سوچ کا دائرہ وسیع کریں
ملکی صورتحال اس مقام تک جا پہنچی ہے، جہاں نصف صدی کے دوران پروان چڑھنے والے تضادات تیزی کے ساتھ گہرے ہوتے ہوئے
ملکی صورتحال اس مقام تک جا پہنچی ہے، جہاں نصف صدی کے دوران پروان چڑھنے والے تضادات تیزی کے ساتھ گہرے ہوتے ہوئے پیچیدہ ہو چکے ہیں۔ اداروں کی تباہی، ریاست و سیاست پر دولت مافیا کے قبضہ اور ہر معاملے میں اخلاق باختگی کا انتہاؤں کو چھونا اب کوئی ڈھکا چھپا معاملہ نہیں رہا۔ اس فکری دیوالیہ پن کی نظیر 5 مارچ کو ہونے والے سینیٹ کے انتخابات میں جس انداز میں اراکین اسمبلی کی خرید و فروخت کی خبریں ذرایع ابلاغ کی زینت بنی ہیں، اس نے جمہوریت کو بے اعتبار کرنے کے ساتھ ریاستی اداروں کے تقدس کو بھی پامال کر دیا ہے۔
اس صورتحال کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ سینیٹ، دراصل قانون سازی کے عمل میں ایک قسم کی Watchdog ہوتی ہے، کیونکہ قومی اسمبلی میں صوبوں کی نمایندگی ان کی آبادی کے تناسب سے ہوتی ہے۔ یوں قومی اسمبلی میں بڑے صوبوں کی نمایندگی زیادہ اور چھوٹے صوبے کی کم ہوتی ہے۔ سینیٹ میں تمام صوبوں کو مساوی نشستیں تفویض کر کے بڑے صوبوں کی اجارہ داری کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس لیے ہر صوبے سے منتخب ہونے والے اراکین کا تعلق اصولی طور پر اپنے متعلقہ صوبے سے ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ دنیا بھر میں ایسے افراد کو سینیٹ میں بھیجنے کی روایت ہے، جو مختلف شعبہ ہائے زندگی میں مہارت رکھتے ہوں۔ تا کہ قومی اسمبلی سے منظور ہونے والے قوانین کو مختلف معیارات کے حوالے سے پرکھا جا سکے۔ مگر جمہوری اقدار کی نزاکتوں سے نابلد سیاسی جماعتوں نے سینیٹ کو بھی اپنے اقتدار کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔
کیونکہ ایک صوبے کے من پسند اراکین کو دوسرے صوبے سے منتخب کرا کے دراصل سینیٹ کے قیام کے بنیادی مقصد کو سبوتاژ کر رہی ہیں۔ ساتھ ہی ہر بار دولتمند مافیا بھی میدان میں اتر جاتی ہے، جس کے نمایندے بریف کیس بھر کر اراکین کو خرید کر سینیٹ میں پہنچ جاتے ہیں۔ سینیٹ کے حالیہ انتخابات میں ہونے والی ہارس ٹریڈنگ سے دو جماعتیں یعنی مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف بہت پریشان ہیں۔ مسلم لیگ (ن) ہارس ٹریڈنگ جس کی اپنی تاریخ رہی ہے، اس مرتبہ خوفزدہ ہے کہ وہ اراکین جو مسلم لیگ (ق) سے اس کی صفوں میں آئے اور اس کے ٹکٹ پر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین منتخب ہوئے ہیں، سینیٹ الیکشن میں ان کی جماعت کے لیے مسئلہ بن سکتے ہیں۔
اسی طرح تحریک انصاف کو خیبر پختونخوا اسمبلی میں ان 15 اراکین سے خطرہ ہے، جنھوں نے فارورڈ بلاک بنا لیا ہے۔ چنانچہ ہارس ٹریڈ کے مسئلے پر دونوں حریف جماعتیں ایک صفحہ پر آ گئی ہیں۔ حکومت آئین کی کچھ شقوں کے علاوہ سینیٹ کے قواعد و ضوابط میں ترامیم کی خواہشمند ہے۔ اس سلسلے میں 22 ویں آئینی ترمیم لانا چاہتی ہے۔ اس مقصد کے لیے وزیراعظم نے جمعہ کو قومی اسمبلی میں موجود سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی رہنماؤں کا اجلاس طلب کر کے انھیں اس آئینی ترمیم کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کی مخالفت کے باعث یہ ترمیم کھٹائی میں پڑتی نظر آ رہی ہے۔ لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ حکومت ان جماعتوں کو رضامند کرنے میں کامیاب ہو جائے اور اس اظہاریے کی اشاعت تک یہ آئینی ترمیم منظور ہو چکی ہو۔ لیکن یہ کسی المیہ سے کم نہیں کہ ہماری سیاسی جماعتیں صرف اپنے مفاد میں سوچتی ہیں اور نظام کی اصلاح سے انھیں کوئی غرض نہیں ہوتی۔
معلومات کے مطابق حکومت آئین کی شقوں 59(1)، 63(A) اور 226 میں تبدیلی کی خواہشمند ہے۔ اس لیے ان شقوں کا جائزہ لینا ضروری ہے، تا کہ حکومت اور سیاسی جماعتوں کی نیت کو سمجھا جا سکے۔ جہاں تک آرٹیکل 59(1) کا تعلق ہے، تو اس میں سینیٹ کی نشستوں کا تعین اور ان کی مختلف کیٹیگریز میں تقسیم بیان کی گئی ہے۔ اسی شق کی ذیلی شق 2 میں بتایا گیا ہے کہ سینیٹ کی نشستوں کے لیے متناسب نمایندگی کا طریقہ کار اختیار کیا جائے گا۔ شق 63 میں مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کی رکنیت سے نااہلی کے بارے میں قوانین بیان کیے گئے ہیں جب کہ شق 226 خفیہ رائے دہی کے بارے میں ہے۔
ان تینوں شقوں میں تبدیلی کی خواہش سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ سیاسی جماعتیں انتخابی عمل میں پائے جانے والے نقائص کو دور کرنے میں کسی قسم کی دلچسپی کے بجائے اپنی اپنی جماعتوں کے اراکین اسمبلی کو قابو میں رکھنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ ان صفحات پر ایک سے زائد مرتبہ لکھا جاچکا ہے کہ پاکستان میں 1970ء کے عام انتخابات کو شامل کرتے ہوئے اب تک کل 10 عام انتخابات ہوئے ہیں۔ ان میں 1970ء کے عام انتخابات کو چھوڑ کر سبھی انتخابات متنازع رہے ہیں۔ اسی طرح سینیٹ کے ہر انتخابات کے موقع پر اراکین صوبائی اسمبلیوں کی خرید و فروخت کے قصے اخبارات کی زینت بنتے رہے ہیں۔ انتخابات میں ہونے والی دھاندلیوں کے خلاف کئی بار تحاریک بھی چلی ہیں۔
1977ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت اسی الزام کے نتیجے میں چلنے والی تحریک کے باعث ختم ہوئی۔ 1985ء سے 2008ء کے درمیان ہونے والے انتخابات میں بھی یہی الزامات لگے۔ جب کہ 2013ء کے عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگاتے ہوئے تحریک انصاف نے گزشتہ برس چار ماہ تک اسلام آباد میں دھرنا بھی دیا۔ مگر ان معاملات و مسائل کو حل کرنے کی کبھی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ عوام کا اعتبار انتخابی عمل سے تقریباً اٹھ چکا ہے۔جمہوریت اور جمہوری نظم حکمرانی کا مطالعہ کرتے وقت ہمیں انتخابی عمل کی اہمیت اور افادیت کو سامنے رکھنا ہوتا ہے۔ شفاف، غیر جانبدار اور غیر متنازع انتخابات ہی جمہوری نظام کو مضبوط اور مستحکم بنانے کا سبب بنتے ہیں۔
تیسری دنیا کے بیشتر ممالک میں جمہوریت کے تجربات کی ناکامی کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ دیگر عوامل کے علاوہ ان ممالک میں مروج انتخابی نظام میں پائے جانے والے نقائص اور کمزوریاں ناکامی کا بڑا سبب بنیں۔ اس کے علاوہ اب تک کے تجربات یہ بھی بتاتے ہیں کہ وہ ممالک جہاں ریاست کو تو جمہوریانے (Democratise) پر توجہ مرکوز کی گئی، مگر معاشرہ کو جمہوریا نے پر توجہ نہیں دی گئی، جمہوریت کا تجربہ ناکام ہو گیا اور وہاں بہت جلد فوجی یا شخصی آمریتیں قائم ہو گئیں۔لیکن اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے ہمیں بھارت کی مثال کو بھی سامنے رکھنا ہو گا، جہاں معاشرہ گو ابھی تک عالمی معیار کے مطابق جمہوری نہیں بن سکا ہے، مگر آزادی کے فوراً بعد جاگیرداری کے خاتمے اور ایک سیکولر آئین کی تشکیل کے ساتھ ہی بااختیار، آزاد اور غیر جانبدار الیکشن کمیشن کو بھی اہمیت دینے کے باعث جمہوری عمل مستحکم ہوتا چلا گیا۔
وہاں 1950ء سے مسلسل عام انتخابات ہو رہے ہیں۔ مگر علاقائی سطح پر اکا دکا شکایات کے علاوہ دھاندلی کی کوئی ایسی شکایت سامنے نہیں آئی، جس میں الیکشن کمیشن کو ملوث کیا گیا ہو۔ ایک اور قابل غور پہلو یہ ہے کہ بھارت میں 1982ء تک الیکشن کمیشن فرد واحد یعنی چیف الیکشن کمشنر کے تابع کام کیا کرتا تھا، مگر اس زمانے میں بھی دھاندلی کی کوئی بڑی شکایت نہیں آئی۔ 1982ء کے بعد پارلیمان نے الیکشن کمیشن میں دو مزید اراکین کا اضافہ کر دیا ہے، یوں تین رکنی کمیشن پورے انتخابی عمل کو چلانے کا ذمے دار ہے۔
بھارت میں یہ تصور ہے کہ انتخابی عمل چونکہ انتظامی نوعیت کا ہوتا ہے، اس لیے چیف الیکشن کمشنر اور کمیشن کے دونوں اراکین کا تعلق سول سروس سے ہونا چاہیے، چنانچہ بھارتی لوک سبھا (قومی اسمبلی) بے داغ کردار، اچھی شہرت اور اعلیٰ انتظامی صلاحیتوں کے حامل سول بیوروکریٹس میں سے چیف الیکشن کمشنر اور دیگر دو اراکین کا انتخاب کر کے ان کی تقرری کرتی ہے۔ الیکشن کمیشن مکمل آزاد، بااختیار اور غیر جانبدار ہوتا ہے، جس کی پیشہ ورانہ ذمے داریوں میں حکومت سمیت کسی ریاستی ادارے کو مداخلت کی اجازت نہیں ہوتی۔ جب کہ انتخابات کا اعلان ہوتے ہی پوری انتظامی مشنری الیکشن کمیشن کے تابع آ جاتی ہے۔
مرکزی اور صوبائی حکومتیں سرکاری اہلکاروں کے تبادلے اور تقرریاں کرنے کی مجاز نہیں رہتیں۔ اسی طرح اقتدار میں موجود وزیراعظم اور ان کی کابینہ کے اراکین کو اپنی انتخابی مہم کے لیے سرکاری وسائل استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ چنانچہ وہاں عبوری حکومت کے قیام کی ضرورت نہیں پڑتی اور نئی حکومت کی تشکیل تک سابقہ حکومت ہی اقتدار میں رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ الیکشن کمیشن کی غیر جانبداری پر آج تک کبھی کوئی سوال نہیں اٹھا۔
اس صورتحال کے تناظر میں پاکستان میں جمہوری تجربات کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ہمارے جیسے معاشروں میں جہاں قبائلیت، جاگیردارانہ اور برادری کلچر کی جڑیں خاصی مضبوط ہوں، وہاں جمہوریت کو فروغ دینے کے لیے انتخابی عمل کو شفاف، غیر جانبدار اور غیر متنازع بنانے کے لیے الیکشن کمیشن کی تقریری شفاف اور میرٹ کے اصولوں پر ہو۔ کمیشن بے داغ شخصیت کے مالک سول بیوروکریٹس پر مشتمل ہو اور بحیثیت ایک ادارہ مکمل طور پر آزاد، بااختیار، غیر جانبدار اور مستعد ہو۔ اس کے علاوہ قبائلی، جاگیردارانہ اور برادری کے اثر و نفوذ سے نجات دلانے کے لیے متناسب نمایندگی کے نظام کا نفاذ انتہائی ضروری ہے۔
Electables کہلائے جانے والے اراکین دراصل اپنے مخصوص علاقوں کی بااثر اور طاقتور قبائلی اور جاگیردار شخصیات ہوتی ہیں، جو کہیں قبائلی یا برادری کے نام پر اور کہیں جاگیردارانہ اثر و نفوذ کے باعث زبردستی منتخب ہو جاتی ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ انتخابی دھاندلیوں اور کرپشن کے خاتمے کے لیے وقتی فیصلوں کے بجائے انتخابی عمل میں پائی جانے والی تمامتر خامیوں اور کمزوریوں کو دور کرنے کے لیے ملک میں متناسب نمایندگی کا نظام متعارف کیا جائے۔ متناسب نمایندگی کا طریقہ کار مخصوص نشستوں کے لیے ہمارے انتخابی نظام میں پہلے ہی جاری ہے۔ فقط اس کے دائرہ کار کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔