لٹریچر فیسٹیول کی گرم بازاری کیا رنگ لائے گی

لیجیے وہ جو ہم نے پچھلے کالم میں ذکر چھیڑا تھا وہ بات تو ادھوری ہی رہ گئی۔

rmvsyndlcate@gmail.com

لیجیے وہ جو ہم نے پچھلے کالم میں ذکر چھیڑا تھا وہ بات تو ادھوری ہی رہ گئی۔ ہم نے نیرنگ گیلری میں ہونے والی ایک ماہانہ نشست کا ذکر کیا تھا۔ میزبان نیر علی دادا۔ باقی کچھ گنے چنے حاضرین۔ ان گنے چنوں میں بھی رنگ رنگ کی مخلوق جمع ہو جاتی ہے۔

دو ڈھائی ماہرین تعمیرات یعنی نیر علی دادا کے ہمعصر۔ کوئی ریٹائرڈ سیاستداں جیسے ڈاکٹر مبشر حسن۔ ایک دو نامی گرامی صحافی جیسے آئی اے رحمن' حسین نقی' مسعود اشعر۔ ایک شاعر کا ہونا ضروری سمجھا جاتا تھا۔ یوں کہ یہ محفل نئی پرانی کچی پکی موسیقی سے شروع ہوتی ہے۔ اختتام شاعری پر ہوتا ہے۔ شہزاد احمد کے ہوتے ہوئے اس محفل کو کسی دوسرے شاعر کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ اب اس خلا کو شاہنواز زیدی نے پُر کیا ہے۔ باقی کوئی نیا پرانا دانشور۔ کوئی ریٹائرڈ بیورو کریٹ۔

چلو موسیقی کے نام تو ہم نے پرانی بلکہ بعض گمشدہ آوازیں سن لیں اور خوش ہو لیے۔ آخر میں شاعر کو سن کر خوش ہوئے اور داد دے کر اپنا فریضہ ادا کر دیا۔ مگر بحثیں یہ لوگ کیا کرتے ہیں۔ ارے اب بحث کرنے کے لیے رہ کیا گیا ہے۔ پہلے ہم کتنی دور دور کی کوڑی لاتے تھے۔ ٹی ہاؤس میں نئی شاعری۔ کافی ہاؤس میں تجریدی مصوری وہاں نوخیز مصوروں نے پر پُرزے نکالنے شروع کر دیے تھے۔ تجریدی مصوری کے لیے مغرب کے نامی گرامی مصووں کے مرہون منت تھے۔

بس پھر بحث مباحثہ کے رنگ کا اندازہ کر لو۔ ادھر ٹی ہاؤس میں نئی شاعری کا زور تھا۔ بات میرا جی' راشد' فیض سے چل کر پاؤنڈ اور ایلیٹ تک پہنچتی تھی۔ مگر ٹی ہاؤس میں منظر کتنی جلدی بدلا۔ ایلیٹ اپنی ویسٹ لینڈ کے ساتھ دیکھتے دیکھتے پس منظر میں چلے گئے اور سارتر کامیو یاروں کو لے اڑے۔ سیاست ان دنوں کہاں زیر بحث آتی تھی۔

یہ بحث تو ایوب خاں کے مارشل لا کے ساتھ آئی تھی اور اسلام۔ وہ تو بس تھا۔ بحث کی کہاں گنجائش تھی۔ بحث کا موضوع تو یاروں کے بیچ اب بنا، ساتھ میں آج کی سیاست۔

کہیں بہک نہ جائیں۔ ہم کچھ اور کہنے چلے تھے۔ ابھی لاہور کا لٹریچر فیسٹیول ختم ہوا تھا۔ کچھ اس پر تبصرہ آرائی۔ کچھ یہ ذکر کہ یہ جو لٹریچر فیسٹیول کی صورت نیا گل کھلا ہے وہ کیا رنگ لایا ہے اور آگے چل کر کیا رنگ لائے گا۔ کسی نے عجب سوال کیا کہ صاحب عجب بات ہے کہ انگریزی اخباروں میں تو اس نوزائیدہ میلے ٹھیلے کا ذکر فکر بہت ہوتا ہے جیسے واقعی پاکستان میں کوئی بڑا واقعہ گزرا ہے۔ مگر اردو اخباروں میں تو یہ خبر سرے سے غائب ہوتی ہے۔ آخر کیوں۔ یاروں نے فوراً ہی اردو صحافت کے آگے سوالیہ نشان لگا دیا۔

اب ہم سوچ رہے ہیں کہ اردو اخباروں میں کالم نگار تو اپنے اپنے حساب سے اس فیسٹیول پر رواں ہوتے ہیں سو اس حد تک تو اردو اخباروں میں اس کا چرچا ہوتا ہے بس خبر میں مار کھاتا ہے۔ اس کا کیا یہ مطلب لیا جائے کہ اردو صحافت تو جو ہے وہ ہے۔ اصل میں اردو رپورٹر دوڑ میں پیچھے رہ گیا ہے۔ کیسے رہ گیا ہے۔


اس کے لیے تھوڑا پیچھے جانا پڑے گا۔ ارے پہلے تو اس شہر میں صورت یہ تھی یعنی پاکستان کے ابتدائی دور میں کہ ادھر انجمن ترقی پسند مصنفین اپنے ہفتے وار جلسے اور کانفرنسیں کر رہی ہے۔ ادھر حلقہ ارباب ذوق اپنی ہفتہ وار نشستیں کر رہا ہے۔ سال میں ایک مرتبہ سالانہ اجتماع۔ اخباروں میں بھی ان ہفتہ وار نشستوں کی کوریج ہونی چاہیے۔ اس کا چلن اس دور میں تھا ہی نہیں۔ یہ چلن کب اور کیسے شروع ہوا۔

اصل میں جب نئے مصوروں نے پرپرزے نکال لیے اور ان کی تصویروں کی نمائشیں اس شان سے شروع ہوئیں کہ کوئی وزیر' کوئی سفیر' کوئی بیورو کریٹ آ کر فیتہ کاٹ رہا ہے اور نئی مصوری پر واہ واہ کر رہا ہے۔ تب ادیبوں نے جھرجھری لی کہ ارے ہمارا جب نیا مجموعہ شایع ہوتا ہے تو وہ بھی تو ایک ادبی واقعہ ہوتا ہے۔

لیجیے اب شاعری کی کتابوں اور افسانوں کے مجموعوں کی بھی مہورت ہونے لگی۔ اور یہاں بھی یہ کوشش کہ کوئی وزیر آ کر کتاب کا افتتاح کرے۔ وزیر کی دست یابی قدرے مشکل تھی۔ چلو وزیر نہ سہی کوئی بیورو کریٹ سہی۔ افتتاحی تقریب کی دھوم تو بہر حال ہو جائے گی۔

جب یہ سلسلہ زیادہ بڑھا تو ایک منتظم سے ہم نے پوچھا کہ بھائی یہ جو مہمان خصوصی وزیروں افسروں کی صفوں میں سے برآمد کیا جاتا ہے وہ سامعین کو اور خود بچارے شاعر کو اور منتظموں کو انتظار بہت کراتا ہے۔ وہ بولا کہ کیا کیا جائے۔ یہ ہماری مجبوری ہے۔ مہمان خصوصی وہاں سے برآمد نہ کریں تو میڈیا والے ہمیں گھاس ہی نہیں ڈالتے۔ ان خصوصی مہمانوں کے توسط سے تقریب کی شان بڑھتی ہے۔ رپورٹر اور پریس فوٹو گرافر کھنچے چلے آتے ہیں۔

اخباروں میں کوریج اچھی ہوتی ہے اور واقعی ہم نے یہ دیکھا کہ عزت ماب وزیر جتنی دیر سے تشریف لائیں اسی حساب سے تقریب کی شان بڑھتی ہے' کتاب کی عزت افزائی ہوتی ہے اور ادیب کی ناموری ہوتی ہے۔ رپورٹر کس طرح دوڑتے دوڑتے آتے ہیں اور افتتاحی تقریر کے نوٹ کس خصوع و خشوع سے لیتے ہیں۔ اور فوٹو گرافر کس کس زاویے سے تصویریں بناتے ہیں۔ جلسہ کے ختم پر مصنف تو کہیں بھیڑ میں رلا ملا رہ جاتا ہے۔ رپورٹر حضرات وزیر کے گرد حلقہ بنا لیتے ہیں اور کتنی یکسوئی سے اس کے کلمات سنتے ہیں اور اسے سے کوئی نئی خبر برآمد کرتے ہیں۔

ادھر جب فیسٹیول شروع ہوئے تو صدارت کا طور ہی بدل گیا۔ نہ کوئی وزیر نہ کوئی بیورو کریٹ۔ نئے نئے چہرے ہوں گے اپنے ہنر میں یکتا۔ مگر نہ شاہانہ سواری باد بہاری۔ نہ آگے پیچھے خدام۔ نہ شایان شان استقبال مگر وہ جو سمجھا جاتا تھا کہ ایسی صدارت کے بغیر جلسہ کی رونق ہی نہیں ہوتی۔

یہاں رونق پہلے سے بڑھ کر۔ دوگنی چوگنی۔ اردو رپورٹر ادبی تقاریب کا اسی پچھلے حساب سے تصور کر رہا تھا۔ یہ اچانک جو تبدیلی آئی تھی اسے وہ سمجھ ہی نہیں پایا۔ بس اسی چکر میں وہ دوڑ میں پیچھے رہ گیا۔ اس کی سمجھ ہی میں نہ آیا کہ اس نئی بھیڑ بھڑکے سے اسکوپ کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے۔

تو فی الحال تو اس نئے فینومنا کو شاید سمجھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ تلافی اس کی یوں ہوئی ہے کہ دنیائے ادب سے کتنے دانے صحافت میں برآمد ہوئے ہیں۔ لٹریچر فیسٹیول سے تو فی الحال وہی بھگت رہے ہیں۔
Load Next Story