جاوید میانداد اور ٹریفک کانسٹیبل دست وگریباں
حقیقت میں یہ مقابلے کہاں ایک ایسی تیسری عالمی جنگ کا منظر نامہ ہے
عالمی کرکٹ ٹورنامنٹ کے اعصاب شکن مقابلے جاری ہیں ۔حقیقت میں یہ مقابلے کہاں ایک ایسی تیسری عالمی جنگ کا منظر نامہ ہے جس میں ہماری قومی ٹیم کو شاید آسٹریلیا میں جاری اس ورلڈ کپ میں کسی واٹرلو(نپولین جیسی بدترین شکست) کا سامنا ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ زمبابوے کو پاکستانی ٹیم نے 20 رنز سے ہرا کر پہلی کامیابی کا مزہ چکھ لیا۔
اسپورٹس مین شپ کی تسلیم شدہ عالمگیریت کے پس منظر میں ہماری قومی کرکٹ ٹیم کا بھارت اور ویسٹ انڈیزسے شکست کھانا جذبات کے جس تلاطم خیز طوفان کا نظارہ پیش کررہا ہے اس پر بہن زاہدہ حنا کا گزشتہ اتوار کا کالم ایک گریٹ کتھارسیس کے زمرہ کا شاہکار تجزیہ ہے۔ ایسی مہیب اور جگر سوز بھڑاس کا کھیلوں کی دوستانہ اور مہذبانہ روایات سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے۔ کھلاڑی بین الاقوامی سفیران محبت ہوتے ہیں ۔
اس تناظر میں کرکٹ کی کچھ یادیں عود کر آئی ہیں ، وہ پیش خدمت ہیں ، یہ ہماری اسپورٹس رپورٹنگ کے دور کی باتیں ہیں جب آتش جواں تھا۔ ان دلچسپ واقعات میں دلفریبی، خود پسندی ، رعونت اور عبرت کا بھی بہت سا چشم کشا سامان موجود ہے ، ان یادوں میں ایسے دلچسپ ، سنسی خیز واقعات بھی ہیں جن کے رد عمل میں کرکٹرز نے جذبات کی رو میں بہہ کر کسی سے کیا کہا اور کیا سنا، علاوہ ازیں شائقین کرکٹ کی اس جذباتیت اور خود کرکٹرز کے ذاتی کردار اور کرکٹرز کے فیصلوں کے ساتھ ساتھ درد ناک حقائق کی دل چیرنے والی ایک خبر بھی شامل ہے۔
یہ 80ء کا زمانہ ہے ۔ کلب روڈ پر پی آئی آے کارگو آفس کے سامنے اور سٹیٹ گیسٹ ہاؤس کی دیوار سے متصل دیوار کے پاس سہ پہر کو ایک کار آکر رکی ، میں پرل کانٹی نینٹل کا فنکشن کور کر کے ہوٹل میٹروپول جانے کے لیے اپنے فوٹو گرافر کو موٹرسائیکل کے پیچھے بٹھائے جا رہا تھا جب کہ کار کی غلط پارکنگ کو دور سے دیکھ رہا تھا، پھر اچانک دو ٹریفک کانسٹیبل دوڑتے ہوئے کار کے قریب آکر کھڑے ہوئے، دیکھنے لگے کہ کار کس نے پارک کی ہے۔
اس کار سے نکل کر وکٹ کیپر وسیم باری سے کارگو آفس میں ملاقات کرنے اور ٹریولنگ ایجنسی سے اپنا ٹکٹ لے کر اسی رات کو لاہور جانے والا شخص پاکستان کی کرکٹ ٹیم کا کپتان جاوید میانداد تھا۔ ہم ابھی کراچی کلب تک پہنچے تھے کہ میانداد اور ٹریفک پولیس والوں میں تلخ کلامی ہوئی اور ایک نے جاوید میاںداد کا گریبان پکڑ لیا ، یہ منظر دیکھ کر میرا فوٹوگرافرچیخا ،''شاہ جی جلدی کرو ۔''
میں نے اسپیڈ پکڑی مگر بدقسمتی سے فوٹو گرافر کے پاس زوم لینز نہیں تھا کہ دور سے کلک کرتا، ہم وقوعہ پر جوں ہی پہنچے ، میانداد نے ہمیں دیکھ لیا ، پھر تیزی سے گریبان چھڑوا کر کار میں چہرہ چھپاتے ہوئے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی اور یہ جا وہ جا ۔ ہم گرد پس کارواں دیکھتے رہے۔ مجھے یاد ہے فوٹو گرافر سر پیٹ کر رہ گیا تھا ،اس نے افسردہ لہجے میں جھنجھلا کر کہا، '' آج کی ورلڈ کلاس تصویر بنتے بنتے رہ گئی ہائے!''
یہ ڈیفنس کا ایک گھر ہے، اس کے رہائشی اردو کرکٹ کمنٹری کے بانی اور کرکٹ کے مقبول رسالہ ''اخبار وطن'' کے مینجنگ ایڈیٹر منیر حسین ہیں۔ میری جواں سالی میں گزرے کئی جز وقتی صحافتی سال اس عظیم شخص کی رفاقت اور اس کی زیر ادارت کرکٹ رسالہ اور ماہنامہ ''فلم ایشیا'' کو ایڈٹ کرتے گزرے ۔ مزید یاد داشتیں اگلی نشست میں پیش کرونگا ۔ اس وقت ذکر اس گھر کا ہے ۔ منیر حسین کو (جو اب ہم میں موجود نہیں ہیں) کسی مہمان کا انتظار تھا اور میں شاید غلط وقت پر ان سے ملنے آیا تھا۔
میری چھٹی حس کہہ رہی تھی کہ کھسک جاؤ ، لیکن منیر بھائی نے مجھے روکا اور کہا کہ صبا آپ سے بات کریں گی ، صبا منیر بھائی کی لاڈلی بیٹی ہے، اس وقت وہ اتنی بھاری بھرکم شخصیت کی مالک نہیں تھی بلکہ بہت ہمارا اور اپنے ابو کے مستقبل میں اسپورٹس ڈیلی نکالنے کے پلان کا ہمیشہ مذاق اڑایا کرتی تھی۔ منیر صاحب کی اہلیہ انھیں منع کرتی تھیں، ہاں ثمینہ کی بیٹی خضرا منیر میں موجود ٹیلنٹ کا ابھی سے سب کو اندازہ ہے کہ وہ میڈیا کے شعبہ میں بلندیوں تک جا سکتی ہے۔ میں بہر حال ان کی صاحبزادیوں ثمینہ منیر ، صبا منیر اور دو بیٹوں اقبال منیر اور اختر منیر کو سلام کرنے دوسرے کمرے میں چلا گیا ۔
تھوڑی دیر بعد ''مہمان'' آئے اور وہ کپتان جاوید میاں داد تھے جو اپنے رفقا کے ساتھ منیر حسین سے مشاورت کے لیے تشریف لائے تھے، منیر صاحب نے ان سے مشاورت کے بعد مجھے اعتماد میں لیتے ہوئے کہا کہ جاوید میانداد کپتانی سے مستعفی ہونا چاہتے ہیں ، کل وہ کراچی پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس میں اس کا اعلان کریں گے۔ یہ راز دل میں چھپا کر رکھئے شاہ جی۔ کوئی خبر نہ لگائیے، نہ کسی سے بات کیجیے ۔ ورنہ سارا کھیل بگڑ جائے گا۔
میانداد مجھے دیکھ کر ٹھٹھکے ، پریشان ہوکر مشکوک نگاہوں سے مجھے دیکھا لیکن منیر حسین نے یقین دلادیا کہ شاہ جی غیر نہیں، گھر کی بات ہے ۔ خبر کی کوئی چڑیا یہاں سے نہیں اڑے گی۔ یوں دوسرے دن جاوید میانداد کو میں ایک اسکوپ اور سنسنی خیز خبر کو سینہ میں بے تابی سے چھپائے تحریری بیان پڑھتے سنتا رہا۔
کیا فرنٹ پیج فوٹو تھی !جاوید میانداد دولہا بنے دلہن کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں۔ ان کی شادی سہگل خاندان میں ہوئی تھی ، ایک بڑے روزنامہ کے چیف ایڈیٹر کی کوشش تھی کہ اس شادی کی تصویر چھاپنے کا اعزاز صرف اسی اخبار کو حاصل ہو، فوٹوگرافرز پر سخت دباؤ تھا، جاوید میانداد اور دلہن والوں کی طرف سے بھی شادی سادگی اور پر وقار طریقے سے منائی گئی۔ photographers not allowed تھے ۔ شادی کی کوریج کے ذمے دار فوٹوگرافر نے ناکامی سے بچنے کے لیے رات کو یہ کمال کیا کہ ڈارک روم میں پرانے دولہا دلہن جوڑے کے خوبصورت کلر فوٹو جمع کیے اورایک تصویر چن کر دولہا کا چہرہ ہٹایا اور اس پر سہرا سجائے جاوید میانداد کا رخ ِروشن فٹ کردیا ۔
یہ کاریگری اور جعلسازیاں آجکل نیٹ کے جدید ترین ٹیکنالوجیکل دور میں اور خاص طور پر فیس بک پر روز چلتی رہتی ہیں بلکہ ''چھیڑ خوباں سے چلی جائے اسد '' کے مصداق مذاق کا حصہ بھی ہے، مگر ماضی میں ایسی انسٹینٹ ٹیکنالوجی نہیں تھی، چنانچہ جب تصویر اخبار کے صفحہ اول پر چھپی تو دھماکہ ہوگیا کہ اخبار نے معاصر اخبارات کو چاروں شانے چت کردیا، لیکن شام کو میانداد اور دلہن والوں نے اس جعل سازی پر شدید برہمی کا اظہار کیا، اور پھر منیر حسین نے بیچ میں پڑ کر معاملہ رفع دفع کرا دیا۔ معذرت چھپی اور منیر حسین کی دی ہوئی اصلی تصویر شایع ہوئی۔دلچسپ بات یہ ہوئی کہ اخبار وطن نے اسی دوران پورا کلر سیشن چھاپ دیا۔
''اخبار وطن'' کرکٹ کا مقبول جریدہ تھا جس کے انتظار میں قارئین اسی طرح بیتاب رہتے تھے جس طرح ماضی میںشکیل عادل زادہ کے ماہنامہ ''سب رنگ'' کا بے چینی سے انتظار ہوتا تھا، پنجاب میں تو طلبا و طالبات اپنے شہر ، دیہات اور قصبوں سے نکل کر دور دراز ریلوے سٹیشنوں تک پہنچ جاتے اور مین لائن سے گزرنے والی تیز رفتار مسافر ٹرینوں سے ترسیل شدہ رسالہ سٹیشن کے کسی بک اسٹال سے جلد خرید لیتے تھے ، اسی اخبار وطن میں ڈار کشمیری اور عمران رزاقی کی مزاحیہ نظمیں چھپتی تھیں۔
ڈار کشمیری تو عمر رسیدہ اور منجھے ہوئے شاعر تھے مگر عمران رزاقی کی دلچسپ نظم کے ساتھ اس کی انتہائی خوبصورت تصویر بھی چھپتی تھی ، خوبرو جوان تھے ، اور بلا کی طنزیہ اور شگفتہ مزاحیہ شاعری کرتے ہوئے کرکٹ کے واقعات اور ٹیم کے سپر اسٹارز کا پھلکا اڑایا کرتے۔ سلسلہ چلتا رہا۔ ہر دو تین ماہ بعد ان کا بذریعہ ڈاک مکتوب ملتا۔ وہ بیرون ملک ملازمت کرتے تھے، اس کی ایک مشہور نظم کا عنوان تھا'' ہمیں ویسٹ انڈیز نے دے رگڑا''۔ایک بار ایسا ہوا کہ ان کی نظمیں آنا بند ہوئیں اور قارئین کا دباؤ بڑھا کہ عمران رزاقی کو تلاش کیا جائے، منیر حسین کو کافی پریشانی لاحق ہوئی اور معلوم کرنے لگے کہ عمران رزاقی کہاں غائب ہوگئے۔
پھر وہ منحوس الم ناک ساعت آئی جب اخبارات میں ایک خبر چھپی کہ گلستان جوہر کے علاقے میں ایک فلیٹ سے دو کمسن بچیوں کی ایک بڑے سوٹ کیس میں بند لاشیں ملی ہیں جن کو ان کے باپ نے ہلاک کیا، پڑوسیوں کی اطلاع پر پولیس نے چھاپہ مار کر وہ سوٹ کیس برآمد کرلیا۔ وہ پکڑا گیا اور جیل میں اس کی زندگی کے باقی دن کٹے۔ ان معصوم و پھول سی بچیوں کا باپ عمران رزاقی تھا۔ منیر حسین کو دنیائے کرکٹ نے کمنٹری کرتے تو بار بار دیکھا تھا مگر میں نے اس روز انھیں پہلی بار روتے ہوئے دیکھا۔ وہ دو معصوم پریوں کی درد ناک موت پر غم سے نڈھال تھے۔