’’خزانے کا معمہ ‘‘
نندی پور اور گڈانی پاور منصوبوں کی رسم ِ افتتاح کے موقعے پر بھی ن لیگ حکومت کی طرف سے بڑے بڑے دعوے کیے گئے تھے
ان دنوں پنجاب میں چنیوٹ رجوعہ میں سونے کے ذخائر کا چرچا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب کا کہنا ہے، چنیوٹ میں وہ لوہا تلاش کر رہے تھے، لیکن قدرت کی کرم نوازی سے لوہے کے ساتھ سونا بھی نکل آیا۔ اگر وزیراعلیٰ پنجاب کایہ دعویٰ درست ثابت ہوتا ہے، تو بلاشبہ اس سے پنجاب میں ن لیگ کی سیاست میں ازسرنو جان پڑ جائے گی؛ اور اگر یہ دعویٰ درست ثابت نہیں ہوتا، تو ن لیگ کی سیاست، جو پہلے ہی گردش میں ہے، مزید مشکلات کا شکار ہو سکتی ہے۔
نندی پور اور گڈانی پاور منصوبوں کی رسم ِ افتتاح کے موقعے پر بھی ن لیگ حکومت کی طرف سے بڑے بڑے دعوے کیے گئے تھے، لیکن بعد میں اس کو سبکی اٹھانا پڑی تھی۔ یاد رہے کہ گڈانی پراجیکٹ کے افتتاح پر وزیراعظم نے قوم کو یہ خوش خبری سنائی تھی کہ اس سے 6600 میگا واٹ بجلی حاصل ہو گی۔ بہر حال کرکٹ کی اصطلاح کہا جا سکتا ہے کہ حکومٓت نے کریز سے باہر نکل کر ایک بار پھر بال کو ہٹ لگا دی ہے، مگر بال ابھی ہوا میں ہے، یہ چھکا بھی ہو سکتا ہے اور کیچ بھی۔
چنیوٹ میں لوہے کے ذخائر کی نشاں دہی اول اول 80 کی دہائی کے آخر میں جیوگرافیکل سروے آف پاکستان میں کی گئی، لیکن اس وقت، نہ اس وقت کی وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے اس کا نوٹس لیا، نہ اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب نوازشریف نے اس کو اہمیت دی۔
90کی دہائی کے آغاز میں محکمہ معدنیات پنجاب (پنجاب منرل اینڈ ڈویلپمنٹ کارپوریشن، پنجمن) نے ازخود چنیوٹ میں پانچ مقامات پر کھدائی کی اور بار دگر مذکورہ رپورٹ کی تصدیق کر دی؛ لیکن پنجمن کو اس تصدیقی رپورٹ کو بھی درخوراعتنا نہیں سمجھا گیا۔ بے نظیر بھٹو حکومت کے خاتمہ پر معراج خالد کی نگران حکومت نے جو تھوڑی بہت پیش رفت کی، وہ بھی کاغذی سطح پر تھی۔1997 میں نوازشریف دوبارہ وزیراعظم بنے لیکن یہ دور بھی گزر گیا، اور پنجمن کی سروے رپورٹ سرکاری فائلوں میں دبی رہی۔
12 اکتوبر 1999کے بعد جنرل پرویز مشرف کے پہلے تین سال بھی ضایع ہو گئے کہ پنجاب میں ان کے گورنروں، اول لیفٹیننٹ جنرل محمد صفدر اور اس کے بعد لیفٹیننٹ جنرل خالد مقبول کو مشرف حکومت کی امیج بلڈنگ سے ہی فرصت نہ تھی۔ 2002 کے الیکشن کے بعد پنجاب میں ق لیگ کے چوہدری پرویزالٰہی وزیراعلیٰ منتخب ہو ئے، اور آتے ہی انھوں نے تمام pending filesکی فہرست طلب کی، تو محکمہ معدنیات پنجاب کی یہ سروے رپورٹ بھی کسی نہ کسی طرح ان کی میز پر پہنچ گئی۔
انھوں نے فوری طور پر متعلقہ افسران کو طلب کیا، اور کہا کہ اگر یہ رپورٹ درست ہے تو اس پر اٹھنے والے اخراجات کی پروا کیے بغیر اس پر کام شروع کیا جائے، تا کہ پنجاب کے عوام کو اس کا فائدہ پہنچ سکے؛ لیکن قبل اس کے چنیوٹ کے نشان زدہ مقامات پر کھدائی کر کے دھاتی نمونہ جات از سرنو متعلقہ لیبارٹریز کے علاوہ اسٹیل مل کو بھی بھجوائے جائیں گے، اور اگر سب طرف سے یہ رپورٹ آتی ہے کہ یہ لوہا قابل استعمال ہے، یعنی اس سے اسٹیل تیار ہو سکتا ہے، تو یہاں اسٹیل مل بھی لگائی جا سکتی ہے۔
تشخیصی عمل2004 میں شروع ہو کر 2005 میں مکمل ہو گیا، جس کی لاگت صرف چار کروڑ تھی۔ لیکن اس سے پہلے کہ اس پراجیکٹ پر کام مزید آگے بڑھتا، یہ رپورٹ آ گئی کہ چنییوٹی لوہا قابل استعمال نہیں، کیونکہ اس میں فیرس کا تناسب صرف 35-40%ہے جب کہ اس سے اسٹیل تیار کرنے کے لیے کم سے کم بھی اس کا تناسب 60-35% ہونا چاہیے۔
یہ بھی کہا گیا کہ اس طرح کے ذخائر پنجاب کے کئی اور مقامات پر بھی ہیں، لیکن مسئلہ وہی ہے کہ یہ لوہا، مطلوبہ کوالٹی کا نہیں ہے، لہٰذا اس پر انویسٹمنٹ بے کار ہے۔ اس قطعی رپورٹ کے بعد پرویزالٰہی حکومت کے لیے اس پراجیکٹ کو جاری رکھنا یا اس پر مزید خرچہ کرنا ناممکن تھا۔
اس اثنا میں، جب کہ پنجاب میں پرویزالٰہی حکومت کی آئینی مدت قریب الاختتام تھی، ایک پاکستانی نژاد امریکی امریکا کی پرائیویٹ مائننگ کمپنی کے چیف آپریٹنگ آفیسر تھے،نے پیش کش کی کہ اگر حکومت پنجاب اجازت دے تو اپنی کمپنی کے خرچہ پر، جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے وہ مذکورہ جگہوں پر مزید گہرائی میں جا کے کھدائی کریں گے، اور اگر یہاں سے مطلوبہ کوالٹی کا لوہا نکل آتا ہے، تو پھر آگے کی بات کی جائے گی؛ بصورت دیگر جو بھی مالی نقصان ہو گا، وہ برداشت کریں گے۔ ابھی یہ مذاکرات جاری تھے کہ 18نومبر 2007 کو پنجاب میں پرویزالٰہی حکومت اپنی آئینی مدت پوری کر کے ختم ہو گئی ۔
19 فروری 2007کو جسٹس (ر) اعجاز نثار نے نگران وزیراعلیٰ پنجاب کا حلف لیا تو اس دور میں اس کی سمری تیار ہوئی۔ لہٰذا یہ کہنا کہ اس کی منظوری چوہدری پرویزالٰہی کی پنجاب حکومت نے دی، مبنی برحقیقت نہیں۔
یہ بات بھی اپنی جگہ مضحکہ خیز ہے کہ ن لیگ حکومت نے 2008 میں اس منصوبے کو ختم کر دیا، لیکن پھر جیسے اس پراجیکٹ کو بھول ہی گئی، حتیٰ کہ اس کا پہلا پانچ سالہ دور حکومت بیت گیا، اور اب اپنے نئے پانچ سالہ دور حکومت کے دوسرے سال کے آخر میں انھوں نے قوم کو یہ مژدہ جانفزا سنایا ہے کہ چنیوٹ میں صرف لوہا نہیں، سونا بھی نکل آیا ہے۔
بہرحال، اگر ان کا دعویٰ درست نکل آتا ہے، اور لوہے کے ساتھ سونا بھی اہل پنجاب کے ہاتھ آ جا تا ہے، تو ان کی طرف سے ہونے والی سات سال کی تاخیر سے درگزر کیا جا سکتا ہے۔ لیکن مختلف حلقوں کی طرف سے اس ضمن میں کئی سنجیدہ سوالات اٹھائے جا رہے ہیں جن کا جواب ارباب اختیار کو دینا چاہیے تب ہی حقیقت سامنے آئے گی۔
نندی پور اور گڈانی پاور منصوبوں کی رسم ِ افتتاح کے موقعے پر بھی ن لیگ حکومت کی طرف سے بڑے بڑے دعوے کیے گئے تھے، لیکن بعد میں اس کو سبکی اٹھانا پڑی تھی۔ یاد رہے کہ گڈانی پراجیکٹ کے افتتاح پر وزیراعظم نے قوم کو یہ خوش خبری سنائی تھی کہ اس سے 6600 میگا واٹ بجلی حاصل ہو گی۔ بہر حال کرکٹ کی اصطلاح کہا جا سکتا ہے کہ حکومٓت نے کریز سے باہر نکل کر ایک بار پھر بال کو ہٹ لگا دی ہے، مگر بال ابھی ہوا میں ہے، یہ چھکا بھی ہو سکتا ہے اور کیچ بھی۔
چنیوٹ میں لوہے کے ذخائر کی نشاں دہی اول اول 80 کی دہائی کے آخر میں جیوگرافیکل سروے آف پاکستان میں کی گئی، لیکن اس وقت، نہ اس وقت کی وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے اس کا نوٹس لیا، نہ اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب نوازشریف نے اس کو اہمیت دی۔
90کی دہائی کے آغاز میں محکمہ معدنیات پنجاب (پنجاب منرل اینڈ ڈویلپمنٹ کارپوریشن، پنجمن) نے ازخود چنیوٹ میں پانچ مقامات پر کھدائی کی اور بار دگر مذکورہ رپورٹ کی تصدیق کر دی؛ لیکن پنجمن کو اس تصدیقی رپورٹ کو بھی درخوراعتنا نہیں سمجھا گیا۔ بے نظیر بھٹو حکومت کے خاتمہ پر معراج خالد کی نگران حکومت نے جو تھوڑی بہت پیش رفت کی، وہ بھی کاغذی سطح پر تھی۔1997 میں نوازشریف دوبارہ وزیراعظم بنے لیکن یہ دور بھی گزر گیا، اور پنجمن کی سروے رپورٹ سرکاری فائلوں میں دبی رہی۔
12 اکتوبر 1999کے بعد جنرل پرویز مشرف کے پہلے تین سال بھی ضایع ہو گئے کہ پنجاب میں ان کے گورنروں، اول لیفٹیننٹ جنرل محمد صفدر اور اس کے بعد لیفٹیننٹ جنرل خالد مقبول کو مشرف حکومت کی امیج بلڈنگ سے ہی فرصت نہ تھی۔ 2002 کے الیکشن کے بعد پنجاب میں ق لیگ کے چوہدری پرویزالٰہی وزیراعلیٰ منتخب ہو ئے، اور آتے ہی انھوں نے تمام pending filesکی فہرست طلب کی، تو محکمہ معدنیات پنجاب کی یہ سروے رپورٹ بھی کسی نہ کسی طرح ان کی میز پر پہنچ گئی۔
انھوں نے فوری طور پر متعلقہ افسران کو طلب کیا، اور کہا کہ اگر یہ رپورٹ درست ہے تو اس پر اٹھنے والے اخراجات کی پروا کیے بغیر اس پر کام شروع کیا جائے، تا کہ پنجاب کے عوام کو اس کا فائدہ پہنچ سکے؛ لیکن قبل اس کے چنیوٹ کے نشان زدہ مقامات پر کھدائی کر کے دھاتی نمونہ جات از سرنو متعلقہ لیبارٹریز کے علاوہ اسٹیل مل کو بھی بھجوائے جائیں گے، اور اگر سب طرف سے یہ رپورٹ آتی ہے کہ یہ لوہا قابل استعمال ہے، یعنی اس سے اسٹیل تیار ہو سکتا ہے، تو یہاں اسٹیل مل بھی لگائی جا سکتی ہے۔
تشخیصی عمل2004 میں شروع ہو کر 2005 میں مکمل ہو گیا، جس کی لاگت صرف چار کروڑ تھی۔ لیکن اس سے پہلے کہ اس پراجیکٹ پر کام مزید آگے بڑھتا، یہ رپورٹ آ گئی کہ چنییوٹی لوہا قابل استعمال نہیں، کیونکہ اس میں فیرس کا تناسب صرف 35-40%ہے جب کہ اس سے اسٹیل تیار کرنے کے لیے کم سے کم بھی اس کا تناسب 60-35% ہونا چاہیے۔
یہ بھی کہا گیا کہ اس طرح کے ذخائر پنجاب کے کئی اور مقامات پر بھی ہیں، لیکن مسئلہ وہی ہے کہ یہ لوہا، مطلوبہ کوالٹی کا نہیں ہے، لہٰذا اس پر انویسٹمنٹ بے کار ہے۔ اس قطعی رپورٹ کے بعد پرویزالٰہی حکومت کے لیے اس پراجیکٹ کو جاری رکھنا یا اس پر مزید خرچہ کرنا ناممکن تھا۔
اس اثنا میں، جب کہ پنجاب میں پرویزالٰہی حکومت کی آئینی مدت قریب الاختتام تھی، ایک پاکستانی نژاد امریکی امریکا کی پرائیویٹ مائننگ کمپنی کے چیف آپریٹنگ آفیسر تھے،نے پیش کش کی کہ اگر حکومت پنجاب اجازت دے تو اپنی کمپنی کے خرچہ پر، جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے وہ مذکورہ جگہوں پر مزید گہرائی میں جا کے کھدائی کریں گے، اور اگر یہاں سے مطلوبہ کوالٹی کا لوہا نکل آتا ہے، تو پھر آگے کی بات کی جائے گی؛ بصورت دیگر جو بھی مالی نقصان ہو گا، وہ برداشت کریں گے۔ ابھی یہ مذاکرات جاری تھے کہ 18نومبر 2007 کو پنجاب میں پرویزالٰہی حکومت اپنی آئینی مدت پوری کر کے ختم ہو گئی ۔
19 فروری 2007کو جسٹس (ر) اعجاز نثار نے نگران وزیراعلیٰ پنجاب کا حلف لیا تو اس دور میں اس کی سمری تیار ہوئی۔ لہٰذا یہ کہنا کہ اس کی منظوری چوہدری پرویزالٰہی کی پنجاب حکومت نے دی، مبنی برحقیقت نہیں۔
یہ بات بھی اپنی جگہ مضحکہ خیز ہے کہ ن لیگ حکومت نے 2008 میں اس منصوبے کو ختم کر دیا، لیکن پھر جیسے اس پراجیکٹ کو بھول ہی گئی، حتیٰ کہ اس کا پہلا پانچ سالہ دور حکومت بیت گیا، اور اب اپنے نئے پانچ سالہ دور حکومت کے دوسرے سال کے آخر میں انھوں نے قوم کو یہ مژدہ جانفزا سنایا ہے کہ چنیوٹ میں صرف لوہا نہیں، سونا بھی نکل آیا ہے۔
بہرحال، اگر ان کا دعویٰ درست نکل آتا ہے، اور لوہے کے ساتھ سونا بھی اہل پنجاب کے ہاتھ آ جا تا ہے، تو ان کی طرف سے ہونے والی سات سال کی تاخیر سے درگزر کیا جا سکتا ہے۔ لیکن مختلف حلقوں کی طرف سے اس ضمن میں کئی سنجیدہ سوالات اٹھائے جا رہے ہیں جن کا جواب ارباب اختیار کو دینا چاہیے تب ہی حقیقت سامنے آئے گی۔