عالمی مسئلہ
دہشت گردی کے مارے ہوئے ملکوں میں پاکستان، عراق، شام، افغانستان کے علاوہ افریقہ کے بعض ممالک بھی ہیں۔
وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان بار بار یہ فرما رہے ہیں کہ دہشت گردی نہ قومی مسئلہ ہے نہ علاقائی، بلکہ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے۔ امریکا کے صدر بارک اوباما بھی یہی فرما رہے ہیں کہ دہشت گردی ایک عالمی مسئلہ ہے۔ کم و بیش ساری دنیا کے حکمران بھی دہشت گردی کو ایک عالمی مسئلہ قرار دے رہے ہیں۔ اس حوالے سے ان عالمی عمائدین کی رائے غلط نہیں، بلاشبہ دہشت گردی اب ایک عالمی مسئلہ بن گئی ہے۔ ہم بھی برسوں سے یہی کہہ رہے ہیں کہ دہشت گردی ایک عالمی مسئلہ ہے لیکن کیا دہشت گردی کو محض عالمی مسئلہ کہنے سے دہشت گردی کا خاتمہ ہو سکتا ہے؟
دہشت گردی کے مارے ہوئے ملکوں میں پاکستان، عراق، شام، افغانستان کے علاوہ افریقہ کے بعض ممالک بھی ہیں۔ روس، چین، امریکا، فرانس، برطانیہ سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں بھی دہشت گردی کے واقعات مسلسل ہوتے رہتے ہیں، اس حوالے سے دہشت گردی کو عالمی مسئلہ کہنا بالکل درست ہے لیکن دہشت گردی کے خلاف متاثرہ ملک تو مقدور بھر کوششیں کر رہے ہیں لیکن کسی ایک ملک کی کوششوں سے دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں، اگر دہشت گردی کا موثر طور پر خاتمہ کرنا ہو تو پھر اس کے لیے ایک ایسا عالمی فرنٹ بنانے کی ضرورت ہے جو ایک مربوط اور منصوبہ بند طریقے سے جامع اور موثر حکمت عملی کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف اقدامات کرے۔
دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے فوجی آپریشن کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن فوجی آپریشن کے ساتھ عوام میں فکر ی تبدیلی لانے کے لیے بھی مختلف نوعیت کے آپریشن کی ضرورت ہے۔ یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ دہشت گردی کا سب سے بڑا عنصر جہل ہے، پیٹ پر بارودی جیکٹ باندھ کر اپنے جسم کے پرخچے اڑانے کے لیے وہی شخص جا سکتا ہے جو علم و عقل کی دولت سے محروم ہے، جو یہ نہ سمجھ سکے کہ اسلام میں خودکشی حرام ہے۔ اسلام نے مسلمان کا خون مسلمان پر حرام کیا ہے، اگر زیادہ نہیں ان دو احکامات کا ہی علم ہو تو خودکشی کے ذریعے جنت میں جانے کا سلسلہ ٹوٹ سکتا ہے۔ جو علاقے دہشت گردی کے حوالے سے پہچانے جاتے ہیں وہ علاقے قبائلی، یا جاگیر دارانہ معاشرت کے حامل ہیں۔ جہاں علم اور تعلیم کا گزر ممکن نہیں۔ علم و عقل سے محروم نوجوان مولوی، ملا کے حکم پر ہنسی خوشی اور رضا کے ساتھ اپنے پیٹ پر بم اور بارود باندھ کر جان دینے اور جان لینے کے لیے تیار رہتے ہیں۔
ترقی یافتہ ملکوں میں ہر شعبے کے ماہرین موجود ہوتے ہیں، ہر شہر میں تھنک ٹینکوں کی بھرمار ہوتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ماہرین، یہ تھنک ٹینکوں کے دانشور اپنی حکومتوں کو یہ مشورہ نہیں دے سکتے کہ دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے فوجی آپریشنوں سے زیادہ علم و شعور کے آپریشنوں کی ضرورت ہے۔ دہشت گردی کے قائدین مغربی ملکوں کے دانشوروں سے زیادہ عاقل اور سمجھ دار ہیں کہ وہ علم اور شعور کے مراکز کو تباہ کرنا اپنی اولین ترجیح بنائے ہوئے ہیں۔
طلبا اور درسگاہوں کو بموں اور بارود سے اڑانے کا مقصد ہی یہ ہے کہ نوجوان نسل علم اور شعور سے محروم رہے، تا کہ وہ ان جاہلوں سے اپنی مرضی کے مطابق کام لیں۔ دہشت گردوں کی قیادت اس حقیقت سے پوری طرح واقف ہے کہ ایک تعلیم یافتہ اور با شعور نوجوان جیکٹ باندھ کر اپنے جسم کے پرخچے اڑانے کے لیے تیار ہو سکتا ہے۔ اسی وجہ سے وہ درسگاہوں کو بموں سے اڑا کر قبائلی علاقوں کو علم کی دولت سے محروم رکھ رہے ہیں۔
ترقی یافتہ ملکوں نے پچھلے دس بارہ برسوں کے دوران فوجی آپریشنوں پر کھربوں ڈالر پھونک دیے، اس سرمایہ کا ¼ حصہ بھی پسماندہ، خاص طور پر مذہبی انتہاپسند علاقوں میں تعلیم کے فروغ کے ساتھ ساتھ تعلیم بالغان پر خرچ کرتے تو آج حالات مختلف ہوتے۔ یہی صورت حال وڈیرہ شاہی معاشروں میں ہے، وڈیرے اور جاگیردار اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہیں کہ ہاری، کسان اور ان کے بچے تعلیم حاصل کر لیں تو اس غلامی کے نظام ہی سے باغی ہو جائیں گے، وڈیرے درس گاہوں کو بموں سے تو نہیں اڑاتے لیکن ان درس گاہوں میں اپنے مویشی باندھ کر اور انھیں تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کر کے نئی نسلوں کو علم اور شعور سے دور کر دیتے ہیں۔
دہشت گردی کے حوالے سے عام مسلمانوں کو دہشت گرد سمجھ کر ان سے نفرت کرنے والوں کو یہ علم ہونا چاہیے کہ اول تو مسلمانوں کی مجموعی تعداد میں مذہبی انتہاپسند آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ دوسری بڑی حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردوں کا نشانہ خود مسلمان بن رہے ہیں۔ اس حقیقت سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ دہشت گرد یہ جنگ دنیا پر مسلمانوں کی بالادستی کے لیے نہیں بلکہ مسلمانوں اور ان کے مذہب کو بدنام کرنے کے لیے کر رہے ہیں اور یہ سب وہ ان طاقتوں کے اشارے پر کر رہے ہیں جو دنیا میں مسلمانوں کی افرادی قوت اور قدرتی وسائل کی فراوانی سے خوفزدہ ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ اگر مسلمان اپنی افرادی قوت اور قدرتی وسائل کے درست استعمال کے قابل ہو جائیں تو وہ بھی ترقی یافتہ قوموں کی صف میں شامل ہو سکتے ہیں اور یہ خام مال اور سستی لیبر کی منڈیوں کے بجائے ایسے ترقی یافتہ صنعتی ملک بن سکتے ہیں جن کا مقابلہ کرنا ان کے لیے اتنا ہی مشکل ہو جائے گا جتنا چین کا مقابلہ کرنا مشکل ہو گیا ہے۔
اس اہم پہلو کی وضاحت کے بعد ہم اس موضوع کی طرف آتے ہیں جس کا ذکر ہم نے کالم کے آغاز میں کیا ہے یعنی دہشت گردی اگر عالمی مسئلہ ہے تو اس سے نمٹنے کے لیے عالمی سطح پر مربوط، منظم اور مشترکہ کوششیں کیوں نہیں کی جا رہی ہیں۔ عراق اور شام میں داعش کو مغربی ممالک سب سے بڑا خطرہ کہہ رہے ہیں، اگر داعش دنیا کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن گئی ہے تو پھر اس کے خاتمے کے لیے انتہائی غیر منظم، غیر منصوبہ بند، غیر مربوط کوششیں کیوں کی جا رہی ہیں، کیا شام اور عراق میں داعش کے ٹھکانوں پر غیر منظم بمباری سے داعش ختم ہو جائے گی؟
مغربی میڈیا چیخ رہا ہے کہ داعش دوسرے ملکوں میں تیزی سے پھیل رہی ہے، کئی ملکوں میں جن میں پاکستان بھی شامل ہے داعش ریکروٹنگ کر رہی ہے۔ خود مغربی ملکوں کے لوگ داعش میں شامل ہو رہے ہیں۔ اگر یہ کام تبلیغ یا ترغیب سے ہو رہا ہے تو اسے روکنے کی کیا کوششیں کی جا رہی ہیں اگر یہ کام دولت کے ذریعے کیا جا رہا ہے تو دولت کے حصول کے راستے کیوں بند نہیں کیے جا رہے ہیں؟ وقت کا تقاضا ہے کہ مذہبی انتہاپسندی اور دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن اقدامات کے لیے عالمی سطح پر ایک کانفرنس بلا کر اس میں دہشت گردی کے خلاف مربوط منظم اور مشترکہ کارروائیوں کا ایک موثر پروگرام بنایا جائے ورنہ ساری کوششیں وقت کے زیاں کے علاوہ کچھ نہیں۔
دہشت گردی کے مارے ہوئے ملکوں میں پاکستان، عراق، شام، افغانستان کے علاوہ افریقہ کے بعض ممالک بھی ہیں۔ روس، چین، امریکا، فرانس، برطانیہ سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں بھی دہشت گردی کے واقعات مسلسل ہوتے رہتے ہیں، اس حوالے سے دہشت گردی کو عالمی مسئلہ کہنا بالکل درست ہے لیکن دہشت گردی کے خلاف متاثرہ ملک تو مقدور بھر کوششیں کر رہے ہیں لیکن کسی ایک ملک کی کوششوں سے دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں، اگر دہشت گردی کا موثر طور پر خاتمہ کرنا ہو تو پھر اس کے لیے ایک ایسا عالمی فرنٹ بنانے کی ضرورت ہے جو ایک مربوط اور منصوبہ بند طریقے سے جامع اور موثر حکمت عملی کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف اقدامات کرے۔
دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے فوجی آپریشن کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن فوجی آپریشن کے ساتھ عوام میں فکر ی تبدیلی لانے کے لیے بھی مختلف نوعیت کے آپریشن کی ضرورت ہے۔ یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ دہشت گردی کا سب سے بڑا عنصر جہل ہے، پیٹ پر بارودی جیکٹ باندھ کر اپنے جسم کے پرخچے اڑانے کے لیے وہی شخص جا سکتا ہے جو علم و عقل کی دولت سے محروم ہے، جو یہ نہ سمجھ سکے کہ اسلام میں خودکشی حرام ہے۔ اسلام نے مسلمان کا خون مسلمان پر حرام کیا ہے، اگر زیادہ نہیں ان دو احکامات کا ہی علم ہو تو خودکشی کے ذریعے جنت میں جانے کا سلسلہ ٹوٹ سکتا ہے۔ جو علاقے دہشت گردی کے حوالے سے پہچانے جاتے ہیں وہ علاقے قبائلی، یا جاگیر دارانہ معاشرت کے حامل ہیں۔ جہاں علم اور تعلیم کا گزر ممکن نہیں۔ علم و عقل سے محروم نوجوان مولوی، ملا کے حکم پر ہنسی خوشی اور رضا کے ساتھ اپنے پیٹ پر بم اور بارود باندھ کر جان دینے اور جان لینے کے لیے تیار رہتے ہیں۔
ترقی یافتہ ملکوں میں ہر شعبے کے ماہرین موجود ہوتے ہیں، ہر شہر میں تھنک ٹینکوں کی بھرمار ہوتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ماہرین، یہ تھنک ٹینکوں کے دانشور اپنی حکومتوں کو یہ مشورہ نہیں دے سکتے کہ دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے فوجی آپریشنوں سے زیادہ علم و شعور کے آپریشنوں کی ضرورت ہے۔ دہشت گردی کے قائدین مغربی ملکوں کے دانشوروں سے زیادہ عاقل اور سمجھ دار ہیں کہ وہ علم اور شعور کے مراکز کو تباہ کرنا اپنی اولین ترجیح بنائے ہوئے ہیں۔
طلبا اور درسگاہوں کو بموں اور بارود سے اڑانے کا مقصد ہی یہ ہے کہ نوجوان نسل علم اور شعور سے محروم رہے، تا کہ وہ ان جاہلوں سے اپنی مرضی کے مطابق کام لیں۔ دہشت گردوں کی قیادت اس حقیقت سے پوری طرح واقف ہے کہ ایک تعلیم یافتہ اور با شعور نوجوان جیکٹ باندھ کر اپنے جسم کے پرخچے اڑانے کے لیے تیار ہو سکتا ہے۔ اسی وجہ سے وہ درسگاہوں کو بموں سے اڑا کر قبائلی علاقوں کو علم کی دولت سے محروم رکھ رہے ہیں۔
ترقی یافتہ ملکوں نے پچھلے دس بارہ برسوں کے دوران فوجی آپریشنوں پر کھربوں ڈالر پھونک دیے، اس سرمایہ کا ¼ حصہ بھی پسماندہ، خاص طور پر مذہبی انتہاپسند علاقوں میں تعلیم کے فروغ کے ساتھ ساتھ تعلیم بالغان پر خرچ کرتے تو آج حالات مختلف ہوتے۔ یہی صورت حال وڈیرہ شاہی معاشروں میں ہے، وڈیرے اور جاگیردار اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہیں کہ ہاری، کسان اور ان کے بچے تعلیم حاصل کر لیں تو اس غلامی کے نظام ہی سے باغی ہو جائیں گے، وڈیرے درس گاہوں کو بموں سے تو نہیں اڑاتے لیکن ان درس گاہوں میں اپنے مویشی باندھ کر اور انھیں تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کر کے نئی نسلوں کو علم اور شعور سے دور کر دیتے ہیں۔
دہشت گردی کے حوالے سے عام مسلمانوں کو دہشت گرد سمجھ کر ان سے نفرت کرنے والوں کو یہ علم ہونا چاہیے کہ اول تو مسلمانوں کی مجموعی تعداد میں مذہبی انتہاپسند آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ دوسری بڑی حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردوں کا نشانہ خود مسلمان بن رہے ہیں۔ اس حقیقت سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ دہشت گرد یہ جنگ دنیا پر مسلمانوں کی بالادستی کے لیے نہیں بلکہ مسلمانوں اور ان کے مذہب کو بدنام کرنے کے لیے کر رہے ہیں اور یہ سب وہ ان طاقتوں کے اشارے پر کر رہے ہیں جو دنیا میں مسلمانوں کی افرادی قوت اور قدرتی وسائل کی فراوانی سے خوفزدہ ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ اگر مسلمان اپنی افرادی قوت اور قدرتی وسائل کے درست استعمال کے قابل ہو جائیں تو وہ بھی ترقی یافتہ قوموں کی صف میں شامل ہو سکتے ہیں اور یہ خام مال اور سستی لیبر کی منڈیوں کے بجائے ایسے ترقی یافتہ صنعتی ملک بن سکتے ہیں جن کا مقابلہ کرنا ان کے لیے اتنا ہی مشکل ہو جائے گا جتنا چین کا مقابلہ کرنا مشکل ہو گیا ہے۔
اس اہم پہلو کی وضاحت کے بعد ہم اس موضوع کی طرف آتے ہیں جس کا ذکر ہم نے کالم کے آغاز میں کیا ہے یعنی دہشت گردی اگر عالمی مسئلہ ہے تو اس سے نمٹنے کے لیے عالمی سطح پر مربوط، منظم اور مشترکہ کوششیں کیوں نہیں کی جا رہی ہیں۔ عراق اور شام میں داعش کو مغربی ممالک سب سے بڑا خطرہ کہہ رہے ہیں، اگر داعش دنیا کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن گئی ہے تو پھر اس کے خاتمے کے لیے انتہائی غیر منظم، غیر منصوبہ بند، غیر مربوط کوششیں کیوں کی جا رہی ہیں، کیا شام اور عراق میں داعش کے ٹھکانوں پر غیر منظم بمباری سے داعش ختم ہو جائے گی؟
مغربی میڈیا چیخ رہا ہے کہ داعش دوسرے ملکوں میں تیزی سے پھیل رہی ہے، کئی ملکوں میں جن میں پاکستان بھی شامل ہے داعش ریکروٹنگ کر رہی ہے۔ خود مغربی ملکوں کے لوگ داعش میں شامل ہو رہے ہیں۔ اگر یہ کام تبلیغ یا ترغیب سے ہو رہا ہے تو اسے روکنے کی کیا کوششیں کی جا رہی ہیں اگر یہ کام دولت کے ذریعے کیا جا رہا ہے تو دولت کے حصول کے راستے کیوں بند نہیں کیے جا رہے ہیں؟ وقت کا تقاضا ہے کہ مذہبی انتہاپسندی اور دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن اقدامات کے لیے عالمی سطح پر ایک کانفرنس بلا کر اس میں دہشت گردی کے خلاف مربوط منظم اور مشترکہ کارروائیوں کا ایک موثر پروگرام بنایا جائے ورنہ ساری کوششیں وقت کے زیاں کے علاوہ کچھ نہیں۔