آزاد کشمیر میں تحریکِ انصاف کی سونامی

اس نمایاں تبدیلی سے آزاد کشمیر میں پی ٹی آئی کو استحکام بھی ملا ہے اور پھیلاؤ بھی۔

tanveer.qaisar@express.com.pk

پاکستان کے بہت سے لوگوں کو یہ رنج اور شکایت ہے کہ بھارت کی کئی سیاسی جماعتیں، از قسم ''کانگریس'' اور ''بی جے پی'' مقبوضہ کشمیر کی سیاست اور اقتدار میں حصہ دار بننے کی کیوں کوششیں کرتی ہیں؟ حالانکہ مقبوضہ کشمیر کی مقامی سیاسی جماعتیں (مثلاً مسلم کانفرنس اور پی ڈی پی وغیرہ) اپنے سیاسی اور اقتداری معاملات نمٹا رہی ہیں۔

یہ شکوہ اپنی جگہ درست ہے مگر جب یہ منظر سامنے آتا ہے کہ آزاد کشمیر کی سیاست میں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی ایسی پاکستانی سیاسی جماعتیں اپنے ونگز بنا اور پاؤں پھیلا رہی ہیں تو مقبوضہ کشمیر کے ریفرنس میں بھارت سے رنج اور شکایت تحلیل سی ہوجاتی ہے۔ آزاد کشمیر کی سیاست میں ''پاکستان تحریکِ انصاف'' (پی ٹی آئی) کا داخلہ ایک نیا منظر نامہ پیش کررہا ہے۔

اگر کراچی سے آکر ایم کیو ایم بھی آزاد کشمیر کی سیاست اور اقتدار سے اپنا ''حصہ'' وصول کرسکتی ہے تو پی ٹی آئی یہ کمالات کیوں نہیں دکھا سکتی؟ آزاد کشمیر میں پی ٹی آئی کے ابھرنے اور پھیلنے سے مگر زیادہ نقصان مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کو پہنچ رہا ہے۔ لاریب اس آزاد خطے میں عمران خان کی آمد سے نواز شریف اور آصف زرداری کی پارٹیاں قدرے سمٹتی ہوئی محسوس ہورہی ہیں اور یہ غالباً اس لیے ہوا ہے کہ پاکستان کی مقتدرانہ سیاست کا میدان غرور، انا اور جھوٹے عناصر سے اَٹ گیا ہے۔

مسندِ اقتدار پر اطمینان سے اور ہلکے پھلکے ہوکر بیٹھنا چاہیے تھا لیکن اس کے برعکس مقتدر افراد اکڑ کر اور تن کر بیٹھے۔ عوام کو یہ اسلوبِ سیاست ہر گز پسند نہیں۔ آزاد کشمیر میں اس اندازِ سیاست کا شدید ردعمل پیدا ہوا ہے۔ پیدا ہونے والے تازہ خلا کو پی ٹی آئی پُر کرتی نظر آرہی ہے۔ اس کا اوّلین اور متاثر کن مظاہرہ اس وقت سامنے آیا جب آزاد کشمیر کے ممتاز و معروف سیاستدان بیرسٹر سلطان محمود چند ہفتے قبل بڑے ہی دھماکا خیز طریقے سے پی ٹی آئی میں شامل ہوئے۔

وہ آزاد کشمیر کے وزیراعظم بھی رہے ہیں، پانچ برس اپوزیشن لیڈر بھی اور پیپلز پارٹی کے دھانسو صدر بھی۔ اسلام آباد کے غیر ملکی خصوصاً مغربی سفارتی حلقوں میں ان کی گہری جان پہچان ہے۔ ان کی بات کو گوشِ ہوش سے سنا اور وزن دیا جاتا ہے۔ بیرسٹر سلطان محمود کا پیپلز پارٹی اور جناب آصف زرداری سے ناتہ توڑنے کا مطلب یہ ہے کہ آزاد کشمیر میں کئی بار اقتدار کے مزے لوٹنے والی پیپلز پارٹی کو گہرا ڈنٹ پڑا ہے۔

اس نمایاں تبدیلی سے آزاد کشمیر میں پی ٹی آئی کو استحکام بھی ملا ہے اور پھیلاؤ بھی۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ یہ بدلتا ہوا منظر نامہ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کو آسانی سے ہضم نہیں ہورہا۔ چنانچہ بعض اطراف سے بعض کھسیانوں نے یہ کہہ کر اپنا کلیجہ ٹھنڈا کرنے کی بھی کوشش کی ہے کہ سلطان محمود ایسا شخص جو سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کی ''لمبی چوڑی تاریخ'' رکھتا ہو، کسی کے لیے مفید ثابت ہو سکتا ہے نہ نقصان دہ۔


ایک حیران کُن اور ششدر انگیز مظاہرہ 22فروری 2015ء کو ہوا ہے جب بیرسٹر سلطان محمود کی قیادت اور موجودگی میں آزاد کشمیر کے تقریباً چار درجن سے زائد معروف اور مشہور سیاستدانوں نے پی ٹی آئی میں شامل ہونے کا خوشی خوشی اعلان کیا۔ اسلام آباد میں برپا ہونے والی اس تقریب میں عمران خان شریک تھے اور ان کے کئی قریبی ساتھی بھی۔ مثلاً جہانگیر ترین، اعجاز چوہدری، سرور خان وغیرہ۔ کپتان کا چہرہ خوشی اور مسرت سے دمک رہا تھا۔

جناب سلطان محمود کے توسط اور کوششوں سے آزاد کشمیر کی سیاست کے جتنے بھی لوگ پی ٹی آئی میں شامل ہوئے ہیں، نوواردانِ سیاست نہیں ۔ زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہے جو آزاد کشمیر کی کئی حکومتوں میں وزیر اور مشیر رہے ہیں۔ جو نہیں رہے ان میں زیادہ تر بہرحال وہ ہیں جو کبھی نہ کبھی آزاد کشمیر اسمبلی کے رکن رہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آزاد کشمیر کے طول و عرض میں یہ سب چہرے عوام کے شناسا ہیں اور ان کے مثبت و منفی اقدامات سے آزاد کشمیر کے جملہ ووٹرز آگاہ بھی۔

یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ آزاد کشمیر کی تجربہ کار اور تربیت یافتہ سیاسی قیادت نے قطار در قطار عمران خان اور پی ٹی آئی کا دامن تھام لیا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ سیاستدان، خواہ وہ پاکستان کے ہوں یا آزاد کشمیر کے، گیلی جگہ پر پاؤں نہیں رکھتے۔ وہ اپنے مفادات اور مستقبل کو ہمیشہ پیشِ نگاہ رکھتے ہیں؛ چنانچہ کہا جاسکتا ہے کہ پی ٹی آئی میں شامل ہونے والے آزاد کشمیر کے ان سیاست کاروں کو کپتان کی قیادت میں اپنا سیاسی مستقبل زیادہ بہتر انداز میں محفوظ نظر آرہا ہے۔

شامل ہونے والوں میں مسلم لیگ نون کے لوگ بھی ہیں اور پی پی پی کے بھی۔ پیپلز پارٹی جو اندرونی انتشار کا شکار ہے اور جو پہلے ہی پنجاب میں (مئی 2013ء کے عام انتخابات کی وجہ سے) کارنر ہوچکی ہے، اس نئی افتاد سے مزید خسارے میں چلی گئی ہے۔ یہ جناب آصف زرداری اور محترمہ فریال کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے۔ پی ٹی آئی میں شامل ہونے والے آزد کشمیر کے ان سیاستدانوں کا پیپلز پارٹی کی قیادت پر عدم اعتماد ایک غیر معمولی تبدیلی قرار دی جارہی ہے۔ اس تبدیلی سے پاکستان تحریکِ انصاف، اس کی قیادت اور پی ٹی آئی کے وابستگان کے حوصلے یقینا بلند ہوئے ہیں۔

جناب عمران خان اس اہم تبدیلی اور آزاد کشمیر میں پی ٹی آئی کے اس پھیلاؤ سے کیسے اور کیونکر مستفید ہوسکیں گے، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن انھوں نے جس مستحکم لہجے میں آزاد کشمیر کے بعض ضمنی انتخابات میں بھرپور انداز میں حصہ لینے، بلدیاتی انتخابات کے انعقاد، اقتدار کو عام آدمی کی دہلیز پر پہنچانے اور گلگت بلتستان میں نواز شریف کی سیاست کو محدود تر کرنے کا اعلان کیا ہے، اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جلد ہی آزاد کشمیر کے میدانوں اور پہاڑوں میں مسلم لیگ نون اور پی ٹی آئی کانئے سرے سے یُدھ پڑنے والا ہے جس میں بیرسٹر سلطان محمود کی قائدانہ صلاحیتوں کی بھی نئے سرے سے آزمائش ہوگی۔ سلطان محمود آزاد کشمیر میں اور بیرونِ پاکستان پی ٹی آئی کا زبردست اثاثہ ثابت ہوسکتے ہیں ۔

یہاں یہ فرق بھی ملحوظِ خاطر رکھنا چاہیے کہ سلطان محمود پنجاب کے سابق گورنر چوہدری محمد سرور کے مصداق نہیں ہیں۔ یہ تو کہا جاسکتا ہے کہ ممکن ہے سلطان محمود کی پی ٹی آئی میں شمولیت میں چوہدری سرور کا بھی کوئی تعاونی ہاتھ ہو کہ دونوں لندن اور گلاسگو وغیرہ میں ہم مجلس رہے ہیں لیکن سلطان محمود کئی اعتبار سے چوہدری سرور سے ممتاز حیثیت کے حامل ہیں۔ بیرسٹر صاحب کا اپنا مخصوص اور مضبوط حلقہ انتخاب موجود ہے اور ان کے بہت سے سیاسی پیروکار بھی ہیں جب کہ چوہدری محمد سرور، جنہوں نے پنجاب کی گورنری سے مستعفی ہونے کے بعد پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی ہے، کا ملک بھر میں کوئی حلقہ پنچائیت ہے نہ معروف معنوں میں ان کے سیاسی پیروکار۔ یہ درست ہے کہ برطانوی سیاست میں انھوں نے ممتاز حیثیت حاصل کی اور برطانوی دارالعوام کا منتخب رکن ہونے کے ناتے وہ برطانوی اقتدار کے شریک کار بھی رہے لیکن پاکستان خصوصاً پنجاب کی مروّجہ اور دھڑے بندی کی سیاست میں انھیں کوئی مقام حاصل کرنے کے لیے سخت محنت کرنا پڑے گی۔

چنانچہ آزاد کشمیر کی سیاست میں جو مقام بیرسٹر سلطان محمود کو حاصل ہے، چوہدری سرور ایسے مرتبے سے فی الحال محروم ہیں۔ سلطان محمود اور ان کے توسط و تعاون سے آزاد کشمیر کی سیاست میں چار درجن کے قریب سیاستدانوں کا پی ٹی آئی میں شریک ہونا عمران خان کی ایک بڑی فتح ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ کپتان نے اسلام آباد کے دھرنا میں جو سو سے زائد پُر آزمائش دن گزارے، وہ فی الحقیقت رائیگاں نہیں گئے۔
Load Next Story