ایک غیر اخلاقی تعلق کا شاخ سانہ

شوہر کو قتل کروا کے بھی گوہرِ مقصود ہاتھ نہ آیا

صدر پولیس نے دوران تفتیش قتل کے لیے استعمال ہونے والا کلہاڑا اور مقتول کے دو موٹر سائیکل بھی برآمد کر لیے۔ فوٹو:فائل

اندر کی کہانی تو خدا ہی بہتر جانتا ہے بہ ظاہر یہ واقعہ ایک غیر اخلاقی تعلق کا شاخ سانہ بتایا جاتاہے۔

جس میں ایک عورت نے شوہر کو قتل کرنے کے لیے اپنے ''آشنا'' کی مدد حاصل کی اور اپنی نابالغ بیٹی کو بھی ملوث کیا، وقوعے کی رپہرٹ درج کرائی مقتول کی ضیعف والدہ نے اور پولیس نے شبہے میں مقتول کی بیوی اور بیٹی کو حراست میں لے لیا۔ تفصیل اس اجمال کی یوں بتائی جاتی ہے کہ تھانہ صدر کے علاقے میں رہنے والے ایک ریٹائرڈ ملازم مشتاق کی بیوی نگہت بی بی اور دھنیالہ کے رہائشی فضل کریم کے مابین غیراخلاقی تعلقات پیدا پوگئے۔

رفتہ رفتہ پذیرائی بڑھی تو فضل کریم نے مشتاق کے گھر میں بھی آنا جانا شروع کر دیا۔ مشتاق احمد اُس کے یوں آنے جانے اور اپنی بیوی کے ساتھ اس کی بے تکلفی کو پسند نہ آیا تو ایک روز اس نے فضل کریم کو سختی کے ساتھ منع کر دیا جس کا اس کی بیوی کو شدید قلق ہوا۔ گھریلو معاملات روز بہ روز بگڑتے رہے اور آخرش نوبت یہاں تک پہنچی کہ ایک ان لوگوں نے مشتاق کو راستے سے ہٹانے کا منصوبہ بنا لیا۔ اس دوران رمضان المبارک آ لگا اسی دوران انہوں نے منصوبے پر عمل درآمد کا فیصلہ کر لیا۔

ایک رات نگہت بی بی نے منصوبے کے مطابق اپنے شوہر مشتاق کو خواب آور گولیاں کھلا دیں، جب مشتا ق اور بچے سو گئے تو اس کی بیوی نگہت نے فضل کریم کو بلا بھیجا اور سوئے ہوے مشتاق احمد کو کلہاڑے مار مار کر کے بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ اس کے بعد مقتول کی شناخت ختم کرنے کے لیے اس کے چہرے پر پٹرول ڈالا گیا اور آگ لگا دی گئی۔ اس کام سے فراغت پانے کے بعد انہوں نے عابد نامی ایک رکشا ڈرائیور کی خدمات حاصل کیں اور مقتول کی نعش لکڑی کے ایک ڈبے میں بند کر کے ویرانے میں پھینک دی گئی جو بعد ازاں لاوارث ہونے پر امانتاً دفن کر دی گئی۔

مقتول مشتاق، دھریالہ میں رہائش پذیر اپنی والدہ عنایت بیگم سے اکثر رابطے میں رہتا تھا۔ جب بیٹے کی راہ دیکھتے دیکھتے جب زیادہ دن بیت گئے تو ماں پریشان ہو گئی، بیٹے کا اتا پتا معلوم کرنے کی کوشش کی لیکن کہیں سے کچھ خبر نہ پائی آخر تھانہ صدر میں رپورٹ درج کروا دی اور ساتھ اس شک کا بھی اظہار کر دیا کہ مشتاق کے لاپتا ہونے میں اس کی بیوی نگہت کا ہاتھ بھی ہو سکتا ہے۔ اس پر ڈی پی او جہلم دارِ علی خٹک نے ایس ایچ او تھانہ صدر شاہد تنویر کی نگرانی میں سب انسپکٹر لال خان ، اسسٹنٹ سب انسپکٹر ثناء، کانسٹیبل طلعت اور دیگر پر مشتمل ایک خصوصی ٹیم بنائی۔

انہوں نے تفتیش شروع کی تو معلوم ہوا کہ نگہت اپنی بیٹی مہران سمیت فضل کریم کے ساتھ ایبٹ آ باد منتقل ہو چکی ہے جہاں اڑوس پڑوس میں انہوں نے خود کو میاں بیوی ظاہر کر رکھا تھا۔ پولیس نے نگہت کو ٹیلی فون کے ذریعے جہلم طلب کیا۔ اس پر جب وہ بیٹی مہران کے ہم راہ وہاں پہنچی تو دونوں کو حراست میں لے لیا گیا اور تفتیش شروع کر دی گئی۔ عورت نے بلآخر اعتراف جرم کر لیا اور بہ قول پولیس تمام حقائق بے نقاب کر دیے۔


پہلے تو ملزمہ نے پولیس کے ساتھ غلط بیانی کی اور بتایا کہ اس کا مقتول شوہر اپنی بیٹی مہران پر بُری نظر رکھتا تھا جس پر ان تینوں نے مل کر اسے قتل کر دیا اور نعش کو آ گ لگا دی تاہم پولیس نے جب تفتیش کا روائتی طریقہ اختیار کیا تو ملزمہ نے شوہر کو قتل کرنے کا سارا منصوبہ افشاء کر دیا۔ اس کے بعد پولیس نے نعش کو ٹھکانے لگانے میں مدد دینے والے رکشا ڈرائیور عابد کو بھی گرفتار کر لیا اور قتل کے مرکزی ملزم فضل کریم کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارنا شروع کردیے۔ اس دوران فضل کریم حلیہ بدل بدل کر ٹھکانے تبدیل کرتا رہا۔

پولیس نے نگہت بی بی کا موبائل فون کے ذریعے فضل کریم سے رابطہ کرایا تاہم چالاک ملزم کو شک پڑ گیا کہ اس کی محبوبہ گرفتار ہو چکی ہے جس پر وہ ہوا ہو گیا۔ ایس ایچ او شاہد تنویر، سب انسپکٹر لال خان، اے ایس آئی ثناء،کانسٹیبل طلعت اور دیگر اہل کار نگہت کو لے کر فضل کریم کی گرفتاری کے لیے ٹیکسلا پہنچ گئے۔ وہاں ایک بار پھر نگہت سے فون کروایا تاہم وہ ٹیکسلا کے مختلف مقامات پر نگہت کو بلا بلا کر پولیس کو جُل دینے کی کوشش کرتا رہا بلآخر اسے ایبٹ آ باد چوک پر ملنے کو کہا۔

پولیس اس موقع پر سادہ کپڑوں میں ملزمہ کے ساتھ ہولی اور جوں ہی مرکزی قاتل نمودار ہوا تو گھات لگائے پولیس نے گھیر لیا۔ تھانہ صدر پولیس نے دوران تفتیش قتل کے لیے استعمال ہونے والا کلہاڑا اور مقتول کے دو موٹر سائیکل بھی برآمد کر لیے۔ مقتول کی نعش کی قبر کشائی کے لیے علاقہ مجسٹریٹ کو درخواست دی جا چکی ہے۔

ڈی پی او جہلم دار علی خٹک نے بتایا کہ اس قتل کا سراغ لگانا ہمارے لیے چیلنج تھا جسے میری ٹیم نے قبول کیا اور دن رات ایک کر کے ملزموں کو گرفتار کیا اور آلۂ قتل بھی برآمد کر لیا ہے۔ ایس ایچ او تھانہ صدر شاہد تنویر نے بتایا ''ڈی پی او کی ہدایت پر سب انسپکٹر لال خان، اے ایس آئی ثناء، کانسٹیبل طلعت اور دیگر نفری نے ان تھک کر کے اس قتل کا سراغ لگایا ہے، ٹیم نے فضل کریم کی ریکی کے لیے کھیتوں میں دو دن اور رات گزاری۔ تفتیشی افسر لال خان نے بتایا کہ ملزم نہایت چالاک اور ہوشیار تھے۔

ہم نے جب مقتول کی بیوی اور بیٹی کو حراست میں لیا تو اصل ملزم فضل کریم کو شک ہو گیا اور وہ ٹیکسلا میں ہمیں چکر دیتا رہا لیکن پولیس پھر پولیس ہے بکرے کی ماں کب تک خیر مناتی''۔ مقتول مشتاق آٹھ ماہ قبل پاک فوج سے ریٹائر ہو کر آیا تھا۔ معلوم ہوا ہے کہ مقتول کی بیوی نے اپنے خاوند کو موت کے گھاٹ اتارنے پر فضل کریم اور نعش ٹھکانے لگانے میں مدد دینے والے رکشا ڈرائیور کو ایک ایک ہنڈا 125موٹر سائیکل انعام میں دی ہے۔

مرکزی ملزم فضل کریم نے پولیس کو بتایا کہ اس کے نگہت بی بی کے ساتھ ناجائز تعلقات تھے، جب مشتاق حاضر سروس تھا تو ہمیں کوئی روک ٹوک نہ تھی لیکن جب وہ ریٹائر ہو کر آ گیا تو راہ کی دیوار بن گیا جس پر ہم نے اسے کلہاڑے کے وار کر کے قتل کر دیا اور شناخت مٹانے کے لیے چہرہ مسخ کر دیا۔ رکشا ڈرائیور نے بتایا کہ اس نے نعش کو ویرانے میں لے جا کر پھینکا تھا۔
Load Next Story