فطرت کا نغمہ
موسم انسان کے مزاج پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ایک پورے دن کے دوران بدلتے ہوئے لمحے بھی اپنا الگ کیمیائی اثر رکھتے ہیں۔
موسم انسان کے مزاج پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ایک پورے دن کے دوران بدلتے ہوئے لمحے بھی اپنا الگ کیمیائی اثر رکھتے ہیں۔انسانی مزاج بھی صبح، دوپہر، سہ پہر، شام اور رات کے بدلتے لمحوں میں ایک جیسا نہیں رہتا۔وہ لوگ جو وقت اور ماحول کے ساتھ مکمل ہم آہنگی رکھتے ہیں۔ ان کا وقت اچھا، سہل اور بامعنی گزرتا ہے۔
دراصل ہم آہنگی ایک ایسا لفظ ہے،جو معنویت کے اعتبار سے گہرا اور مربوط ہے۔کائنات کا سچ اور زندگی کی معنویت اس لفظ کی مرہون منت ہے۔ اگر انسان کی سوچ اور عمل میں ہم آہنگی نہیں ہے تو ذات کا یہ انتشار فرد کی اپنی ذات کے ساتھ اردگرد کے ماحول کو بھی منتشر کردیتا ہے۔ فطرت کی زندگی میں ہم آہنگی سے ترتیب اور توازن پیدا ہوتا ہے۔
فطرت کے رابطے فعال اور متحرک ہوتے ہیں۔ جو مختلف موسموں کے مزاج اور رنگوں سے جھلکتے ہیں۔ ان ہی موسموں میں ایک رنگ بہار کا بھی ہے۔ سردی اور خزاں کے دنوں کے بعد زمین جب کروٹ لیتی ہے تو ہر طرف سبزہ بکھرجاتا ہے۔ شاخوں پر سبز پتے لہلہانے لگتے ہیں ۔
ہر طرف تازگی بکھر جاتی ہے۔ جب دو موسم آپس میں ملتے ہیں، تو یہ تبدیلی تھکن، بے زاری اور اداسی کا پیش خیمہ بنتی ہے۔ سردی کے رنگ ایک ساتھ مل بیٹھنے کے ہوتے ہیں۔ یہ دن ذہن کو یکسوئی عطا کرتے ہیں، جب کئی یادیں ذہن پر دستک دیتی ہیں۔ خاموشی اور تنہائی کے لمحوں میں خود سے مخاطب ہونے کا موقعہ ملتا ہے۔ خود شناسی اور خود احتسابی کے یہ لمحے بامعنی ہوتے ہیں۔ خزاں کے دنوں کا بھی اپنا الگ مزاج ہے۔ یہ موسم زندگی کی بے ثباتی کی علامت ہے۔ سست اور بوجھل لمحے خاموشی میں بھی انوکھا انداز بیاں رکھتے ہیں۔
خزاں خودکلامی کا موسم ہے۔ جب زمین اپنے اندرکی تبدیلیوں سے ہم کلام ہوتی ہے۔ اپنی وسعتوں میں بہت کچھ سمیٹتی ہے۔ اسے اپنے اندر جذب کرتی ہے۔ ان لمحوں میں زمین بے باکی، فراخدلی اور فیاضی کے جوہر سے سراپا ہنر بن جاتی ہے۔ یہ کیمیائی عمل اور مزاج فضاؤں کو مثبت لہروں سے روشناس کرادیتا ہے۔
پرندے پر کھولے سرشاری سے آسمان کی وسعتوں کو چھونے لگتے ہیں۔
بہار فطرت کی الہامی کیفیت ہے۔ خود کلامی، جذب، ہم آہنگی اور وجد کی آمیزش ہے۔
بہار فطرت کا عشق ہے۔ ان ہی دنوں میں بے اختیارکوئل کوکنے لگتی ہے۔ یہ خوش آیند آواز، آنکھوں میں سپنے پرونے لگتی ہے۔ یہ آواز امید کا استعارہ ہے، جو حبس زدہ، تھکے اور یکسانیت سے بوجھل لمحوں کو طراوت عطا کرتی ہے۔ بلبل کا چہکنا اور پرندوں کا چہچہانا بہار کے موسم کی انفرادیت ہے۔ اس موسم میں فطرت کی آوازیں متحرک ہوجاتی ہیں۔
یہ سال کا بہترین وقت ہوتا ہے، جب تھکی ماندی انسانی حسیں دوبارہ تازہ دم ہوجاتی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم کس حد تک بدلتے موسموں سے ہم آہنگی رکھتے ہیں۔ ان موسموں سے کتنی قوت اور تحرک حاصل کرتے ہیں۔ہماری حسیں ہمارا رابطہ زندگی اور فطرت سے قائم رکھتی ہیں۔ جن کے توسط سے ہمارا تعلق داخلی و خارجی دنیا سے جڑا ہوا ہوتا ہے۔
یہ تمام تر محسوسات اس وقت فعال ہوجاتی ہیں جب ہم حسیاتی طور پر چست و فعال ہوتے ہیں۔ ذاتی مشاہدے کا ہنر رکھتے ہیں۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارا رابطہ موسم و ماحول سے منقطع ہوچکا ہے۔ مشینی زندگی کی آسائشوں نے دور جدید کے انسان کو سرمئی صبحوں کے حسن یا تاروں بھری رات کے مسحورکن اثر سے دورکردیا ہے۔ مہکتی تازہ ہوا کے بجائے ہم ایئرکنڈیشنڈ کی آلودہ ہوا کوسانسوں میں انڈیلتے رہتے ہیں اور چہروں پر ٹھنڈک کی طمانیت کا احساس بکھرا ہوتا ہے۔ وقتی سہولت اور خوشی فطری زندگی کے خالص رنگوں پر حاوی ہوچکی ہے۔
ہم کھلی فضا اور خوبصورت موسموں سے براہ راست رابطے میں نہیں رہے۔ یہ کمی اور خلا مزاج اور رویوں سے جھلکنے لگی ہے۔ رویے خشک، لاتعلق اور بیگانگی کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ موسموں سے رابطہ اور فطری ماحول کی قربت حواس خمسہ کو قوت بخشتے ہیں۔ یہ چھٹی حس کی بھی آبیاری کرتے ہیں۔ ایشیا کی قدیم تہذیبیں فطرت کی قربت سے مستفیض ہوتی رہی ہیں۔ سیر وسیاحت، مشاہدہ اورکھوج کا سفر ذہن کو یکسوئی عطا کرتا ہے۔
بہار کا موسم ہر سال پھولوں و پھلوں کی خوشبو سے مہکتا ہوا توانائی بانٹنے آتا ہے۔ ذائقے کے سواد کو محسوس کرنا اور فطری مہک سے محظوظ ہونا یہ دو حسیں آپس میں جڑی ہوئی ہیں۔
یہ Reptilian Brain سے تعلق رکھتی ہیں۔ ذہن کے اس حصے کی زبان تصوراتی تمثیلیں ہیں۔ دماغ کا یہ حصہ لاشعور سے جڑا ہوا ہے۔خارجی ماحول سے تحرک لے کر اظہار کو جلا بخشتا ہے۔ عبادت، ادراک، وجدان اور سوجھ بوجھ بھی دماغ کے اس حصے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ذائقہ اور خوشبو کو محسوس کرنے کی صلاحیت روحانیت اور وجدانی کیفیتوں میں اضافہ کرتی ہے۔
فطری خوشبو کو محسوس کرنے کے کئی فوائد ہیں۔ تخلیقی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ ذہن میں محفوظ یادیں دوبارہ ذہن کی سطح پر نمودار ہونے لگتی ہیں۔ جس سے ذاتی تجزیے کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے اور مشاہدے کی قوت فروغ پاتی ہے۔
فطری ماحول سے دوری کی وجہ سے روحانی خلا دن بہ دن بڑھ رہا ہے۔ انسانی و اخلاقی قدریں مشاہدے، ذاتی تجزیے اور ادراک کی گہرائی سے نمو پاتی ہیں۔
سردی کے اثرات آغاز بہار میں ابھی تک محسوس ہو رہے ہیں۔ بارش کے بعد موسم کی خوبصورتی اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے۔گیلی زمین کی جڑوں سے آراستہ بہار کی انوکھی مہک احساس میں عجیب رنگ گھولتی ہے۔ ٹھنڈی ہواؤں میں تتلی کے پروں کی سی سبک رفتاری ہے۔ درختوں کی خالی بانہیں رنگین پھولوں کے گجروں سے مہکنے لگی ہیں۔ ہر سمت فطرت کے نغمے کے انوکھے سُر بکھرے ہوئے ہیں۔
دراصل ہم آہنگی ایک ایسا لفظ ہے،جو معنویت کے اعتبار سے گہرا اور مربوط ہے۔کائنات کا سچ اور زندگی کی معنویت اس لفظ کی مرہون منت ہے۔ اگر انسان کی سوچ اور عمل میں ہم آہنگی نہیں ہے تو ذات کا یہ انتشار فرد کی اپنی ذات کے ساتھ اردگرد کے ماحول کو بھی منتشر کردیتا ہے۔ فطرت کی زندگی میں ہم آہنگی سے ترتیب اور توازن پیدا ہوتا ہے۔
فطرت کے رابطے فعال اور متحرک ہوتے ہیں۔ جو مختلف موسموں کے مزاج اور رنگوں سے جھلکتے ہیں۔ ان ہی موسموں میں ایک رنگ بہار کا بھی ہے۔ سردی اور خزاں کے دنوں کے بعد زمین جب کروٹ لیتی ہے تو ہر طرف سبزہ بکھرجاتا ہے۔ شاخوں پر سبز پتے لہلہانے لگتے ہیں ۔
ہر طرف تازگی بکھر جاتی ہے۔ جب دو موسم آپس میں ملتے ہیں، تو یہ تبدیلی تھکن، بے زاری اور اداسی کا پیش خیمہ بنتی ہے۔ سردی کے رنگ ایک ساتھ مل بیٹھنے کے ہوتے ہیں۔ یہ دن ذہن کو یکسوئی عطا کرتے ہیں، جب کئی یادیں ذہن پر دستک دیتی ہیں۔ خاموشی اور تنہائی کے لمحوں میں خود سے مخاطب ہونے کا موقعہ ملتا ہے۔ خود شناسی اور خود احتسابی کے یہ لمحے بامعنی ہوتے ہیں۔ خزاں کے دنوں کا بھی اپنا الگ مزاج ہے۔ یہ موسم زندگی کی بے ثباتی کی علامت ہے۔ سست اور بوجھل لمحے خاموشی میں بھی انوکھا انداز بیاں رکھتے ہیں۔
خزاں خودکلامی کا موسم ہے۔ جب زمین اپنے اندرکی تبدیلیوں سے ہم کلام ہوتی ہے۔ اپنی وسعتوں میں بہت کچھ سمیٹتی ہے۔ اسے اپنے اندر جذب کرتی ہے۔ ان لمحوں میں زمین بے باکی، فراخدلی اور فیاضی کے جوہر سے سراپا ہنر بن جاتی ہے۔ یہ کیمیائی عمل اور مزاج فضاؤں کو مثبت لہروں سے روشناس کرادیتا ہے۔
پرندے پر کھولے سرشاری سے آسمان کی وسعتوں کو چھونے لگتے ہیں۔
بہار فطرت کی الہامی کیفیت ہے۔ خود کلامی، جذب، ہم آہنگی اور وجد کی آمیزش ہے۔
بہار فطرت کا عشق ہے۔ ان ہی دنوں میں بے اختیارکوئل کوکنے لگتی ہے۔ یہ خوش آیند آواز، آنکھوں میں سپنے پرونے لگتی ہے۔ یہ آواز امید کا استعارہ ہے، جو حبس زدہ، تھکے اور یکسانیت سے بوجھل لمحوں کو طراوت عطا کرتی ہے۔ بلبل کا چہکنا اور پرندوں کا چہچہانا بہار کے موسم کی انفرادیت ہے۔ اس موسم میں فطرت کی آوازیں متحرک ہوجاتی ہیں۔
یہ سال کا بہترین وقت ہوتا ہے، جب تھکی ماندی انسانی حسیں دوبارہ تازہ دم ہوجاتی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم کس حد تک بدلتے موسموں سے ہم آہنگی رکھتے ہیں۔ ان موسموں سے کتنی قوت اور تحرک حاصل کرتے ہیں۔ہماری حسیں ہمارا رابطہ زندگی اور فطرت سے قائم رکھتی ہیں۔ جن کے توسط سے ہمارا تعلق داخلی و خارجی دنیا سے جڑا ہوا ہوتا ہے۔
یہ تمام تر محسوسات اس وقت فعال ہوجاتی ہیں جب ہم حسیاتی طور پر چست و فعال ہوتے ہیں۔ ذاتی مشاہدے کا ہنر رکھتے ہیں۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارا رابطہ موسم و ماحول سے منقطع ہوچکا ہے۔ مشینی زندگی کی آسائشوں نے دور جدید کے انسان کو سرمئی صبحوں کے حسن یا تاروں بھری رات کے مسحورکن اثر سے دورکردیا ہے۔ مہکتی تازہ ہوا کے بجائے ہم ایئرکنڈیشنڈ کی آلودہ ہوا کوسانسوں میں انڈیلتے رہتے ہیں اور چہروں پر ٹھنڈک کی طمانیت کا احساس بکھرا ہوتا ہے۔ وقتی سہولت اور خوشی فطری زندگی کے خالص رنگوں پر حاوی ہوچکی ہے۔
ہم کھلی فضا اور خوبصورت موسموں سے براہ راست رابطے میں نہیں رہے۔ یہ کمی اور خلا مزاج اور رویوں سے جھلکنے لگی ہے۔ رویے خشک، لاتعلق اور بیگانگی کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ موسموں سے رابطہ اور فطری ماحول کی قربت حواس خمسہ کو قوت بخشتے ہیں۔ یہ چھٹی حس کی بھی آبیاری کرتے ہیں۔ ایشیا کی قدیم تہذیبیں فطرت کی قربت سے مستفیض ہوتی رہی ہیں۔ سیر وسیاحت، مشاہدہ اورکھوج کا سفر ذہن کو یکسوئی عطا کرتا ہے۔
بہار کا موسم ہر سال پھولوں و پھلوں کی خوشبو سے مہکتا ہوا توانائی بانٹنے آتا ہے۔ ذائقے کے سواد کو محسوس کرنا اور فطری مہک سے محظوظ ہونا یہ دو حسیں آپس میں جڑی ہوئی ہیں۔
یہ Reptilian Brain سے تعلق رکھتی ہیں۔ ذہن کے اس حصے کی زبان تصوراتی تمثیلیں ہیں۔ دماغ کا یہ حصہ لاشعور سے جڑا ہوا ہے۔خارجی ماحول سے تحرک لے کر اظہار کو جلا بخشتا ہے۔ عبادت، ادراک، وجدان اور سوجھ بوجھ بھی دماغ کے اس حصے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ذائقہ اور خوشبو کو محسوس کرنے کی صلاحیت روحانیت اور وجدانی کیفیتوں میں اضافہ کرتی ہے۔
فطری خوشبو کو محسوس کرنے کے کئی فوائد ہیں۔ تخلیقی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ ذہن میں محفوظ یادیں دوبارہ ذہن کی سطح پر نمودار ہونے لگتی ہیں۔ جس سے ذاتی تجزیے کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے اور مشاہدے کی قوت فروغ پاتی ہے۔
فطری ماحول سے دوری کی وجہ سے روحانی خلا دن بہ دن بڑھ رہا ہے۔ انسانی و اخلاقی قدریں مشاہدے، ذاتی تجزیے اور ادراک کی گہرائی سے نمو پاتی ہیں۔
سردی کے اثرات آغاز بہار میں ابھی تک محسوس ہو رہے ہیں۔ بارش کے بعد موسم کی خوبصورتی اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے۔گیلی زمین کی جڑوں سے آراستہ بہار کی انوکھی مہک احساس میں عجیب رنگ گھولتی ہے۔ ٹھنڈی ہواؤں میں تتلی کے پروں کی سی سبک رفتاری ہے۔ درختوں کی خالی بانہیں رنگین پھولوں کے گجروں سے مہکنے لگی ہیں۔ ہر سمت فطرت کے نغمے کے انوکھے سُر بکھرے ہوئے ہیں۔