سوچ کے منجمد دھارے
سیاسی جماعتیں بری حکمرانی کے ناسور کوختم کرنے کا عمل شروع کریں۔
چند روز پہلے ایک ٹیلی ویژن چینل پر ایک ڈکیت کو بینک میں ڈکیتی کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔اس سے قطع نظر کہ اس کا حلیہ اس کی کیا شناخت بتاتا ہے، وہ انتہائی اناڑی پن کے ساتھ بینک سے لاکھوں روپے لے کر انتہائی آرام سے روانہ ہوجاتا ہے۔
اس ویڈیو کو دیکھنے کے بعد ریاست کے انتظامی ڈھانچے کے مکمل طور پر زمیں بوس ہوجانے کے بارے میں شک یقین میں تبدیل ہوگیا۔معاملہ صرف امن وامان اور انتظامی اداروں میں بڑھتی ہوئی کرپشن اور نااہلی تک محدود نہیں ہے، بلکہ کھیل سمیت دیگر شعبہ جات بھی اسی نااہلی، بدعنوانی اور اخلاق باختگی کے باعث بدترین تنزلی کا شکار ہوچکے ہیں۔
دوسری طرف جس روز یہ اظہاریہ شایع ہوگا، سینیٹ کی52 نشستوں کے لیے ووٹنگ شروع ہوچکی ہوگی۔مگروطن عزیزمیں جس انداز میں یہ انتخابات منعقد ہو رہے ہیں اور جس طرح کا جوڑ توڑ جاری ہے، اس کے بعد اس کے نتائج بے معنی ہوکر رہ گئے ہیں۔ دنیا بھر میںعوامی نمایندگی اور فیصلہ سازی کے حوالے سے انتہائی محترم تصور کیے جانے والے ادارے سینیٹ کو پاکستان میں سیاسی جماعتوں نے اپنی ہوس اقتدار کی بھینٹ چڑھا کر متنازع بنا دیا ہے۔
حکمران اشرافیہ اور سیاسی جماعتوں کے طرز عمل کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا کسی طور غلط نہیں ہے کہ پاکستان میں جمہوریت محض نمائشی ہے۔ جسے ایک مخصوص مراعات یافتہ ٹولہ مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے استعمال کرتا ہے۔ اس لیے ہر اس اقدام سے گریز کرتا ہے، جس کے نتیجے میں انتخابی طریقہ کار میں بہتری آئے اور اچھی حکمرانی کی راہ کھلے۔ حکمران اشرافیہ کے انھی رویوں اور کردار کے باعث عوام شدید مایوسی کا شکار ہوچکے ہیں اور ان کا نظم حکمرانی پر سے اعتبار اٹھتا جارہا ہے۔
سیاسی رہنماؤں کے کردار کے حوالے سے تین واقعات نقل کرنا بروقت و بر محل ہے۔ امریکی آئین کے مطابق عام شہریوں کو بیشمار آزادیاں حاصل ہوتی ہیں۔ مگر امریکیوں کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے حکمرانوں بالخصوص صدر کو ایک بے داغ اور صاف و شفاف شخصیت کا مالک ہونا چاہیے۔1988 کے صدارتی انتخابات کے لیے مہم1987 میں شروع ہوگئی۔
ری پبلکن پارٹی نے نائب صدر جارج بش سینئر کو اپنا امیدوار بنایا۔ جب کہ ڈیموکریٹک پارٹی نے فلوریڈا سے اپنے سینیٹرگیری ہارٹ کو میدان میں اتارنے کا فیصلہ کیا۔ابھی ریاستی سطح پر انتخابی مہم شروع ہی ہوئی تھی کہ میامی ہیرالڈ میں گیر ی ہارٹ کی ایک تصویر شایع ہوئی، جس میں انھیں ڈونا رائس نامی ماڈل کے ساتھ قابل اعتراض انداز میں بیٹھے ہوئے دکھایا گیا تھا۔
سینیٹرگیری ہارٹ نے اس تصویر کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنی مہم جاری رکھی۔ لیکن اگلے ہی ہفتے واشنگٹن پوسٹ نے ایک نئی تصویر شایع کی جس میں انھیں اپنی گرل فرینڈ کو بانہوں میں سمیٹے نائٹ کلب میں داخل ہوتے دکھایا گیا تھا۔ اس کے بعد نیویارک ٹائمز نے بھی چند ایسی تصاویر شایع کیں۔ان تصاویر اور ان کے غیر لڑکیوں سے تعلقات کی خبروں کا یہ نتیجہ نکلا کہ سینیٹر گیری ہارٹ کو اپنی شکست کا یقین ہوگیا اور انھوں نے نہ صرف صدارتی امیدوار بننے سے معذرت کرلی، بلکہ سینیٹ کی نشست سے بھی مستعفی ہوگئے۔
دوسرا واقعہ 1998 میں اس وقت منظر عام پر آیا جب وائٹ ہاؤس میں کام کرنے والی ایک 22سالہ دوشیزہ مونیکا لیونسکی کے ساتھ49 سالہ صدر بل کلنٹن کے ناجائز تعلقات ذرایع ابلاغ میں مشتہر ہوئے۔ عدلیہ، سینیٹ اور کانگریس کے علاوہ ذرایع ابلاغ کا دباؤ اس حد تک بڑھا کہ صدرکے مواخذے کی تیاریاں شروع ہوگئیں۔
بالآخر بل کلنٹن کو ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر آکر قوم سے معذرت کرنا پڑی۔ تب کہیں جا کر ان کی جان چھوٹی۔ تیسرا واقعہ قدرے پرانا ہے، جو 1970 کے عشرے میں پیش آیا۔اس کے مطابق ری پبلکن پارٹی اور اس کی حکومت پر یہ الزام عائد کیا گیاکہ اس نے واشنگٹن میں واقع واٹر گیٹ آفس کمپلیکس میں جاری ڈیموکریٹک پارٹی کے اجلاس کی تفصیلات بگنگ(Bugging)کے ذریعے غیر قانونی طورپر حاصل کیں۔
یہ خبر جولائی1972 میں عام ہوئی اور دو برس تک تفتیشی عمل جاری رہنے کے بعد عدالت نے فرد جرم عائد کردی ۔نتیجتاً رچرڈ نکسن جو اکتوبر1972 میں دوسری مدت کے لیے صدر منتخب ہوگئے تھے،9اگست1974کو قانونی تقاضوں اور شدید عوامی دباؤ کے باعث مستعفی ہونے پر مجبور ہوگئے۔
لہٰذا امریکا کے عالمی کردار سے اختلاف اپنی جگہ، لیکن ملک کے اندر آئین کی پاسداری ، قانون کی حکمرانی اور حکمرانوں سمیت تمام شہریوں کے لیے عدل کا مساوی نظام قائم کرنے میں امریکیوں نے جو نظیر قائم کی ہے، وہ قابل تقلید ہے۔ قانون کی بالادستی اور سیاسی عمل کے ارتقاء کا نتیجہ ہے کہ آج ایک سیاہ فام اس ملک میں اپنی صدارت کی دوسری مدت مکمل کررہا ہے۔
پاکستان میں حکمران اشرافیہ اور سیاسی قیادتیں اس قدر بے حس اور موقع پرست ہیں کہ مختلف ممالک میں اچھی حکمرانی کے لیے کیے گئے تجربات اور اقدامات سے صرفِ نظر کرتی ہیں۔ اسی لیے نظم حکمرانی کو عوام دوست بنانے کے ہر اقدام سے نہ صرف گریز بلکہ اس کی راہ میں رکاوٹ ڈالتی ہیں۔ یہ نظم حکمرانی میں در آنے والی خرابیوں کا تسلسل ہے کہ ریاست کا ہر ادارہ بدعنوانی اور کرپشن کی بدترین مثال بن چکا ہے۔
مگر عزم وبصیرت سے عاری حکمران اشرافیہ (جو سیاستدانوں اور ہر سطح کے سرکاری اہلکاروں پر مشتمل ہے) میں وہ سیاسی عزم و بصیرت ہی نہیں ہے، جو معاشرے کو بہتر بنانے کے لیے درکار ہوتی ہے۔ ہر حکمران کی یہ خواہش ہے کہ وہ جس قدر ممکن ہو، اس ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹے اور جیسے تیسے اپنی مدت پوری کرے۔
محاورہ ہے کہ چورکا بھائی گرہ کٹ۔ اقتدار کے اس گھناؤنے کھیل میں شریک جماعتیں اصلاح احوال کے ہر اقدام کی راہ روک کر دراصل ایک دوسرے کے اقتدار کی ہموارکرتی ہیں اور اسے جمہوریت کا تسلسل قراردیتی ہیں۔عدالتیں بھی انصاف کے اس عالمگیر ویژن سے عاری ہیں، جو معاشروں کی اصلاح کے لیے ضروری ہوتا ہے۔
اب جہاں تک ابتدائیہ میں دیے گئے واقعے کا تعلق ہے تو اس کا سبب ریاستی انتظامی اداروں میں پائی جانے والی نااہلی ہے۔ ایک تو اکیسویںصدی میں 1860 کا پولیس کا نظام ۔ اس پر طرہ یہ کہ اوپر سے نیچے تک پورا عملہ میرٹ کے اصولوں کے برخلاف اقرباء پروری، رشوت ستانی اور سیاسی بنیادوں پر بھرتی کیا ہوا۔ ایک ایسی پولیس سے Pro-Active تو دور کی بات فعال و مستعد کارکردگی کی توقع بھی عبث ہے۔
پھر سب سے زیادہ سیاسی مداخلت نے اس محکمے کو کرپشن، بدعنوانی اور نااہلی کی کھلی تفسیر بنا دیا ہے۔ نوآبادیاتی دور کا تھانہ کلچر جرائم کی بیخ کنی میں سب سے بڑی رکاوٹ ۔ دیگر ضلع انتظامی اداروں کا حال بھی اس سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ چنانچہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ بہت کم ہے۔ حالات اس قدر ابتر ہیں کہ اس سے بھی برے کی توقع کی جانی چاہیے۔
ان اظہاریوں کا مقصد کسی بھی طور پر آمریت کو دعوت دینا نہیں ہے ۔ بلکہ ان جماعتوں کو آئینہ دکھانا ہے، جو ہمارے ووٹ اور وسائل کا مسلسل ناجائز استعمال کرتی چلی آرہی ہیں۔ کیا ہارس ٹریڈنگ سے بچنے کے لیے 22ویں آئینی ترمیم ضروری ہے؟ کیا اراکین اسمبلی کو مزید اپنی غلامی کے شکنجوں میں جکڑنے کے بجائے اچھے امیدوار سامنے نہیں لائے جاسکتے؟
کیا میرٹ، شفافیت اور جوابدہی کے نظام کو فعال اور مستعد بنا کر ہارس ٹریڈنگ اور بدعنوانی کے دیگر ذرایع کا راستہ نہیں روکا جاسکتا؟ کیا پولیس سمیت مختلف انتظامی اداروں میں میرٹ کی بنیاد پر تقرری، تعیناتی اور تبادلوں کے عمل کو پروان نہیں چڑھایا جاسکتا؟ کیا ریاست کے مختلف اداروں میں کرپٹ اور بدعنوان عناصر کی تطہیر کا طریقہ کار وضع نہیں ہو سکتا؟ اگر یہ سب ممکن ہے تو پھر اس عمل میں تاخیرکیوں؟ اس کا مطلب واضح ہے کہ سیاسی قیادتیں خود موجودہ Status Quoکو برقرار رکھنا چاہتی ہیں، تاکہ ان کی اپنی کرپشن، بدعنوانیاں اور نااہلی پر پردہ پڑا رہے۔
پچھلے اظہاریے میں بھی لکھا ہے اور اب پھر لکھ رہے ہیں کہ پاکستان میں ناکام ہوتے نظم حکمرانی اور پیچیدہ ہوتے بحرانوں کو حل کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ سیاستدان سر جوڑ کر بیٹھیں اور ملک کی سلامتی ، بقاء اور عوام کے وسیع تر مفاد میں سخت گیر ،مگر پائیدار اوردیرپا اقدامات کرنے کے عزم کا مظاہرہ کریں۔ ہمارے خیال میں جو اقدامات ترجیحی بنیادوں پر کیے جانے ضروری ہوچکے ہیں ، وہ درج ذیل ہیں۔ اول، ملک میں فی الفور انتخابی اصلاحات لائی جائیں اور الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کی جائے۔
دوئم، ملک میں دو درجاتی کے بجائے تین درجاتی(Three tier) نظام نافذ کیا جائے۔ پورے ملک کے لیے یکساں مقامی حکومتی نظام تیار کرنے کی خاطر وفاقی حکومت ایک کمیشن تشکیل دے، جس میں صوبائی حکومتوں کی وزارت بلدیات کے علاوہ گورننس پر کام کرنے والی تنظیموں کے نمایندوں کو شامل کیا جائے۔
سوئم، ملک میں سول سروس کی تشکیل نو یعنیRestructureکیا جائے اور وفاقی اور صوبائی کے علاوہ ضلع (یا میونسپل) سروسز کمیشن کا قیام بھی عمل میں لایا جائے، تاکہ نچلی سطح پر اہل اور قابل اہلکار سامنے آٓسکیں۔ چہارم، آئین کے آرٹیکل 62اور63کا مقصد اچھے کردار کے حامل امیدواروں کو سامنے لانا تھا، جو یوٹیلٹیز سمیت ٹیکس اور قرضہ جات وغیرہ میں نادہندہ نہ ہوں۔ مگر ان شقوں کو تمسخر بنا دیا گیا۔ حالانکہ یہ سیاسی جماعتوں کی ذمے داری ہے کہ وہ ہر سطح پرایسے امیدوارسامنے لائیں ، جو اپنے کردار میں مضبوط اور شفاف ہوں۔
کاش یہ خواہشیں خبر بن جائیں اور سیاسی جماعتیں نوشتہ دیوار پڑھ لیں ۔ اس سے قبل کہ کوئی اور یہ ذمے داری سنبھالے، سیاسی جماعتیں خود آگے بڑھ کر تبدیلی کی بنیاد رکھ دیں۔ یہ طے ہے کہ ملک اب کسی قسم کا کوئی نیا غیر جمہوری ایڈونچر سہنے کا متحمل نہیں ہوسکتا، اس لیے جس قدر جلد ممکن ہو، سیاسی جماعتیں بری حکمرانی کے ناسور کوختم کرنے کا عمل شروع کریں ۔