ہارس ٹریڈنگ

کسی بھی ملک کا نظام حکومت چلانے کے لیے آئین ہی مقدس ترین دستاویز ہوتی ہے


MJ Gohar March 02, 2015

کسی بھی ملک کا نظام حکومت چلانے کے لیے آئین ہی مقدس ترین دستاویز ہوتی ہے آئین سے ہٹ کر کیے جانے والے اقدامات سے امور مملکت کے تانے بانے ٹوٹنے لگتے ہیں۔ دستور پاکستان کے آرٹیکل 226 میں کہا گیا ہے کہ تمام الیکشنز خفیہ رائے دہی سے ہوں گے ،گویا انتخابات قومی اسمبلی کے ہوں، صوبائی اسمبلیوں کے یا ایوان بالا یعنی سینیٹ کے آئین کے تحت خفیہ رائے شماری کے ذریعے ہوں گے۔

5 مارچ کو سینیٹ کے ہونے والے مجوزہ نصف ارکان کے انتخاب کے لیے بھی گویا یہ طریقہ اپنایا جاتا ہے تاہم اس مرتبہ سینیٹ کے الیکٹرول کالج یعنی صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کے ووٹوں کی خریدو فروخت جسے عرف عام میں ''ہارس ٹریڈنگ'' کا نام دیا جاتا ہے کا اس قدر شور و غل ہے اور ہاہاکار مچی ہوئی ہے کہ الاحفیظ و الامان۔ بالخصوص حکمراں جماعت (ن) لیگ اور تحریک انصاف کو اپنے ارکان اسمبلی کے ''فروخت'' ہونے کا شدید خطرہ لاحق ہے۔

مذکورہ دونوں سیاسی جماعتوں کو اپنے ارکان اسمبلی پر اعتماد نہیں۔ گھر کا بھیدی جب لنکا ڈھانے پر تل جائے تو دوسروں سے گلہ کیسا۔ تحریک انصاف کو اپنی ''انصاف پرستی'' پر بڑا ناز ہے عمران خان پورے ملک میں کرپشن کا خاتمہ اور انصاف کا بول بالا کرنا چاہتے ہیں لیکن کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ان کی جماعت کے اپنے ارکان ہی ''ضمیر فروشی'' اور ''بدعنوانی'' میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے میں مصروف ہیں۔ جب چراغ تلے اندھیرا ہو تو وہ دوسروں کو کیونکر منورکرے گا۔

یہی حال (ن) لیگ کا ہے میاں نواز شریف ملک سے کرپشن و بدعنوانی کے خاتمے اور گڈ گورننس قائم کرنے کے بلند و بانگ دعوے کرتے ہیں لیکن ان کی اپنی جماعت کے اراکین اسمبلی کروڑوں روپوں کے عوض اپنے ممبرکے سودے کرنے میں کوئی عار محسوس نہ کریں تو میاں صاحب کی گڈ گورننس کا دعویٰ دھرا کا دھرا رہ جاتا ہے۔

حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف سینیٹ کے مجوزہ الیکشن میں اپنے ''ضمیر فروش'' اراکین اسمبلی کی ناک میں نکیل ڈالنے کے لیے آئین میں 22 ویں ترمیم کی شدت سے خواہاں ہیں۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے اس حوالے سے پہلے تین کمیٹیاں تشکیل دیں ایک کمیٹی نے بڑی عرق ریزی کے بعد سینیٹ الیکشن میں رائے دہندگان کی خریدوفروخت روکنے کے لیے آئین میں ترمیم کا مسودہ تیار کیا بقیہ دونوں کمیٹیوں نے وزیر اعظم کی زیرصدارت پارلیمانی رہنماؤں کے اجلاس کے قیام کے لیے راہ ہموار کی تاکہ اجلاس میں تمام جماعتوں کے اتفاق رائے سے 22 ویں ترمیم کو ایوان زیریں و ایوان بالا سے منظور کرایا جاسکے اور روایتی ہارس ٹریڈنگ کا راستہ بند کردیا جائے لیکن افسوس کہ وفاقی حکومت کو اپنے مقصد میں کامیابی نہ مل سکی۔

(ن) لیگ کی اپنی اتحادی جماعت جے یو آئی اور ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت پیپلز پارٹی جسے ایوان بالا میں اس وقت اکثریت حاصل ہے، نے 22 ویں ترمیم پر اتفاق نہیں کیا۔ جے یو آئی کا موقف تھا کہ وہ 21 ویں آئینی ترمیم کے ڈسے ہوئے ہیں اس لیے 22 ویں ترمیم سے دوبارہ ڈسنا نہیں چاہتے۔

مولانا فضل الرحمن کا فرمانا ہے کہ محض ایک مخصوص جماعت کی تجویز پر آئینی ترمیم کی قطعاً حمایت نہیں کروں گا۔ واضح رہے کہ مولانا کا اشارہ تحریک انصاف کی طرف ہے جو آئینی ترمیم کی محرک قرار دی جا رہی ہے۔ جب کہ پی پی پی کا موقف بڑا واضح ہے کہ ایسے موقعے پر جب الیکشن شیڈول کا اعلان ہوچکا ہے آئینی ترمیم کرنا مناسب نہیں۔ سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کا کہنا تھا کہ آئینی ترمیم کے لیے یہ وقت مناسب نہیں محض ایک دو جماعتوں کی ضرورت کے لیے پارلیمنٹ کو استعمال نہ کیا جائے۔

قبل ازیں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ بھی بڑے واضح انداز میں کہہ چکے ہیں کہ سینیٹ کے الیکشن شو آف ہینڈ کے ذریعے نہیں ہونے چاہئیں آخر ہم پارلیمنٹ میں ایسے لوگوں کو کیوں لاتے ہیں جو بکاؤ مال ہوتے ہیں۔ ہارس ٹریڈنگ سے خوفزدہ جماعتوں کو اپنے ارکان اسمبلی سے خطرے کی بو آرہی ہے کیونکہ رکن اسمبلی کے ایک ووٹ کی قیمت 4 کروڑ لگ رہی ہے۔ شاہ صاحب نے دو ٹوک لہجے میں کہا کہ پیپلز پارٹی میں نظریات بیچنے والا کوئی غدار نہیں ہے تمام اراکین اسمبلی بے نظیر بھٹو اور ذوالفقار علی بھٹو کے سپاہی ہیں۔

شاہ صاحب نے ضمناً یہ بھی کہا کہ پیپلز پارٹی واپڈا سمیت دیگر اداروں کی نج کاری کی بھرپور مخالفت اور حکومتی اقدام کے خلاف جدوجہد کرے گی لہٰذا ملازمین قطعی خوفزدہ نہ ہوں دراصل حکومت اس وقت آئی ایم ایف کے دباؤ کے باعث اسٹیل ملز، پی آئی اے ودیگر اداروں کی نج کاری کے ہوم ورک پر بڑی سرعت سے سرگرم ہے اور مذکورہ اداروں کے ملازمین میں سخت خوف و ہراس پایا جاتا ہے، بالخصوص بھٹو کی نشانی پاکستان اسٹیل کی نج کاری حکومتی ایجنڈے میں سرفہرست ہے۔

ادارے کی سی بی اے کے چیئرمین شمشاد قریشی کے بڑے بھائی زاہد اختر قریشی کی وفات پر تعزیت کے موقعے پر راقم کے ایک سوال کے جواب میں قریشی صاحب نے کہا کہ ان کی یونین اور جماعت پی پی پی مل کر اسٹیل ملز کی نجکاری کے خلاف ہر قدم پر احتجاج ریکارڈ کرائیں گی۔

بات ہو رہی تھی سینیٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ اور آئینی ترمیم کی آج کے پرنٹ والیکٹرانک میڈیا میں یہی خبر''ہاٹ کیک'' بنی ہوئی ہے۔ مبصرین، تجزیہ نگار اورآئینی و قانونی ماہرین اپنی اپنی آرا کا اظہار کر رہے ہیں۔ معروف آئینی ماہر و قانون داں اور سابق سینیٹر ایس ایم ظفر کا کہنا ہے کہ حکومت آئینی ترمیم پر اصرار کرکے ایک کے بعد دوسری فاش غلطی کر رہی ہے۔ خفیہ رائے دہی آئین کا بنیادی تقاضا ہے۔کرپشن ختم کرنے کی کوشش میں آئین کو تباہ نہ کیا جائے۔ سپریم کورٹ بار کی سابق صدر اور ممتاز قانون داں اور انسانی حقوق کی روح رواں محترمہ عاصمہ جہانگیر کا کہنا تھا کہ سینیٹ انتخابات شو آف ہینڈ کے ذریعے نہیں ہوسکتے، کیا ہمارے سیاستداں اسمبلیوں میں روبوٹ لانا چاہتے ہیں کیا وہ آمر بن کر یہ خواہش رکھتے ہیں کہ ووٹ انھیں دکھا کر ڈالے جائیں کیا انھوں نے اسمبلیوں میں جو ''فرشتے'' بٹھا رکھے ہیں ان پر انھیں اعتماد نہیں۔

حقیقت میں کڑوا سچ یہی ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کو اپنے اراکین اسمبلی پر قطعاً اعتماد و اعتبار نہیں ہے کہ وہ اپنی سیاسی جماعت سے وابستگی کا ثبوت دیتے ہوئے اس کے نظریے اور فلسفے پر عمل پیرا ہوکر ان کے نامزد کردہ سینیٹ کے امیدوار کو ووٹ دے کر کامیاب کرائیں ''کروڑوں'' کی دلفریب ''چمک'' نے ان کی آنکھوں کو ''خیراں''کردیا ہے کیا جماعت اور کیا سیاسی وابستگی کیسا نظریہ اور کون سا سربراہ جماعت انھیں اس سے غرض نہیں۔ نظریں صرف اس بات پر مرکوز ہیں کہ یہاں تک پہنچنے کے لیے جو ''خرچ'' کیا ہے اس سے چار گنا زائد ''کمانا'' ہے تاکہ ان کی اس ''حلال'' کی کمائی سے ان کے بچوں اور خاندان کا مستقبل سنور سکے۔

اراکین اسمبلی کے ''چمکیلے مستقبل'' کی خواہش نے مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے سربراہوں کی نیندیں اڑا دی ہیں جب کہ پی پی پی کے سربراہ اور سابق صدر آصف علی زرداری مطمئن ہیں کہ وہ سیاسی بساط پر بڑی دانشمندی سے آگے بڑھ رہے ہیں انھیں اپنے اراکین اسمبلی پر اعتماد ہے۔ بھٹو کے سیاسی فلسفے پر یقین ہے پی پی پی ملک سے کرپشن و بدعنوانی کا ہر سطح پر خاتمہ چاہتی ہے۔ صاف و شفاف اور منصفانہ وغیر جانبدارانہ الیکشن کے انعقاد کی خواہاں ہیں۔ اب یہ الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے کہ وہ بدعنوانی وہارس ٹریڈنگ سے پاک الیکشن کے انعقاد کو یقینی بنائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔