پاک سعودی تعلقات مضبوط بنانے کا عزم
پاکستان اور سعودی عرب دونوں برادر اسلامی ملک مشترکہ تاریخی اقدار اور مذہب کے مضبوط رشتے سے جڑے ہوئے ہیں۔
وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے بدھ کو ریاض میں سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے ساتھ ملاقات کی، اس موقع پر دونوں رہنماؤں نے مستقبل میں پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات مزید مستحکم بنانے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے اس امر پر اتفاق کیا کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی مشترکہ دشمن ہیں اور دونوں ممالک سیکیورٹی کے شعبے میں تعاون جاری رکھیں گے۔
اس موقع پر سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے نیک تمناؤں کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب کی خواہش ہے کہ پاکستان خوشحال ہو اور ترقی کرے' انھوں نے کہا کہ سعودی عرب پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو بے حد اہمیت دیتا ہے اور وہ ان کو مزید مستحکم بنانے کا خواہاں ہے۔
پاکستان اور سعودی عرب دونوں برادر اسلامی ملک مشترکہ تاریخی اقدار اور مذہب کے مضبوط رشتے سے جڑے ہوئے ہیں۔ شاہ عبداللہ کی وفات کے بعد شاہ سلمان سعودی عرب کے نئے فرمانروا بنے ہیں۔
دونوں ممالک کے باہمی تعلقات شروع دن سے ہی اتنے مضبوط اور گہرے چلے آ رہے ہیں کہ کسی حکمران کے آنے اور جانے سے اس پر کوئی منفی اثر مرتب نہیں ہوتا، نہ یہ کبھی سرد مہری کا شکار ہوئے اور نہ کبھی کسی قسم کی تلخی یا رنجش پیدا ہوئی بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ برادرانہ تعلقات مضبوط سے مضبوط تر ہوتے چلے جا رہے ہیں، ہر نیا آنے والا سعودی حکمران پاکستان سے اپنے تعلقات مزید مضبوط کرنے کی خواہش کا اظہار کرتا ہے۔
موجودہ فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے بھی ایسی ہی خواہش کا اظہار کیا ہے' ان کی پاکستان سے گہری محبت کا اظہار اس امر سے بھی ہوتا ہے کہ جب وزیراعظم نواز شریف سعودی فرمانروا کی دعوت پر تین روزہ سرکاری دورہ پر ریاض پہنچے تو شاہ سلمان بن عبدالعزیز السعود نے روایتی پروٹوکول بالائے طاق رکھتے ہوئے ذاتی طور پر ان کا گرمجوشی سے استقبال کیا، ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ سعودی شاہ نے کسی سربراہ حکومت کا ایئرپورٹ جا کر خود استقبال کیا ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان گہرے برادرانہ اور دوستانہ تعلقات کا واضح اظہار کئی بار ہوا، سعودی عرب نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کی مدد کی سیلاب ہو یا زلزلہ یا اور کوئی مشکل گھڑی سعودی عرب پاکستان کی معاونت میں کبھی پیچھے نہیں رہا۔ ایٹمی دھماکا کرنے کے بعد جب پاکستان عالمی دباؤ کا شکار ہوا تو ایسی نازک گھڑی میں بھی سعودی عرب نے پاکستان کو تیل فراہم کر کے اسے معاشی مشکلات سے نکلنے میں مدد دی۔ باہمی تعلقات کے علاوہ عالمی سطح پر پیدا ہونے والے بہت سے مسائل میں دونوں ممالک کے درمیان ہم آہنگی پائی جاتی ہے' فلسطین کے مسئلے پر پاکستان نے ہمیشہ سعودی موقف کی تائید کی تو کشمیر کے مسئلہ پر سعودی عرب نے پاکستان کا ساتھ دیا۔
ریاض میں ہونے والی ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے تجارت' سرمایہ کاری' توانائی اور بنیادی ڈھانچے سمیت مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا۔ جہاں پاکستان کو دہشت گردی اور انتہا پسندی جیسے عفریت کا سامنا ہے وہاں سعودی عرب بھی اس خطرے سے دوچار ہے۔ سعودی فرمانروا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے کہا کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی پاکستان اور سعودی عرب کے مشترکہ دشمن ہیں جس کے خاتمے کے لیے مشترکہ کوششیں ضروری ہیں۔ سعودی عرب میں دہشت گردی کے اکا دکا واقعات ہوتے رہتے ہیں وہاں کی انتظامیہ اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔
دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے جہاں دونوں برادر مسلم ممالک کو باہمی تعاون کو فروغ دینے کی ضرورت ہے وہاں تجارت' سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اور دفاع کے میدان میں بھی تعلقات کو زیادہ سے زیادہ مضبوط بنانے کی پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے۔ دونوں ممالک کی باہمی تجارت کا حجم ساڑھے چار ارب ڈالر ہے، اس وقت 10 لاکھ کے قریب پاکستانی روز گار کے سلسلے میں سعودی عرب میں مقیم ہیں جن کی طرف سے ترسیلات زر کا پاکستانی معیشت کے استحکام میں اہم کردار ہے۔
دونوں برادر اسلامی ممالک کے درمیان باہمی تجارت بڑھانے کی بہت گنجائش موجود ہے' پاکستان جسے اس وقت کمزور معیشت کا سامنا ہے اگر وہ اپنی تجارت کو سعودی عرب کے ساتھ مزید فروغ دے تو اس سے یہاں خوشحالی میں خاطر خواہ اضافہ ہو گا۔ سعودی عرب میں روز گار کے وسیع مواقع اب بھی موجود ہیں پاکستان کو اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ سعودی عرب تیل کی دولت سے مالا مال امیر ملک ہے اور عالمی سطح پر اس کا اہم مقام ہے مگر وہ سائنس و ٹیکنالوجی اور تعلیم کے میدان میں بہت پیچھے ہے' صنعت اور زراعت کے میدان میں بھی اس نے کوئی خاطر خواہ ترقی نہیں کی' دفاعی میدان میں وہ کوئی بڑی قوت نہیں۔
سعودی عرب کے پاس جتنی دولت ہے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں خاطر خواہ ترقی کرتا۔ اب بھی اگر وہ اپنے ہاں جدید علوم کو فروغ دے، تحقیقاتی ادارے قائم کرے تو وہ چند برسوں میں سائنس ٹیکنالوجی میں بہت آگے نکل سکتا ہے۔
جنوبی ایشیا کے خطے اور عالمی سطح پر جس تیزی سے تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اس کا تقاضا بھی یہی ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب دونوں برادر اسلامی ممالک مل کر آگے بڑھیں اور عالمی سطح پر اہم کردار ادا کریں۔
اس موقع پر سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے نیک تمناؤں کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب کی خواہش ہے کہ پاکستان خوشحال ہو اور ترقی کرے' انھوں نے کہا کہ سعودی عرب پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو بے حد اہمیت دیتا ہے اور وہ ان کو مزید مستحکم بنانے کا خواہاں ہے۔
پاکستان اور سعودی عرب دونوں برادر اسلامی ملک مشترکہ تاریخی اقدار اور مذہب کے مضبوط رشتے سے جڑے ہوئے ہیں۔ شاہ عبداللہ کی وفات کے بعد شاہ سلمان سعودی عرب کے نئے فرمانروا بنے ہیں۔
دونوں ممالک کے باہمی تعلقات شروع دن سے ہی اتنے مضبوط اور گہرے چلے آ رہے ہیں کہ کسی حکمران کے آنے اور جانے سے اس پر کوئی منفی اثر مرتب نہیں ہوتا، نہ یہ کبھی سرد مہری کا شکار ہوئے اور نہ کبھی کسی قسم کی تلخی یا رنجش پیدا ہوئی بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ برادرانہ تعلقات مضبوط سے مضبوط تر ہوتے چلے جا رہے ہیں، ہر نیا آنے والا سعودی حکمران پاکستان سے اپنے تعلقات مزید مضبوط کرنے کی خواہش کا اظہار کرتا ہے۔
موجودہ فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے بھی ایسی ہی خواہش کا اظہار کیا ہے' ان کی پاکستان سے گہری محبت کا اظہار اس امر سے بھی ہوتا ہے کہ جب وزیراعظم نواز شریف سعودی فرمانروا کی دعوت پر تین روزہ سرکاری دورہ پر ریاض پہنچے تو شاہ سلمان بن عبدالعزیز السعود نے روایتی پروٹوکول بالائے طاق رکھتے ہوئے ذاتی طور پر ان کا گرمجوشی سے استقبال کیا، ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ سعودی شاہ نے کسی سربراہ حکومت کا ایئرپورٹ جا کر خود استقبال کیا ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان گہرے برادرانہ اور دوستانہ تعلقات کا واضح اظہار کئی بار ہوا، سعودی عرب نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کی مدد کی سیلاب ہو یا زلزلہ یا اور کوئی مشکل گھڑی سعودی عرب پاکستان کی معاونت میں کبھی پیچھے نہیں رہا۔ ایٹمی دھماکا کرنے کے بعد جب پاکستان عالمی دباؤ کا شکار ہوا تو ایسی نازک گھڑی میں بھی سعودی عرب نے پاکستان کو تیل فراہم کر کے اسے معاشی مشکلات سے نکلنے میں مدد دی۔ باہمی تعلقات کے علاوہ عالمی سطح پر پیدا ہونے والے بہت سے مسائل میں دونوں ممالک کے درمیان ہم آہنگی پائی جاتی ہے' فلسطین کے مسئلے پر پاکستان نے ہمیشہ سعودی موقف کی تائید کی تو کشمیر کے مسئلہ پر سعودی عرب نے پاکستان کا ساتھ دیا۔
ریاض میں ہونے والی ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے تجارت' سرمایہ کاری' توانائی اور بنیادی ڈھانچے سمیت مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا۔ جہاں پاکستان کو دہشت گردی اور انتہا پسندی جیسے عفریت کا سامنا ہے وہاں سعودی عرب بھی اس خطرے سے دوچار ہے۔ سعودی فرمانروا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے کہا کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی پاکستان اور سعودی عرب کے مشترکہ دشمن ہیں جس کے خاتمے کے لیے مشترکہ کوششیں ضروری ہیں۔ سعودی عرب میں دہشت گردی کے اکا دکا واقعات ہوتے رہتے ہیں وہاں کی انتظامیہ اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔
دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے جہاں دونوں برادر مسلم ممالک کو باہمی تعاون کو فروغ دینے کی ضرورت ہے وہاں تجارت' سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اور دفاع کے میدان میں بھی تعلقات کو زیادہ سے زیادہ مضبوط بنانے کی پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے۔ دونوں ممالک کی باہمی تجارت کا حجم ساڑھے چار ارب ڈالر ہے، اس وقت 10 لاکھ کے قریب پاکستانی روز گار کے سلسلے میں سعودی عرب میں مقیم ہیں جن کی طرف سے ترسیلات زر کا پاکستانی معیشت کے استحکام میں اہم کردار ہے۔
دونوں برادر اسلامی ممالک کے درمیان باہمی تجارت بڑھانے کی بہت گنجائش موجود ہے' پاکستان جسے اس وقت کمزور معیشت کا سامنا ہے اگر وہ اپنی تجارت کو سعودی عرب کے ساتھ مزید فروغ دے تو اس سے یہاں خوشحالی میں خاطر خواہ اضافہ ہو گا۔ سعودی عرب میں روز گار کے وسیع مواقع اب بھی موجود ہیں پاکستان کو اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ سعودی عرب تیل کی دولت سے مالا مال امیر ملک ہے اور عالمی سطح پر اس کا اہم مقام ہے مگر وہ سائنس و ٹیکنالوجی اور تعلیم کے میدان میں بہت پیچھے ہے' صنعت اور زراعت کے میدان میں بھی اس نے کوئی خاطر خواہ ترقی نہیں کی' دفاعی میدان میں وہ کوئی بڑی قوت نہیں۔
سعودی عرب کے پاس جتنی دولت ہے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں خاطر خواہ ترقی کرتا۔ اب بھی اگر وہ اپنے ہاں جدید علوم کو فروغ دے، تحقیقاتی ادارے قائم کرے تو وہ چند برسوں میں سائنس ٹیکنالوجی میں بہت آگے نکل سکتا ہے۔
جنوبی ایشیا کے خطے اور عالمی سطح پر جس تیزی سے تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اس کا تقاضا بھی یہی ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب دونوں برادر اسلامی ممالک مل کر آگے بڑھیں اور عالمی سطح پر اہم کردار ادا کریں۔