تھر کا درد اور سندھ حکومت کی غفلت …



لاہور: ضلع تھرپارکر پاکستان کا وہ ضلع ہے جس سے بھارت کی سرحد ملتی ہے۔ اپنے محل وقوع کے اعتبار سے اہم ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی اپنی تہذیبی شناخت ہے، اس ضلع میں آبادی کے لحاظ سے ہندو برادری کی اکثریت ہے۔ بھارت سے ملحق ہونے کے باعث اس کی دفاعی اہمیت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ضلع تھرپارکر کا زیادہ تر علاقہ صحرا پر مشتمل ہے، دور دراز علاقوں میں چھوٹے چھوٹے گاؤں ہیں، جن کی آبادی بہت زیادہ نہیں ہوتی۔ مجموعی طور پر ضلع تھرپارکر کی آبادی بنیادی سہولتوں سے محروم ہے۔ لیکن اس علاقے کا سب سے بڑا مسئلہ پانی اور غذا کی قلت ہے۔

یہی وہ مسئلہ ہے جس کی وجہ سے دیگر مسائل پیدا ہوتے ہیں، ہر سال تھرپارکر میں قحط اور غذائی قلت کی اطلاعات ذرایع ابلاغ کی زینت بنتی ہیں۔ بارشیں نہ ہوں تو صورتحال مزید بدتر ہوجاتی ہے اور علاقے سے بڑی تعداد میں تھری باشندے نقل مکانی شروع کردیتے ہیں اور جب بارشیں ہوتی ہیں اور ہریالی نظر آنے لگتی ہے تو تھری باشندوں کی واپسی بھی شروع ہوجاتی ہے۔ قحط سالی اور غذائی قلت کے باعث تھر کے باشندے ہر سال مسائل سے دوچار ہوجاتے ہیں۔ لیکن یہ صورتحال اس وقت مزید گھمبیر بن جاتی ہے جب حاملہ خواتین کو بنیادی غذائی ضروریات مہیا نہ کی جائیں۔

زچہ اور بچہ کی صحت ان حالات میں داؤ پر لگ جاتی ہے اور جو بچے جنم لیتے ہیں وہ اتنے کمزور ہوتے ہیں کہ ان کی زندگی کے امکانات کم ہوجاتے ہیں۔ ہر سال مختلف امراض میں مبتلا ہو کر سیکڑوں بچے ہلاک ہوجاتے ہیں۔ پہلے ذرایع ابلاغ تک رسائی نہ ہونے کے باعث اس قسم کی اطلاعات عام نہیں ہوتی تھیں مگر ذرایع ابلاغ اس قسم کی خبروں کو نمایاں کر رہے ہیں، اس لیے تھر کے بچوں کی اموات کا مسئلہ سنگین ہوتا جارہا ہے۔

یہ بچے اس قوم کا روشن مستقبل ہیں، ہمیں ہر صورت میں ان کو بچانا ہوگا۔ لیکن بدقسمتی سے 2014 میں 607 اور سال رواں کے دو ماہ کے دوران 150 بچوں کی ہلاکت پر پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت نے بچوں کو اموات سے بچانے کے بجائے روایتی موقف اختیار کیا اور یہ بتایا گیا کہ تھر میں بچے ہر سال مرتے رہتے ہیں یہ کوئی اہم بات نہیں جب کہ وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ اسمبلی کے اندر اور باہر تھر کے قحط پر افسوسناک بیانات دیتے رہے ہیں۔ افسوس صد افسوس! حکمرانوں کا یہ رویہ غفلت و بے حسی کے مترادف ہے۔

تھر کے 23 سو سے زائد گاؤں ہیں جہاں پینے کا پانی کڑوا ہوچکا ہے، پانی نہ ہونے سے انسانوں کے ساتھ ساتھ جانور بھی بڑی تعداد میں ہلاک ہورہے ہیں، ان میں خوبصورت پرندوں، موروں کے علاوہ مویشی بھی شامل ہیں، سیکڑوں بچوں اور ہزاروں جانوروں کی ہلاکت کے باوجود سندھ حکومت نے تھر کے مسائل پر ہمیشہ غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا۔ اتنے بڑے انسانی نقصان کے باوجود تھر میں اسپتالوں کی حالت زار پر ماتم کرنے کو دل چاہتا ہے۔ اسپتالوں میں ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی شدید کمی ہے، ادویات غائب ہیں، ضروری آلات دستیاب نہیں۔

گاؤں سے اسپتال تک مریضوں کے لانے کے لیے ایمبولینس کا موثر نظام بھی موجود نہیں اور تھر کے اسپتالوں سے کراچی و حیدرآباد تک مریضوں کو منتقل کرنے کے لیے جو مفت ایمولینس سروس چلائی جارہی تھی وہ بھی بند کر دی ہے۔ صرف مٹھی کے سول اسپتال میں کچھ سہولتیں ہیں لیکن وہاں بچوں کے وارڈ میں عملہ اور آلات موجود نہیں ہیں۔ گزشتہ دنوں میں جب میڈیا نے اس مسئلے کو نمایاں کیا تو تھرپارکر نے سب کی توجہ حاصل کرلی۔ اس سلسلے میں گزشتہ سال وزیراعظم محمد نواز شریف نے ضلع تھرپارکر کا دورہ کیا اور غم زدہ تھری باشندوں کے زخموں پر مرہم رکھا، اس موقع پر ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس کی صدارت کی، جس میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ، وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید، صوبائی وزرا اور دیگر رہنما شامل تھے۔

اس موقع پر مسلم لیگ (ن) کے رہنما سید شاہ محمد شاہ نے وزیراعظم کو بتایا کہ جو رقم آپ امداد کے لیے سندھ حکومت کو دے رہے ہیں وہ امداد سندھ حکومت صحیح طریقے سے تقسیم نہیں کرے گی، اس لیے وفاق خود اس امداد کو تقسیم کرے۔ وزیراعظم محمد نواز شریف نے اپنے دورے کے دوران تھر کے غریب عوام کے لیے ایک ارب روپے کی امداد کا اعلان کیا۔ تادم تحریر تھر کے عوام کو 60 کروڑ روپے جاری کیے جاچکے ہیں اور امداد دینے کا یہ عمل ابھی جاری ہے، وزیراعظم کے دورے کے موقع پر پر تکلف کھانے کا اہتمام کیا گیا تھا مگر انھوں نے کھانا تناول کرنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ تھر کے عوام بھوک سے مر رہے ہیں ایسے میں مرغن کھانے نہیں کھا سکتا۔

پنجاب سے وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے بھی امدادی سامان سے بھری 50 سے زائد گاڑیاں تھر کے لیے بھیجی تھیں۔ تھر میں مختلف این جی اوز کی طرف سے امدادی کیمپ بھی لگائے گئے۔ اس کے علاوہ تھرپارکر میں پاک فوج نے بھی بڑھ چڑھ کر امدادی کام کیے، امدادی سامان کے علاوہ طبی کیمپ بھی لگائے گئے جو قابل تحسین امر ہے، جب کہ کئی مذہبی تنظیموں نے بھی امدادی کارروائیوں میں بھرپور حصہ لیا لیکن ابھی اس عمل کو جاری رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ حکومت سندھ نے امدادی کارروائیوں میں نواز لیگ کے حامیوں کو نظر انداز کردیا اور صرف پیپلز پارٹی کے جیالوں اور حامیوں کو نوازا گیا۔ تھر میں اس قسم کی شکایات عام ہیں۔

تھر میں میٹھے پانی کے لیے جو آر او پلانٹ لگائے گئے ہیں ان میں بڑے پیمانے پر کرپشن کی اطلاعات ہیں، جب کہ یہ پلانٹ کڑوے پانی کو اپنے مطلوبہ معیار اور گنجائش کے مطابق میٹھا نہیں بنا رہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت سندھ تھر کو پانی کی فراہمی اور بہتر طبی سہولتوں کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کرتی لیکن افسوس بتدریج اس مسئلے کو پس پشت ڈالا جارہا ہے، تھر میں آج بھی بچوں کی ہلاکت تواتر کے ساتھ ہو رہی ہیں، لیکن ایسا لگتا ہے کہ سندھ حکومت سب بھول چکی ہے۔ ہمیں اس قوم کے مستقبل کو اس طرح برباد نہیں کرنا چاہیے۔

میں ذاتی طور پر وزیراعظم محمد نواز شریف سے اپیل کروں گا کہ تھر تک پینے کے پانی کی بڑی پائپ لائن بچھانے سے پانی کا مسئلہ مستقل طور پر حل ہوسکتا ہے اور اسپتالوں کو جدید خطوط پر آراستہ کرنے کے لیے فوری احکامات جاری کریں اور ہوسکے تو ننگر پارکر میں وفاقی حکومت کی طرف سے ایک بڑا میڈیکل اسپتال تعمیر کروایا جائے۔ اگر پانی اور طبی سہولتیں وافر مقدار میں مہیا کردی جائیں تو تھر کے بیشتر مسائل پر قابو پایا جاسکتا ہے، یقیناً وزیراعظم محمد نواز شریف فوری طور پر تھر کے درد کو کم کرنے کے لیے کوئی اقدامات کریں گے۔ تھری باسیوں کو سندھ حکومت سے کوئی امید نہیں جب کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد صحت، تعلیم اور بنیادی سہولیات دینے کا اختیار صوبوں کے پاس ہے مگر سندھ حکومت اس ایشو پر کچھ نہیں کر سکی ہے، اس لیے اب تھر کے باسی وفاقی حکومت کی طرف دیکھ رہے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں