پاک افغان تعلقات کی نئی لہر
پاکستان اور چین کی مخلصانہ کوشش ہے کہ افغانستان کی حکومت اور افغان طالبان مذاکرات کی میز پر آکر بیٹھیں
اگرچہ پاکستان اور افغانستان دونوں انتہائی قریبی پڑوسی ممالک ہیں اور دونوں ہی مذہب اور ثقافت کے اٹوٹ بندھنوں میں بندھے ہوئے ہیں لیکن اس تلخ ترین تاریخی حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ قیام پاکستان کے وقت سے ہی دونوں ممالک کے تعلقات باہمی کشیدگی اور مخاصمت و مخالفت سے عبارت ہیں۔
انتہا تو یہ ہے کہ افغانستان دنیا کا وہ واحد ملک تھا جس نے مسلم ملک ہونے کے باوجود اسلامی اخوت اور بھائی چارے کے بنیادی رشتے کو شدت کے ساتھ نظر انداز کرتے ہوئے بہت دیر کے بعد اور بڑی مشکل سے پاکستان کے وجود کو تسلیم کیا تھا۔ دراصل اس کے قصور وار افغان عوام نہیں بلکہ ماضی کے وہ حکمران تھے جو پاکستان دشمن قوتوں خصوصاً بھارت اور بھارتی لابی کے اشاروں پر ناچ رہے تھے۔ اس وقت ہماری آنکھوں کے سامنے ہندوستان کی راجدھانی کے دو ایسے مناظر گھوم رہے ہیں۔
جنھیں ہم لاکھ چاہنے کے باوجود بھی فراموش نہیں کرسکتے۔ ایک وہ منظر جب افغان حکمران ظاہر شاہ اور سردار داؤد نے پہلی مرتبہ بھارت کا دورہ کیا تھا اور دلی کے رام لیلا گراؤنڈ میں ان دونوں افغان رہنماؤں کا پرزور سواگت کیا گیا تھا۔ ہندوستان کے اولین وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو (آنجہانی) بہ نفس نفیس افغان قائدین کے استقبال کے لیے اسٹیج پر براجمان تھے اور افغان حکمران ان سے گلے لگ لگ کر ملتے ہوئے پھولے نہیں سمارہے تھے۔
دوسرا منظر وہ تھا جب بادشاہ خان نے بھارتی قیادت کی دعوت پر دلی کا دورہ کیا تھا اور دارالخلافہ کے مشہور و معروف تاریخی علاقے چاندنی چوک میں واقع ٹاؤن ہال میں سرحدی گاندھی کے سواگت کا زبردست اہتمام کیا گیا تھا۔ یہی نہیں بلکہ بادشاہ خان کی خدمت میں نذرانے کے طور پر ایک لاکھ روپے کی تھیلی بھی پیش کی گئی تھی۔
جس کے بھارتی میڈیا میں ایک طویل عرصے تک بڑے زور و شور کے ساتھ چرچے بھی ہوتے رہے تھے۔ پاکستان سے علیحدگی کی تحریک کے پس پشت بھی بھارتی قیادت کا ہی ہاتھ تھا اور آزاد پختونستان کا شوشہ بھی بھارت ہی کا چھوڑا ہوا تھا جس کی وجہ سے بڑی گمراہی پھیلی اور اس کے نتیجے میں پاکستان کے لیے خواہ مخواہ کے مسائل پیدا ہوئے جن کا احاطہ اس مختصر سے کالم میں کرنا ممکن نہیں ہے۔
سچی اور کھری بات یہ ہے کہ افغانستان کے کٹھ پتلی حکمرانوں کی وجہ سے پاکستان اور افغانستان کے باہمی تعلقات ماضی میں کشیدہ ہی رہے تا آنکہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کا قیام عمل میں آیا۔ ہر چند کہ عرصہ انتہائی مختصر تھا لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ یہ پہلا موقع تھا جب دونوں برادر اسلامی ممالک یک جان اور قالب کی طرح ایک دوسرے کے انتہائی قریب آگئے تھے اور تزویراتی گہرائی Strategic Depth کے نظریے نے عملی روپ دھارا تھا۔
یہ دور چار دن کی چاندنی ثابت ہوا جس کے بعد کرزئی حکومت کے آتے ہی دونوں ممالک کے درمیان تاریکیوں کا ایک اور دور شروع ہوگیا، ماضی کے افغان حکمرانوں کی طرح افغانستان کے صدر حامد کرزئی بھی بھارتی حکمرانوں کے آلہ کار ثابت ہوئے بعض موقعوں پر اور بعض معاملات میں تو انھوں نے بھارت نواز اپنے سابقہ افغان ہم منصبوں کو بھی مات کردیا۔ پاکستان کی قیادت نے بڑے جتن کیے اور صدر کرزئی کو راہ راست پر لانے کے لیے اپنی آنکھیں فرش راہ بھی کیں لیکن کرزئی صاحب نے کھایا پاکستان کا اور گایا ہندوستان کا۔
جب سے افغانستان میں قیادت کی تبدیلی آئی ہے اور صدر اشرف غنی نے عنان حکومت سنبھالی ہے تب سے پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں مسلسل بہتری کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا ہے جسے اگر پاک افغان تعلقات کی نئی لہر کہا جائے تو کوئی مبالغہ نہ ہوگا۔ صدر اشرف غنی اور سابق صدر حامد کرزئی کی سوچ میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ صدر اشرف غنی صحیح معنوں میں ایک مخلص وطن دوست اور حقیقت پسندافغان قائد ہیں جو رعونت آمیز نعرہ بازی Dogmatism کی پالیسی سے ہٹ کر عملیت پسندی Pragmatism کی اپروچ پر یقین رکھتے ہیں، وہ دانا بھی ہیں اور دور اندیش بھی۔
انھیں اس حقیقت کا ادراک ہے کہ ایک برادر پڑوسی ملک کی حیثیت سے افغانستان کے لیے پاکستان کی کتنی زیادہ اہمیت ہے وہ افغانستان کے سابق حکمرانوں کی غلطیوں سے نہ صرف پوری طرح آگاہ ہیں بلکہ ان غلطیوں کو نہ دہرانے کے بارے میں پوری طرح محتاط بھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے افغانستان کے سابق حکمرانوں کی غلطیوں سے سبق حاصل کرکے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینے کے ایک نئے اور سنہری دور کا آغاز کیا ہے۔
اسی لیے تو انھوں نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہاہے کہ پاکستان نے گزشتہ عرصے میں امن و مصالحت کی راہ ہموار کرنے کے لیے جو کوششیں کی ہیں وہ قابل ستائش ہیں اور ہم پاکستان کے اس بیان کا بھی خیر مقدم کرتے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ افغانستان کے دشمن کو پاکستان کا دشمن سمجھا جائے گا۔ صدر اشرف غنی نے اس بات کو بھی ببانگ دہل تسلیم کیا ہے کہ بعض عناصر تعلیم،امن کے خلاف ہیں، اس لیے وہ عوام کو الجھاؤ اور بے چینی میں مبتلا کرنے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں۔
پس وقت اور حالات نے ثابت کردیا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان فساد کی جڑ ماضی کی افغان قیادت ہی تھی جس کی تبدیلی کے بعد دونوں برادر ممالک کشیدگی کی دلدل سے نکل کر ہم آہنگی اور دوستی کی شاہراہ پر گامزن ہوئے ہیں۔ دونوں ممالک کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے جب سیاسی وفودہی کا نہیں فوجی وفود کی بھی تیزی کے ساتھ تبادلہ ہورہاہے اور افغان نیشنل آرمی کے کیڈٹس ملٹری اکیڈمی کا کول میں تربیت حاصل کرنے کے لیے پاکستان آئے ہیں۔
پاکستان اور چین کی مخلصانہ کوشش ہے کہ افغانستان کی حکومت اور افغان طالبان مذاکرات کی میز پر آکر بیٹھیں تاکہ افغانستان میں سیاسی کشمکش اپنے انجام کو پہنچے اور قیام امن کے بعد افغانستان تعمیر نو اور ترقی کی شاہراہ پر تیزی کے ساتھ گامزن ہوجائے۔ ہمیں یقین ہے کہ بھارتی قیادت کے پیٹ میں اس نئی صورت حال کی وجہ سے مروڑ اٹھ رہے ہوں گے۔ جو کبھی بھی یہ نہیں چاہے گی کہ پاکستان اور افغانستان کے باہمی تعلقات وسیع اور مستحکم ہوں۔
وہ یقینا ہر حربہ آزمائے گی اور ہر روڑہ اٹکائے گی لیکن ہمیں پورا یقین ہے کہ افغانستان کی موجودہ قیادت اب بھارت کے کسی بھی جال اور چال میں نہیں پھنسے گی۔گزشتہ چند ماہ کے عرصے میں افغانستان میں بعض ایسی اہم تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں جنھوں نے دیکھتے ہی دیکھتے افغانستان کا نقشہ پلٹ رہا ہے ان میں ایک انتہائی قابل توجہ تبدیلی صدر اشرف غنی کا یہ عزم صمیم ہے کہ وہ افغانستان کو اقتصادی ترقی کی ایک نئی شاہراہ پر تیزی سے گامزن دیکھنا چاہتے ہیں جس کی خاطر انھوں نے پاکستان کی جانب دوستی کا ہاتھ اور دست تعاون بڑھایا ہے۔
یہ امر نہایت خوش آیند ہے کہ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت نے بھی اس کا بھرپور انداز میں مثبت جواب دیا ہے پاکستان کا اس سے بڑھ کر مثبت رویہ بھلا اور کیا ہوگا کہ وہ افغانستان کی ایسی مشکل وقت میں مالی امداد کرنا چاہتا ہے جب کہ وہ خود اقتصادی مسائل سے نبرد آزما ہے۔اقتصادی میدان میں پاک افغان تعاون کو فروغ دینے کی کوئی حد نہیں ہے۔ پاکستان نہ صرف افغانستان کو راہداری کی سہولت فراہم کررہاہے بلکہ وہ اس کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر بھی ہے کیوں کہ افغانستان کے لیے اس کے مال اور خدمات کا برآمداتی حجم 3بلین ڈالر کے لگ بھگ ہے کراچی کی بندرگاہ افغانستان کی در آمدات کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ دونوں ممالک کے تاجروں کے لیے باہمی اشتراک و تعاون کے وسیع مواقع اور امکانات موجود ہیں۔
یہ بات انتہائی اہم اور قابل توجہ ہے کہ صدر اشرف غنی نے حال ہی میں افغانستان میں پاکستانی سرمایہ کاروں کے لیے انڈسٹریل زونز کے قیام کا اعلان بھی کیا تھا۔ پاکستانی سرمایہ کاروں کو اس سنہری موقعے سے خاطر خواہ فائدہ اٹھانا چاہیے۔ انڈسٹریل زونز کے قیام کے علاوہ افغانستان کی نئی حکومت کی جانب سے پاکستانی سرمایہ کاروں کو تعمیرات، فوڈ پروسیسنگ اور ریٹیل کے شعبوں میں بھی سرمایہ کاری کی پیشکش کی گئی ہے اگر دونوں ممالک کے درمیان آزادانہ تجارت کے معاہدے طے پا جائیں تو پھر غیر قانونی اور ناجائز کاروبار کا بھی خاتمہ ممکن ہوسکتا ہے۔
ہمارے افغان بھائیوں نے گزشتہ35 سال کے عرصے میں بڑی صعوبتیں برداشت کی ہیں اور ہم نے بھی ان حالات کا خمیازہ خوب بھگتا ہے اور ابھی تک بھگت رہے ہیں۔ لہٰذا اب دونوں ممالک کو ہوش کے ناخن لینے ہوں گے اور دونوں طرف کی قیادت کو اخلاص نیت کے ساتھ اور ہر طرح کے شکوک و شبہات اور مصلحتوں سے بالاتر ہوکر دونوں ممالک کے مستحکم اور روشن مستقبل کے لیے مکمل تعاون کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔