ایک وقت ایک اذان

اگر اس مسئلے میں قوم کو یکسو رکھنا مقصود ہے تو فیصلے پر سختی سے عمل درآمد کروایا جائے۔

ایک مسجد کی اذان ختم ہوتے ہی دوسری مسجد کا موذن اس سے زیادہ تیز آواز میں اذان دیتا ہے جیسے کسی مقابلے میں شرکت کے لیے آئے ہیں۔ فوٹو: فائل

QUETTA:
مدت سے ایک چیز بڑی شدت سے محسوس کررہا تھا، اور ایسا لگتا ہے کہ میری طرح اِس ملک کے سینکڑوں باشندوں نے بھی ضرور محسوس کیا ہوگا۔ خوشی ہوئی کہ بالآخر حکومت کو اِس معاملے میں ہوش آہی گیا۔

کہنے والے تو کہتے ہیں کہ حکومت نے کیا دیگر مسائل ختم کردیے جو اب اس مسئلے کو حل کرنے چل پڑے ہیں۔ میرے خیال میں یہ معاملہ ایسا نہیں جسے معمولی سمجھا جائے۔ اذان کے لیے ایک وقت مقرر کرنا ایک اچھا اقدام ہے۔ جس کی تعریف بہرحال ہونی چاہیے۔ اس کے نافذ ہونے کی صورت میں مختلف مسائل پیدا ہونے پر بات ہوسکتی ہے۔ مثلاً: طلوع اور غروب پاکستان کے شہروں میں مختلف اوقات میں ہوتا ہے۔ اس لیے صوبوں اور شہروں کی بنیاد پر اذان کے لیے ایک وقت مقرر ہوسکتا ہے۔

اعتراض کرنے والوں نے کہا کہ مختلف مکتب فکر کے ہاں اوقات کار مختلف ہوتے ہیں۔ اِس لیے یہ طریقہ قابل عمل نہیں جبکہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ فرقہ واریت کی آگ کو کم کرنے کے لیے تو یہ طریقہ اختیار کیا جارہا ہے۔ یقیناً اس معاملے پر بہت سارے مسائل سے سابقہ پڑسکتا ہے لیکن انہیں انگیز کرنا چنداں مشکل کام نہیں ہے۔ ہمارے یہاں ہوتا یہ ہے کہ ایک محلے میں مختلف فرقوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی مساجد ہیں۔ ایک مسجد کی اذان ختم ہوتے ہی دوسری مسجد کا موذن اس سے زیادہ تیز آواز میں اذان دیتا ہے جیسے کسی مقابلے میں شرکت کے لیے آئے ہیں۔ کبھی کبھار تو لوگ کوفت کا شکار ہوجاتے ہیں، لیکن چونکہ پاکستان میں مذہب کے نام پر کوئی بھی اور کچھ بھی گُل کھلائے تو اس پر اعتراض کرنے والا قابل کشتنی اور گردن زدنی ہوجاتا ہے۔


آپ خود غور کریں اذان کا دورانیہ اب 2 سے 3 منٹ نہیں رہا۔ یہ سلسلہ 15 منٹ تک مسلسل جاری رہتا ہے۔ اذان کے بعد کا وقفہ بھی غیر ضروری ہے۔ اس میں 2 سے 5 منٹ کا وقفہ تو ٹھیک ہے لیکن 15 سے 20 منٹ کا وقفہ لوگوں کی نمازیں چھڑادیتا ہے۔ عموماً ہم دیکھتے ہیں کہ مغرب میں نمازیوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یقینا یہی ہے کہ مغرب کی اذان کے بعد وقفہ نہیں ہوتا لوگ اذان سنتے ہی مسجد کی طرف دوڑ لگادیتے ہیں ورنہ سستی حملہ آور ہوتی ہے۔ ایک 2 رکعتیں نکل جانا معمول ہے۔ نمازیں جماعت سے چھوڑنا الگ ہے۔

ترکی نے بہت پہلے یہ تجربہ کیا اور آج تک کامیابی کے ساتھ جاری ہے۔ انہوں نے اذان کے سسٹم کو کمپیوٹرائزڈ بھی کرلیا جس کی وجہ سے غلطی کا امکان بہت کم ہے۔ پاکستان میں اس تجربے کے دوران ہونے والی خامیوں کو دور کرکے اسے مؤثر بنایا جاسکتا ہے۔ دیکھنے میں یہ بھی آتا ہے کہ اکثر وبیشتر اس طرح کے فیصلے چند دن بعد اپنی افادیت کھو دیتے ہیں اور معمولات زندگی پھر سے یوں ہی رواں دواں ہوجاتی ہے۔

اگر اس مسئلے میں قوم کو یکسو رکھنا مقصود ہے تو فیصلے پر سختی سے عمل درآمد کروایا جائے۔ فی الحال یہ طریقہ دارالحکومت میں رائج کیا جارہا ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ اسے دیگر شہروں تک پھیلایا جائے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔
Load Next Story