مادری زبان میں تعلیم دیئے بغیر ملکی ترقی ممکن نہیں
مادری زبان کے فروغ کیلئے اسے بی اے تک نصاب کا حصہ بنایا جائے، ادبی شخصیات کی ’’ایکسپریس فورم‘‘میں گفتگو
مادری زبان کسی بھی انسان کے آباؤ اجداد اوراس کی دھرتی کی زبان ہوتی ہے اوراسی حوالے سے ہی اپنی اہمیت رکھتی ہے۔
دنیا میں جہاں بھی لوگ آباد ہیں وہ اپنے آباؤاجداد کی زبان بولنے میں فخر محسوس کرتے ہیںا ور اس کے فروغ کے لئے کام کرتے ہیں۔ مادری زبان کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے یونیسکو نے 1999ء میں مادری زبان کے حوالے سے باقاعدہ عالمی دن منانے کا اعلان کیا جو اب پوری دنیا میں منایا جاتا ہے ۔ پاکستان میں 56ء اور62ء کے آئین میں اردو اور بنگالی کو قومی زبان کا درجہ حاصل تھا جبکہ73ء کے آئین میں اردو زبان کو قومی زبان کا درجہ دیا گیا۔
مملکت خداداد کو آزاد ہوئے 68برس ہونے کو ہیں لیکن یہاں آج تک مادری زبان جیسے اہم مسئلے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی اورنہ ہی اس کے فروغ کے لیے کوئی موثر اقدامات کیے گئے۔ دنیا بھرکے تعلیمی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ بچوں کو بنیادی تعلیم ان کی مادری زبان میں دی جائے اس سے ان کی ذہنی نشوو نما بہتر ہوگی اور وہ بہتر طریقے سے علم حاصل کر سکیں گے تاہم پاکستان میں اس پر کوئی خاص عمل نہیں ہورہا۔''مادری زبان کی اہمیت'' کے حوالے سے ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف ادبی شخصیات نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذرقارئین ہے۔
امجد اسلام امجد (معروف ادیب)
میرے نزدیک اردو اور پنجابی دونوں زبانوںکی حالت ایک جیسی ہے۔ ایک دورتھا جب یہ کہا جاتا تھا کہ اردو کو آگے لانے کے لیے پنجابی زبان کو پس پشت ڈالا جارہا ہے لیکن اب میرے نزدیک یہ دونوں زبانیں ایک ہی جگہ پر کھڑی ہیں اور گزشتہ دس سے پندرہ برس میں انگریزی زبان کی طرف رجحان بڑھ رہا ہے ۔ تاریخی پس منظر میں دیکھیں تو مسلمان برصغیر میں آئے اور پھر انہوںنے خاص ٹکڑے کو ایک الگ ملک کی حیثیت دی، یہ ایک ایسی کہانی ہے جو دنیا کے بہت کم خطوںمیں نظر آئے گی کیونکہ عام طور پر یہ دیکھا جاتا ہے کہ جاپان میں جاپانی،جرمن و دیگر قومیں ہیں اور ان کی تاریخ ان کے چھوٹے چھوٹے مسائل سے بھری ہوئی ہے لیکن یہ ایک ایسا خطہ ہے جس کی ایک الگ اہمیت ہے۔
اس خطے کی آبادی بہت زیادہ ہے، اگر پورے برصغیر کو دیکھا جائے تواس خطے میں چین سے بھی زیادہ لوگ آباد ہیں۔زبان کے مسئلے کو جب تک ہم تاریخی، تہذیبی اور لسانی پہلو میں نہیں دیکھیں گے اس وقت تک اس مسئلے کو حل نہیں کرسکتے۔ پنجابی زبان دو مختلف رسم الخط میں لکھی جاتی ہے، اسی طرح ایک تفریق اردو اور ہندی میں بھی رہی ہے کہ اردوکو مسلمانوں کی زبان قرار دیا گیا جبکہ ہندی زبان صرف ہندوؤں کے لیے تھی اوراس کے بعد ہماری صوبائی ماں بولیوں کا مسئلہ آتا ہے۔ جب تک ہم اسے وسیع تناظر میں نہیں دیکھیں گے تب تک شاید ہم جذباتی فیصلے تو کرلیں لیکن نتیجہ خیز فیصلے نہیں کرسکتے۔
پاکستان میں پنجاب کے علاوہ تمام صوبوں میں ان کی مقامی زبان میں تعلیم دی جارہی ہے لہٰذا سوچنا یہ ہے کہ آخر پنجاب میں ایسا کیوں ہے۔ ایک صدی سے زیادہ عرصہ سے اردو پورے برصغیر سے ہوتی ہوئی پنجاب میں آگئی اورعلامہ اقبال کے بعد پنجاب ہی اردو کا نگران ہے اور ایسا کیوں ہوا یہ ایک طویل داستان ہے۔ انگریز نے یہاں دارالاشاعت پنجاب بنایا، پھراردو کے فروغ کے لیے حالیؔ اور آزاؔدکویہاں لایاجس کے پیچھے ایک بہت بڑی سیاسی وجہ تھی۔ انگریز وہ و احد قوم ہے جوسمندر کے راستے برصغیر میں آئی۔ پھر انہوں نے یہاںقبضہ کرنے کیلئے ترکیب بنائی اور اسی ترکیب کے تحت ایک لاکھ انگریز نے 30کروڑ کی آبادی جن کی ثقافت اور زبانیں مختلف تھیں پرحکمرانی کی۔
انہیں یہ بات سمجھ آگئی تھی کہ کمیونیکیشن ہی گڈگورننس کی بنیاد ہے لہٰذا انہوںنے بر صغیر میں بولی جانے والی تمام زبانوں کی تحقیق کی،پھراردو کا انتخاب کیااور اسے یہاں فروغ دیا۔ اردو کا ڈھانچہ پنجابی سے بہت زیادہ ملتا ہے اور حافظ محمود شیرانی نے پنجاب میں جو اردو لکھی اس سے یہ ظاہر ہوتا کہ اردو کا بنیادی ڈھانچہ پنجابی سے بنا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ پنجاب کے لوگوں میں اردو کے ساتھ نسبت پیدا ہوگئی۔ مسلمانوں نے یہاں 600سال حکومت کی اور اس دور میں مذہبی زبان عربی تھی جبکہ ثقافتی زبان فارسی تھی اوران دونوں زبانوں کو ہی پورے برصغیر میں اہمیت حاصل تھی۔
اگر دیکھا جائے تو دکن میں بھی جب وہاں کے باشاہوں نے مغلوں کے خلاف بغاوت کی تو پھرانہوں نے اپنی مقامی زبان پر زور دیا۔ چنانچہ اردو کسی منصوبے کے تحت وجود میں نہیں آئی بلکہ یہ خودبخودایک چیز بن رہی تھی اور پھر ایک نہایت زیرک قوم جویہاںآئی تھی اس نے دیکھا کہ اس میں ان کیلئے گورننس کے مواقع موجودہیں اس لیے انہوں نے اسے فروغ دیا۔ چونکہ اس زبان کا رسم الخط عربی اور فارسی سے آیاہے اس لیے اس میں مسلم تہذہب اور تاریخ کاواضح اثر موجود ہے۔ انگریزجب برصغیر میں آیاتووہاں کی کیمسٹری تبدیل ہوگئی، پھر گانگریس بنی اور اگر کانگریس کا منشور دیکھیں تو ہندی کواس وقت ہندوؤں کی زبان قرار دیا گیا جبکہ ہندی اپنے ابتدائی دور میں تھی اور زبان بھی نہیں تھی۔
1906ء میں جب مسلم لیگ بنی تو یہ ایک رفاحی تنظیم تھی اور پہلے 20سے 25سال تک مسلمان کانگریس سے ہی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہے۔ پھر جب یہ شکل بنی کہ انگریز کو یہ خطہ چھوڑ کے جانا پڑے گا توحالات تبدیل ہو گئے۔ مسلمانوں نے جب الگ وطن کا نعرہ لگایا تو اس وقت دنیا میں ''ایک قوم ایک زبان'' کا نعرہ چل رہا تھالہٰذایہ مسئلہ پیدا ہوا کہ مسلمان کونسی زبان اختیار کریں ۔ میرے نزدیک تاریخی جبر اور سمجھوتے کے تحت مسلمانوں نے اردو کو اپنی قومی زبان قرار دیاکیونکہ یہی ایک ایسی زبان تھی جس کی ہماری مادری زبانوں سے بہت مماسلت ہے۔
1900ء تک اردو کے بڑے شعراء اور ادیبوں کی مادری زبان اردو تھی جبکہ 1901ء کے بعد کے اردو کے بڑے شعراء اور ادیبوں کی مادری زبانیں مختلف ہیں ۔ آزادی کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جس طرح باقی صوبوں میں ان کی زبانیں رائج کی گئیں یہاں بھی ایسا ہی کیا جاتااورپنجابی زبان جس کا علمی و ادبی خزانہ زیادہ ہے اسے پنجاب میں رائج کیا جاتا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ پنجاب میں جاگیرداروں اور وڈیروں کا ایک ایسا طبقہ بنایا گیا جو پنجاب کے لوگوں کا ترجمان کہلایا لیکن درحقیقت وہ پنجابیوں کاترجمان نہیں تھا۔ برطانیہ نے پورے برٹش انڈیا میں جمہوریت پر زور دیا لیکن پنجاب وہ واحد صوبہ ہے جہاں اس نے چیفس کالج بنایا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ انہیں روس کی طاقت روکنے کیلئے یہاں سے لوگ چاہیے تھے۔ اگر ہمارے یہ وڈیرے اس قابل ہوتے اور ان کی باتوں پر عمل نہ کرتے تو آج یہ مسائل پیدا نہ ہوتے۔
آزادی کے بعد پاکستان مولویوں، فوجیوں، جاگیرداروں اور بیوروکریٹس کے پاکستان میں تقسیم ہوگیا اور ان چاروں حلقوںمیں ہماری مادری زبان کہیں نہیں ہے، یہ سب انگریزی زبان کے ذریعے عزت پانے والے لوگ ہیں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے بچوں کی ایک بڑی تعداد انگریزی میڈیم میں تعلیم حاصل کررہی ہے اور اب اردو کوسکولوں میں بھی فروغ نہیں دیا جارہا۔ میرے نزدیک چہارم جماعت تک اردو اور پنجابی کو لازمی قرار دیا جائے اور اساتذہ کو تربیت دی جائے کہ وہ اپنی مادری زبان میں بچوں کو تعلیم دیں۔ اگر بچوں کو پنجابی زبان میں پرائمری تعلیم دی جارہی ہے توچہارم جماعت کے بعد انگریزی زبان اختیاری مضمون کے طور پر بچوں کو پڑھائی جائے۔ہماری مذہبی زبان عربی، ثقافتی زبان فارسی، قومی زبان اردو، عالمی زبان انگریزی جبکہ مادری زبان پنجابی ہے لہٰذا ہمیں اس حوالے سے کوئی درمیانی راستہ نکالنا ہوگا اور اس کے لیے سکولوں میں مادری زبانوں کو اختیاری زبان کے ذریعے رائج کیا جائے۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے سکولوں میں بچوں کو انگریزی کے علاوہ کوئی دوسری زبان بولنے پر جرمانہ کیا جاتا ہے اور ہمارے اندریہ احساس کمتری پیداکردیا گیا ہے کہ انگریزی سیکھے بغیر ترقی ممکن نہیں ۔میرے نزدیک پنجابی زبان کے قوائد اور گرائمر کے حوالے سے جو کام ہمارے بزرگوں کو کرنا چاہیے تھا وہ نہیں کیا گیا اوراب بھی اس حوالے سے کوئی موثرکام نہیں ہورہا۔ اس کے لیے ہمیں اپنے مطالبات کو مختصر اور یک زبان کرنا ہوگا اور اپنے اندر ایک دوسرے کیلئے برداشت پیدا کرنا ہوگی کیونکہ جب تک ایسا نہیں کریں گے ہم اپنی مادری زبان کا حق حاصل نہیں کرسکتے۔زبانیں محبت سکھاتی ہیں، ماں پیار کرتی ہے تو مادری زبان بھی پیار کرتی ہے لہٰذاآپس میں محبت پیدا کرنے کیلئے چاروں صوبوں میں چاروں صوبائی مادری زبانیں پڑھائی جائیں اور پنجابی زبان کا جو بہت زیادہ خزانہ ہے اس کااردو میں ترجمہ کیا جائے۔
ڈاکٹر صغریٰ صدف ( ڈائریکٹر پنجاب انسٹیٹیوٹ آف لینگوئج، آرٹ اینڈ کلچر )
اس دن کا مقصد ماں بولی کو اہمیت دلوانا ہے ، اس سلسلے میں ہم جب بھی مشاعرہ کا انعقاد کرتے ہیں تو اس میں سب کو اپنی ماں بولی میں کلام سنانے کی اجازت ہوتی ہے تاکہ کسی کی حق تلفی نہ ہو۔ ہمارا مقصد ماں بولی کو اس کا حق دلوانا ہے ۔ جب ہم اپنی ماں بولی کی بات کرتے ہیں تو ہمیں دوسروں کی ماں بولی کا بھی احترام کرنا چاہیے اور ہمیں یہ چاہیے کہ اردو اور پنجابی میں لڑائی نہ ڈالیں اور یہ حقیقت ہے کہ اردو کے جتنے بھی بڑے شاعر، ناول نگار، افسانہ نگار ہیں ان میں سے زیادہ کا تعلق پنجاب سے ہے اور ان کی ماں بولی پنجابی ہے ۔تقسیم ہند کے فوراًبعد باقی تمام صوبوں میں مادری زبان کے حوالے سے ادارے بن گئے لیکن پنجاب میں8سال پہلے اس حوالے سے ادارہ وجود میں آیا، اس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہم اپنی مادری زبان کے ساتھ کتنے مخلص ہیں۔
لوگوں کی یہ رائے بن چکی ہے کہ پنجابی زبان بولناجاہل ہونے کے مترادف ہے جس کی وجہ سے ایک ان پڑھ یا کم تعلیم یافتہ شخص بھی خود کومہذب ظاہر کرنے کیلئے اردو بولنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے علاوہ مائیں اپنے بچوں کو پنجابی بولنے سے منع کرتی ہیں اور پنجابی بولنے پر بچوں کو ڈانٹ ڈپٹ کاسامنا کرنا پڑتا ہے ۔ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم نے خودپنجابی کو غیر مہذب زبان کا درجہ دے دیا ہے لیکن اب گزشتہ 10سے پندرہ برس میں تبدیلی آئی ہے، پنجابی زبان کو فروغ مل رہا ہے اوربڑی بڑی محافل، دفاتر و دیگر جگہ پر پنجابی بولنے کا رجحان بڑھ رہا ہے جو مثبت بات ہے۔ میرے نزدیک ہم اس وقت تک اپنے مسائل حل نہیں کرسکتے جب تک پنجابی زبان کوپنجاب میں رائج نہیں کیا جاتا۔
ریاست کے تمام صوبوں میں برابر اصول ہونے چاہئیں ۔ باقی تمام صوبوں میں پرائمری کی سطح تک اور بلوچستان میں آٹھویں جماعت تک ان کی مادری زبان رائج ہے لیکن پنجاب وہ واحد صوبہ ہے جو اپنے نصاب میں اپنی مادری زبان سے محروم ہے۔ پنجاب کے ساتھ اس امتیازی رویے پرریاست ، یکجہتی اور ہم آہنگی پر بھی سوال اٹھتا ہے۔ جب بھی ہم اپنی زبان کے حق کے لیے آواز اٹھاتے ہیں تو یہ کہا جاتا ہے کہ ہم تقسیم کرنے کی بات کرتے ہیں ، پھرپوٹوہاری اور سرائیکی زبان کی باتیں بھی کی جاتی ہیں، اس حوالے سے میری یہ رائے ہے کہ ضلعی سطح پرماہر لسانیات کی کمیٹیاں بنائی جائیں اور متعلقہ جگہ پر وہاں استعمال ہونے والے الفاظ شامل کردیے جائیں۔
ہمیں یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ اگر پاکستانیت اور ہم آہنگی کو پروان چڑھانا ہے تو ہمیں اپنی زبان چھوڑنا پڑے گی حالانکہ میرے نزدیک اگر ہم اپنی مادری زبان کو فروغ دیں تو ملکی ترقی ممکن ہے۔ جب ہم اپنی زبان کی بات کرتے ہیں تو ہم اپنی زمین سے پیار کی بات کرتے ہیں ، جرات کا اظہار کرتے ہیں، اپنے موسموں کی بات کرتے ہیں ، ساون بھادوں کی بات کرتے ہیں تو ہمارے ذہنوں میں ایک نقشہ کھینچا جاتا ہے، ہم نومبر کی برف باری کا مزہ نہیں لے سکتے کیونکہ ہم نے وہاں کا موسم نہیں دیکھا، ہم نے ان کے دریاؤں کے حوالے سے جو نظمیں پڑھتے ہیں ان کا ہمارے پر کوئی اثر نہیں ہوتا، ہم صرف ان کا رٹا لگاتے ہیں لیکن اگرساون کے گیت، نظمیں نصاب میں شامل کی جائیں گی تو ان کا تعلق ہماری روح سے ہوگا، ہم اچھے پاکستانی بنیں گے اور یہ اللہ کا کرم ہے کہ اس نے ہمیں ثقافت اور زبانوں کے مختلف اور خوبصورت رنگ عطا کیے ہیں۔
میری یہ رائے ہے کہ قومی یکجہتی پیدا کرنے کیلئے چاروں صوبوں میں ساری پاکستانی زبانیں پڑھائی جائیں ،اس طرح ہم محب وطن قوم بنیں گے اورترقی بھی کریں گے۔ اگر ہم اپنی زمین سے جڑیں گے تو ہمیں زمین کے درد کا بھی احساس ہوگا اگر ہم زمین سے رشتہ ختم کریں گے تو ہمارے دریابھی خشک ہوجائیں تو ہمیں کوئی احساس نہیں ہوگا۔ اپنی زبان کے حق کے مطالبے میں ہمیں بہت وقت لگا ہے لیکن اب صوبہ پنجاب کے لوگ متحرک ہوچکے ہیں انشاء اللہ بہت جلد اس کے نتائج سامنے آئیں گے۔ پنجاب کے لوگ ذاتی طور پر پُر امن اورقربانیاں دینے والے لوگ ہیں ، جب ہمیں یہ کہہ دیا گیا کہ اپنی مادری زبان اپنانے والے باقی صوبوں کے لوگ علیحدگی پسند ہیں تو ہم نے اپنی زبان کا مطالبہ نہیںکیالہٰذا ہمیںا پنی زبان کے فروغ کیلئے لوگوں کو شعور دینا ہوگا۔
اگر ہم صرف لوگوں کوپنجابی پڑھنے اور بولنے کی تاکید کریں گے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا،ہمیں انہیں اس کی تاریخ، ثقافت اور اہمیت بھی بتانی ہوگی۔ ہمارے بزرگوں کے پاس بہت علم تھا، انہوں نے بڑے بڑے فلسفے دیے جن کا ترجمہ مغرب والے بھی کررہے ہیں، لیکن جب پنجابی بولنے والے کو جاہل کا درجہ د یاگیا تو اس کا مطلب پھر یہ ہوا کہ ہمارے بزرگوں کے پاس کوئی علم ہی نہیں تھا۔ وزیراعلیٰ پنجاب سے ہماری اپیل ہے کہ ماں بولی کوپہلی جماعت سے نافذ کیا جائے اور اقوام متحدہ نے زبان کا جو حق دیا ہے وہ لوگوں کو دیا جائے۔ ہم پنجابی زبان کے فروغ کیلئے دنیا کی ساری زبانوں کا ترجمہ کروارہے ہیں اس کے علاوہ مختلف علوم کی کتب کا ترجمہ کرواکر پنجابی زبان کے دامن کو وسیع کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
امجد سلیم منہاس (کوآرڈینیٹر ماں بولی کوآرڈینیشن کمیٹی)
18ویں ترمیم کے بعدتعلیم کے حوالے سے تمام اختیارات صوبوں کومنتقل ہوچکے ہیں اوراب وہ اپنے نصاب میں مادری زبان رائج کرسکتے ہیںا ور اس حوالے سے پالیسی بھی بنا سکتے ہیں ۔73ء کے آئین میں بھی یہ اختیار دیا گیا تھا مگر یہ آہستہ آہستہ عمل میں آرہا ہے۔ صوبہ سندھ میں تو انگریز دور میں ہی سندھی زبان کوسکولوں میں پرائمری سطح پر رائج کردیا گیا تھا اور اسی طرح پورے برصغیر میں ہر جگہ مادری زبان ہی پرائمری سطح پر رائج کی گئی جبکہ سکینڈری اور ہائی سطح پر انگریزی زبان میں تعلیم دی گئی۔
برصغیر کے تاریخی پس منظر میں دیکھیں تو شہنشاہ جلال الدین اکبر نے بھی یہی پالیسی اپنائی تھی کہ ابتدائی تعلیم مادری زبان میں، ہائر ایجوکیشن فارسی میں جبکہ عربی اور سنسکریت سے ریاست کا کوئی تعلق نہیں لیکن اگر علماء اور پنڈت اپنے طور پر کسی کو پڑھانا چاہیں تو ریاست کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ یہ بہت حیران کن بات ہے کہ 1849ء میں جب انگریز پنجاب میں آیا تو انہوں نے اس بحث کے باوجود کہ مادری زبان کو فروغ دینا چاہیے، یہاں اردو لاگو کردی۔ انگریزوں نے سازش کے تحت پنجاب کو اس حق سے محروم رکھا اور اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ انہیں یہاں 9سال تک رنجیت سنگھ کی شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ۔انگریزوں نے جب سندھ میں قبضہ کیاتو وہاںانہوں نے سندھی زبان کو ہی رائج رکھا۔
تقسیم ہند کے بعد کلچرل لینگول ڈائیورسٹی کو پہلے دن سے ہی ختم کرنے کی کوشش کی اور کسی نے اس کے فروغ کے لیے کام نہیں کیا۔21فروری 1951ء کو بنگالی زبان کے حوالے سے مشہور تنازعہ ہوا، انہیں یہ بتایا گیا کہ ایکتا کے نام پر ان کیلئے بھی اردو زبان رائج کی جارہی ہے، جس کے نتیجے میں قیمتی جانیں بھی ضائع ہوئیں اور اسی نسبت سے آج بھی ڈھاکہ میں شہید مینار قائم ہے۔ پہلے دن سے ہی ثقافتی لسانی رنگوں کی نفی ان جمہوری اقدار کی نفی تھی جس کے تحت لوگوں نے مضبوط ہونا تھا اور ایک سازش کے تحت مادری زبان کو دبانے کی کوشش کی گئی جس کا مقصد فوج اور اسٹیبلشمنٹ کے کردار کو بڑھانا تھا۔یہی وجہ تھی کہ آزادی کے 11سال بعد ہی مارشل لاء لگ گیا اور اس سے پہلے ہم آئین بنانے میں بھی ناکام رہے۔
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اس ملک کو انہی فیڈرل یونٹس نے بنایا جو اپنے ثقافتی اور لسانی حقوق کی بات کررہے تھے ، سندھ کو فائدہ یہ ہوا کہ وہاں شروع سے ہی سندھی زبان میں تعلیم دی جارہی تھی لیکن ہمیں تقسیم کا جوزخم آیا،اس کے نتیجے میں ہم اس سازش کا حصہ بن گئے کہ ایکتا کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی زبان چھوڑ دیں ۔ ہماری ثقافت کا تعلق ہماری مادری زبان سے ہے لیکن ہم نے اپنی مادری زبان کو اثاثہ سمجھنے کی بجائے دوسروں کے معاشی ، معاشرتی اور سیاسی سسٹم کو اپنانے کی کوشش کی۔ چاروں صوبوں کو ایک کرکے جب مشرقی پاکستان کے برابر لایا گیا تو اس میں وسائل کی تقسیم کی بات نہیں کی گئی بلکہ یہ بتایا گیا کہ ہمارا رقبہ زیادہ ہے۔
اگر یہ قانون درست تھا تو قدرتی وسائل سب سے زیادہ بلوچستان کو ملنے چاہیے تھے ،اگر وہاں یہ کیا جاتا توآج ملک بہت ترقی کرتا ۔ 70ء کے بعد یہ کہا گیا کہ آبادی کی بنیاد پر وسائل کی تقسیم کی جائے گی جس کے بعد بنگالیوں کی یہ بات سچ ثابت ہوگئی کہ ان کا استحصال کیا گیا۔ آج جنرل ضیاء الحق پر بہت تنقید کی جاتی ہے لیکن اس وقت لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد نظریہ کے نام پرجنرل ضیاء الحق کو سپورٹ کرہی تھی۔ یہ ایک ایسا عمل تھا جس کا ہمیں سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے۔ہر زبان ''ماں بولی'' ہے، اس کی قدر اور احترام انتہائی ضروری ہے کیونکہ اس میں ایک ایسا انسانی ورثہ ہے جو کھو جائے تونسلیں اپنی ثقافت سے محروم ہوجاتی ہیں۔
عالمی ماہرین کے مطابق کم از کم پرائمری کی سطح پر اگر بچے کو مادری زبان میں تعلیم دی جائے گی تو اس کی بنیادیں مضبوط ہوں گی اور وہ بہتر طریقے سے سمجھ سکے گا۔ بھارت نے اس چیز کو اپنایا اور وہاںزبان کے نام پر ایکتا کا کوئی سوال نہیں اٹھایا جاتا۔ اس کے علاوہ دنیا کے کسی بھی ملک میں ایسا نہیں ہے، سوئزرلینڈ میں تین قومی زبانیں ہیں، روس میں چار زبانیں ہیں لہٰذایہ جو غلط تصور ہے اسے ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ میرے نزدیک اس کی ذمہ دار پنجاب حکومت ہے جو کسی نہ کسی طرح گزشتہ 35برس سے برسراقتدار ہے ،لیکن انہوں نے لوگوں کو ان کا بنیادی حق نہیں دیا۔
کالا باغ ڈیم، جاگ پنجابی جاگ اور پھر ایکتا کے نام پر ان سے پیچھے ہٹ جانا یہ غلط ہے، یہ کس قسم کی ایکتا ہے، کس وجہ سے اس بات کو اتنا بڑھاوا دیا جارہا ہے۔ بابابلھے شاہ سے لے کرخواجہ فرید تک ہمارے کسی بزرگ نے کسی رنگ کی مخالفت نہیں کی، انہوں نے مساوات اور برابری کی بات کی اور یہی ہماری روایات ہیںلہٰذااگر ہمیں مسائل سے چھٹکارہ پانا ہے اور دہشت گردی کو ختم کرنا ہے تو ہمیں اپنے اصل کی طرف لوٹنا ہوگا۔ ہم پنجابی زبان کے لیے گزشتہ تین سالوں سے منظم کوششیں کررہے ہیں ، اس کے علاوہ اب پنجابی لغت تیار کی جارہی ہے جس کا ایک والیوم پرنٹنگ کے لیے بھجوا دیا گیا ہے۔
محمد سرور (ممبر ماں بولی کوآرڈینیشن کمیٹی )
کوئی بھی زبان وہاں کے محنت کشوں کی زبان ہوتی ہے، ہماری ماں بولی پنجابی ہے لیکن پنجاب کے لوگوںسے یہ زبان چھین لی گئی ہے جو محنت کشوں کے ساتھ دھوکہ ہے۔ پنجابی زبان بولنے والے لوگوں کو یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ وہ جاہل ہیں یا نچلے درجے سے تعلق رکھتے ہیں ،ان میں احساس محرومی پیدا کیا جارہا ہے اور اس طرح محنت کشوں کو گونگا بنا دیا گیا ہے۔ صوبہ پنجاب سب سے بڑا صوبہ ہے ، یہاں سب سے زیادہ آبادی ہے لیکن یہاں یہ ظلم ہورہا ہے کہ اپنی زبان بولنے سے ہی منع کیا جارہاہے۔
مادری زبان کے اس عالمی دن کے موقع پر ہمارا حکومت سے یہ مطالبہ ہے کہ ہمیں مادری زبان کابنیادی حق دیا جائے،بی اے تک اسے نصاب کا حصہ بنایا جائے اور اسے روزگار کے ساتھ ملایا جائے تاکہ اس زبان کی اہمیت کو بڑھایا جاسکے ۔ میرے نزدیک جس شخص نے اپنی مادری زبان میں تعلیم حاصل نہیں کی وہ ان پڑھ ہے،اگر ہمیں تعلیم یافتہ بننا ہے تو اپنی زبان میں تعلیم حاصل کرنا ہوگی۔ میری یہ رائے ہے کہ پنجابی زبان تعلیمی اداروں میں لازم قرار دی جائے اور دنیا کے جدید علوم کا پنجابی زبان میں ترجمہ بھی کیا جائے۔
دنیا میں جہاں بھی لوگ آباد ہیں وہ اپنے آباؤاجداد کی زبان بولنے میں فخر محسوس کرتے ہیںا ور اس کے فروغ کے لئے کام کرتے ہیں۔ مادری زبان کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے یونیسکو نے 1999ء میں مادری زبان کے حوالے سے باقاعدہ عالمی دن منانے کا اعلان کیا جو اب پوری دنیا میں منایا جاتا ہے ۔ پاکستان میں 56ء اور62ء کے آئین میں اردو اور بنگالی کو قومی زبان کا درجہ حاصل تھا جبکہ73ء کے آئین میں اردو زبان کو قومی زبان کا درجہ دیا گیا۔
مملکت خداداد کو آزاد ہوئے 68برس ہونے کو ہیں لیکن یہاں آج تک مادری زبان جیسے اہم مسئلے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی اورنہ ہی اس کے فروغ کے لیے کوئی موثر اقدامات کیے گئے۔ دنیا بھرکے تعلیمی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ بچوں کو بنیادی تعلیم ان کی مادری زبان میں دی جائے اس سے ان کی ذہنی نشوو نما بہتر ہوگی اور وہ بہتر طریقے سے علم حاصل کر سکیں گے تاہم پاکستان میں اس پر کوئی خاص عمل نہیں ہورہا۔''مادری زبان کی اہمیت'' کے حوالے سے ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف ادبی شخصیات نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذرقارئین ہے۔
امجد اسلام امجد (معروف ادیب)
میرے نزدیک اردو اور پنجابی دونوں زبانوںکی حالت ایک جیسی ہے۔ ایک دورتھا جب یہ کہا جاتا تھا کہ اردو کو آگے لانے کے لیے پنجابی زبان کو پس پشت ڈالا جارہا ہے لیکن اب میرے نزدیک یہ دونوں زبانیں ایک ہی جگہ پر کھڑی ہیں اور گزشتہ دس سے پندرہ برس میں انگریزی زبان کی طرف رجحان بڑھ رہا ہے ۔ تاریخی پس منظر میں دیکھیں تو مسلمان برصغیر میں آئے اور پھر انہوںنے خاص ٹکڑے کو ایک الگ ملک کی حیثیت دی، یہ ایک ایسی کہانی ہے جو دنیا کے بہت کم خطوںمیں نظر آئے گی کیونکہ عام طور پر یہ دیکھا جاتا ہے کہ جاپان میں جاپانی،جرمن و دیگر قومیں ہیں اور ان کی تاریخ ان کے چھوٹے چھوٹے مسائل سے بھری ہوئی ہے لیکن یہ ایک ایسا خطہ ہے جس کی ایک الگ اہمیت ہے۔
اس خطے کی آبادی بہت زیادہ ہے، اگر پورے برصغیر کو دیکھا جائے تواس خطے میں چین سے بھی زیادہ لوگ آباد ہیں۔زبان کے مسئلے کو جب تک ہم تاریخی، تہذیبی اور لسانی پہلو میں نہیں دیکھیں گے اس وقت تک اس مسئلے کو حل نہیں کرسکتے۔ پنجابی زبان دو مختلف رسم الخط میں لکھی جاتی ہے، اسی طرح ایک تفریق اردو اور ہندی میں بھی رہی ہے کہ اردوکو مسلمانوں کی زبان قرار دیا گیا جبکہ ہندی زبان صرف ہندوؤں کے لیے تھی اوراس کے بعد ہماری صوبائی ماں بولیوں کا مسئلہ آتا ہے۔ جب تک ہم اسے وسیع تناظر میں نہیں دیکھیں گے تب تک شاید ہم جذباتی فیصلے تو کرلیں لیکن نتیجہ خیز فیصلے نہیں کرسکتے۔
پاکستان میں پنجاب کے علاوہ تمام صوبوں میں ان کی مقامی زبان میں تعلیم دی جارہی ہے لہٰذا سوچنا یہ ہے کہ آخر پنجاب میں ایسا کیوں ہے۔ ایک صدی سے زیادہ عرصہ سے اردو پورے برصغیر سے ہوتی ہوئی پنجاب میں آگئی اورعلامہ اقبال کے بعد پنجاب ہی اردو کا نگران ہے اور ایسا کیوں ہوا یہ ایک طویل داستان ہے۔ انگریز نے یہاں دارالاشاعت پنجاب بنایا، پھراردو کے فروغ کے لیے حالیؔ اور آزاؔدکویہاں لایاجس کے پیچھے ایک بہت بڑی سیاسی وجہ تھی۔ انگریز وہ و احد قوم ہے جوسمندر کے راستے برصغیر میں آئی۔ پھر انہوں نے یہاںقبضہ کرنے کیلئے ترکیب بنائی اور اسی ترکیب کے تحت ایک لاکھ انگریز نے 30کروڑ کی آبادی جن کی ثقافت اور زبانیں مختلف تھیں پرحکمرانی کی۔
انہیں یہ بات سمجھ آگئی تھی کہ کمیونیکیشن ہی گڈگورننس کی بنیاد ہے لہٰذا انہوںنے بر صغیر میں بولی جانے والی تمام زبانوں کی تحقیق کی،پھراردو کا انتخاب کیااور اسے یہاں فروغ دیا۔ اردو کا ڈھانچہ پنجابی سے بہت زیادہ ملتا ہے اور حافظ محمود شیرانی نے پنجاب میں جو اردو لکھی اس سے یہ ظاہر ہوتا کہ اردو کا بنیادی ڈھانچہ پنجابی سے بنا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ پنجاب کے لوگوں میں اردو کے ساتھ نسبت پیدا ہوگئی۔ مسلمانوں نے یہاں 600سال حکومت کی اور اس دور میں مذہبی زبان عربی تھی جبکہ ثقافتی زبان فارسی تھی اوران دونوں زبانوں کو ہی پورے برصغیر میں اہمیت حاصل تھی۔
اگر دیکھا جائے تو دکن میں بھی جب وہاں کے باشاہوں نے مغلوں کے خلاف بغاوت کی تو پھرانہوں نے اپنی مقامی زبان پر زور دیا۔ چنانچہ اردو کسی منصوبے کے تحت وجود میں نہیں آئی بلکہ یہ خودبخودایک چیز بن رہی تھی اور پھر ایک نہایت زیرک قوم جویہاںآئی تھی اس نے دیکھا کہ اس میں ان کیلئے گورننس کے مواقع موجودہیں اس لیے انہوں نے اسے فروغ دیا۔ چونکہ اس زبان کا رسم الخط عربی اور فارسی سے آیاہے اس لیے اس میں مسلم تہذہب اور تاریخ کاواضح اثر موجود ہے۔ انگریزجب برصغیر میں آیاتووہاں کی کیمسٹری تبدیل ہوگئی، پھر گانگریس بنی اور اگر کانگریس کا منشور دیکھیں تو ہندی کواس وقت ہندوؤں کی زبان قرار دیا گیا جبکہ ہندی اپنے ابتدائی دور میں تھی اور زبان بھی نہیں تھی۔
1906ء میں جب مسلم لیگ بنی تو یہ ایک رفاحی تنظیم تھی اور پہلے 20سے 25سال تک مسلمان کانگریس سے ہی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہے۔ پھر جب یہ شکل بنی کہ انگریز کو یہ خطہ چھوڑ کے جانا پڑے گا توحالات تبدیل ہو گئے۔ مسلمانوں نے جب الگ وطن کا نعرہ لگایا تو اس وقت دنیا میں ''ایک قوم ایک زبان'' کا نعرہ چل رہا تھالہٰذایہ مسئلہ پیدا ہوا کہ مسلمان کونسی زبان اختیار کریں ۔ میرے نزدیک تاریخی جبر اور سمجھوتے کے تحت مسلمانوں نے اردو کو اپنی قومی زبان قرار دیاکیونکہ یہی ایک ایسی زبان تھی جس کی ہماری مادری زبانوں سے بہت مماسلت ہے۔
1900ء تک اردو کے بڑے شعراء اور ادیبوں کی مادری زبان اردو تھی جبکہ 1901ء کے بعد کے اردو کے بڑے شعراء اور ادیبوں کی مادری زبانیں مختلف ہیں ۔ آزادی کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جس طرح باقی صوبوں میں ان کی زبانیں رائج کی گئیں یہاں بھی ایسا ہی کیا جاتااورپنجابی زبان جس کا علمی و ادبی خزانہ زیادہ ہے اسے پنجاب میں رائج کیا جاتا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ پنجاب میں جاگیرداروں اور وڈیروں کا ایک ایسا طبقہ بنایا گیا جو پنجاب کے لوگوں کا ترجمان کہلایا لیکن درحقیقت وہ پنجابیوں کاترجمان نہیں تھا۔ برطانیہ نے پورے برٹش انڈیا میں جمہوریت پر زور دیا لیکن پنجاب وہ واحد صوبہ ہے جہاں اس نے چیفس کالج بنایا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ انہیں روس کی طاقت روکنے کیلئے یہاں سے لوگ چاہیے تھے۔ اگر ہمارے یہ وڈیرے اس قابل ہوتے اور ان کی باتوں پر عمل نہ کرتے تو آج یہ مسائل پیدا نہ ہوتے۔
آزادی کے بعد پاکستان مولویوں، فوجیوں، جاگیرداروں اور بیوروکریٹس کے پاکستان میں تقسیم ہوگیا اور ان چاروں حلقوںمیں ہماری مادری زبان کہیں نہیں ہے، یہ سب انگریزی زبان کے ذریعے عزت پانے والے لوگ ہیں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے بچوں کی ایک بڑی تعداد انگریزی میڈیم میں تعلیم حاصل کررہی ہے اور اب اردو کوسکولوں میں بھی فروغ نہیں دیا جارہا۔ میرے نزدیک چہارم جماعت تک اردو اور پنجابی کو لازمی قرار دیا جائے اور اساتذہ کو تربیت دی جائے کہ وہ اپنی مادری زبان میں بچوں کو تعلیم دیں۔ اگر بچوں کو پنجابی زبان میں پرائمری تعلیم دی جارہی ہے توچہارم جماعت کے بعد انگریزی زبان اختیاری مضمون کے طور پر بچوں کو پڑھائی جائے۔ہماری مذہبی زبان عربی، ثقافتی زبان فارسی، قومی زبان اردو، عالمی زبان انگریزی جبکہ مادری زبان پنجابی ہے لہٰذا ہمیں اس حوالے سے کوئی درمیانی راستہ نکالنا ہوگا اور اس کے لیے سکولوں میں مادری زبانوں کو اختیاری زبان کے ذریعے رائج کیا جائے۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے سکولوں میں بچوں کو انگریزی کے علاوہ کوئی دوسری زبان بولنے پر جرمانہ کیا جاتا ہے اور ہمارے اندریہ احساس کمتری پیداکردیا گیا ہے کہ انگریزی سیکھے بغیر ترقی ممکن نہیں ۔میرے نزدیک پنجابی زبان کے قوائد اور گرائمر کے حوالے سے جو کام ہمارے بزرگوں کو کرنا چاہیے تھا وہ نہیں کیا گیا اوراب بھی اس حوالے سے کوئی موثرکام نہیں ہورہا۔ اس کے لیے ہمیں اپنے مطالبات کو مختصر اور یک زبان کرنا ہوگا اور اپنے اندر ایک دوسرے کیلئے برداشت پیدا کرنا ہوگی کیونکہ جب تک ایسا نہیں کریں گے ہم اپنی مادری زبان کا حق حاصل نہیں کرسکتے۔زبانیں محبت سکھاتی ہیں، ماں پیار کرتی ہے تو مادری زبان بھی پیار کرتی ہے لہٰذاآپس میں محبت پیدا کرنے کیلئے چاروں صوبوں میں چاروں صوبائی مادری زبانیں پڑھائی جائیں اور پنجابی زبان کا جو بہت زیادہ خزانہ ہے اس کااردو میں ترجمہ کیا جائے۔
ڈاکٹر صغریٰ صدف ( ڈائریکٹر پنجاب انسٹیٹیوٹ آف لینگوئج، آرٹ اینڈ کلچر )
اس دن کا مقصد ماں بولی کو اہمیت دلوانا ہے ، اس سلسلے میں ہم جب بھی مشاعرہ کا انعقاد کرتے ہیں تو اس میں سب کو اپنی ماں بولی میں کلام سنانے کی اجازت ہوتی ہے تاکہ کسی کی حق تلفی نہ ہو۔ ہمارا مقصد ماں بولی کو اس کا حق دلوانا ہے ۔ جب ہم اپنی ماں بولی کی بات کرتے ہیں تو ہمیں دوسروں کی ماں بولی کا بھی احترام کرنا چاہیے اور ہمیں یہ چاہیے کہ اردو اور پنجابی میں لڑائی نہ ڈالیں اور یہ حقیقت ہے کہ اردو کے جتنے بھی بڑے شاعر، ناول نگار، افسانہ نگار ہیں ان میں سے زیادہ کا تعلق پنجاب سے ہے اور ان کی ماں بولی پنجابی ہے ۔تقسیم ہند کے فوراًبعد باقی تمام صوبوں میں مادری زبان کے حوالے سے ادارے بن گئے لیکن پنجاب میں8سال پہلے اس حوالے سے ادارہ وجود میں آیا، اس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہم اپنی مادری زبان کے ساتھ کتنے مخلص ہیں۔
لوگوں کی یہ رائے بن چکی ہے کہ پنجابی زبان بولناجاہل ہونے کے مترادف ہے جس کی وجہ سے ایک ان پڑھ یا کم تعلیم یافتہ شخص بھی خود کومہذب ظاہر کرنے کیلئے اردو بولنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے علاوہ مائیں اپنے بچوں کو پنجابی بولنے سے منع کرتی ہیں اور پنجابی بولنے پر بچوں کو ڈانٹ ڈپٹ کاسامنا کرنا پڑتا ہے ۔ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم نے خودپنجابی کو غیر مہذب زبان کا درجہ دے دیا ہے لیکن اب گزشتہ 10سے پندرہ برس میں تبدیلی آئی ہے، پنجابی زبان کو فروغ مل رہا ہے اوربڑی بڑی محافل، دفاتر و دیگر جگہ پر پنجابی بولنے کا رجحان بڑھ رہا ہے جو مثبت بات ہے۔ میرے نزدیک ہم اس وقت تک اپنے مسائل حل نہیں کرسکتے جب تک پنجابی زبان کوپنجاب میں رائج نہیں کیا جاتا۔
ریاست کے تمام صوبوں میں برابر اصول ہونے چاہئیں ۔ باقی تمام صوبوں میں پرائمری کی سطح تک اور بلوچستان میں آٹھویں جماعت تک ان کی مادری زبان رائج ہے لیکن پنجاب وہ واحد صوبہ ہے جو اپنے نصاب میں اپنی مادری زبان سے محروم ہے۔ پنجاب کے ساتھ اس امتیازی رویے پرریاست ، یکجہتی اور ہم آہنگی پر بھی سوال اٹھتا ہے۔ جب بھی ہم اپنی زبان کے حق کے لیے آواز اٹھاتے ہیں تو یہ کہا جاتا ہے کہ ہم تقسیم کرنے کی بات کرتے ہیں ، پھرپوٹوہاری اور سرائیکی زبان کی باتیں بھی کی جاتی ہیں، اس حوالے سے میری یہ رائے ہے کہ ضلعی سطح پرماہر لسانیات کی کمیٹیاں بنائی جائیں اور متعلقہ جگہ پر وہاں استعمال ہونے والے الفاظ شامل کردیے جائیں۔
ہمیں یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ اگر پاکستانیت اور ہم آہنگی کو پروان چڑھانا ہے تو ہمیں اپنی زبان چھوڑنا پڑے گی حالانکہ میرے نزدیک اگر ہم اپنی مادری زبان کو فروغ دیں تو ملکی ترقی ممکن ہے۔ جب ہم اپنی زبان کی بات کرتے ہیں تو ہم اپنی زمین سے پیار کی بات کرتے ہیں ، جرات کا اظہار کرتے ہیں، اپنے موسموں کی بات کرتے ہیں ، ساون بھادوں کی بات کرتے ہیں تو ہمارے ذہنوں میں ایک نقشہ کھینچا جاتا ہے، ہم نومبر کی برف باری کا مزہ نہیں لے سکتے کیونکہ ہم نے وہاں کا موسم نہیں دیکھا، ہم نے ان کے دریاؤں کے حوالے سے جو نظمیں پڑھتے ہیں ان کا ہمارے پر کوئی اثر نہیں ہوتا، ہم صرف ان کا رٹا لگاتے ہیں لیکن اگرساون کے گیت، نظمیں نصاب میں شامل کی جائیں گی تو ان کا تعلق ہماری روح سے ہوگا، ہم اچھے پاکستانی بنیں گے اور یہ اللہ کا کرم ہے کہ اس نے ہمیں ثقافت اور زبانوں کے مختلف اور خوبصورت رنگ عطا کیے ہیں۔
میری یہ رائے ہے کہ قومی یکجہتی پیدا کرنے کیلئے چاروں صوبوں میں ساری پاکستانی زبانیں پڑھائی جائیں ،اس طرح ہم محب وطن قوم بنیں گے اورترقی بھی کریں گے۔ اگر ہم اپنی زمین سے جڑیں گے تو ہمیں زمین کے درد کا بھی احساس ہوگا اگر ہم زمین سے رشتہ ختم کریں گے تو ہمارے دریابھی خشک ہوجائیں تو ہمیں کوئی احساس نہیں ہوگا۔ اپنی زبان کے حق کے مطالبے میں ہمیں بہت وقت لگا ہے لیکن اب صوبہ پنجاب کے لوگ متحرک ہوچکے ہیں انشاء اللہ بہت جلد اس کے نتائج سامنے آئیں گے۔ پنجاب کے لوگ ذاتی طور پر پُر امن اورقربانیاں دینے والے لوگ ہیں ، جب ہمیں یہ کہہ دیا گیا کہ اپنی مادری زبان اپنانے والے باقی صوبوں کے لوگ علیحدگی پسند ہیں تو ہم نے اپنی زبان کا مطالبہ نہیںکیالہٰذا ہمیںا پنی زبان کے فروغ کیلئے لوگوں کو شعور دینا ہوگا۔
اگر ہم صرف لوگوں کوپنجابی پڑھنے اور بولنے کی تاکید کریں گے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا،ہمیں انہیں اس کی تاریخ، ثقافت اور اہمیت بھی بتانی ہوگی۔ ہمارے بزرگوں کے پاس بہت علم تھا، انہوں نے بڑے بڑے فلسفے دیے جن کا ترجمہ مغرب والے بھی کررہے ہیں، لیکن جب پنجابی بولنے والے کو جاہل کا درجہ د یاگیا تو اس کا مطلب پھر یہ ہوا کہ ہمارے بزرگوں کے پاس کوئی علم ہی نہیں تھا۔ وزیراعلیٰ پنجاب سے ہماری اپیل ہے کہ ماں بولی کوپہلی جماعت سے نافذ کیا جائے اور اقوام متحدہ نے زبان کا جو حق دیا ہے وہ لوگوں کو دیا جائے۔ ہم پنجابی زبان کے فروغ کیلئے دنیا کی ساری زبانوں کا ترجمہ کروارہے ہیں اس کے علاوہ مختلف علوم کی کتب کا ترجمہ کرواکر پنجابی زبان کے دامن کو وسیع کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
امجد سلیم منہاس (کوآرڈینیٹر ماں بولی کوآرڈینیشن کمیٹی)
18ویں ترمیم کے بعدتعلیم کے حوالے سے تمام اختیارات صوبوں کومنتقل ہوچکے ہیں اوراب وہ اپنے نصاب میں مادری زبان رائج کرسکتے ہیںا ور اس حوالے سے پالیسی بھی بنا سکتے ہیں ۔73ء کے آئین میں بھی یہ اختیار دیا گیا تھا مگر یہ آہستہ آہستہ عمل میں آرہا ہے۔ صوبہ سندھ میں تو انگریز دور میں ہی سندھی زبان کوسکولوں میں پرائمری سطح پر رائج کردیا گیا تھا اور اسی طرح پورے برصغیر میں ہر جگہ مادری زبان ہی پرائمری سطح پر رائج کی گئی جبکہ سکینڈری اور ہائی سطح پر انگریزی زبان میں تعلیم دی گئی۔
برصغیر کے تاریخی پس منظر میں دیکھیں تو شہنشاہ جلال الدین اکبر نے بھی یہی پالیسی اپنائی تھی کہ ابتدائی تعلیم مادری زبان میں، ہائر ایجوکیشن فارسی میں جبکہ عربی اور سنسکریت سے ریاست کا کوئی تعلق نہیں لیکن اگر علماء اور پنڈت اپنے طور پر کسی کو پڑھانا چاہیں تو ریاست کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ یہ بہت حیران کن بات ہے کہ 1849ء میں جب انگریز پنجاب میں آیا تو انہوں نے اس بحث کے باوجود کہ مادری زبان کو فروغ دینا چاہیے، یہاں اردو لاگو کردی۔ انگریزوں نے سازش کے تحت پنجاب کو اس حق سے محروم رکھا اور اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ انہیں یہاں 9سال تک رنجیت سنگھ کی شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ۔انگریزوں نے جب سندھ میں قبضہ کیاتو وہاںانہوں نے سندھی زبان کو ہی رائج رکھا۔
تقسیم ہند کے بعد کلچرل لینگول ڈائیورسٹی کو پہلے دن سے ہی ختم کرنے کی کوشش کی اور کسی نے اس کے فروغ کے لیے کام نہیں کیا۔21فروری 1951ء کو بنگالی زبان کے حوالے سے مشہور تنازعہ ہوا، انہیں یہ بتایا گیا کہ ایکتا کے نام پر ان کیلئے بھی اردو زبان رائج کی جارہی ہے، جس کے نتیجے میں قیمتی جانیں بھی ضائع ہوئیں اور اسی نسبت سے آج بھی ڈھاکہ میں شہید مینار قائم ہے۔ پہلے دن سے ہی ثقافتی لسانی رنگوں کی نفی ان جمہوری اقدار کی نفی تھی جس کے تحت لوگوں نے مضبوط ہونا تھا اور ایک سازش کے تحت مادری زبان کو دبانے کی کوشش کی گئی جس کا مقصد فوج اور اسٹیبلشمنٹ کے کردار کو بڑھانا تھا۔یہی وجہ تھی کہ آزادی کے 11سال بعد ہی مارشل لاء لگ گیا اور اس سے پہلے ہم آئین بنانے میں بھی ناکام رہے۔
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اس ملک کو انہی فیڈرل یونٹس نے بنایا جو اپنے ثقافتی اور لسانی حقوق کی بات کررہے تھے ، سندھ کو فائدہ یہ ہوا کہ وہاں شروع سے ہی سندھی زبان میں تعلیم دی جارہی تھی لیکن ہمیں تقسیم کا جوزخم آیا،اس کے نتیجے میں ہم اس سازش کا حصہ بن گئے کہ ایکتا کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی زبان چھوڑ دیں ۔ ہماری ثقافت کا تعلق ہماری مادری زبان سے ہے لیکن ہم نے اپنی مادری زبان کو اثاثہ سمجھنے کی بجائے دوسروں کے معاشی ، معاشرتی اور سیاسی سسٹم کو اپنانے کی کوشش کی۔ چاروں صوبوں کو ایک کرکے جب مشرقی پاکستان کے برابر لایا گیا تو اس میں وسائل کی تقسیم کی بات نہیں کی گئی بلکہ یہ بتایا گیا کہ ہمارا رقبہ زیادہ ہے۔
اگر یہ قانون درست تھا تو قدرتی وسائل سب سے زیادہ بلوچستان کو ملنے چاہیے تھے ،اگر وہاں یہ کیا جاتا توآج ملک بہت ترقی کرتا ۔ 70ء کے بعد یہ کہا گیا کہ آبادی کی بنیاد پر وسائل کی تقسیم کی جائے گی جس کے بعد بنگالیوں کی یہ بات سچ ثابت ہوگئی کہ ان کا استحصال کیا گیا۔ آج جنرل ضیاء الحق پر بہت تنقید کی جاتی ہے لیکن اس وقت لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد نظریہ کے نام پرجنرل ضیاء الحق کو سپورٹ کرہی تھی۔ یہ ایک ایسا عمل تھا جس کا ہمیں سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے۔ہر زبان ''ماں بولی'' ہے، اس کی قدر اور احترام انتہائی ضروری ہے کیونکہ اس میں ایک ایسا انسانی ورثہ ہے جو کھو جائے تونسلیں اپنی ثقافت سے محروم ہوجاتی ہیں۔
عالمی ماہرین کے مطابق کم از کم پرائمری کی سطح پر اگر بچے کو مادری زبان میں تعلیم دی جائے گی تو اس کی بنیادیں مضبوط ہوں گی اور وہ بہتر طریقے سے سمجھ سکے گا۔ بھارت نے اس چیز کو اپنایا اور وہاںزبان کے نام پر ایکتا کا کوئی سوال نہیں اٹھایا جاتا۔ اس کے علاوہ دنیا کے کسی بھی ملک میں ایسا نہیں ہے، سوئزرلینڈ میں تین قومی زبانیں ہیں، روس میں چار زبانیں ہیں لہٰذایہ جو غلط تصور ہے اسے ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ میرے نزدیک اس کی ذمہ دار پنجاب حکومت ہے جو کسی نہ کسی طرح گزشتہ 35برس سے برسراقتدار ہے ،لیکن انہوں نے لوگوں کو ان کا بنیادی حق نہیں دیا۔
کالا باغ ڈیم، جاگ پنجابی جاگ اور پھر ایکتا کے نام پر ان سے پیچھے ہٹ جانا یہ غلط ہے، یہ کس قسم کی ایکتا ہے، کس وجہ سے اس بات کو اتنا بڑھاوا دیا جارہا ہے۔ بابابلھے شاہ سے لے کرخواجہ فرید تک ہمارے کسی بزرگ نے کسی رنگ کی مخالفت نہیں کی، انہوں نے مساوات اور برابری کی بات کی اور یہی ہماری روایات ہیںلہٰذااگر ہمیں مسائل سے چھٹکارہ پانا ہے اور دہشت گردی کو ختم کرنا ہے تو ہمیں اپنے اصل کی طرف لوٹنا ہوگا۔ ہم پنجابی زبان کے لیے گزشتہ تین سالوں سے منظم کوششیں کررہے ہیں ، اس کے علاوہ اب پنجابی لغت تیار کی جارہی ہے جس کا ایک والیوم پرنٹنگ کے لیے بھجوا دیا گیا ہے۔
محمد سرور (ممبر ماں بولی کوآرڈینیشن کمیٹی )
کوئی بھی زبان وہاں کے محنت کشوں کی زبان ہوتی ہے، ہماری ماں بولی پنجابی ہے لیکن پنجاب کے لوگوںسے یہ زبان چھین لی گئی ہے جو محنت کشوں کے ساتھ دھوکہ ہے۔ پنجابی زبان بولنے والے لوگوں کو یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ وہ جاہل ہیں یا نچلے درجے سے تعلق رکھتے ہیں ،ان میں احساس محرومی پیدا کیا جارہا ہے اور اس طرح محنت کشوں کو گونگا بنا دیا گیا ہے۔ صوبہ پنجاب سب سے بڑا صوبہ ہے ، یہاں سب سے زیادہ آبادی ہے لیکن یہاں یہ ظلم ہورہا ہے کہ اپنی زبان بولنے سے ہی منع کیا جارہاہے۔
مادری زبان کے اس عالمی دن کے موقع پر ہمارا حکومت سے یہ مطالبہ ہے کہ ہمیں مادری زبان کابنیادی حق دیا جائے،بی اے تک اسے نصاب کا حصہ بنایا جائے اور اسے روزگار کے ساتھ ملایا جائے تاکہ اس زبان کی اہمیت کو بڑھایا جاسکے ۔ میرے نزدیک جس شخص نے اپنی مادری زبان میں تعلیم حاصل نہیں کی وہ ان پڑھ ہے،اگر ہمیں تعلیم یافتہ بننا ہے تو اپنی زبان میں تعلیم حاصل کرنا ہوگی۔ میری یہ رائے ہے کہ پنجابی زبان تعلیمی اداروں میں لازم قرار دی جائے اور دنیا کے جدید علوم کا پنجابی زبان میں ترجمہ بھی کیا جائے۔