پاک چین راہداری کے دور رس اثرات سے پورا ملک استفادہ کرے گا
بلوچستان اور خیبر پختونخوا سمیت وفاق کی تمام اکائیوں کو بڑے پیمانے پر معاشی فوائد حاصل ہونگے
پاک چین اقتصادی راہداری (سی پی ای سی) ایک کثیر الجہتی منصوبہ ہے جس کے دور رس اثرات سے نہ صرف پورا ملک مستفید ہوگا بلکہ منصوبے کی تکمیل سے بلوچستان اور خیبر پختونخوا سمیت وفاق کی تمام اکائیوں کو بڑے پیمانے پر معاشی فوائد حاصل ہوں گے۔
اقتصادی راہداری کے منصوبے کا تصور 2013 میں چین کے صدر ژی جنگ پنگ نے''ون بیلٹ اینڈ روڈ'' کے تصور کے تحت پیش کیا تھا جس کا مقصد چین کے ہمسایہ ممالک کے ساتھ روابط کا فروغ اور انسانی زندگی کی بہتری تھا۔ سی پی ای سی کے ساتھ کام کرنے والے قریبی ذرائع نے اتوار کو منصوبے کی اہمیت و افادیت کے حوالے سے اے پی پی کو بتایا کہ اقتصادی راہداری صرف ایک سڑک یا ہائی وے نہیں ہے بلکہ یہ مختلف اقدامات اور کئی منصوبوں پر مشتمل ہے جس میں گوادر بندر گاہ، توانائی، ٹرانسپورٹیشن اور بنیادی ڈھانچے کے شعبوں کے کئی منصوبے شامل ہیں۔ منصوبے کی تکمیل سے ملک کی اقتصادی ترقی و خوشخالی کو یقینی بنایا جا سکے گا۔
ذرائع نے کہا کہ سی پی ای سی کے تحت راہداری کی تعمیر کے منصوبے کے حوالے سے پاکستان اور چین کی حکومتوں میں باہمی اتفاق رائے موجود ہے اور دنوں حکومتوں کے اتفاق رائے سے پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے کے تحت ٹرانسپورٹ کے بنیادی ڈھانچے کے حوالے سے مشترکہ ورکنگ گروپ تشکیل دیا گیا ہے۔ سی پی ای سی کو محدود وسائل کے باعث مرحلہ وار تعمیر کیا جائے گا تاہم منصوبے کی تکمیل کے سلسلے میں باہمی نقطہ نظر انتہائی واضح ہے جس کے تحت طویل عرصے کے لیے فوائد کے حصول کی منصوبہ بندی اور اس کی جلد تکمیل ہے۔
اقتصادی راہداری کے منصوبے کے لیے مرتب کی گئی موجودہ حکمت عملی کو جامع فزیبیلیٹی رپورٹ کے بعد تیار کیا گیا ہے اور اس سے پاکستان کو بہت زیادہ فوائد حاصل ہوں گے۔ ذرائع نے مزید کہا کہ یہی وجہ ہے کہ فریقین نے قراقرم ہائی وے کے فیز 2، ملتان اور سکھر کے درمیان ہائی وے کی تعمیر اور توانائی کے مختلف منصوبوں سمیت دیگر منصوبے شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان منصوبوں سے فوائد کے جلد از جلد حصول کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ان سے باہمی تعاون کو مزید فروغ حاصل ہوگا اور اس سے خوشگوار تجربات حاصل ہوں گے اور مستقبل کے باہمی تعاون میں بھی وسعت پیدا ہوگی۔
پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے کی تعمیر کا مقصد ملک کے عوام کیلیے فوائد کا حصول ہے اور بالخصوص بلوچستان اور خیبر پختونخوا بھی اس منصوبے سے خصوصی طور پر مستفید ہوں گے۔ ذرائع نے توقع ظاہر کی ہے کہ اقتصادی راہداری کے اس جامع منصوبے کے تحت بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے کئی بڑے منصوبے بھی شامل ہیں جن میں سے بلوچستان میں گوادر بندر گاہ کے منصوبے پر کام جاری ہے جس میں ایسٹ بے پر ایکسپریس وے اور بین الاقوامی ایئرپورٹ کی تعمیر بھی شامل ہیں جبکہ خیبر پختونخوا میں قراقرم ہائی وے کے دوسرے مرحلے میں اعلیٰ درجے کی سڑک کی تعمیر کا منصوبہ بھی شامل ہے۔
مین لائن ون کی اپ گریڈیشن اور حویلیاں میں ڈرائی پورٹ کے منصوبوں کی فزیبیلٹی رپورٹس پر کام کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان اور چین نے مشترکہ طور پر گومل زام ڈیم، خان خاور ہائیڈرو پاور پروجیکٹ اور ڈبرخاور ہائیڈرو پاور اسٹیشن کے منصوبے کامیابی سے تعمیر کیے ہیں۔ تربیلا ڈیم فیز 4 پر تعمیراتی کام جاری ہے اور سکی کناری ہائیڈرو پاور اسٹیشن اور کیال خاور ہائیڈرو پاور اسٹیشن بھی تعمیر کیے جائیں گے۔ ذرائع نے کہا کہ زیر تعیر توانائی کے منصوبوں سے9000 میگا واٹ سے زائد بجلی کی پیداوار حاصل ہوگی جس سے ملک میں توانائی کی قلت پر قابو پانے میں مدد ملے گی اور اس سے مقامی افراد کو زبردست معاشی فوائد حاصل ہوں گے۔
اقتصادی راہداری منصوبے سے چھوٹی، درمیانی اور لمبی مدت کیلیے فوائد حاصل ہوں گے جن سے اس خطے میں خوشحالی اور اقتصادی استحکام آئے گا۔ اقتصادی راہداری کے اجتماعی منصوبے کے ایک حصے کے طور پر پاکستان میں صنعتی زونز بھی قائم کیے جائیں گے جس سے معیشت کے مختلف شعبوں میں ترقیاتی عمل میں تیزی آئے گی۔ ذرائع نے کہا کہ منصوبے کی تکمیل سے پاکستان میں ماحولیات اور آب و ہوا پر بھی خوشگوار اثرات مرتب ہوں گے اور اس سے پاکستان میں قومی یکجہتی کو فروغ اور استحکام حاصل ہوگا۔ اقتصادی راہداری کا منصوبہ کاشغر، ژینگ جیانگ اور پاکستان بھر سے ہوتا ہوا آخر میں جنوبی بندرگاہ گوارد تک جائیگا۔
اقتصادی راہداری کے بڑے منصوبے سے پاکستان کے بڑے شہر اور کثیر آبادی مستفید ہوگی جس میں توانائی، ٹرانسپورٹ کے بنیادی ڈھانچے اور اقتصادی زونز کی تعمیر کے کئی منصوبے شامل ہیں۔ ان منصوبوں کی تعمیر سے سازو سامان، معلومات اور دیگر وسائل کی ترسیل کو فروغ حاصل ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ راہداری کے منصوبے سے تعاون میں اضافے کے نئے مواقع پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ توانائی اور نقل و حمل کے بنیادی ڈھانچے کے شعبوں میں بھی کئی نئے منصوبے بھی شامل ہونگے اور ان سے دونوں ممالک کے عوام کیلیے روز گار کے وسیع نئے مواقع پیدا ہونگے۔
پاکستان اور چین نے اقتصادی راہداری کی طویل المدتی منصوبہ بندی کیلیے جوائنٹ کوآپریشن کمیٹی تشکیل دی ہے جس میں توانائی، ٹرانسپورٹ کے بنیادی ڈھانچے اور جامع منصوبہ بندی کے تین ورکنگ گروپ بھی شامل ہیں۔ کمیٹی کے اب تک تین اجلاس ہو چکے ہیں اور فریقین اب تک اقتصادی راہداری کے منصوبے کی پلاننگ اور تعمیر کے حوالے سے بعض بنیادی معاملات پر اتفاق کر چکے ہیں، باہمی مفاہمت کا عمل دو طرفہ مشاورت اور مذاکرات سے مکمل کیا گیا ہے۔
اقتصادی راہداری کے منصوبے کا تصور 2013 میں چین کے صدر ژی جنگ پنگ نے''ون بیلٹ اینڈ روڈ'' کے تصور کے تحت پیش کیا تھا جس کا مقصد چین کے ہمسایہ ممالک کے ساتھ روابط کا فروغ اور انسانی زندگی کی بہتری تھا۔ سی پی ای سی کے ساتھ کام کرنے والے قریبی ذرائع نے اتوار کو منصوبے کی اہمیت و افادیت کے حوالے سے اے پی پی کو بتایا کہ اقتصادی راہداری صرف ایک سڑک یا ہائی وے نہیں ہے بلکہ یہ مختلف اقدامات اور کئی منصوبوں پر مشتمل ہے جس میں گوادر بندر گاہ، توانائی، ٹرانسپورٹیشن اور بنیادی ڈھانچے کے شعبوں کے کئی منصوبے شامل ہیں۔ منصوبے کی تکمیل سے ملک کی اقتصادی ترقی و خوشخالی کو یقینی بنایا جا سکے گا۔
ذرائع نے کہا کہ سی پی ای سی کے تحت راہداری کی تعمیر کے منصوبے کے حوالے سے پاکستان اور چین کی حکومتوں میں باہمی اتفاق رائے موجود ہے اور دنوں حکومتوں کے اتفاق رائے سے پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے کے تحت ٹرانسپورٹ کے بنیادی ڈھانچے کے حوالے سے مشترکہ ورکنگ گروپ تشکیل دیا گیا ہے۔ سی پی ای سی کو محدود وسائل کے باعث مرحلہ وار تعمیر کیا جائے گا تاہم منصوبے کی تکمیل کے سلسلے میں باہمی نقطہ نظر انتہائی واضح ہے جس کے تحت طویل عرصے کے لیے فوائد کے حصول کی منصوبہ بندی اور اس کی جلد تکمیل ہے۔
اقتصادی راہداری کے منصوبے کے لیے مرتب کی گئی موجودہ حکمت عملی کو جامع فزیبیلیٹی رپورٹ کے بعد تیار کیا گیا ہے اور اس سے پاکستان کو بہت زیادہ فوائد حاصل ہوں گے۔ ذرائع نے مزید کہا کہ یہی وجہ ہے کہ فریقین نے قراقرم ہائی وے کے فیز 2، ملتان اور سکھر کے درمیان ہائی وے کی تعمیر اور توانائی کے مختلف منصوبوں سمیت دیگر منصوبے شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان منصوبوں سے فوائد کے جلد از جلد حصول کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ان سے باہمی تعاون کو مزید فروغ حاصل ہوگا اور اس سے خوشگوار تجربات حاصل ہوں گے اور مستقبل کے باہمی تعاون میں بھی وسعت پیدا ہوگی۔
پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے کی تعمیر کا مقصد ملک کے عوام کیلیے فوائد کا حصول ہے اور بالخصوص بلوچستان اور خیبر پختونخوا بھی اس منصوبے سے خصوصی طور پر مستفید ہوں گے۔ ذرائع نے توقع ظاہر کی ہے کہ اقتصادی راہداری کے اس جامع منصوبے کے تحت بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے کئی بڑے منصوبے بھی شامل ہیں جن میں سے بلوچستان میں گوادر بندر گاہ کے منصوبے پر کام جاری ہے جس میں ایسٹ بے پر ایکسپریس وے اور بین الاقوامی ایئرپورٹ کی تعمیر بھی شامل ہیں جبکہ خیبر پختونخوا میں قراقرم ہائی وے کے دوسرے مرحلے میں اعلیٰ درجے کی سڑک کی تعمیر کا منصوبہ بھی شامل ہے۔
مین لائن ون کی اپ گریڈیشن اور حویلیاں میں ڈرائی پورٹ کے منصوبوں کی فزیبیلٹی رپورٹس پر کام کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان اور چین نے مشترکہ طور پر گومل زام ڈیم، خان خاور ہائیڈرو پاور پروجیکٹ اور ڈبرخاور ہائیڈرو پاور اسٹیشن کے منصوبے کامیابی سے تعمیر کیے ہیں۔ تربیلا ڈیم فیز 4 پر تعمیراتی کام جاری ہے اور سکی کناری ہائیڈرو پاور اسٹیشن اور کیال خاور ہائیڈرو پاور اسٹیشن بھی تعمیر کیے جائیں گے۔ ذرائع نے کہا کہ زیر تعیر توانائی کے منصوبوں سے9000 میگا واٹ سے زائد بجلی کی پیداوار حاصل ہوگی جس سے ملک میں توانائی کی قلت پر قابو پانے میں مدد ملے گی اور اس سے مقامی افراد کو زبردست معاشی فوائد حاصل ہوں گے۔
اقتصادی راہداری منصوبے سے چھوٹی، درمیانی اور لمبی مدت کیلیے فوائد حاصل ہوں گے جن سے اس خطے میں خوشحالی اور اقتصادی استحکام آئے گا۔ اقتصادی راہداری کے اجتماعی منصوبے کے ایک حصے کے طور پر پاکستان میں صنعتی زونز بھی قائم کیے جائیں گے جس سے معیشت کے مختلف شعبوں میں ترقیاتی عمل میں تیزی آئے گی۔ ذرائع نے کہا کہ منصوبے کی تکمیل سے پاکستان میں ماحولیات اور آب و ہوا پر بھی خوشگوار اثرات مرتب ہوں گے اور اس سے پاکستان میں قومی یکجہتی کو فروغ اور استحکام حاصل ہوگا۔ اقتصادی راہداری کا منصوبہ کاشغر، ژینگ جیانگ اور پاکستان بھر سے ہوتا ہوا آخر میں جنوبی بندرگاہ گوارد تک جائیگا۔
اقتصادی راہداری کے بڑے منصوبے سے پاکستان کے بڑے شہر اور کثیر آبادی مستفید ہوگی جس میں توانائی، ٹرانسپورٹ کے بنیادی ڈھانچے اور اقتصادی زونز کی تعمیر کے کئی منصوبے شامل ہیں۔ ان منصوبوں کی تعمیر سے سازو سامان، معلومات اور دیگر وسائل کی ترسیل کو فروغ حاصل ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ راہداری کے منصوبے سے تعاون میں اضافے کے نئے مواقع پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ توانائی اور نقل و حمل کے بنیادی ڈھانچے کے شعبوں میں بھی کئی نئے منصوبے بھی شامل ہونگے اور ان سے دونوں ممالک کے عوام کیلیے روز گار کے وسیع نئے مواقع پیدا ہونگے۔
پاکستان اور چین نے اقتصادی راہداری کی طویل المدتی منصوبہ بندی کیلیے جوائنٹ کوآپریشن کمیٹی تشکیل دی ہے جس میں توانائی، ٹرانسپورٹ کے بنیادی ڈھانچے اور جامع منصوبہ بندی کے تین ورکنگ گروپ بھی شامل ہیں۔ کمیٹی کے اب تک تین اجلاس ہو چکے ہیں اور فریقین اب تک اقتصادی راہداری کے منصوبے کی پلاننگ اور تعمیر کے حوالے سے بعض بنیادی معاملات پر اتفاق کر چکے ہیں، باہمی مفاہمت کا عمل دو طرفہ مشاورت اور مذاکرات سے مکمل کیا گیا ہے۔