مچھلی کا اچارایک چمچے کی قیمت چالیس ہزارڈالر
ڈش کی تیاری میں عمررسیدہ وھیل کے انڈے استعمال ہوتے ہیں کیوںکہ ان کا ذائقہ نوعمر وھیل کے انڈوں سے بہتر ہوتا ہے،والٹر
ISLAMABAD:
سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہونے کا محاورہ تو آپ نے سنا ہوگا۔ یہ محاورہ امیر کبیر گھرانوں میں جنم لینے والے بچوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
پر جناب! ایک چمچہ ایسا ہے جو سونے کے چمچے سے بھی منہگا ہے۔ یہ ہے مچھلی کے اچار کا ایک چمچہ جس کی قیمت 4000 ڈالر ہے! آپ یہ پڑھ کر حیران ہوئے ہوں گے مگر یہ حقیقت ہے کہ ایک انتہائی نایاب مچھلی کے انڈوں کا اچار فی کلو 300000 ڈالر فروخت ہورہا ہے۔ اس طرح ایک چمچہ اچار کی قیمت لگ بھگ چار ہزار ڈالر ہی بنتی ہے۔ نایاب سفید ( البائنو) وھیل کے انڈوں کے اچار میں خالص سونا بھی شامل کیا جاتا ہے۔ البائنو وھیل کے انڈے اور سونے کے ذرات پر مشتمل اچار دنیا کی منہگی ترین ڈش ہے۔ فی الوقت یہ ڈش 112000ڈالر فی کلو کی رعایتی قیمت پر فروخت کی جارہی ہے۔ تاہم جلد ہی یہ ڈش دنیا کے معروف ترین ریستورانوں میں اصل قیمت پر دست یاب ہوگی۔ ظاہر ہے کہ اس سے امیرترین افراد ہی لطف اندوز ہوسکیں گے۔
Strottarga Bianco کے نام سے فروخت کی جانے والی یہ ڈش ایک آسٹرین فش فارمر، والٹرگریول اور اس کے نوجوان بیٹے پیٹرک کی تخلیق ہے۔ انتہائی منہگی ہونے کے باعث والٹراسے ' وہائٹ گولڈ '( سفید سونا) بھی کہتا ہے۔ پیٹرک کے مطابق ' وہائٹ گولڈ ' کے انتہائی منہگا ہونے کی وجہ اس کی تیاری میں نایاب سفید وھیل کے انڈوں کا استعمال ہے۔ پانچ کلو انڈوں سے ایک کلو 'وہائٹ گولڈ' بنتا ہے۔ والٹر کا کہنا ہے ڈش کی تیاری میں عمررسیدہ وھیل کے انڈے استعمال ہوتے ہیں کیوں کہ ان کا ذائقہ نوعمر وھیل کے انڈوں کے مقابلے میں بہتر ہوتا ہے۔
البائنو وھیل کی بڑی تعداد بحیرۂ کیسپیئن میں پائی جاتی تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ مختلف عوامل کے باعث ان کی تعداد گھٹتی چلی گئی اور اب یہ انتہائی نایاب ہوگئی ہیں۔ ' وہائٹ گولڈ ' کے دنیا کی منہگی ترین ڈش ہونے کی ایک اور وجہ عمررسیدہ وھیل کے انڈے ہیں۔ عام طور پر وھیل ایک صدی سے زائد عرصے تک زندہ رہتی ہیں۔ تاہم چند ایک بیلگا وھیل ہی سو کے ہندسے کو عبور کرپاتی ہیں۔ دراصل ان مچھلیوں میں ایک جینیاتی نقص پایا جاتا ہے جو ان کی عمر کو مختصر کردیتا ہے۔ چناں چہ عمر رسیدہ البائنو وھیل کے انڈوں کا حصول انتہائی دشوار ہوتا ہے۔
والٹر کے مطابق تیاری کے بعد وہائٹ گولڈ کو سکھایا جاتا ہے۔ جب اس کا وزن گھٹ کر بیس فی صد رہ جاتا ہے تو اس میں خالص سونے کی آمیزش کی جاتی ہے، کیوں کہ معمولی مقدار میں یہ دھات انسان کے مدافعتی نظام پر خوش گوار اثر مرتب کرتی ہے۔
' وہائٹ گولڈ' تیاری کے بعد زرد رنگ کے سفوف کی شکل میں ہوتا ہے۔ اسے دودھ وغیرہ میں ملا کر یا پھر مکھن کے ساتھ ڈبل روٹی کے سلائس پر لگا کر کھایا جاسکتا ہے۔ ذائقے میں یہ تازہ مچھلی کے گوشت کی طرح ہوتا ہے۔
سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہونے کا محاورہ تو آپ نے سنا ہوگا۔ یہ محاورہ امیر کبیر گھرانوں میں جنم لینے والے بچوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
پر جناب! ایک چمچہ ایسا ہے جو سونے کے چمچے سے بھی منہگا ہے۔ یہ ہے مچھلی کے اچار کا ایک چمچہ جس کی قیمت 4000 ڈالر ہے! آپ یہ پڑھ کر حیران ہوئے ہوں گے مگر یہ حقیقت ہے کہ ایک انتہائی نایاب مچھلی کے انڈوں کا اچار فی کلو 300000 ڈالر فروخت ہورہا ہے۔ اس طرح ایک چمچہ اچار کی قیمت لگ بھگ چار ہزار ڈالر ہی بنتی ہے۔ نایاب سفید ( البائنو) وھیل کے انڈوں کے اچار میں خالص سونا بھی شامل کیا جاتا ہے۔ البائنو وھیل کے انڈے اور سونے کے ذرات پر مشتمل اچار دنیا کی منہگی ترین ڈش ہے۔ فی الوقت یہ ڈش 112000ڈالر فی کلو کی رعایتی قیمت پر فروخت کی جارہی ہے۔ تاہم جلد ہی یہ ڈش دنیا کے معروف ترین ریستورانوں میں اصل قیمت پر دست یاب ہوگی۔ ظاہر ہے کہ اس سے امیرترین افراد ہی لطف اندوز ہوسکیں گے۔
Strottarga Bianco کے نام سے فروخت کی جانے والی یہ ڈش ایک آسٹرین فش فارمر، والٹرگریول اور اس کے نوجوان بیٹے پیٹرک کی تخلیق ہے۔ انتہائی منہگی ہونے کے باعث والٹراسے ' وہائٹ گولڈ '( سفید سونا) بھی کہتا ہے۔ پیٹرک کے مطابق ' وہائٹ گولڈ ' کے انتہائی منہگا ہونے کی وجہ اس کی تیاری میں نایاب سفید وھیل کے انڈوں کا استعمال ہے۔ پانچ کلو انڈوں سے ایک کلو 'وہائٹ گولڈ' بنتا ہے۔ والٹر کا کہنا ہے ڈش کی تیاری میں عمررسیدہ وھیل کے انڈے استعمال ہوتے ہیں کیوں کہ ان کا ذائقہ نوعمر وھیل کے انڈوں کے مقابلے میں بہتر ہوتا ہے۔
البائنو وھیل کی بڑی تعداد بحیرۂ کیسپیئن میں پائی جاتی تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ مختلف عوامل کے باعث ان کی تعداد گھٹتی چلی گئی اور اب یہ انتہائی نایاب ہوگئی ہیں۔ ' وہائٹ گولڈ ' کے دنیا کی منہگی ترین ڈش ہونے کی ایک اور وجہ عمررسیدہ وھیل کے انڈے ہیں۔ عام طور پر وھیل ایک صدی سے زائد عرصے تک زندہ رہتی ہیں۔ تاہم چند ایک بیلگا وھیل ہی سو کے ہندسے کو عبور کرپاتی ہیں۔ دراصل ان مچھلیوں میں ایک جینیاتی نقص پایا جاتا ہے جو ان کی عمر کو مختصر کردیتا ہے۔ چناں چہ عمر رسیدہ البائنو وھیل کے انڈوں کا حصول انتہائی دشوار ہوتا ہے۔
والٹر کے مطابق تیاری کے بعد وہائٹ گولڈ کو سکھایا جاتا ہے۔ جب اس کا وزن گھٹ کر بیس فی صد رہ جاتا ہے تو اس میں خالص سونے کی آمیزش کی جاتی ہے، کیوں کہ معمولی مقدار میں یہ دھات انسان کے مدافعتی نظام پر خوش گوار اثر مرتب کرتی ہے۔
' وہائٹ گولڈ' تیاری کے بعد زرد رنگ کے سفوف کی شکل میں ہوتا ہے۔ اسے دودھ وغیرہ میں ملا کر یا پھر مکھن کے ساتھ ڈبل روٹی کے سلائس پر لگا کر کھایا جاسکتا ہے۔ ذائقے میں یہ تازہ مچھلی کے گوشت کی طرح ہوتا ہے۔