو تمھیں سر پر بٹھائیں گے اور ہار گے بھی آئے تو ایسے ہارنا کہ واپس آکر قوم سے نظریں ملا سکو۔ اللہ پاک تمھارا حامی و ناصر ہو۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔