امریکا کا پہلا مسلمان جج
امریکا دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے، یہاں ہر کسی کو اپنی بات کرنے اپنے مذہب کی پریکٹس کرنے کی پوری آزادی ہے۔
کچھ دن پہلے امریکا کے اخباروں میں ایک نئے جج کا تقرر بحث کا عنوان بنا رہا، کوئی کسی کورٹ کا جج ہے، یہ امریکا میں کوئی بڑی بات نہیں، امریکا میں سیکڑوں سٹی، کاؤنٹی، ہائی کورٹ، سپریم کورٹ ہیں، ان کے علاوہ فیڈرل کورٹس جہاں کل ملا کر ہزاروں جج ہوں گے لیکن اس خبر میں ایک خاص بات ہے۔ خاص یہ کہ کیلی فورنیا کی سپریم کورٹ کی ہسٹری میں یہ پہلا مسلمان جج ہے۔
امریکا دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے، یہاں ہر کسی کو اپنی بات کرنے اپنے مذہب کی پریکٹس کرنے کی پوری آزادی ہے، یہ بات اس وقت اور بھی امریکا نے ثابت کرنے کی کوشش کی، جب مسلمانوں کا نام 9/11 کے بعد دہشت گردی کے ساتھ جوڑا گیا، نیوز رپورٹرز سے لے کر صدر تک سب یہی کہتے نظر آتے ہیں کہ امریکا میں کوئی مسلمان ہو یا یہودی سب برابر ہیں لیکن یہ بات اکثر اس وقت غلط ثابت ہوجاتی ہے جب اس پر عمل کرنے کا وقت آتا ہے۔
حلیم دھنی دینا 2012 میں صرف چالیس سال کی عمر میں لانگ بینچ کورٹ کے جج بن گئے جو اتنی کم عمری میں ایک بڑا اعزاز ہے لیکن اس سے بھی بڑی بات یہ تھی کہ انھیں کچھ ہی عرصے میں یعنی 2015 میں سپریم کورٹ کا جج بنا دیا گیا۔
حلیم کے والد کا تعلق انڈیا گجرات سے ہے، حلیم کی پیدائش سے پہلے ہی وہ نوکری کے سلسلے میں تنزانیہ چلے گئے اور پھر امریکا ایلی نوائے جہاں حلیم کی پیدائش ہوئی، حلیم کے والدین نے بچپن سے ہی بچوں کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی، انسانیت کے اصول، کمیونٹی میں کیسے رہا جاتا ہے، لوگوں کو کیسے برابری کا درجہ دینا چاہیے، یہ باتیں حلیم نے بچپن سے ہی سیکھ لی تھیں۔
حلیم کو بچپن سے اندازہ تھا کہ لوگ مسلمانوں کے لیے غلط سوچ رکھتے ہیں جو درست نہیں، ان کے حساب سے سچ میڈیا میں دکھائے گئے امیج سے بہت مختلف ہے، انھیں لگتا ہے کہ امریکن میڈیا مسلمانوں کو ایسے پیش کرتا ہے جیسے مسلمان امریکا کو بدلنا چاہتے ہیں جب کہ ایسا نہیں ہے، مسلمان امریکا کو بدلنا نہیں چاہتے بلکہ اس کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔
جب بھی حلیم سے کوئی مسلمانوں کے خلاف بات کرتا ہے تو وہ دفاعی انداز اختیار کرتے ہیں کیونکہ لوگ بیشتر وقت غلط ہوتے ہیں۔ جب حلیم بڑے ہوکر وکیل بنے تو صرف اور صرف امریکی قوانین کو ذہن میں رکھ کر کیس لڑتے اپنے ذاتی خیالات کو درمیان میں نہیں لاتے لیکن پھر بھی وہ لوگوں کو پہلے مسلمان لگتے پھر کورٹ کے وکیل۔
نائن الیون کے فوراً بعد حلیم کورٹ میں بطور وکیل ایک کیس لڑ رہے تھے تو جج نے جیوری سے کہا کہ اپنے فیصلے کو فیئر رکھیں، کسی کے رنگ و نسل پر نہ جائیں، ساتھ ہی انھوں نے "Towel Head" استعمال کیا، یہ وہ اصطلاح ہے جو غلط انداز میں مسلمانوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے، حلیم کو کچھ دیر میں اندازہ ہوا کہ جج تو حلیم کی طرف اشارہ کر رہے تھے کسی مجرم کی طرف نہیں، اس دن حلیم نے اپنے آپ کو بہت ڈاؤن محسوس کیا لیکن انھوں نے اپنے یقین کو پختہ رکھا اور کامیابی کی سڑک پر اپنی رفتار کم نہیں کی۔
حلیم خود یہ کہتے ہیں کہ میں بہت اچھا مسلمان نہیں ہوں، نہ ہی میں نے بہت سی دینی کتابیں پڑھی ہیں اور نہ ہی میں پانچ وقت نماز پڑھتا ہوں، نہ مجھے اسلام کے بارے میں اتنا پتہ ہے کہ میں اس پر زیادہ بول سکوں لیکن ہاں مجھے اتنا ضرور پتہ ہے کہ اگر کوئی اسلام کے خلاف بات کرے تو اس کا جواب دے سکوں۔
حلیم کو جب گورنر ہاؤس سے فون آیا کہ ہم پریس ریلیز کر رہے ہیں ان کے جج بننے کی تو فون کرنے والے نے بتایا کہ ہم خبر کی ہیڈنگ میں لکھیں گے ''کیلی فورنیا کا پہلا مسلمان جج'' جس پر حلیم نے کہا کہ ہاں صحیح ہے، انھیں اس میں کچھ غلط نہیں لگا اور وہ کچھ چھپانے کی کوشش بھی نہیں کر رہے تھے۔
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں رہنے والے کئی لوگوں کو یہ خبر شاید اچھی نہیں لگی، کئی جگہ انٹرنیٹ بلاگ میں اس کے خلاف لکھا گیا، لکھنے والوں کے حساب سے مسلمان تو ویسے ہی امریکا سے نفرت کرتے ہیں ہاں اگر اس کمیونٹی کے کسی شخص کو ایسی جگہ پر بٹھا دیا جائے جہاں وہ امریکیوں کو سزا دے سکے تو وہ ایک مسلمان ہونے کی وجہ سے فیصلے صحیح نہیں دے سکے گا۔
امریکنوں نے حلیم کے جج بننے کے بعد شرعیہ لا بھی پڑھنا شروع کردیا، انھیں ڈر ہے کہ حلیم کورٹ میں بیٹھ کر امریکی جوڈیشری لا کے بجائے شرعی قوانین کے تحت فیصلے کریں گے، کئی جگہ انھیں ''جہادی جج'' بھی کہا جا رہا ہے جب کہ لوگ یہ بھول گئے کہ حلیم کوئی اسلامی اسکالر نہیں ہیں بلکہ ان کی ساری تعلیم امریکا میں ہوئی ہے اور وہ ڈگری کسی مدرسے سے نہیں کیلی فورنیا کی یوسی ایل اے سے لے کر آئے ہیں۔
کیلی فورنیا کے گورنر جیری براؤن کو بھی مستقل ''ہیٹ میلز'' آرہی ہیں جس میں سب ہی یہ لکھ رہے ہیں کہ ان کی حکومت کا یہ فیصلہ غلط ہے۔
حلیم کے حساب سے انھوں نے کورٹ کے اندر کبھی بھی یہ پریشر محسوس نہیں کیا کہ وہ مسلمان ہیں اور نہ ہی انھیں کبھی بھی کسی کورٹ سیشن میں یہ احساس دلایا گیا کہ وہ مختلف ہیں، وہ مانتے ہیں کہ یہ موقع ہے ان کے لیے اور باقی مسلمانوں کے لیے یہ ثابت کرنے کا کہ ہم بھی دوسرے لوگوں جیسے ہی ہیں، ہم بھی وہ سب کچھ کرسکتے ہیں جو دوسرے عام امریکن کرسکتے ہیں۔
ہم خود کو برا سمجھتے ہیں، سوچتے ہیں کہ ہم تو سندھی پنجابی اور مسلک پر ایک دوسرے سے لڑتے ہیں، ہم جانور سے بھی بدتر ہیں، مغربی ملکوں کو دیکھو اور سیکھو ایسی سوچ رکھنی چاہیے، ایسا ماننا کئی پڑھے لکھے پاکستانیوں کا ہے، لیکن سچ یہ ہے کہ امریکا میں لوگوں پر قانون کا ڈنڈا ہے اس لیے یہاں لوگ سوچ سوچ کر یا پھر بلاگ وغیرہ لکھ کر نفرت کا اظہار کر لیتے ہیں۔
صرف موقع ملنے کی دیر ہوتی ہے، وہ نفرتیں نظر آنے لگتی ہیں، ایک بیالیس سال کا امریکن شہری جج بن گیا یہ بڑی بات ہونی چاہیے تھی لیکن امریکنوں کو اس خبر میں صرف ایک مسلمان ہی نظر آیا۔
امریکا دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے، یہاں ہر کسی کو اپنی بات کرنے اپنے مذہب کی پریکٹس کرنے کی پوری آزادی ہے، یہ بات اس وقت اور بھی امریکا نے ثابت کرنے کی کوشش کی، جب مسلمانوں کا نام 9/11 کے بعد دہشت گردی کے ساتھ جوڑا گیا، نیوز رپورٹرز سے لے کر صدر تک سب یہی کہتے نظر آتے ہیں کہ امریکا میں کوئی مسلمان ہو یا یہودی سب برابر ہیں لیکن یہ بات اکثر اس وقت غلط ثابت ہوجاتی ہے جب اس پر عمل کرنے کا وقت آتا ہے۔
حلیم دھنی دینا 2012 میں صرف چالیس سال کی عمر میں لانگ بینچ کورٹ کے جج بن گئے جو اتنی کم عمری میں ایک بڑا اعزاز ہے لیکن اس سے بھی بڑی بات یہ تھی کہ انھیں کچھ ہی عرصے میں یعنی 2015 میں سپریم کورٹ کا جج بنا دیا گیا۔
حلیم کے والد کا تعلق انڈیا گجرات سے ہے، حلیم کی پیدائش سے پہلے ہی وہ نوکری کے سلسلے میں تنزانیہ چلے گئے اور پھر امریکا ایلی نوائے جہاں حلیم کی پیدائش ہوئی، حلیم کے والدین نے بچپن سے ہی بچوں کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی، انسانیت کے اصول، کمیونٹی میں کیسے رہا جاتا ہے، لوگوں کو کیسے برابری کا درجہ دینا چاہیے، یہ باتیں حلیم نے بچپن سے ہی سیکھ لی تھیں۔
حلیم کو بچپن سے اندازہ تھا کہ لوگ مسلمانوں کے لیے غلط سوچ رکھتے ہیں جو درست نہیں، ان کے حساب سے سچ میڈیا میں دکھائے گئے امیج سے بہت مختلف ہے، انھیں لگتا ہے کہ امریکن میڈیا مسلمانوں کو ایسے پیش کرتا ہے جیسے مسلمان امریکا کو بدلنا چاہتے ہیں جب کہ ایسا نہیں ہے، مسلمان امریکا کو بدلنا نہیں چاہتے بلکہ اس کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔
جب بھی حلیم سے کوئی مسلمانوں کے خلاف بات کرتا ہے تو وہ دفاعی انداز اختیار کرتے ہیں کیونکہ لوگ بیشتر وقت غلط ہوتے ہیں۔ جب حلیم بڑے ہوکر وکیل بنے تو صرف اور صرف امریکی قوانین کو ذہن میں رکھ کر کیس لڑتے اپنے ذاتی خیالات کو درمیان میں نہیں لاتے لیکن پھر بھی وہ لوگوں کو پہلے مسلمان لگتے پھر کورٹ کے وکیل۔
نائن الیون کے فوراً بعد حلیم کورٹ میں بطور وکیل ایک کیس لڑ رہے تھے تو جج نے جیوری سے کہا کہ اپنے فیصلے کو فیئر رکھیں، کسی کے رنگ و نسل پر نہ جائیں، ساتھ ہی انھوں نے "Towel Head" استعمال کیا، یہ وہ اصطلاح ہے جو غلط انداز میں مسلمانوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے، حلیم کو کچھ دیر میں اندازہ ہوا کہ جج تو حلیم کی طرف اشارہ کر رہے تھے کسی مجرم کی طرف نہیں، اس دن حلیم نے اپنے آپ کو بہت ڈاؤن محسوس کیا لیکن انھوں نے اپنے یقین کو پختہ رکھا اور کامیابی کی سڑک پر اپنی رفتار کم نہیں کی۔
حلیم خود یہ کہتے ہیں کہ میں بہت اچھا مسلمان نہیں ہوں، نہ ہی میں نے بہت سی دینی کتابیں پڑھی ہیں اور نہ ہی میں پانچ وقت نماز پڑھتا ہوں، نہ مجھے اسلام کے بارے میں اتنا پتہ ہے کہ میں اس پر زیادہ بول سکوں لیکن ہاں مجھے اتنا ضرور پتہ ہے کہ اگر کوئی اسلام کے خلاف بات کرے تو اس کا جواب دے سکوں۔
حلیم کو جب گورنر ہاؤس سے فون آیا کہ ہم پریس ریلیز کر رہے ہیں ان کے جج بننے کی تو فون کرنے والے نے بتایا کہ ہم خبر کی ہیڈنگ میں لکھیں گے ''کیلی فورنیا کا پہلا مسلمان جج'' جس پر حلیم نے کہا کہ ہاں صحیح ہے، انھیں اس میں کچھ غلط نہیں لگا اور وہ کچھ چھپانے کی کوشش بھی نہیں کر رہے تھے۔
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں رہنے والے کئی لوگوں کو یہ خبر شاید اچھی نہیں لگی، کئی جگہ انٹرنیٹ بلاگ میں اس کے خلاف لکھا گیا، لکھنے والوں کے حساب سے مسلمان تو ویسے ہی امریکا سے نفرت کرتے ہیں ہاں اگر اس کمیونٹی کے کسی شخص کو ایسی جگہ پر بٹھا دیا جائے جہاں وہ امریکیوں کو سزا دے سکے تو وہ ایک مسلمان ہونے کی وجہ سے فیصلے صحیح نہیں دے سکے گا۔
امریکنوں نے حلیم کے جج بننے کے بعد شرعیہ لا بھی پڑھنا شروع کردیا، انھیں ڈر ہے کہ حلیم کورٹ میں بیٹھ کر امریکی جوڈیشری لا کے بجائے شرعی قوانین کے تحت فیصلے کریں گے، کئی جگہ انھیں ''جہادی جج'' بھی کہا جا رہا ہے جب کہ لوگ یہ بھول گئے کہ حلیم کوئی اسلامی اسکالر نہیں ہیں بلکہ ان کی ساری تعلیم امریکا میں ہوئی ہے اور وہ ڈگری کسی مدرسے سے نہیں کیلی فورنیا کی یوسی ایل اے سے لے کر آئے ہیں۔
کیلی فورنیا کے گورنر جیری براؤن کو بھی مستقل ''ہیٹ میلز'' آرہی ہیں جس میں سب ہی یہ لکھ رہے ہیں کہ ان کی حکومت کا یہ فیصلہ غلط ہے۔
حلیم کے حساب سے انھوں نے کورٹ کے اندر کبھی بھی یہ پریشر محسوس نہیں کیا کہ وہ مسلمان ہیں اور نہ ہی انھیں کبھی بھی کسی کورٹ سیشن میں یہ احساس دلایا گیا کہ وہ مختلف ہیں، وہ مانتے ہیں کہ یہ موقع ہے ان کے لیے اور باقی مسلمانوں کے لیے یہ ثابت کرنے کا کہ ہم بھی دوسرے لوگوں جیسے ہی ہیں، ہم بھی وہ سب کچھ کرسکتے ہیں جو دوسرے عام امریکن کرسکتے ہیں۔
ہم خود کو برا سمجھتے ہیں، سوچتے ہیں کہ ہم تو سندھی پنجابی اور مسلک پر ایک دوسرے سے لڑتے ہیں، ہم جانور سے بھی بدتر ہیں، مغربی ملکوں کو دیکھو اور سیکھو ایسی سوچ رکھنی چاہیے، ایسا ماننا کئی پڑھے لکھے پاکستانیوں کا ہے، لیکن سچ یہ ہے کہ امریکا میں لوگوں پر قانون کا ڈنڈا ہے اس لیے یہاں لوگ سوچ سوچ کر یا پھر بلاگ وغیرہ لکھ کر نفرت کا اظہار کر لیتے ہیں۔
صرف موقع ملنے کی دیر ہوتی ہے، وہ نفرتیں نظر آنے لگتی ہیں، ایک بیالیس سال کا امریکن شہری جج بن گیا یہ بڑی بات ہونی چاہیے تھی لیکن امریکنوں کو اس خبر میں صرف ایک مسلمان ہی نظر آیا۔