آر ایس ایس کی دہشت گردی … پہلاحصہ
مولانا آزاد ضرور گاندھی کی شخصیت کو نہ سمجھ سکے اور اس لیے بعد میں وہ بہت پچھتائے
پیرس کے واقعے نے ثابت کر دیا ہے کہ مسلمان اپنے نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لازوال محبت کرتے ہیں اور ناموس رسالتؐ کی حرمت کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے سے بھی ذرا نہیں ہچکچاتے۔ اظہار رائے کے پردے میں ناموس رسالتؐ کی تضحیک کرنا کھلی دہشت گردی نہیں تو پھر کیا ہے؟ بدقسمتی سے اسلام کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے حرمت رسالتؐ کے خلاف ایک زمانے سے دشمنان اسلام اپنی بزدلانہ حرکات کا ارتکاب کرتے چلے آ رہے ہیں۔
اس مذموم حرکت کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ غازی صلاح الدین کے ہاتھوں صلیبیوں کی شکست کے بعد سے ہی یہ بدقسمت سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ اب تک یورپی مصنفین اور مبلغین ایک لاکھ سے زیادہ کتابیں اس دل بیزار مشق کی نذر کر چکے ہیں۔ ان کتابوں میں اسلام اور نبی مکرمؐ کے خلاف بے سروپا واقعات اور بلاتحقیق مواد موجود ہے۔
ان میں متعصب مصنفین نے اسلام کے خلاف خوب دل کھول کر اپنی نفرت اور عناد کا پرچار کیا ہے مگر حیرت انگیز طور پر مغرب کی اسلام کا راستہ روکنے کی یہ تمام کوششیں رائیگاں ہی ثابت ہوئی ہیں چنانچہ اب آج کل ناچار کتابوں کی جگہ خاکوں سے کام لیا جا رہا ہے۔
ہمارے خطے میں بھی اسلام دشمنی کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ ہندوستان میں اسلام کی مقبولیت کے آگے بند باندھنے کے لیے رجعت پسند ہندوؤں نے ہر وہ حربہ استعمال کیا جو ان کے بس میں تھا۔ کبھی نو مسلموں کو شدھی فتنے کے ذریعے ہندو بنانے کی گھناؤنی مہم شروع کی گئی تو کبھی پیغمبر اسلامؐ کے خلاف کتابیں اور کتابچے لکھے گئے۔
یہ سلسلہ انگریزوں کے زمانے میں خوب پھلا پھولا کیونکہ وہ تو خود پہلے سے ہی یورپ میں اسلام دشمنی پر کمر بستہ چلے آ رہے تھے تاہم اس گھناؤنی مہم کے خلاف مسلمانان برصغیر سینہ سپر ہو گئے اور جب عدالتیں بھی متعصبانہ فیصلے دینے لگیں تو بالآخر انھوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے اس منظم مذموم مہم جوئی کا قلع قمع کر کے دم لیا مگر اب تقریباً سو سال بعد بھارت میں ایک بار پھر شدھی فتنے کے گڑھے مردے کو زندہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
نریندر مودی کی حکومت کے بارے انتخابات سے قبل ہی مسلمانوں کی جانب سے جو خدشات ظاہر کیے جا رہے تھے وہ اب سچ ثابت ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ مودی کے الیکشن میں کامیاب ہوتے ہی بی جے پی کی ذیلی انتہا پسند تنظیموں نے جگہ جگہ مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دے کر انھیں ڈرانا دھمکانا پاکستانی ایجنٹ کا طعنہ دینا اور ان پر حملے شروع کر دیے تھے۔
کئی شہروں میں مسلمان نوجوانوں کو دہشت گرد قرار دے کر قتل کر دیا گیا۔ اب بی جے پی کی ان بغل بچہ تنظیموں نے آر ایس ایس کے ہیڈ کوارٹر واقع ناگپور سے ہدایت پا کر بھارت کے کئی شہروں میں غریب اور ان پڑھ مسلمان خاندانوں کو جبراً ہندو بنانا شروع کر دیا ہے۔
اس شرم ناک فعل کو ''گھر واپس'' تحریک کا نام دیا گیا ہے۔ اس گھناؤنے عمل کے شروع ہونے سے بھارت کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے مسلمانوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔ بھارتی شہر آگرہ میں غریب مسلمانوں کو زبردستی ہندو بنانے پر گزشتہ دنوں بھارتی پارلیمنٹ میں حزب اختلاف کی جانب سے شدید ہنگامہ آرائی کی گئی۔
اپوزیشن رہنماؤں نے وزیر اعظم نریندر مودی سے مطالبہ کیا کہ وہ پارلیمنٹ میں آ کر زبردستی مذہب تبدیل کروانے کے واقعات کی وضاحت کریں ورنہ وہ ایوان کی کارروائی نہیں چلنے دیں گے۔ دراصل حزب اختلاف صرف مسلمانوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے یہ احتجاج کر رہی ہے ورنہ خود اس کے اپنے لیڈر مسلم دشمنی میں ڈوبے ہوئے ہیں حالیہ الیکشن میں زبردست شکست کھانے کے بعد اس وقت کانگریس مسلمانوں کے حقوق کے لیے پرزور آواز بلند کر رہی ہے مگر بابری مسجد کا سانحہ اسی کے دور میں رونما ہوا تھا۔ پھر ممبئی میں سیکڑوں مسلمانوں کو کانگریس کے ہی دور میں قتل کیا گیا تھا۔
اگر کانگریس کی مرکزی حکومت چاہتی تو بابری مسجد کو ہرگز آر ایس ایس کے غنڈے تباہ نہ کر پاتے اور وہاں مورتیاں بھی نہ رکھ پاتے۔ اس سانحے کے بعد اس وقت کانگریسی وزیر اعظم نرسمہاراؤ نے اپنے بیان میں اس سانحے پر مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہوئے کہا تھا کہ اگر یوپی میں کانگریس کی حکومت ہوتی تو ہرگز بابری مسجد کا سانحہ رونما نہ ہوتا مگر اسے کیا کہیے کہ 1949ء میں جب پہلی دفعہ بابری مسجد کے تقدس کو پامال کیا گیا تھا اور وہاں مورتیاں رکھی گئی تھیں اس وقت یوپی میں کانگریس کی ہی حکومت تھی۔ مشہور کانگریسی لیڈر پنڈت گووند ولبھ پنت وہاں کے وزیر اعلیٰ تھے۔
مسٹر پنت خود بابری مسجد کی بے حرمتی کی سازش میں شریک تھے۔ دراصل کانگریس نے سیکولرزم کے لبادے میں خود کو چھپا رکھا ہے۔ ورنہ اس کے رہنما آر ایس ایس کے رہنماؤں سے کم مسلم دشمن نہیں ہیں۔ 2002ء میں گجرات میں نریندر مودی کے پلان کے مطابق کئی ہزار مسلمان مرد عورتوں اور بچوں کو قتل کر دیا گیا تھا۔ خواتین کی وہ بے حرمتی کی گئی تھی کہ جس کی برصغیر میں نظیر نہیں ملتی۔ عورتوں کی عزت کو داغدار کرنے کے علاوہ حاملہ عورتوں کے پیٹ چاک کر دیے گئے تھے۔
ایسی درندگی پھیلانے والے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کو کانگریسی وزیر اعظم من موہن سنگھ نے خود احمد آباد جا کر بھارت کے سب سے کامیاب وزیر اعلیٰ کا ایوارڈ دیا تھا۔ ولبھ بھائی پٹیل جو مسلمانوں کے کٹر دشمن تھے کانگریس کے سرکردہ لیڈر تھے۔ تقسیم کے بعد وہ بھارت کے پہلے وزیر داخلہ بنائے گئے تھے۔
اسی شخص نے جونا گڑھ حیدرآباد دکن اور کشمیر پر حملہ کروا کر ان کا نہ صرف مسلم تشخص ختم کرا دیا تھا بلکہ کشمیریوں کو بھارت کا غلام بنا دیا تھا۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنی خود نوشت ''آزادی ہند'' "India wins freedom" میں کھلے الفاظ میں لکھا ہے کہ پٹیل مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن تھا وہ گاندھی اور نہرو کی مسلمانوں کے ساتھ ہمدردانہ پالیسی کے سخت خلاف تھا۔ مولانا کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ گاندھی کے قتل میں بھی پٹیل کا ہاتھ تھا کیوں کہ وہ درپردہ آر ایس ایس کا نمایندہ تھا اور اس کے گاندھی کے قاتل نتھو رام گوڈسے سے تعلقات تھے۔
اس وقت نریندر مودی حکومت پٹیل کی ایک مہنگی یادگار تعمیر کر رہی ہے جس کے تحت احمد آباد کے قریب نربدا ندی کے کنارے پٹیل کا سو فٹ اونچا آہنی مجسمہ نصب کیا جائے گا۔ نریندر آخر کانگریس کے اس رہنما کو اتنی اہمیت کیوں دے رہے ہیں اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ پٹیل ان کی طرح مسلمانوں کا کٹر دشمن اور کانگریس میں آر ایس ایس کا خفیہ نمایندہ تھا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ کانگریس اگرچہ اوپر سے سیکولرازم کا خول چڑھائے ہوئے ہے مگر ان کے اکثر لیڈر آرایس ایس کے نظریات کے حامل ہیں۔
اگر ہم کانگریس کی تاریخ کا بغور مطالعہ کریں تو ہمیں گاندھی کی شخصیت بھی آر ایس ایس سے متاثر نظر آتی ہے اس کا ایک ثبوت تو یہ ہے کہ کانگریس میں پٹیل کو داخل کرانے والے خود گاندھی تھے بعد میں پٹیل کے بارے میں گاہے بہ گاہے کئی شکایتیں گاندھی کے سامنے لائی گئیں مگر گاندھی نے انھیں جان بوجھ کر نظر انداز کر دیا تھا پھر وہ ہمیشہ ہی پٹیل کو اپنا آدمی کہتے رہے البتہ نہرو ضرور بعض مواقعے پر پٹیل سے الرجک رہے۔
اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ گاندھی جنھیں برصغیر میں امن کا دیوتا تصور کیا جاتا تھا دراصل ایک کٹر پنتھی شخص تھے مگر صرف اکھنڈ بھارت کے قیام کے لیے مسلمانوں کا فیور حاصل کرنے کے لیے وہ ایک سیکولر کا روپ دھارے ہوئے تھے مگر قائد اعظم نے انھیں خوب پہچانا تھا اور ان کی چانکیائی خواہش کی راہ میں رکاوٹ بن گئے تھے۔ تاہم مولانا آزاد ضرور گاندھی کی شخصیت کو نہ سمجھ سکے اور اس لیے بعد میں وہ بہت پچھتائے اور پاکستان کی مخالفت کرنے پر آخر دم تک شرمندہ رہے۔
بات دراصل آر ایس ایس کی ہو رہی تھی وہ ابتدا سے ہی ایک کٹر مسلم دشمن جماعت ہے۔ اس کے قیام کا مقصد ہی مسلمانوں کو برصغیر سے باہر دھکیلنا یا پھر انھیں قتل عام کے ذریعے ختم کرنا ہے حسن اتفاق سے 1905ء سے قبل برصغیر میں ہندوؤں کی کوئی مسلم دشمن تنظیم موجود نہیں تھی۔
مگر اسی سال وائسرائے ہند لارڈ کرزن جو 1857ء کی جنگ آزادی میں مسلمانوں اور ہندوؤں کے اتحاد سے انگریزوں کو پہنچنے والے نقصان کی وجہ سے مسلم ہندو اتحاد کا سخت دشمن تھا اس نے اپنے ایک بیان میں ہندوؤں کے خلاف کھل کر سخت الفاظ استعمال کیے۔ اس نے ہندوؤں کو ڈرپوک اور بزدل قرار دیا۔ یہ دراصل ایک سوچے سمجھے سازشی منصوبے کے تحت بیان دیا گیا تھا جس کا مقصد ہندوؤں کی غیرت ملی کو جھنجھوڑنا تھا۔
(جاری ہے۔)
اس مذموم حرکت کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ غازی صلاح الدین کے ہاتھوں صلیبیوں کی شکست کے بعد سے ہی یہ بدقسمت سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ اب تک یورپی مصنفین اور مبلغین ایک لاکھ سے زیادہ کتابیں اس دل بیزار مشق کی نذر کر چکے ہیں۔ ان کتابوں میں اسلام اور نبی مکرمؐ کے خلاف بے سروپا واقعات اور بلاتحقیق مواد موجود ہے۔
ان میں متعصب مصنفین نے اسلام کے خلاف خوب دل کھول کر اپنی نفرت اور عناد کا پرچار کیا ہے مگر حیرت انگیز طور پر مغرب کی اسلام کا راستہ روکنے کی یہ تمام کوششیں رائیگاں ہی ثابت ہوئی ہیں چنانچہ اب آج کل ناچار کتابوں کی جگہ خاکوں سے کام لیا جا رہا ہے۔
ہمارے خطے میں بھی اسلام دشمنی کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ ہندوستان میں اسلام کی مقبولیت کے آگے بند باندھنے کے لیے رجعت پسند ہندوؤں نے ہر وہ حربہ استعمال کیا جو ان کے بس میں تھا۔ کبھی نو مسلموں کو شدھی فتنے کے ذریعے ہندو بنانے کی گھناؤنی مہم شروع کی گئی تو کبھی پیغمبر اسلامؐ کے خلاف کتابیں اور کتابچے لکھے گئے۔
یہ سلسلہ انگریزوں کے زمانے میں خوب پھلا پھولا کیونکہ وہ تو خود پہلے سے ہی یورپ میں اسلام دشمنی پر کمر بستہ چلے آ رہے تھے تاہم اس گھناؤنی مہم کے خلاف مسلمانان برصغیر سینہ سپر ہو گئے اور جب عدالتیں بھی متعصبانہ فیصلے دینے لگیں تو بالآخر انھوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے اس منظم مذموم مہم جوئی کا قلع قمع کر کے دم لیا مگر اب تقریباً سو سال بعد بھارت میں ایک بار پھر شدھی فتنے کے گڑھے مردے کو زندہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
نریندر مودی کی حکومت کے بارے انتخابات سے قبل ہی مسلمانوں کی جانب سے جو خدشات ظاہر کیے جا رہے تھے وہ اب سچ ثابت ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ مودی کے الیکشن میں کامیاب ہوتے ہی بی جے پی کی ذیلی انتہا پسند تنظیموں نے جگہ جگہ مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دے کر انھیں ڈرانا دھمکانا پاکستانی ایجنٹ کا طعنہ دینا اور ان پر حملے شروع کر دیے تھے۔
کئی شہروں میں مسلمان نوجوانوں کو دہشت گرد قرار دے کر قتل کر دیا گیا۔ اب بی جے پی کی ان بغل بچہ تنظیموں نے آر ایس ایس کے ہیڈ کوارٹر واقع ناگپور سے ہدایت پا کر بھارت کے کئی شہروں میں غریب اور ان پڑھ مسلمان خاندانوں کو جبراً ہندو بنانا شروع کر دیا ہے۔
اس شرم ناک فعل کو ''گھر واپس'' تحریک کا نام دیا گیا ہے۔ اس گھناؤنے عمل کے شروع ہونے سے بھارت کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے مسلمانوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔ بھارتی شہر آگرہ میں غریب مسلمانوں کو زبردستی ہندو بنانے پر گزشتہ دنوں بھارتی پارلیمنٹ میں حزب اختلاف کی جانب سے شدید ہنگامہ آرائی کی گئی۔
اپوزیشن رہنماؤں نے وزیر اعظم نریندر مودی سے مطالبہ کیا کہ وہ پارلیمنٹ میں آ کر زبردستی مذہب تبدیل کروانے کے واقعات کی وضاحت کریں ورنہ وہ ایوان کی کارروائی نہیں چلنے دیں گے۔ دراصل حزب اختلاف صرف مسلمانوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے یہ احتجاج کر رہی ہے ورنہ خود اس کے اپنے لیڈر مسلم دشمنی میں ڈوبے ہوئے ہیں حالیہ الیکشن میں زبردست شکست کھانے کے بعد اس وقت کانگریس مسلمانوں کے حقوق کے لیے پرزور آواز بلند کر رہی ہے مگر بابری مسجد کا سانحہ اسی کے دور میں رونما ہوا تھا۔ پھر ممبئی میں سیکڑوں مسلمانوں کو کانگریس کے ہی دور میں قتل کیا گیا تھا۔
اگر کانگریس کی مرکزی حکومت چاہتی تو بابری مسجد کو ہرگز آر ایس ایس کے غنڈے تباہ نہ کر پاتے اور وہاں مورتیاں بھی نہ رکھ پاتے۔ اس سانحے کے بعد اس وقت کانگریسی وزیر اعظم نرسمہاراؤ نے اپنے بیان میں اس سانحے پر مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہوئے کہا تھا کہ اگر یوپی میں کانگریس کی حکومت ہوتی تو ہرگز بابری مسجد کا سانحہ رونما نہ ہوتا مگر اسے کیا کہیے کہ 1949ء میں جب پہلی دفعہ بابری مسجد کے تقدس کو پامال کیا گیا تھا اور وہاں مورتیاں رکھی گئی تھیں اس وقت یوپی میں کانگریس کی ہی حکومت تھی۔ مشہور کانگریسی لیڈر پنڈت گووند ولبھ پنت وہاں کے وزیر اعلیٰ تھے۔
مسٹر پنت خود بابری مسجد کی بے حرمتی کی سازش میں شریک تھے۔ دراصل کانگریس نے سیکولرزم کے لبادے میں خود کو چھپا رکھا ہے۔ ورنہ اس کے رہنما آر ایس ایس کے رہنماؤں سے کم مسلم دشمن نہیں ہیں۔ 2002ء میں گجرات میں نریندر مودی کے پلان کے مطابق کئی ہزار مسلمان مرد عورتوں اور بچوں کو قتل کر دیا گیا تھا۔ خواتین کی وہ بے حرمتی کی گئی تھی کہ جس کی برصغیر میں نظیر نہیں ملتی۔ عورتوں کی عزت کو داغدار کرنے کے علاوہ حاملہ عورتوں کے پیٹ چاک کر دیے گئے تھے۔
ایسی درندگی پھیلانے والے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کو کانگریسی وزیر اعظم من موہن سنگھ نے خود احمد آباد جا کر بھارت کے سب سے کامیاب وزیر اعلیٰ کا ایوارڈ دیا تھا۔ ولبھ بھائی پٹیل جو مسلمانوں کے کٹر دشمن تھے کانگریس کے سرکردہ لیڈر تھے۔ تقسیم کے بعد وہ بھارت کے پہلے وزیر داخلہ بنائے گئے تھے۔
اسی شخص نے جونا گڑھ حیدرآباد دکن اور کشمیر پر حملہ کروا کر ان کا نہ صرف مسلم تشخص ختم کرا دیا تھا بلکہ کشمیریوں کو بھارت کا غلام بنا دیا تھا۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنی خود نوشت ''آزادی ہند'' "India wins freedom" میں کھلے الفاظ میں لکھا ہے کہ پٹیل مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن تھا وہ گاندھی اور نہرو کی مسلمانوں کے ساتھ ہمدردانہ پالیسی کے سخت خلاف تھا۔ مولانا کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ گاندھی کے قتل میں بھی پٹیل کا ہاتھ تھا کیوں کہ وہ درپردہ آر ایس ایس کا نمایندہ تھا اور اس کے گاندھی کے قاتل نتھو رام گوڈسے سے تعلقات تھے۔
اس وقت نریندر مودی حکومت پٹیل کی ایک مہنگی یادگار تعمیر کر رہی ہے جس کے تحت احمد آباد کے قریب نربدا ندی کے کنارے پٹیل کا سو فٹ اونچا آہنی مجسمہ نصب کیا جائے گا۔ نریندر آخر کانگریس کے اس رہنما کو اتنی اہمیت کیوں دے رہے ہیں اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ پٹیل ان کی طرح مسلمانوں کا کٹر دشمن اور کانگریس میں آر ایس ایس کا خفیہ نمایندہ تھا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ کانگریس اگرچہ اوپر سے سیکولرازم کا خول چڑھائے ہوئے ہے مگر ان کے اکثر لیڈر آرایس ایس کے نظریات کے حامل ہیں۔
اگر ہم کانگریس کی تاریخ کا بغور مطالعہ کریں تو ہمیں گاندھی کی شخصیت بھی آر ایس ایس سے متاثر نظر آتی ہے اس کا ایک ثبوت تو یہ ہے کہ کانگریس میں پٹیل کو داخل کرانے والے خود گاندھی تھے بعد میں پٹیل کے بارے میں گاہے بہ گاہے کئی شکایتیں گاندھی کے سامنے لائی گئیں مگر گاندھی نے انھیں جان بوجھ کر نظر انداز کر دیا تھا پھر وہ ہمیشہ ہی پٹیل کو اپنا آدمی کہتے رہے البتہ نہرو ضرور بعض مواقعے پر پٹیل سے الرجک رہے۔
اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ گاندھی جنھیں برصغیر میں امن کا دیوتا تصور کیا جاتا تھا دراصل ایک کٹر پنتھی شخص تھے مگر صرف اکھنڈ بھارت کے قیام کے لیے مسلمانوں کا فیور حاصل کرنے کے لیے وہ ایک سیکولر کا روپ دھارے ہوئے تھے مگر قائد اعظم نے انھیں خوب پہچانا تھا اور ان کی چانکیائی خواہش کی راہ میں رکاوٹ بن گئے تھے۔ تاہم مولانا آزاد ضرور گاندھی کی شخصیت کو نہ سمجھ سکے اور اس لیے بعد میں وہ بہت پچھتائے اور پاکستان کی مخالفت کرنے پر آخر دم تک شرمندہ رہے۔
بات دراصل آر ایس ایس کی ہو رہی تھی وہ ابتدا سے ہی ایک کٹر مسلم دشمن جماعت ہے۔ اس کے قیام کا مقصد ہی مسلمانوں کو برصغیر سے باہر دھکیلنا یا پھر انھیں قتل عام کے ذریعے ختم کرنا ہے حسن اتفاق سے 1905ء سے قبل برصغیر میں ہندوؤں کی کوئی مسلم دشمن تنظیم موجود نہیں تھی۔
مگر اسی سال وائسرائے ہند لارڈ کرزن جو 1857ء کی جنگ آزادی میں مسلمانوں اور ہندوؤں کے اتحاد سے انگریزوں کو پہنچنے والے نقصان کی وجہ سے مسلم ہندو اتحاد کا سخت دشمن تھا اس نے اپنے ایک بیان میں ہندوؤں کے خلاف کھل کر سخت الفاظ استعمال کیے۔ اس نے ہندوؤں کو ڈرپوک اور بزدل قرار دیا۔ یہ دراصل ایک سوچے سمجھے سازشی منصوبے کے تحت بیان دیا گیا تھا جس کا مقصد ہندوؤں کی غیرت ملی کو جھنجھوڑنا تھا۔
(جاری ہے۔)