جمہوریت خود کو بہتر بناتی ہے
باربار کی آمریت نے ملک میں سیاسی جماعتوں کو مستحکم بنیادوں پراستوار نہیں ہونے دیا
شفاف انتخابات کا انعقاد ہمیشہ سے ہر پاکستانی کا خواب رہا ہے کیونکہ جب تک عوام کے حقیقی نمایندگان پارلیمان کے تمام ایوانوں تک نہیں پہنچ جاتے اس وقت تک جمہوریت کے ثمرات سے فیضیاب ہونا ممکن نہیں۔5مارچ 2015کو سینیٹ آف پاکستان کے ہونے والے انتخابات میں ممکنہ دھاندلی کو جواز بنا کر جمہوری نظام کے ناقدین نے پورے جمہوری نظام پر ہی اپنے عدم اعتماد کا اظہار شروع کردیا ہے۔
پاکستان میں سینیٹ کا ادارہ 1973کے آئین کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی کے پہلے دورحکومت میں قائم ہوا تھا۔ اس زمانے میں کسی سیاسی جماعت نے سینیٹ انتخابات کو ہدف تنقید نہیں بنایا تھا بلکہ اس اقدام کو زبردست پذیرائی حاصل ہوئی تھی کیونکہ اس ادارے کی موجودگی میں ملک کے تینوں چھوٹے صوبوں میں پائی جانے والی احساس محرومی کا خاتمہ ممکن تھا۔صوبہ پنجاب آبادی کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔جس کے باعث فطری طور پر قومی اسمبلی میں ہمیشہ صوبہ پنجاب کو اکثریت حاصل رہے گی اور جمہوری اصول کے مطابق عددی برتری کی بنیاد پر صوبہ پنجاب کو قانون سازی کے ضمن میں ہمیشہ فیصلہ کن اختیار حاصل رہے گا۔
یہ وہ معروضی حقیقت تھی جس کی وجہ سے چھوٹے صوبوں میں احساس محرومی کا پیدا ہونا ایک فطری عمل تھا۔لہٰذا وفاق کی اکائیوں کے خدشات اور تحفظات کو ختم کرنے کے لیے سینیٹ کے ادارے کو متعارف کروایا گیا ۔اس ادارے میں ہر صوبائی اسمبلی کو مساوی نمایندگی دے کر جمہوری دور حکومت میں صوبوں کے درمیان احساس محرومی کے خاتمے کی ایک عملی کوشش کی گئی ۔مزید برآں،اس ادارے کی اہمیت کو بڑھانے کے لیے فنانس بل کی منظوری کے علاوہ ہر قانون کی سینیٹ سے منظوری کو لازمی قرار دیا گیا ۔سینیٹ کو موثر بنانے کے لیے سینیٹ میں تمام صوبوں کو برابر نمایندگی دی گئی جس کے نتیجے میں چھوٹے صوبوں میں پائی جانے والی احساس محرومی میں کمی واقع ہوئی اور قومی یکجہتی کو فروغ ملا ۔
سینیٹ انتخابات میں درحقیقت دھاندلی کا آغاز جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے غیر جمہوری دور میں اس وقت ہوا جب قومی سطح پر غیر جماعتی انتخابات کروائے گئے۔ ان انتخابات کے نتیجے میں منتخب ہونے والی اسمبلیوں اور ان کے ارکان کی وابستگی کسی سیاسی جماعت سے نہیں تھی لہٰذا جب صوبوں کے ذریعے سینیٹ کے ارکان کے انتخاب کا مرحلہ آیا تو صوبائی اسمبلی کا ہر رکن پارٹی وابستگی کی قید سے آزاد تھا۔ یہی وہ مرحلہ تھا جب دولت مند امیدواروں نے مبینہ طور پر صوبائی ارکان کے ووٹوں کو خریدنے کا عمل شروع کر دیا۔
باربار کی آمریت نے ملک میں سیاسی جماعتوں کو مستحکم بنیادوں پراستوار نہیں ہونے دیا ۔کمزور جمہوری اقدار کی وجہ سے پورا جمہوری نظام ناقدین کے لیے آسان ہدف بنا رہا۔ آمروں نے خود جمہوری نظام میں خرابیاں پیدا کیں اور خود ہی ان خرابیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔اس حقیقت کو تسلیم کیا جانا چاہیے کہ جب سے ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے ملک میں جمہوری نظام کے استحکام کی غرض سے میثاق جمہوریت کا معاہدہ کیا ہے اور جس پر بڑی حد تک کھلے دل سے عملدرآمد بھی جاری ہے اس وقت سے جمہوری نظام کوکمزور کرنے یا اس نظام میں موجود کمزوری کو جواز بناکر پورے نظام کو ختم کرنے کی ایک منظم مہم چلائی جا رہی ہے۔ تاہم، جمہوریت پسند قوتیں باہمی مشاورت کے ساتھ ہرمشکل کا سامنا کرنے کے لیے آئینی راہ نکال لیتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ جونہی سینیٹ انتخابات میں ممکنہ دھاندلی کو جواز بنا کر پورے جمہوری نظام پر وار کرنے کی کوشش کی گئی تو وزیر اعظم نے فوری طور پر اس مسئلے کے حل کے لیے آئین میں 22ویں ترمیم کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں سے اس ضمن میں رابطہ کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی ۔ لیڈر آف دی اپوزیشن سید خورشید شاہ نے بہت واضح طور پر یہ کہا ہے کہ حکومت نے محض تحریک انصاف کو خوش کرنے کی خاطر اس آئینی ترمیم کا اعلان کیا ہے کیونکہ اس امر سے حکومت کے آئینی ماہرین بھی بخوبی واقف ہیں کہ انتخابی شیڈول کے اعلان کے بعد اُن انتخابات کے انعقاد کے طریقہ کار میں کسی قسم کی آئینی ترمیم کرنا ازخود ایک غیر آئینی اقدام ہے۔
عاصمہ جہانگیر نے اس اقدام کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو اپنے ہی اسمبلی ارکان پر اعتماد کرنا چاہیے ورنہ پارلیمنٹ میں روبوٹ بٹھانا خود ایک غیر جمہوری رویہ ہے جس سے جمہوریت پر یقین رکھنے والی سیاسی جماعتوں کو اجتناب برتنا چاہیے۔ معروف آئینی ماہر سابق وزیر قانون ایس۔ایم ۔ظفر نے مجوزہ آئینی ترمیم کوآئین سے روگردانی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ آئین میں بہت واضح طور پر درج ہے کہ اس طرح کے انتخابات خفیہ رائے شماری کے اصول کے مطابق انجام دیے جائیں گے۔
ان کے مطابق کرپشن کی روک تھام کی ذمے داری محض پارلیمنٹ پر ہی عائد نہیں ہوتی اور نہ ہی صرف ارکان پارلیمنٹ معاشرے میں مالی کرپشن کے مرتکب ہوتے ہیں۔ چونکہ یہ پورے معاشرے کا مسئلہ ہے اور اس کی روک تھام کی ذمے داری حکومت ،پارلیمنٹ ، سیاسی جماعتوں اور پورے معاشرے پر عائد ہوتی ہے لہٰذا حکومت سارا بوجھ خود اٹھا کر کسی غیر آئینی اقدام کا ارتکاب نہ کرے۔
وزیر اعظم نے ہارس ٹریڈنگ اور سینیٹ کے صاف شفاف انتخابات کے لیے تمام پارلیمانی پارٹیوں کو اعتماد میں لے کر جمہوری نظام کے ناقدین پر یہ بات واضح کردی ہے کہ جمہوری نظام کے اندر اس نظام میں موجود کمزوریوں کو دور کرنے کی نہ صرف پوری صلاحیت موجود ہے بلکہ دوسری جانب ملک کی سیاسی قیادت جمہوری فکرکی حامل بھی ہے جو ملک میں جمہوری نظام کی کمزوریوں کو دور کرنے میں پوری طرح مخلص ہے۔جمہوریت ارتقائی عمل کے ذریعے خود کو بہتر بناتی ہے۔ موجودہ صورتحال بھی اس حقیقت کا ایک واضح مظہر ہے۔