معمولی فیصلے غیر معمولی نتائج

ممکن ہے ہماری نگاہ میں ایک فیصلہ اور عمل چھوٹا ہو مگر اللہ کے نزدیک وہ بہت بڑا ہو۔

naeemshah802@gmail.com

میں نے اس روز رش سے بچنے کے لیے 15 منٹ پہلے گھر سے نکلنے کا تجربہ کیا۔ مجھے یہ دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ واقعی میرے اس چھوٹے سے فیصلے نے کس طرح مجھے گاڑیوں، رکشوں، بسوں کے دھوئیں اور شور کی اذیت سے بچالیا۔ میں اب اس پرسکون سڑک پر سے اطمینان سے گزر رہا تھا جو کچھ دیر بعد ٹریفک سے بھری ہوئی ہوتی۔ میں سوچنے لگا کہ یہ پرسکون سڑک میرے نصیب میں تھی یا 15 منٹ بعد نکلنے کی صورت میں ٹریفک سے بھرا اذیت ناک ماحول؟ ہم جو سوچتے ہیں کہ جو تقدیر میں لکھا ہے وہ تو ہو کر رہتا ہے یہاں غلط ثابت ہورہا تھا۔

میرے 15 منٹ جلدی نکلنے کے فیصلے نے مجھے تقدیر و تدبیر کے بارے میں نئے سرے سے سوچنے پر مجبور کردیا، کیونکہ اگر میرے اگلے ایک گھنٹے کے منظر و کیفیات میرے ایک چھوٹے سے فیصلے سے تبدیل ہوسکتے تھے تو کیا پوری زندگی اور مستقبل کے واقعات و نتائج تبدیل نہ ہوتے ہوں گے؟ میری سستی، حماقتوں میں بغیر سوچے سمجھے کیے کئی چھوٹے بڑے غلط فیصلے کہاں کہاں مجھے مشکلات و نقصانات سے دوچار نہ کرتے ہوں گے؟ اگر فقط 15 منٹ جلدی نکلنے کا معمولی سا فیصلہ میرے نصیب میں سکون لکھ سکتا تھا تو یقیناً اللہ نے ہمارے ہاتھ میں بہت حد تک اپنا نصیب خود لکھنے کا اختیار دے دیا ہے۔

اگر میں ذرا دیر سے نکلنے کا فیصلہ کرتا تو میرا نصیب برا ہوجاتا۔ میرے حصے میں اس پرسکون سڑک کے بجائے تکلیف دہ ٹریفک کا منظر ہوتا، میں اطمینان کے بجائے بے ہنگم ٹریفک میں لوگوں کو برا بھلا کہتے، کوستے ہوئے پندرہ منٹ کے بجائے پینتالیس منٹ میں اپنی منزل تک پہنچتا۔ وہاں پہنچ کر بھی لوگوں سے چڑچڑے پن سے پیش آنے کی وجہ سے ان کاموں کے نتائج پر برا اثر پڑتا۔ ممکن تھا کہ میرے بنتے کام بگڑ جاتے اور میں شام کو بوجھل ذہن کے ساتھ ناکام گھر لوٹتا اور اسی برے موڈ کے اثرت میرے گھریلو ماحول پر بھی پھیل جاتے۔ کیا یہ سب میری تقدیر ہوتا؟ یا میرے کچھ معمولی فیصلے ان تمام کیفیات اور نتائج کا تعین کرنے والے تھے؟

غور کرنے پر مجھے احساس ہوا کہ فیصلے صرف فیصلے ہوتے ہیں، چھوٹے یا بڑے نہیں۔ یہ ہم انسان ہوتے ہیں جو خود اپنے بنائے ہوئے پیمانوں کے تحت کسی فیصلے کو بڑا اور کسی کو چھوٹا ہونے کا سرٹیفکیٹ دے دیتے ہیں۔ ممکن ہے ہماری نگاہ میں ایک فیصلہ اور عمل چھوٹا ہو مگر اللہ کے نزدیک وہ بہت بڑا ہو، ہماری نگاہ میں معمولی کوتاہی اللہ کی نگاہ میں بہت بڑی ہو۔ یہ ہم انسانوں کی اپنی کی ہوئی تقسیم ہے۔ جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہوتا ہے کہ ''جو تم کرتے نہیں وہ کہتے کیوں ہو، تمھارے لیے یہ چھوٹی بات ہے مگر اللہ کے نزدیک بہت بڑی ہے۔''


ایک مشہور حدیثؐ ہے کہ ''کسی کی طرف مسکرا کر دیکھنا بھی صدقہ ہے۔'' لیکن ہمارے خیال میں مسکرانے والا صدقہ کسی کو نقد رقم دینے والے صدقے کے ہم پلہ کیسے ہوسکتا ہے؟ ہم چیزوں کو دنیاوی نقطہ نگاہ سے تولتے، روپوں کی گنتی کے اعتبار سے ان کی اہمیت کم یا زیادہ گردانتے ہیں۔ مگر اللہ کے نزدیک ہمارے فیصلوں کو تولنے کا پیمانہ مختلف ہے، وہاں دولت یا تعداد نہیں، صرف خلوص نیت کو دیکھا جاتا ہے۔ کسی مشکل میں گھرے شخص کو محبت وہمدردی سے مسکرا کر دیکھ لینا بھی بعض دفعہ اللہ کے نزدیک اتنا ہی مقبول ہوتا ہے جتنا اس کی خطیر رقم سے مدد کرنا۔ ہم ہر عمل کو دولت کے ترازو میں تول کر بڑے یا چھوٹے ہونے کا لیبل اس پر لگاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری نظر میں نماز کا چھوڑنا معمولی کوتاہی مگر چند ہزار روپے کا نقصان بڑا سمجھا جاتا ہے۔

ایک صبح فجر کے بعد میں قریبی پارک میں واک کرنے پیدل جارہا تھا۔ میرا موڈ آف تھا اور میں ماتھے پر بل ڈالے خاموشی سے چلا جارہا تھا۔ اتنے میں سامنے سے ایک پچپن ساٹھ سالہ، خوشگوار شخصیت کا مالک شخص جو قریب ہی کسی بنگلے میں رہتا تھا آتا دکھائی دیا، وہ اکثر اسی وقت پارک سے واپس لوٹتا اور ہم دونوں کا آمنا سامنا ہوتا۔ میں کبھی کبھار جب اچھے موڈ میں ہوتا تو قریب سے گزرنے والوں کو سلام کردیتا، جس میں وہ بھی شامل تھا، جس کا وہ بھی خوشگوار حیرت و گرمجوشی سے جواب دیتا۔ حیرت سے اس لیے کیونکہ ہمارے یہاں اجنبی لوگوں کو سلام کرنے کا رواج اب باقی نہیں رہا۔

امریکا میں اپنے قیام کے دوران میں نے ان لوگوں میں ایک یہ بات اچھی دیکھی کہ وہاں لوگ اکثر ایک دوسرے کو بغیر جان پہچان کے ہی ہائے ہیلو کرتے ہوئے گزر جاتے، خصوصاً صبح کے وقت۔ ان میں امیر غریب، بچے بوڑھے کسی کی انا کا مسئلہ نہ ہوتا۔ اس روز پارک جاتے وقت میرا موڈ چونکہ خراب تھا اور میرا اس شخص کو سلام کرنے کا کوئی ارادہ نہ تھا مگر نجانے کیوں جونہی وہ شخص میرے پاس سے گزرا میں نے آخری وقت اسے سلام کردیا۔ وہ بھی شاید اس کی توقع نہ کررہا تھا، اس لیے نظریں چرا کر نکل رہا تھا، مگر اچانک میرے سلام نے اسے کچھ بوکھلا سا دیا، شرمندہ اور نروس سا کردیا۔

اپنی ان ہی گھبرائی ہوئی کیفیات نے اس کی خوش اخلاقی میں اضافہ کردیا، اس نے بلند آواز سے نہ صرف میرے سلام کا جواب دیا بلکہ میرا حال بھی پوچھا۔ تین سیکنڈ کی اس مختصر سی کارروائی اور سلام کرنے کے میرے اس چھوٹے سے فیصلے نے ہم دونوں پر بہت مثبت اثر چھوڑا۔ مجھ پر یہ کہ ایک تو اسے سلام کرکے مجھے اچھا محسوس ہوا اور دوسرا اس کی وہ نروس کیفیت دیکھ کر اس کے گزرنے کے بعد میرے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی، میرا خراب موڈ یکدم خوشگوار ہوگیا، اور اس شخص پر یہ کہ غالباً اسے یہ احساس ہوگیا کہ کسی کو سلام کرنے سے کوئی چھوٹا نہیں بلکہ بڑا ہوجاتا ہے۔

ہم میں یہ غلط فہمی عام ہے کہ بڑے نتائج ہمیشہ بڑے فیصلوں سے ہی حاصل ہوتے ہیں، جبکہ درحقیقت بڑی کامیابیاں اکثر چھوٹے فیصلوں کے مرہون منت ہوتی ہیں۔ بظاہر معمولی فیصلے اکثر اپنے اندر بڑی وسعت اور دور رس اثرات لیے ہوتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ معاشرے کو سدھارنے، اس کی تربیت کرنے کے لیے بڑے بڑے جوشیلے لیکچر اور تقریریں کرنا ضروری ہیں جبکہ دراصل یہ ہمارے چھوٹے چھوٹے تعریفی کلمات، حوصلہ افزا، مہربان رویے اور مسکراہٹیں ہوتی ہیں جو دوسروں کی شخصیت و زندگی کو بدل کر رکھ سکتی ہیں، مایوسیوں کے اندھیروں میں بھٹکتے ہوؤں کو امید کی کرن دکھا سکتی ہیں، شکستہ دلوں کو جستجو کی نئی راہ پر ڈال سکتی ہیں۔ ان بظاہر چھوٹے، معمولی واقعات سے مجھ پر یہ راز کھلا کہ جس طرح بڑے بڑے خزانوں اور محلات کے بند دروازے، چھوٹی چھوٹی چابیوں کے محتاج ہوتے ہیں، ان کے بغیر نہیں کھلتے، اسی طرح زندگی میں سکون اور کامیابیاں حاصل کرنے کے لیے بھی چھوٹے چھوٹے فیصلے انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔
Load Next Story