ہم سا ہو تو سامنے آئے

یہ بات دنیا بخوبی جانتی ہے کہ اگر آج اجمل قومی ٹیم کا حصہ ہوتا تو ورلڈ کپ میں پاکستان کی پوزیشن یکسر مختلف ہوتی۔


فرید رزاق March 05, 2015
سعید اجمل آج بھی سب سے بہترین بالر ہے۔ اِس کے بارے میں تو بس یہی کہا جاسکتا ہے ’ہم سا ہو تو سامنے آئے‘۔ فوٹو: فائل

بغیر کسی اختلاف کہ یہ بات باآسانی کہی جاسکتی ہے کہ اِس وقت پاکستان کی کرکٹ پر چھائے ہیں گہرے تاریک بادل۔ کرکٹ کا میگا ایونٹ ہماری کرکٹ کا جنازہ نکال رہا ہے اور دھوم سے نکال رہا ہے۔

ویسے تو پاکستان میں ہر ادارے میں کرپشن کا بول بالا ہے۔ جس کی وجہ سے ہر ادارہ تنزلی کی طرف گرتا چلا جارہا ہے۔ یہی حال کرکٹ کا بھی ہے۔ مجھے ذاتی طور پر پاکستان کی کرکٹ ٹیم کی حالتِ زار پر ترس آتا ہے کہ ایک طرف طویل مدت ہوئے پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ نہیں ہورہی اور جو کرکٹ باہر ہورہی ہے اُس میں ہم پریشان پریشان رہتے ہیں۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کا حال اس وقت کسی گائوں یا محلے کی اُس ٹیم کا سا ہے جو دوسروں کو اپنے ساتھ میچ کھیلنے کی منتیں کرتی پھرتی ہے۔

ورلڈ کپ کے ابتدائی دو میچوں میں عبرت ناک شکست کے بعد بہت سے چھپے رازوں سے پردہ اُٹھ رہا تھا جو زمبابوے کے خلاف ''لنگڑی لولی'' جیت کے بعد بظاہر تھم سا گیا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قوم کی دُعائیں ہی ہیں جو پاکستان کی کرکٹ ٹیم کو سہارا دیے ہوئے ہے ورنہ دیوار میں تو مزید ٹھہرنے کی سکت نہیں دکھائی دیتی۔ ورلڈکپ کے آغاز سے قبل ہی دبے الفاظ میں قوم کو یہ باور کرا دیا گیا تھا کہ زیادہ تیاری نہیں ہے لہٰذا زیادہ اُمیدیں وابستہ نہ کی جائیں۔ لیکن امیدیں وابستہ رکھنا ہمارا اک لازوال روگ ہے۔ اب جہاں حالت قومی ٹیم کہ یہ ہے کہ خدا کرے وہ جیت جائے اور یہ ہار جائے توہم کسی طرح اگلے معرکے میں پہنچ جائیں۔ اُس پر افریقا کی پرفارمنس نے مقابلے سے پہلے ہی انجام کی ۔۔۔؟ خیر اللہ بہتر کرے گا ۔ یہی اک جملہ ہے جو بلا چوں و چراں زبان سے جاری ہوتا ہے ۔

ورلڈ کپ سے قبل شاہینوں کے ایک ایک کرکے، جب ''پر'' ہی کاٹ دیے گئے تو پرواز کیا ہونی تھی۔ کبھی آئی۔سی۔سی کی تلوار نے وار کیا تو کبھی قسمت زخموں سے چور ہوگئی لیکن یہ کیا آئی سی سی کی ون ڈے کی نئی رینکنگ میں سعید اجمل بدستور پہلے نمبر پر ۔۔۔۔ کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ محنت کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ سعید اجمل جسے میدان سے باہر ہوئے 5 ماہ سے زائد عرصہ بیت گیا وہ آج بھی اغیار اور اُن وطن دشمنوں کے منہ پر زوردار طمانچہ کے مصداق ایک روز کرکٹ میں بدستور بہترین باولر ہے، ایسی صورت میں تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ ہم سا ہو تو کوئی سامنے آئے۔

30 اگست 2014ء سری لنکا کے خلاف اپنا آخری میچ کھیلنے والے اجمل پر مشکوک ایکشن کی بنیاد پر پابندی تو لگادی لیکن محنت سر چڑھ کر بولی اور چنئی میں انہیں تیس بالز کے بعد کلیر قرار دے دیا گیا۔ ہمارے لیے تو محض یہ اک ٹیسٹ ہوگا لیکن اجمل کو ان دنوں کتنی محنت کرنا پڑی اِس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ اجمل کی انتھک محنت کا اندازہ اِس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ صرف 4 ماہ میں 12000 سے زائد بالز کروائی گئی۔ یہ بات دنیا بخوبی جانتی ہے کہ اگر آج اجمل قومی ٹیم کا حصہ ہوتا تو ورلڈ کپ میں پاکستان کی پوزیشن یسکر مختلف ہوتی۔

جب پاکستان کا کوئی بھی کھلاڑی کسی بھی شعبے میں ابتدائی دس میں سے کوئی پوزیشن نہ لے سکا تو اجمل آگے بڑھا اور قوم کے لیے شمع کو روشن کیا۔ قوم کی دعائیں اجمل کے ساتھ ہیں اور دعائیں کیوں نہ ہوں کہ جو مسلسل بھرپور محنت اور بہترین کارکردگی کے ذریعے سب کو زیر کررہا ہے۔

ٹیم کے باقی کھلاڑیوں کے لیے اجمل کی محنت اک سبق کا درجہ رکھتی ہے۔ اُمید ہے کھلاڑی محنت کے راستے پر گامزن ہوتے ہوئے اپنا کھویا ہوا مقام ضرور حاصل کریں گے۔ لیکن اگر ناصر جمشید کی طرح نیٹ پریکٹس کرنا بھی گوارہ نہیں تو پھر کیا کیا جاسکتا ہے۔ اِس لیے کھلاڑی کو تو محنت کرنی ہی ہے مگر ٹیم انتظامیہ کو بھی ہوش کے ناخن لینے کی اشد ضرورت ہے اور پرچی کے سہارے آئے کھلاڑی کو میدان سے باہر کرکے اُن کھلاڑیوں کو شامل کیا جائے جنہوں نے ماضی قریب میں متعدد بار یہ ثابت کیا ہے کہ وہ اِس ٹیم میں کھیلنے کی پوری اہلیت اور قابلیت رکھتے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں