اے افغان بھائیو بس اب لوٹ جاؤ
افغان مہاجرین کو باعزت طریقے سے رضاکارانہ طور پر اپنے ملک جا کر اس کی تعمیر و ترقی میں حصہ لینا چاہیے۔
کہا جاتا ہے کہ انسانوں کی تاریخ دراصل جنگ و جدل اور ہجرتوں کی تاریخ ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ انسانوں کے قبائل افریقہ سے ہجرت کرکے آہستہ آہستہ پوری دنیا میں پھیل گئے۔زمانہ قدیم میں بھی بہت ساری بڑی اور چھوٹی ہجرتیں ہوئیں۔ ان ہجرتوں کے پیچھے کارفرما عوامل میں زیادہ تر جنگ و جدل، خوراک کی کمی، قحط سالی، وسائل کی تلاش اور اسی طرح کے دوسرے مسائل شامل تھے۔
ماضی قریب میں بڑی ہجرتیں پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد ہوئی، جب یورپی اقوام اپنے تباہ حال ممالک سے بھاگ نکلی تھیں۔ اسی طرح کی ایک بہت بڑی انسانی ہجرت تقسیم ہند کے بعد ہوئی، جب لاکھوں افراد جنگ و جدل اور فسادات سے بچنے اور اپنے ممالک میں بسنے کے لئے پاکستان اور بھارت کے سرحدوں کے آر پار گئے تھے۔
1980ء کی دہائی میں دو عالمی طاقتوں، سابق سوویت یونین اور امریکہ نے اپنی سرد جنگ افغانستان تک پھیلا دی۔ امریکہ ویتنام میں روس کے حمایتی گروہوں سے شکست کھا چکا تھا، جس کے بعد اُس نے بدلہ لینے کے لئے افغانستان کا انتخاب کیا، جس پر روس نے اپنے حمایتی حکومت کو مقامی کمیونزم مخالف گرہوں سے بچانے کے نام پر چڑھائی کر رکھی تھی۔ اس جنگ میں روس اور کمیونزم کے پھیلاؤ کو روکنے کے نام پر امریکہ کے علاوہ دیگر ممالک بھی صف آرا تھے۔ وطنِ عزیز پاکستان نے بھی اِس جنگ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ طویل جنگ کے بعد شکست خوردہ روس اپنے زخم چاٹتا افغانستان سے نکل تو گیا، لیکن عظیم جنگجووں کی اس سرزمین پر جاری کشت وفساد ختم نہ ہوسکا۔
عالمی طاقتوں کے جانے کے بعد اقتدار کی جنگ میں مقامی جنگجو شامل ہوگئے اور یہ سلسلہ جاری تھا کہ امریکہ نے اپنی سرزمین پر حملہ کرنے کے جرم میں مبینہ طور پر شامل القاعدہ نامی تنظیم کو پناہ دینے والی طالبان حکومت ختم کرنے کے لئے ایک بار پھر افغانستان پر چڑھائی کردی۔ یہ جنگ تقریباً ایک عشرے تک جاری رہی۔ لاکھوں لوگ مارے گئے اور لاکھوں بے گھر ہوگئے۔ تین مہینے پہلے امریکہ نے اپنی فوجیں افغانستان سے نکالنے کا اعلان کیا اور اس کے کچھ عرصے بعد طالبان کے ساتھ مذاکرات بھی شروع کر دئیے۔
لوگ کہتے ہیں کہ افغانستان اب بھی ناقابلِ شکست ہے۔ نہ انگریز اس سرزمین پر قابض ہوسکے، نہ سوویت یونین اور نہ ہی امریکہ۔ کہنے والے افغانیوں کی استقامت کو داد بھی دیتے ہیں، لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ان طویل جنگوں میں لاکھوں افغانیوں کی زندگیاں برباد ہوگئیں ہیں۔ افغان معاشرے کا شیرازہ بکھرچکا ہے۔ معیشت کی حالت ڈگرگوں ہے، اور اِس ساری صورت حال میں سب سے بڑی قیمت افغانستان کے عوام کو چکانی پڑی ہے۔ کیونکہ، دستیاب اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ تین دہائیوں میں فسادات کی وجہ سے تقریباً 50 لاکھ افغان شہری اپنے شہر، قصبے اور گاوں چھوڑ کر قریب اور دور کے ممالک میں عارضی طور پر یا پھر مستقل آباد ہوچکے ہیں۔ افغانستان سے نکلنے والے مہاجرین کی ایک بہت بڑی تعداد پاکستان اور ایران میں آج بھی موجود ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق، پاکستان میں مقیم رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی تعداد 15 لاکھ کے لگ بھگ ہے، جبکہ تقریبا 9 لاکھ افغانی رجسٹرڈ مہاجرین ایران میں بھی رہ رہے ہیں۔ حکومتِ پاکستان کے مطابق ملک میں غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی تعداد کم و بیش سولہ (16) لاکھ کے لگ بھگ ہیں۔ یعنی، پاکستان میں کُل ملا کر تقریباً تیس (30) لاکھ مہاجرین گزشتہ کئی سالوں سے رہ رہے ہیں۔
یہ سچ ہے کہ مصیبت کے وقت میں پاکستان نے افغان مہاجرین کو عالمی اداروں اور حکومتوں کی مدد سے سہارا دیا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ ایسے میں تمام مہاجرین کا فرض تھا کہ متعلقہ عالمی اور مقامی اداروں کے پاس اپنے کوائف جمع کرکے خود کو رجسٹرڈ کروا لیتے۔ لیکن افسوس کہ ایسا نہ ہوسکا اور آج یہ عالم ہے کہ 16 لاکھ غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے ہیں۔ لیکن اِن کے بارے میں حکومت اور ریاست کے پاس کوئی معلومات نہیں ہے۔ اِس سارے عمل میں حکومتوں کی نالائقی بھی واضح ہے۔ اُن کو چاہیے تھا کہ ایسے انتظامات کرتے کہ کوئی شخص بلا روک ٹوک ملک میں داخل نہ ہوسکے اور اگر ہو بھی تو اس کے متعلق مناسب معلومات جمع کی جائے۔
16 دسمبر کو پشاور میں آرمی پبلک ا سکول پر حملے کے بعد سے حکومت نے فوج اور پارلیمان کے ساتھ مل کر دہشت گردوں اور دہشت گردی کے خلاف سخت اقدامات اُٹھائے ہیں۔ اِن اقدامات میں خیبر پختونخواہ کی مختلف مساجد سے افغانی پیش اماموں کو نکالنے کے علاوہ قانونی اور غیر قانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کی گرفتاری اور زبردستی ملک سے بے دخلی شامل ہیں۔ افغان حکام کے مطابق گزشتہ تین مہینوں میں اب تک حکومتِ پاکستان نے 30 ہزار افغان مہاجرین کو ملک سے زبردستی بے دخل کیا ہے، جبکہ مزید گرفتاریوں اور بے دخلی کا سلسلہ جاری ہے۔
ان اقدامات کے خلاف افغان حکومت کے علاوہ انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے مختلف اداروں نے بھی آوازیں اُٹھائی ہیں اور پاکستانی حکومت کو کہا گیا ہے کہ وہ مہاجرین کو عجلت میں زبردستی بے دخل نہ کرے۔
افغان حکومت اور عالمی اداروں کے اعتراضات اپنی جگہ، لیکن یہ بہرکیف ایک حقیقت ہے کہ پاکستان جیسے معاشی طور پر کمزور ملک میں جو متعدد داخلی اور خارجی مسائل میں گھرا پڑا ہے، اب شاید افغان مہاجرین کی مزید خدمت کرنے کی سکت نہ ہو۔ مہاجرین کی باعزت واپسی کے سلسلے میں ایک اہم میٹنگ اِس ماہ کو سوئیٹرزلینڈ کے شہر جنیوا میں منعقد ہونے جارہی ہے، جس میں پاکستان اور افغان حکام کے علاوہ اقوام متحدہ کے مہاجرین کے لئے مخصوص ذیلی ادارے کے نمائندے بھی شرکت کریں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے اس نشست میں افغان مہاجرین کی باعزت واپسی کا لائحہ عمل طے ہو سکتا ہے یا ماضی کی طرح یہ بھی بے نتیجہ ثابت ہوگا۔
ان مذاکرات کا نتیجہ جو بھی ہو، میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ اب افغان مہاجرین کو باعزت طریقے سے رضا کارانہ طور پر اپنے ملک جاکر اُس کی تعمیروترقی میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیے۔ کیونکہ، افغانستان پہلے کی نسبت پُرامن ہے اور جمہوری طور پر منتخب شدہ حکومتوں کے درمیان انتقالِ اقتدار کا عمل بھی طے پاچکا ہے۔ یہی موقع ہے کہ جفاکش اور ذہین افغان باشندے دیارِ غیر کو چھوڑ کر اپنے ملک واپس چلے جائیں اور اپنی مثالی محنت سے اسکی معیشت بہتر بنانے کے عمل میں شامل ہوکر وطن کی مٹی کا قرض ادا کریں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
ماضی قریب میں بڑی ہجرتیں پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد ہوئی، جب یورپی اقوام اپنے تباہ حال ممالک سے بھاگ نکلی تھیں۔ اسی طرح کی ایک بہت بڑی انسانی ہجرت تقسیم ہند کے بعد ہوئی، جب لاکھوں افراد جنگ و جدل اور فسادات سے بچنے اور اپنے ممالک میں بسنے کے لئے پاکستان اور بھارت کے سرحدوں کے آر پار گئے تھے۔
1980ء کی دہائی میں دو عالمی طاقتوں، سابق سوویت یونین اور امریکہ نے اپنی سرد جنگ افغانستان تک پھیلا دی۔ امریکہ ویتنام میں روس کے حمایتی گروہوں سے شکست کھا چکا تھا، جس کے بعد اُس نے بدلہ لینے کے لئے افغانستان کا انتخاب کیا، جس پر روس نے اپنے حمایتی حکومت کو مقامی کمیونزم مخالف گرہوں سے بچانے کے نام پر چڑھائی کر رکھی تھی۔ اس جنگ میں روس اور کمیونزم کے پھیلاؤ کو روکنے کے نام پر امریکہ کے علاوہ دیگر ممالک بھی صف آرا تھے۔ وطنِ عزیز پاکستان نے بھی اِس جنگ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ طویل جنگ کے بعد شکست خوردہ روس اپنے زخم چاٹتا افغانستان سے نکل تو گیا، لیکن عظیم جنگجووں کی اس سرزمین پر جاری کشت وفساد ختم نہ ہوسکا۔
عالمی طاقتوں کے جانے کے بعد اقتدار کی جنگ میں مقامی جنگجو شامل ہوگئے اور یہ سلسلہ جاری تھا کہ امریکہ نے اپنی سرزمین پر حملہ کرنے کے جرم میں مبینہ طور پر شامل القاعدہ نامی تنظیم کو پناہ دینے والی طالبان حکومت ختم کرنے کے لئے ایک بار پھر افغانستان پر چڑھائی کردی۔ یہ جنگ تقریباً ایک عشرے تک جاری رہی۔ لاکھوں لوگ مارے گئے اور لاکھوں بے گھر ہوگئے۔ تین مہینے پہلے امریکہ نے اپنی فوجیں افغانستان سے نکالنے کا اعلان کیا اور اس کے کچھ عرصے بعد طالبان کے ساتھ مذاکرات بھی شروع کر دئیے۔
لوگ کہتے ہیں کہ افغانستان اب بھی ناقابلِ شکست ہے۔ نہ انگریز اس سرزمین پر قابض ہوسکے، نہ سوویت یونین اور نہ ہی امریکہ۔ کہنے والے افغانیوں کی استقامت کو داد بھی دیتے ہیں، لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ان طویل جنگوں میں لاکھوں افغانیوں کی زندگیاں برباد ہوگئیں ہیں۔ افغان معاشرے کا شیرازہ بکھرچکا ہے۔ معیشت کی حالت ڈگرگوں ہے، اور اِس ساری صورت حال میں سب سے بڑی قیمت افغانستان کے عوام کو چکانی پڑی ہے۔ کیونکہ، دستیاب اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ تین دہائیوں میں فسادات کی وجہ سے تقریباً 50 لاکھ افغان شہری اپنے شہر، قصبے اور گاوں چھوڑ کر قریب اور دور کے ممالک میں عارضی طور پر یا پھر مستقل آباد ہوچکے ہیں۔ افغانستان سے نکلنے والے مہاجرین کی ایک بہت بڑی تعداد پاکستان اور ایران میں آج بھی موجود ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق، پاکستان میں مقیم رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی تعداد 15 لاکھ کے لگ بھگ ہے، جبکہ تقریبا 9 لاکھ افغانی رجسٹرڈ مہاجرین ایران میں بھی رہ رہے ہیں۔ حکومتِ پاکستان کے مطابق ملک میں غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی تعداد کم و بیش سولہ (16) لاکھ کے لگ بھگ ہیں۔ یعنی، پاکستان میں کُل ملا کر تقریباً تیس (30) لاکھ مہاجرین گزشتہ کئی سالوں سے رہ رہے ہیں۔
یہ سچ ہے کہ مصیبت کے وقت میں پاکستان نے افغان مہاجرین کو عالمی اداروں اور حکومتوں کی مدد سے سہارا دیا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ ایسے میں تمام مہاجرین کا فرض تھا کہ متعلقہ عالمی اور مقامی اداروں کے پاس اپنے کوائف جمع کرکے خود کو رجسٹرڈ کروا لیتے۔ لیکن افسوس کہ ایسا نہ ہوسکا اور آج یہ عالم ہے کہ 16 لاکھ غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے ہیں۔ لیکن اِن کے بارے میں حکومت اور ریاست کے پاس کوئی معلومات نہیں ہے۔ اِس سارے عمل میں حکومتوں کی نالائقی بھی واضح ہے۔ اُن کو چاہیے تھا کہ ایسے انتظامات کرتے کہ کوئی شخص بلا روک ٹوک ملک میں داخل نہ ہوسکے اور اگر ہو بھی تو اس کے متعلق مناسب معلومات جمع کی جائے۔
16 دسمبر کو پشاور میں آرمی پبلک ا سکول پر حملے کے بعد سے حکومت نے فوج اور پارلیمان کے ساتھ مل کر دہشت گردوں اور دہشت گردی کے خلاف سخت اقدامات اُٹھائے ہیں۔ اِن اقدامات میں خیبر پختونخواہ کی مختلف مساجد سے افغانی پیش اماموں کو نکالنے کے علاوہ قانونی اور غیر قانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کی گرفتاری اور زبردستی ملک سے بے دخلی شامل ہیں۔ افغان حکام کے مطابق گزشتہ تین مہینوں میں اب تک حکومتِ پاکستان نے 30 ہزار افغان مہاجرین کو ملک سے زبردستی بے دخل کیا ہے، جبکہ مزید گرفتاریوں اور بے دخلی کا سلسلہ جاری ہے۔
ان اقدامات کے خلاف افغان حکومت کے علاوہ انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے مختلف اداروں نے بھی آوازیں اُٹھائی ہیں اور پاکستانی حکومت کو کہا گیا ہے کہ وہ مہاجرین کو عجلت میں زبردستی بے دخل نہ کرے۔
افغان حکومت اور عالمی اداروں کے اعتراضات اپنی جگہ، لیکن یہ بہرکیف ایک حقیقت ہے کہ پاکستان جیسے معاشی طور پر کمزور ملک میں جو متعدد داخلی اور خارجی مسائل میں گھرا پڑا ہے، اب شاید افغان مہاجرین کی مزید خدمت کرنے کی سکت نہ ہو۔ مہاجرین کی باعزت واپسی کے سلسلے میں ایک اہم میٹنگ اِس ماہ کو سوئیٹرزلینڈ کے شہر جنیوا میں منعقد ہونے جارہی ہے، جس میں پاکستان اور افغان حکام کے علاوہ اقوام متحدہ کے مہاجرین کے لئے مخصوص ذیلی ادارے کے نمائندے بھی شرکت کریں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے اس نشست میں افغان مہاجرین کی باعزت واپسی کا لائحہ عمل طے ہو سکتا ہے یا ماضی کی طرح یہ بھی بے نتیجہ ثابت ہوگا۔
ان مذاکرات کا نتیجہ جو بھی ہو، میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ اب افغان مہاجرین کو باعزت طریقے سے رضا کارانہ طور پر اپنے ملک جاکر اُس کی تعمیروترقی میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیے۔ کیونکہ، افغانستان پہلے کی نسبت پُرامن ہے اور جمہوری طور پر منتخب شدہ حکومتوں کے درمیان انتقالِ اقتدار کا عمل بھی طے پاچکا ہے۔ یہی موقع ہے کہ جفاکش اور ذہین افغان باشندے دیارِ غیر کو چھوڑ کر اپنے ملک واپس چلے جائیں اور اپنی مثالی محنت سے اسکی معیشت بہتر بنانے کے عمل میں شامل ہوکر وطن کی مٹی کا قرض ادا کریں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔